قانونی سقم ادارہ ترقیات کراچی کی بحالی کا فیصلہ اب ترک نہ ہوسکا
سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 1979 کے نفاذ سے بلدیہ عظمیٰ کراچی اور پانچوں ضلعی میونسپل کارپوریشنز بحال ہوچکیں.
سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس1979کے نفاذ سے بلدیہ عظمیٰ کراچی اور پانچوں ضلعی میونسپل کارپوریشنز بحال ہوچکیں۔
تاہم قانونی سقم کے باعث ادارہ ترقیات کراچی(کے ڈی اے) کی بحالی کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہوا، یہ ادارہ نئی بستیوں کی آبادکاری، سڑکوں، فلائی اوورز، ماس ٹرانزٹ اور ٹریفک انجینئرنگ کے ماہرین پر مشتمل ہے تاہم اسے کالعدم شہری حکومت اور بعدازاں کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن میں ضم کرکے اس کی افادیت کو 11سال سے سیاست کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے، تفصیلا ت کے مطابق سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 1979 میں ادارہ ترقیات کراچی الگ تشخص رکھتا ہے تاہم قانونی سقم کے باعث اس کے بحالی ممکن نہیں۔
قانونی ماہرین کے مطابق سندھ حکومت نے جولائی 2002 میں ادارہ ترقیات کراچی کو تحلیل کرنے کا آرڈیننس جاری کیا تھا جب تک مذکورہ آرڈیننس تحلیل نہیں کیا جاتا ادارہ ترقیات کراچی ایس ایل جی او 1979کے تحت بحال نہیں ہوسکتا، ادارہ ترقیات کراچی 1957 میں قائم ہوا تاکہ کراچی میں ماسٹر پلان کے تحت نئی بستیوں کی تعمیر،سڑکوں وپلوں، فلائی اوورز اور ماس ٹرانزٹ سسٹم پر عملدرآمد کیا جاسکے، اس دوران ادارہ ترقیات کراچی نے 4ماسٹر پلان تشکیل دیے جن کے تحت دھورا جی کالونی کے ڈی اے اسکیم ون اے، کورنگی واورنگی ٹائون شپ، ڈرگ ٹائون شپ، نارتھ کراچی ٹائون شپ، بلدیہ ٹائون شپ، گلشن اقبال، گلستان جوہر، کلفٹن اور دیگر بستیاں آباد کیں۔
علاوہ ازیں کراچی گریٹر واٹر چینل اسکیم، ملیر ریور بند ، کے تھری کیلیے پائپوں کی فراہمی، ایم جناح روڈ، یونیورسٹی روڈ، جیل روڈ، شارع فیصل، دیگر اہم شاہراہیں،نیپا چورنگی فلائی اوور، جام صادق برج اور دیگر اہم منصوبوں پر عملدرآمد کیا، ماہرین کے مطابق دنیا میں نئے ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد کیلیے علیحدہ محکمے قائم ہیں جبکہ صفائی ستھرائی سڑکوں فلائی اوورز کی مرمت اور دیگر بلدیاتی امور کی انجام دہی کیلیے میونسپل کارپوریشنز قائم کی گئی ہیں۔
ہری حکومت کے قیام سے قبل ادارہ ترقیات کراچی نئے ترقیاتی منصوبوں پر عمل پیرا تھاجبکہ بلدیہ عظمیٰ بلدیاتی امور کی انجام دہی کررہی تھی تاہم سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے متعارف کردہ نئے بلدیاتی نظام کے تحت سندھ حکومت نے اسے تحلیل کرکے شہری حکومت کراچی میں ضم کردیا، حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مشرف دور میں وفاقی سطح پر جو منصوبہ پیش کیا گیا تھا اس میں ترقیاتی اداروں کا انصمام شہری وضلعی حکومتوں کے ساتھ شامل نہیں تھا، اسی لیے لاہور، فیصل اباد، ملتان، کوئٹہ، پشاور اور دیگر بڑے شہروں میں ڈیولپمنٹ اتھارٹیز بدستور علیحیدہ تشخص کے ساتھ کام کررہی ہیں۔
تاہم قانونی سقم کے باعث ادارہ ترقیات کراچی(کے ڈی اے) کی بحالی کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہوا، یہ ادارہ نئی بستیوں کی آبادکاری، سڑکوں، فلائی اوورز، ماس ٹرانزٹ اور ٹریفک انجینئرنگ کے ماہرین پر مشتمل ہے تاہم اسے کالعدم شہری حکومت اور بعدازاں کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن میں ضم کرکے اس کی افادیت کو 11سال سے سیاست کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے، تفصیلا ت کے مطابق سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 1979 میں ادارہ ترقیات کراچی الگ تشخص رکھتا ہے تاہم قانونی سقم کے باعث اس کے بحالی ممکن نہیں۔
قانونی ماہرین کے مطابق سندھ حکومت نے جولائی 2002 میں ادارہ ترقیات کراچی کو تحلیل کرنے کا آرڈیننس جاری کیا تھا جب تک مذکورہ آرڈیننس تحلیل نہیں کیا جاتا ادارہ ترقیات کراچی ایس ایل جی او 1979کے تحت بحال نہیں ہوسکتا، ادارہ ترقیات کراچی 1957 میں قائم ہوا تاکہ کراچی میں ماسٹر پلان کے تحت نئی بستیوں کی تعمیر،سڑکوں وپلوں، فلائی اوورز اور ماس ٹرانزٹ سسٹم پر عملدرآمد کیا جاسکے، اس دوران ادارہ ترقیات کراچی نے 4ماسٹر پلان تشکیل دیے جن کے تحت دھورا جی کالونی کے ڈی اے اسکیم ون اے، کورنگی واورنگی ٹائون شپ، ڈرگ ٹائون شپ، نارتھ کراچی ٹائون شپ، بلدیہ ٹائون شپ، گلشن اقبال، گلستان جوہر، کلفٹن اور دیگر بستیاں آباد کیں۔
علاوہ ازیں کراچی گریٹر واٹر چینل اسکیم، ملیر ریور بند ، کے تھری کیلیے پائپوں کی فراہمی، ایم جناح روڈ، یونیورسٹی روڈ، جیل روڈ، شارع فیصل، دیگر اہم شاہراہیں،نیپا چورنگی فلائی اوور، جام صادق برج اور دیگر اہم منصوبوں پر عملدرآمد کیا، ماہرین کے مطابق دنیا میں نئے ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد کیلیے علیحدہ محکمے قائم ہیں جبکہ صفائی ستھرائی سڑکوں فلائی اوورز کی مرمت اور دیگر بلدیاتی امور کی انجام دہی کیلیے میونسپل کارپوریشنز قائم کی گئی ہیں۔
ہری حکومت کے قیام سے قبل ادارہ ترقیات کراچی نئے ترقیاتی منصوبوں پر عمل پیرا تھاجبکہ بلدیہ عظمیٰ بلدیاتی امور کی انجام دہی کررہی تھی تاہم سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے متعارف کردہ نئے بلدیاتی نظام کے تحت سندھ حکومت نے اسے تحلیل کرکے شہری حکومت کراچی میں ضم کردیا، حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مشرف دور میں وفاقی سطح پر جو منصوبہ پیش کیا گیا تھا اس میں ترقیاتی اداروں کا انصمام شہری وضلعی حکومتوں کے ساتھ شامل نہیں تھا، اسی لیے لاہور، فیصل اباد، ملتان، کوئٹہ، پشاور اور دیگر بڑے شہروں میں ڈیولپمنٹ اتھارٹیز بدستور علیحیدہ تشخص کے ساتھ کام کررہی ہیں۔