جل پری اور ہیملٹ کے دیس میں
خالد مسعود اور عامر جعفری دونوں کے درمیان حسب معمول سیل کیمرے سے تصویریں بنانے کا مقابلہ جاری رہا
چند ماہ قبل برادرم ڈاکٹر امجد ثاقب کے ساتھ ''اخوت'' کے حوالے سے ڈنمارک کا چکر لگا جس کے میزبان عزیزی عمیر اعجاز ڈار اور ان کے رفقاء تھے تو اس بات کا دور دور تک گمان بھی نہیں تھا کہ اسی سال یعنی 2017 میں ہی ایک بار پھر کوپن ہیگن کی فضا میں سانس لینے کا موقع ملے گا۔ اوسلو سے کوپن ہیگن کی پرواز کا دورانیہ تو صرف 50منٹ پر مشتمل تھا لیکن جہاز کی روانگی میں تاخیر کی وجہ سے یہ دو گھنٹوں پر پھیل گیا۔ ستوانگر اور اوسلو کے بعد یہ تین دنوں میں تیسرا پروگرام تھا، سو تھکاوٹ اور جگراتے کا راگ بھی پنچم سر کو چھو رہا تھا' اس پر مستزاد یہ کہ اگلا دن ورکنگ ڈے ہونے کی وجہ سے اس کا وقت بھی شام کے بجائے سہ پہر میں رکھا گیا تھا سو طے پایا کہ عدیل آسی کے گھر پر لنچ کرنے کے بعد سیدھا مشاعرہ گاہ کا رخ کیا جائے کہ قیام گاہ پر سامان رکھنے کا مجوزہ وقت پہلے ہی ہاتھوں سے نکل چکا تھا۔
عدیل آسی بیک وقت محبتی اور جذباتی بھی ہے اور متحرک اور کاما بھی' معلوم ہوا کہ گزشتہ دنوں کئی پروگراموں کی بھاگ دوڑ کے دوران وہ کمر میں ایسی چوٹ لگوا چکا ہے کہ اب بیساکھی کے بغیر اس کے لیے کھڑا ہونا بھی مشکل ہو رہا ہے مگر اس عالم میں بھی ہماری روانگی کے لمحے تک وہ ہر کام میں پیش پیش رہا۔ موصوف کو شاعری کا شوق جنون کی حد تک ہے اور اس حوالے سے اس نے باقاعدہ عزیزی حسن عباسی کی شاگردی بھی اختیار کر رکھی ہے سو اس حوالے سے اس کے اور خالد مسعود کے درمیان ایک ایسا پر لطف مکالمہ مسلسل چلتا رہا جس نے کئی لطیفوں کو جنم دیا۔ ہماری رہائش کا انتظام سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے جاوید میر صاحب کے ملکیتی اپارٹمنٹس میں کیا گیا تھا جو میرے رشتے کے ماموں ارشد ڈھوڈی مرحوم کے کلاس فیلو نکلے۔ بہت مخلص اور سادہ طبیعت کے انسان ہیں جو 45برس سے وہاں رہنے کے باوجود اپنی مشرقی اقدار کو بڑے اعتماد اور سلیقے سے سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔
کوپن ہیگن میں ہمارے پاس پورے دو آزاد دن تھے سو طے پایا کہ پہلا دن ڈنمارک اور سویڈن کے ساحلوں پر گزارا جائے' پچھلے سفر میں عمیر ڈار نے دونوں ملکوں کے درمیان ایک ایسے طویل پل کے ذریعے اس کا اہتمام بذریعہ کار کیا تھا جس کا آدھا حصہ سمندر کے اوپر اور آدھا نیچے ہے جو اپنی جگہ پر کسی تعمیراتی معجزے سے کم نہیں جب کہ کروز نما چھوٹے سمندری جہاز کا یہ سفر کل ملا کر ایک گھنٹے پر محیط تھا جس کا بیشتر حصہ تیز اور ٹھنڈی ہوا کے ساتھ عرشے پر گزرا۔ خالد مسعود اور عامر جعفری دونوں کے درمیان حسب معمول سیل کیمرے سے تصویریں بنانے کا مقابلہ جاری رہا جب کہ میاں طیب اور عدیل آسی نے بھی کسی لوکیشن کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ برطانیہ کی طرح ڈنمارک میں بھی تمام تر جمہوری اقدار کے ساتھ ساتھ ابھی تک بادشاہت کا سلسلہ چل رہا ہے اور یہاں بھی ایک ملکہ ہی کی حکمرانی ہے۔
اس روز پارلیمنٹ میں کسی افریقی ملک کے حوالے سے کوئی تقریب تھی جس میں کچھ دیر بعد ملکہ کو بھی آنا تھا لیکن سوائے پارلیمنٹ ہاؤس کی سیڑھیوں پر بچھائے گئے ایک چھوٹے سے ریڈ کارپٹ اور پانچ سات سیکیورٹی اہلکاروں کے ہر چیز ٹریفک سمیت معمول کے مطابق چل رہی تھی، نہ کوئی ڈھول باجا، نہ شور شرابا، نہ ہٹو بچو کی آوازیں، ایک طرف افریقی مصوروں کی بنائی ہوئی کچھ پینٹنگز کی اوپن نمائش آویزاں تھی جو غالباً اس تقریب کا ایک حصہ تھی۔کچھ دیر بعد جب ہم پارلیمنٹ ہاؤس کے بلند مینار سے کوپن ہیگن شہر کا نظارہ کر کے لوٹے تو وہاں سو کے لگ بھگ لوگ جمع ہو چکے تھے۔ مہمانوں کی گاڑیاں باری باری ریڈ کارپٹ کے قریب رکتیں اور پروٹوکول کا مختصر عملہ ان کا استقبال کرتا جب کہ ان کے اور ہمارے جیسے راہگیر قسم کے تماشائیوں کے درمیان صرف چند سیکیورٹی گارڈز ڈیوٹی دے رہے تھے۔ معلوم ہوا کہ یہ تکلف بھی گزشتہ چند برسوں سے جاری دہشت گردی کی لہر کی وجہ سے کیا گیا ہے اور اب بھی وہاں کے وزیر اور پارلیمنٹ کے ارکان عام حالات میں یہاں پیدل اور تنہا گھومتے پھرتے ہیں۔
سمندر کے کنارے ایک بڑے سے پتھر کے اوپر پتھر سے تراشی گئی ایک چھوٹی سی جل پری کوپن ہیگن کے قابل دید مقامات میں شامل ہے، اس کے حوالے سے مختلف روایتیں بیان کی جاتی ہیں مگر بقول خالد مسعود اس کی شہرت بھی مونا لیزا کی تصویر کی طرح ضرورت سے کچھ زیادہ ہو گئی ہے جس کی وجہ سے دونوں کو دیکھنے کے بعد کچھ اینٹی کلائمکس کی سی صورت بن جاتی ہے۔ دیگر سیاحوں کی طرح ہم نے بھی اس عفیفہ کے ساتھ تصویریں بنوائیں اور عدیل نے باری باری انٹرنیٹ پر اس کے حوالے سے ہمارے Live انٹرویو بھی کیے۔
یہاں سے ہمیں پاکستان ایمبیسی جانا تھا جہاں مسرور جونیجو کی جگہ حال ہی میں تعینات ہونے والے سفیر پاکستان ذوالفقار گردیزی صاحب نے چائے پر مدعو کر رکھا تھا۔ وزیٹر بک میں ایک بار پھر اپنے تاثرات لکھنے اور تصویریں وغیرہ بنوانے کے بعد اگلا پڑاؤ ڈنمارک کے نوجوان لکھاریوں اور ادب دوست احباب کی ''بیلی'' کے نام سے قائم کی گئی تنظیم کا اجلاس تھا جو خاص طور پر ہم مہمانوں کے لیے ترتیب دیا گیا تھا۔ بہت سے مسائل پر بہت عمدہ اور بامعنی گفتگو ہوئی جس میں ادب کے ساتھ وہاں پر مقیم تارکین وطن کے تہذیبی معاملات بھی زیر بحث رہے جن کا سلسلہ امتیاز صاحب کے عشائیے میں بھی جاری رہا کہ وقت کے ساتھ اس کی پیچیدگیوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ہماری اسپین کے شہر مالاگا تک کی فلائٹ سات بجے صبح تھی جس کے لیے ہمیں رات چار بجے روانہ ہونا تھا، یہ ذمے داری بھی برادرم جاوید میر نے بہت محبت اور خوش اسلوبی سے نبھائی اور یوں اس سفر کا دوسرا مرحلہ تمام ہوا۔
عدیل آسی بیک وقت محبتی اور جذباتی بھی ہے اور متحرک اور کاما بھی' معلوم ہوا کہ گزشتہ دنوں کئی پروگراموں کی بھاگ دوڑ کے دوران وہ کمر میں ایسی چوٹ لگوا چکا ہے کہ اب بیساکھی کے بغیر اس کے لیے کھڑا ہونا بھی مشکل ہو رہا ہے مگر اس عالم میں بھی ہماری روانگی کے لمحے تک وہ ہر کام میں پیش پیش رہا۔ موصوف کو شاعری کا شوق جنون کی حد تک ہے اور اس حوالے سے اس نے باقاعدہ عزیزی حسن عباسی کی شاگردی بھی اختیار کر رکھی ہے سو اس حوالے سے اس کے اور خالد مسعود کے درمیان ایک ایسا پر لطف مکالمہ مسلسل چلتا رہا جس نے کئی لطیفوں کو جنم دیا۔ ہماری رہائش کا انتظام سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے جاوید میر صاحب کے ملکیتی اپارٹمنٹس میں کیا گیا تھا جو میرے رشتے کے ماموں ارشد ڈھوڈی مرحوم کے کلاس فیلو نکلے۔ بہت مخلص اور سادہ طبیعت کے انسان ہیں جو 45برس سے وہاں رہنے کے باوجود اپنی مشرقی اقدار کو بڑے اعتماد اور سلیقے سے سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔
کوپن ہیگن میں ہمارے پاس پورے دو آزاد دن تھے سو طے پایا کہ پہلا دن ڈنمارک اور سویڈن کے ساحلوں پر گزارا جائے' پچھلے سفر میں عمیر ڈار نے دونوں ملکوں کے درمیان ایک ایسے طویل پل کے ذریعے اس کا اہتمام بذریعہ کار کیا تھا جس کا آدھا حصہ سمندر کے اوپر اور آدھا نیچے ہے جو اپنی جگہ پر کسی تعمیراتی معجزے سے کم نہیں جب کہ کروز نما چھوٹے سمندری جہاز کا یہ سفر کل ملا کر ایک گھنٹے پر محیط تھا جس کا بیشتر حصہ تیز اور ٹھنڈی ہوا کے ساتھ عرشے پر گزرا۔ خالد مسعود اور عامر جعفری دونوں کے درمیان حسب معمول سیل کیمرے سے تصویریں بنانے کا مقابلہ جاری رہا جب کہ میاں طیب اور عدیل آسی نے بھی کسی لوکیشن کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ برطانیہ کی طرح ڈنمارک میں بھی تمام تر جمہوری اقدار کے ساتھ ساتھ ابھی تک بادشاہت کا سلسلہ چل رہا ہے اور یہاں بھی ایک ملکہ ہی کی حکمرانی ہے۔
اس روز پارلیمنٹ میں کسی افریقی ملک کے حوالے سے کوئی تقریب تھی جس میں کچھ دیر بعد ملکہ کو بھی آنا تھا لیکن سوائے پارلیمنٹ ہاؤس کی سیڑھیوں پر بچھائے گئے ایک چھوٹے سے ریڈ کارپٹ اور پانچ سات سیکیورٹی اہلکاروں کے ہر چیز ٹریفک سمیت معمول کے مطابق چل رہی تھی، نہ کوئی ڈھول باجا، نہ شور شرابا، نہ ہٹو بچو کی آوازیں، ایک طرف افریقی مصوروں کی بنائی ہوئی کچھ پینٹنگز کی اوپن نمائش آویزاں تھی جو غالباً اس تقریب کا ایک حصہ تھی۔کچھ دیر بعد جب ہم پارلیمنٹ ہاؤس کے بلند مینار سے کوپن ہیگن شہر کا نظارہ کر کے لوٹے تو وہاں سو کے لگ بھگ لوگ جمع ہو چکے تھے۔ مہمانوں کی گاڑیاں باری باری ریڈ کارپٹ کے قریب رکتیں اور پروٹوکول کا مختصر عملہ ان کا استقبال کرتا جب کہ ان کے اور ہمارے جیسے راہگیر قسم کے تماشائیوں کے درمیان صرف چند سیکیورٹی گارڈز ڈیوٹی دے رہے تھے۔ معلوم ہوا کہ یہ تکلف بھی گزشتہ چند برسوں سے جاری دہشت گردی کی لہر کی وجہ سے کیا گیا ہے اور اب بھی وہاں کے وزیر اور پارلیمنٹ کے ارکان عام حالات میں یہاں پیدل اور تنہا گھومتے پھرتے ہیں۔
سمندر کے کنارے ایک بڑے سے پتھر کے اوپر پتھر سے تراشی گئی ایک چھوٹی سی جل پری کوپن ہیگن کے قابل دید مقامات میں شامل ہے، اس کے حوالے سے مختلف روایتیں بیان کی جاتی ہیں مگر بقول خالد مسعود اس کی شہرت بھی مونا لیزا کی تصویر کی طرح ضرورت سے کچھ زیادہ ہو گئی ہے جس کی وجہ سے دونوں کو دیکھنے کے بعد کچھ اینٹی کلائمکس کی سی صورت بن جاتی ہے۔ دیگر سیاحوں کی طرح ہم نے بھی اس عفیفہ کے ساتھ تصویریں بنوائیں اور عدیل نے باری باری انٹرنیٹ پر اس کے حوالے سے ہمارے Live انٹرویو بھی کیے۔
یہاں سے ہمیں پاکستان ایمبیسی جانا تھا جہاں مسرور جونیجو کی جگہ حال ہی میں تعینات ہونے والے سفیر پاکستان ذوالفقار گردیزی صاحب نے چائے پر مدعو کر رکھا تھا۔ وزیٹر بک میں ایک بار پھر اپنے تاثرات لکھنے اور تصویریں وغیرہ بنوانے کے بعد اگلا پڑاؤ ڈنمارک کے نوجوان لکھاریوں اور ادب دوست احباب کی ''بیلی'' کے نام سے قائم کی گئی تنظیم کا اجلاس تھا جو خاص طور پر ہم مہمانوں کے لیے ترتیب دیا گیا تھا۔ بہت سے مسائل پر بہت عمدہ اور بامعنی گفتگو ہوئی جس میں ادب کے ساتھ وہاں پر مقیم تارکین وطن کے تہذیبی معاملات بھی زیر بحث رہے جن کا سلسلہ امتیاز صاحب کے عشائیے میں بھی جاری رہا کہ وقت کے ساتھ اس کی پیچیدگیوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ہماری اسپین کے شہر مالاگا تک کی فلائٹ سات بجے صبح تھی جس کے لیے ہمیں رات چار بجے روانہ ہونا تھا، یہ ذمے داری بھی برادرم جاوید میر نے بہت محبت اور خوش اسلوبی سے نبھائی اور یوں اس سفر کا دوسرا مرحلہ تمام ہوا۔