تاریخی حقائق سے گریزکیوں
قائد اعظم نے اپنے مضبوط کردار اور قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے پورے برصغیر کے مسلمانوں کواپنی جانب متوجہ کیا
جس روز بانی پاکستان کی دختر دینا واڈیا کے انتقال کی خبریں وائرل ہوئیں، میرے پاس فون کالز اور WhatsAppپیغامات کی بھرمار ہوگئی۔ جن میں آنجہانی دینا واڈیا اورقائد کے خاندان کے بارے میں ان گنت سوالات پوچھے گئے۔یہ بات آج تک سمجھ میں نہیں آئی کہ ہماری حکمران اشرافیہ قیام پاکستان کے حوالے سے متبادل تاریخی حوالہ جات اور بانیان پاکستان کی ذاتی زندگی کے بارے میں معلومات منظر عام پر لانے سے کیوں گریزکرتی ہے، کیونکہ جب کوئی رہنما عوامی قبولیت اختیار کرلیتا ہے، تووہ پبلک پراپرٹی بن جاتا ہے۔ اس لیے اس کی زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں جاننا عوام کا حق ہوتا ہے، جن پر پردہ داری عوام کے ذہنوں میں شکوک وشبہات پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے۔
بانی پاکستان قائد اعظم کے خیالات،نظریات، عقائد اور ذاتی زندگی کے بعض اہم پہلوؤں کے عام ہوجانے سے کون سی قیامت ٹوٹ جاتی؟ یہ بات اب تک سمجھ میں نہیں آسکی ہے۔ البتہ ان کی زندگی کے بعض پہلوؤںکو پوشیدہ رکھنے سے منفی تصورات نے ضرور جنم لیا ہے۔ جس کی وجہ سے ملک میں فکری تضادات گہرے ہوئے ہیں۔ ویسے بھی قیام پاکستان کو ستر برس ہوگئے۔ اس لیے بہت سے معاملات اور متبادل معلومات کو اب منظر عام پر آجانا چاہیے، تاکہ عوام کے ذہنوں میں جومختلف نوعیت کے شکوک وشبہات موجود ہیں، وہ دورہوسکیں۔
ایک مثال قائد کی جنم بھومی سے متعلق ہے۔ ہم لوگوں کو، جنہوں نے اندرون سندھ تعلیم حاصل کی، پڑھایا گیاکہ قائد اعظم جھرک (ضلع ٹھٹھہ) میں پیدا ہوئے تھے۔ گریجویشن کرنے کے بعد جب کراچی آئے تو معلوم ہوا کہ ان کی پیدائش وزیر مینشن (کراچی) ہوئی تھی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں کیا گیا؟ کیا جھرک میں پیدا ہونے والا محمد علی جناح قائد اعظم نہیں بن سکتا تھا یا پھرکوئی اور سبب تھا؟ پھر ان کے خاندانی عقائد پر بھی غیر ضروری طورپر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ کیوں چھپایا جاتا ہے کہ ان کے خاندان کا تعلق اسماعیلی شیعہ عقائد سے تھا؟جب کہ قائد کے والدین کی قبریں لی مارکیٹ (کراچی) کے اسماعیلی قبرستان میں آج بھی موجود ہیں، مگر ملک کے دیگر حصوں کے لوگوں کو اس معاملے میں اندھیرے میں رکھا جا رہا ہے۔
اسی طرح یہ بتانے سے بھی گریز کیا جاتا ہے کہ 1898میں انھوں نے ایک Affidavit کے ذریعے اثنائے عشری شیعہ عقیدہ قبول کیا۔ جس پر علامہ عباس نجفی مرحوم کے توثیقی دستخط موجود ہیں۔ یہ Affidavit ممبئی ہائیکورٹ کے آرکائیو میں موجود ہے۔ان کی بیگم رتی بائی ایک بڑے صنعتکاراور سرمایہ دار سر ڈنشاپیٹیٹ کی واحد اولاد تھیں۔جنہوں نے احمد آباد اور ممبئی میں ٹیکسٹائل ملیں لگائی تھیں۔ وہ پارسی (آتش پرست) مذہب سے تعلق رکھتے تھے ۔ ان کا تعلق ٹاٹا خاندان کی ایک ذیلی شاخPetit سے تھا۔رتی بائی(یاجناح) فروری 1900 میں پیدا ہوئیں، یعنی قائد سے 23برس چھوٹی تھیں۔
قائداعظم سے ان کی شادی 1918میں ہوئی، چونکہ پارسی عقیدے کے مطابق غیر پارسی سے شادی نہیں ہوسکتی،اس لیے انھوں نے بھی اثنائے عشری شیعہ عقیدہ اختیارکیا۔ ان کے Affidavitپر بھی علامہ عباس نجفی مرحوم کے توثیقی دستخط ہیں۔علامہ نجفی مرحوم ہی نے ان کا نکاح بھی پڑھایا تھا۔یہ Affidavit بھی ممبئی ہائیکورٹ کے آرکائیو میں موجود ہے، اس جوڑے کی واحد اولاد دینا جناح تھیں، جن کی ولادت اگست 1919 میں ہوئی۔دینا ابھی چھوٹی تھیں کہ قائد کی سیاسی مصروفیات کے باعث ان کے والدین میں ناچاقی ہوگئی۔ اس دوران رتی بیمار پڑگئیں ، انھیں کینسر تشخیص ہوا۔ وہ 29برس کی عمر میں 1929میں انتقال کرگئیں۔اس وقت ننھی دینا کی عمر صرف 10برس تھی۔ چونکہ قائد کی بے پناہ مصروفیت کے باعث ان کی والدکے گھر مناسب نگہداشت ممکن نہیں تھی،اس لیے پہلے انھیں لندن کے ایک اسکول کے بورڈنگ ہاؤس میں رکھا گیا، پھر ننھیال منتقل ہوگئیں۔جہاں انھوں نے نوئل واڈیا نامی پارسی سے شادی کی۔ جس پر قائد اعظم راضی نہیں تھے، مگر مکمل مخالف بھی نہیں تھے۔
اب دوسری طرف آئیے۔عام شہریوں کو اس بات کا بھی علم نہیں کہ جب قائدکا کراچی میں انتقال ہوا ، تو ان کی میت کو غسل دینے کے لیے امام بارگاہ کھارادر (کراچی) کے خدمت گار حاجی کلو کو بلایا گیاتھا ۔ ان کی پہلی نماز جنازہ گورنر جنرل ہاؤس کے بڑے ہال میں ہوئی۔ جس میں اہل خانہ، قریبی احباب، کچھ سرکاری افسران اور ایران سمیت چند ممالک کے سفرا نے شرکت کی۔ نماز جنازہ مولانا انیس الحسنین مرحوم نے پڑھائی۔البتہ سرکاری نماز جنازہ کی امامت علامہ شبیر احمد عثمانی مرحوم نے کی۔ یہ تمام واقعات قائد اعظم کے بارے میں لکھی گئی کئی کتابوں میں موجود ہیں۔
اسی طرح محترمہ فاطمہ جناح کا جب انتقال ہوا، تو ان کی میت کو غسل سابق طالب علم رہنماعلی مختار رضوی مرحوم کی ہمشیرہ نے دیا۔ ان کی پہلی نماز جنازہ شیعہ عقیدے کے مطابق گھر کے لان میں ادا کی گئی، جب کہ عوامی سطح پر ان کی دو نمازِ جنازہ ہوئیں۔ ایک نمازجنازہ کی امامت مولاناعبدالحامد بدایونی مرحوم (بانی جمعیت علمائے پاکستان) نے کی، جب کہ دوسری مفتی محمد شفیع مرحوم (جامعہ کورنگی کے بانی) نے پڑھائی۔ یوں محترمہ فاطمہ جناح کی تین نماز جنازہ ہوئیں۔
درج بالاواقعات میں ایسی کون سی بات ہے، جو پوشیدہ رکھی جائے۔ قائد اعظم پر برصغیر کے مسلمان اعتماد کرتے تھے، اس لیے وہ ان کی قیادت میں مجتمع تھے۔ جب وہ اسماعیلی عقیدے سے وابستہ تھے، تب بھی ان کی ذات پر بھارتی مسلمانوں کو اعتماد تھا، جب وہ اثنائے عشری شیعہ ہوگئے، تب بھی ان کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے پہلے سربراہ سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوئم اسماعیلی فرقے کے روحانی پیشوا تھے۔ ان کے بعد محمد علی خان آف محمود آباد صدر بنے، جو پہلے سیکریٹری جنرل رہ چکے تھے۔ ان کا تعلق اثنائے عشری شیعہ عقیدے سے تھا۔ اس کے بعد قائد اعظم نے یہ عہدہ سنبھالا اور مرتے دم تک اس عہدے پر فائز رہے۔
دراصل عام شہری اپنے رہنماکی مسلکی وابستگی سے زیادہ اس کے کردار کو اہمیت دیتے ہیں ۔قائد اعظم نے اپنے مضبوط کردار اور اپنی قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے پورے برصغیر کے مسلمانوں کواپنی جانب متوجہ کیا۔وہ ہر مسلک، ہرفقہ و فرقہ کے علاوہ ہر نسلی و لسانی پس منظر رکھنے والے مسلمانوں میں یکساں مقبولیت رکھتے تھے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس زمانے کے برٹش انڈیا میں ایک سے بڑھ کر ایک جید عالم موجود تھا، مگر ان کی شناخت کسی نہ کسی مخصوص عقیدے یا مسلک سے وابستہ تھی۔ اس لیے اپنی تمامتر علمیت اور سیاسی بصیرت کے باوجود یہ علما مسلمانوں کی مشترک رہنمائی کے لیے قابل قبول نہ ہوسکے، جب کہ قائد اعظم جدید طرز حیات اور مقامی زبانوں سے نابلد ہونے کے باوجود کراچی سے سلہٹ تک، بولان سے چٹاگانگ تک اور خیبر سے راس کماری تک مسلمانوں کے واحد پسندیدہ ترین رہنما کے طور پر سامنے آئے۔
قائد اعظم کابنیادی وصف یہ تھا کہ انھوں نے 1916سے1946تک 30برس صوبائی خود مختاری اور اقلیتوں کے حقوق کے لیے لڑائی لڑی ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ متحدہ ہندوستان کے اندر حقوق کے حصول کے خواہشمند تھے۔ کانگریس کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کیبنٹ مشن ناکام ہوا ۔ جس کے بعد قائد مجبوراً تقسیم ہند پر آمادہ ہوئے۔ اس لیے ان پر تقسیم ہند کا الزام درست نہیں ہے۔ اس بات کو اب قوم پرست ہندو بھی سمجھنے لگے ہیں۔ چند برس قبل جب ایل کے ایڈوانی نے کراچی کا دورہ کیا، تو انھوں نے بانی پاکستان کے مقبرے پر حاضری دی اور تاثرات کی کتاب میں انھیں برصغیر کا عظیم سیکیولر رہنما قرار دیا، جب کہ BJPکے سابق رہنما جسونت سنگھ نے اپنی کتاب میں قائداعظم کے بجائے نہرو کو تقسیم کا ذمے دار قرار دیا ہے۔
اس کے برعکس پاکستان میں بعض حلقے بانی پاکستان کو بنیاد پرست مسلمان ثابت کرنے پر ہمہ وقت تلے رہتے ہیں۔ حالانکہ یہ ناقابل تردید تاریخی حقیقت ہے کہ وہ حقیقی معنی میں ایک سیکیولر ذہن رکھنے والے ترقی دوست رہنما تھے۔جنہوں نے کبھی کسی ایک مسلک سے اپنی وابستگی کا تاثر قائم نہیں ہونے دیا۔ لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ تاریخ کے اہم حقائق اور متبادل معلومات کو چھپانے اور ان پر غیر فطری انداز میں پردہ ڈالنے کے بجائے انھیں منظر عام پر آنے دینا چاہیے، تاکہ عوام کے ذہنوں میں ریاست اور قومی رہنماؤںکے بارے میں پائے جانے والے شکوک وشبہات کو دورکرنے میں مدد مل سکے۔
بانی پاکستان قائد اعظم کے خیالات،نظریات، عقائد اور ذاتی زندگی کے بعض اہم پہلوؤں کے عام ہوجانے سے کون سی قیامت ٹوٹ جاتی؟ یہ بات اب تک سمجھ میں نہیں آسکی ہے۔ البتہ ان کی زندگی کے بعض پہلوؤںکو پوشیدہ رکھنے سے منفی تصورات نے ضرور جنم لیا ہے۔ جس کی وجہ سے ملک میں فکری تضادات گہرے ہوئے ہیں۔ ویسے بھی قیام پاکستان کو ستر برس ہوگئے۔ اس لیے بہت سے معاملات اور متبادل معلومات کو اب منظر عام پر آجانا چاہیے، تاکہ عوام کے ذہنوں میں جومختلف نوعیت کے شکوک وشبہات موجود ہیں، وہ دورہوسکیں۔
ایک مثال قائد کی جنم بھومی سے متعلق ہے۔ ہم لوگوں کو، جنہوں نے اندرون سندھ تعلیم حاصل کی، پڑھایا گیاکہ قائد اعظم جھرک (ضلع ٹھٹھہ) میں پیدا ہوئے تھے۔ گریجویشن کرنے کے بعد جب کراچی آئے تو معلوم ہوا کہ ان کی پیدائش وزیر مینشن (کراچی) ہوئی تھی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں کیا گیا؟ کیا جھرک میں پیدا ہونے والا محمد علی جناح قائد اعظم نہیں بن سکتا تھا یا پھرکوئی اور سبب تھا؟ پھر ان کے خاندانی عقائد پر بھی غیر ضروری طورپر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ کیوں چھپایا جاتا ہے کہ ان کے خاندان کا تعلق اسماعیلی شیعہ عقائد سے تھا؟جب کہ قائد کے والدین کی قبریں لی مارکیٹ (کراچی) کے اسماعیلی قبرستان میں آج بھی موجود ہیں، مگر ملک کے دیگر حصوں کے لوگوں کو اس معاملے میں اندھیرے میں رکھا جا رہا ہے۔
اسی طرح یہ بتانے سے بھی گریز کیا جاتا ہے کہ 1898میں انھوں نے ایک Affidavit کے ذریعے اثنائے عشری شیعہ عقیدہ قبول کیا۔ جس پر علامہ عباس نجفی مرحوم کے توثیقی دستخط موجود ہیں۔ یہ Affidavit ممبئی ہائیکورٹ کے آرکائیو میں موجود ہے۔ان کی بیگم رتی بائی ایک بڑے صنعتکاراور سرمایہ دار سر ڈنشاپیٹیٹ کی واحد اولاد تھیں۔جنہوں نے احمد آباد اور ممبئی میں ٹیکسٹائل ملیں لگائی تھیں۔ وہ پارسی (آتش پرست) مذہب سے تعلق رکھتے تھے ۔ ان کا تعلق ٹاٹا خاندان کی ایک ذیلی شاخPetit سے تھا۔رتی بائی(یاجناح) فروری 1900 میں پیدا ہوئیں، یعنی قائد سے 23برس چھوٹی تھیں۔
قائداعظم سے ان کی شادی 1918میں ہوئی، چونکہ پارسی عقیدے کے مطابق غیر پارسی سے شادی نہیں ہوسکتی،اس لیے انھوں نے بھی اثنائے عشری شیعہ عقیدہ اختیارکیا۔ ان کے Affidavitپر بھی علامہ عباس نجفی مرحوم کے توثیقی دستخط ہیں۔علامہ نجفی مرحوم ہی نے ان کا نکاح بھی پڑھایا تھا۔یہ Affidavit بھی ممبئی ہائیکورٹ کے آرکائیو میں موجود ہے، اس جوڑے کی واحد اولاد دینا جناح تھیں، جن کی ولادت اگست 1919 میں ہوئی۔دینا ابھی چھوٹی تھیں کہ قائد کی سیاسی مصروفیات کے باعث ان کے والدین میں ناچاقی ہوگئی۔ اس دوران رتی بیمار پڑگئیں ، انھیں کینسر تشخیص ہوا۔ وہ 29برس کی عمر میں 1929میں انتقال کرگئیں۔اس وقت ننھی دینا کی عمر صرف 10برس تھی۔ چونکہ قائد کی بے پناہ مصروفیت کے باعث ان کی والدکے گھر مناسب نگہداشت ممکن نہیں تھی،اس لیے پہلے انھیں لندن کے ایک اسکول کے بورڈنگ ہاؤس میں رکھا گیا، پھر ننھیال منتقل ہوگئیں۔جہاں انھوں نے نوئل واڈیا نامی پارسی سے شادی کی۔ جس پر قائد اعظم راضی نہیں تھے، مگر مکمل مخالف بھی نہیں تھے۔
اب دوسری طرف آئیے۔عام شہریوں کو اس بات کا بھی علم نہیں کہ جب قائدکا کراچی میں انتقال ہوا ، تو ان کی میت کو غسل دینے کے لیے امام بارگاہ کھارادر (کراچی) کے خدمت گار حاجی کلو کو بلایا گیاتھا ۔ ان کی پہلی نماز جنازہ گورنر جنرل ہاؤس کے بڑے ہال میں ہوئی۔ جس میں اہل خانہ، قریبی احباب، کچھ سرکاری افسران اور ایران سمیت چند ممالک کے سفرا نے شرکت کی۔ نماز جنازہ مولانا انیس الحسنین مرحوم نے پڑھائی۔البتہ سرکاری نماز جنازہ کی امامت علامہ شبیر احمد عثمانی مرحوم نے کی۔ یہ تمام واقعات قائد اعظم کے بارے میں لکھی گئی کئی کتابوں میں موجود ہیں۔
اسی طرح محترمہ فاطمہ جناح کا جب انتقال ہوا، تو ان کی میت کو غسل سابق طالب علم رہنماعلی مختار رضوی مرحوم کی ہمشیرہ نے دیا۔ ان کی پہلی نماز جنازہ شیعہ عقیدے کے مطابق گھر کے لان میں ادا کی گئی، جب کہ عوامی سطح پر ان کی دو نمازِ جنازہ ہوئیں۔ ایک نمازجنازہ کی امامت مولاناعبدالحامد بدایونی مرحوم (بانی جمعیت علمائے پاکستان) نے کی، جب کہ دوسری مفتی محمد شفیع مرحوم (جامعہ کورنگی کے بانی) نے پڑھائی۔ یوں محترمہ فاطمہ جناح کی تین نماز جنازہ ہوئیں۔
درج بالاواقعات میں ایسی کون سی بات ہے، جو پوشیدہ رکھی جائے۔ قائد اعظم پر برصغیر کے مسلمان اعتماد کرتے تھے، اس لیے وہ ان کی قیادت میں مجتمع تھے۔ جب وہ اسماعیلی عقیدے سے وابستہ تھے، تب بھی ان کی ذات پر بھارتی مسلمانوں کو اعتماد تھا، جب وہ اثنائے عشری شیعہ ہوگئے، تب بھی ان کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے پہلے سربراہ سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوئم اسماعیلی فرقے کے روحانی پیشوا تھے۔ ان کے بعد محمد علی خان آف محمود آباد صدر بنے، جو پہلے سیکریٹری جنرل رہ چکے تھے۔ ان کا تعلق اثنائے عشری شیعہ عقیدے سے تھا۔ اس کے بعد قائد اعظم نے یہ عہدہ سنبھالا اور مرتے دم تک اس عہدے پر فائز رہے۔
دراصل عام شہری اپنے رہنماکی مسلکی وابستگی سے زیادہ اس کے کردار کو اہمیت دیتے ہیں ۔قائد اعظم نے اپنے مضبوط کردار اور اپنی قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے پورے برصغیر کے مسلمانوں کواپنی جانب متوجہ کیا۔وہ ہر مسلک، ہرفقہ و فرقہ کے علاوہ ہر نسلی و لسانی پس منظر رکھنے والے مسلمانوں میں یکساں مقبولیت رکھتے تھے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس زمانے کے برٹش انڈیا میں ایک سے بڑھ کر ایک جید عالم موجود تھا، مگر ان کی شناخت کسی نہ کسی مخصوص عقیدے یا مسلک سے وابستہ تھی۔ اس لیے اپنی تمامتر علمیت اور سیاسی بصیرت کے باوجود یہ علما مسلمانوں کی مشترک رہنمائی کے لیے قابل قبول نہ ہوسکے، جب کہ قائد اعظم جدید طرز حیات اور مقامی زبانوں سے نابلد ہونے کے باوجود کراچی سے سلہٹ تک، بولان سے چٹاگانگ تک اور خیبر سے راس کماری تک مسلمانوں کے واحد پسندیدہ ترین رہنما کے طور پر سامنے آئے۔
قائد اعظم کابنیادی وصف یہ تھا کہ انھوں نے 1916سے1946تک 30برس صوبائی خود مختاری اور اقلیتوں کے حقوق کے لیے لڑائی لڑی ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ متحدہ ہندوستان کے اندر حقوق کے حصول کے خواہشمند تھے۔ کانگریس کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کیبنٹ مشن ناکام ہوا ۔ جس کے بعد قائد مجبوراً تقسیم ہند پر آمادہ ہوئے۔ اس لیے ان پر تقسیم ہند کا الزام درست نہیں ہے۔ اس بات کو اب قوم پرست ہندو بھی سمجھنے لگے ہیں۔ چند برس قبل جب ایل کے ایڈوانی نے کراچی کا دورہ کیا، تو انھوں نے بانی پاکستان کے مقبرے پر حاضری دی اور تاثرات کی کتاب میں انھیں برصغیر کا عظیم سیکیولر رہنما قرار دیا، جب کہ BJPکے سابق رہنما جسونت سنگھ نے اپنی کتاب میں قائداعظم کے بجائے نہرو کو تقسیم کا ذمے دار قرار دیا ہے۔
اس کے برعکس پاکستان میں بعض حلقے بانی پاکستان کو بنیاد پرست مسلمان ثابت کرنے پر ہمہ وقت تلے رہتے ہیں۔ حالانکہ یہ ناقابل تردید تاریخی حقیقت ہے کہ وہ حقیقی معنی میں ایک سیکیولر ذہن رکھنے والے ترقی دوست رہنما تھے۔جنہوں نے کبھی کسی ایک مسلک سے اپنی وابستگی کا تاثر قائم نہیں ہونے دیا۔ لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ تاریخ کے اہم حقائق اور متبادل معلومات کو چھپانے اور ان پر غیر فطری انداز میں پردہ ڈالنے کے بجائے انھیں منظر عام پر آنے دینا چاہیے، تاکہ عوام کے ذہنوں میں ریاست اور قومی رہنماؤںکے بارے میں پائے جانے والے شکوک وشبہات کو دورکرنے میں مدد مل سکے۔