اقبال اور ’’قومی زندگی ‘‘
اقبال وہ مفکرِ عظیم ہیں جنھوں نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ مسلمان اور ہندو اکٹھے نہیں رہ سکتے
اقبال کا ایک معروف شعر ہے:
کھول کر آنکھیں مرے آئینہ گفتار میں
آنے والے دَور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ
یہ شعرِ اقبال کی تخصیص ہے کہ اُن کی گفتارکے آئینے میں فردا کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ اقبال وہ مفکرِ عظیم ہیں جنھوں نے اپنی ژرف نگاہی اور دروں بینی سے یہ محسوس کر لیا تھا کہ مسلمان اور ہندو اکٹھے نہیں رہ سکتے___ چناں چہ تصورِ پاکستان( 1930ء) علامہ کی اس بے مثل صلاحیت کا عملی اظہار ہے کہ وہ آنے والے دور کو اپنے خداداد تخیل کے باعث درکر سکتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اُن کی شاعری انقلابِ زیست و حیات کی ایک امتیازی دستاویز اسی لیے ہے کہ اس سے زندگی کے ہر شعبے میں رہ نمائی لی جا سکتی ہے۔
اس سلسلے میں شعرِ اقبال کے ساتھ ساتھ گفتارِ اقبال پر مبنی گراں قدر حصے یعنی ان کی نثری نگارشات کا اہم کردار ہے اور جس طرح اُن کے خطبات و مقالات، تفکر آمیز شذراتِ فکر (Stray Reflections) ان کی گفت گوئیں، بیانات اور مکاتیب زندگی کے مختلف مسائل و مصائب کی عقدہ کشائی میں معاونت کرتے نظر آتے ہیں اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ ان تحریروں میں اقبال نے بڑی اثرانگیزی کے ساتھ مسلمانوں کو درپیش صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کی راہیں سجھائی ہیں۔ چناں چہ اُن کی شاعری کی طرح یہ نثری سرمایہ بھی پڑھنے والے کی فکرونظر کے بے شمار دروا کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ یہاں متعدد مقامات ایسے ہیں کہ یہ تحریریں افراد و اقوام کے نظری و عصری مسائل میں بھرپور ذہنی و قلبی رہ نمائی کرتی محسوس ہوتی ہیں۔
اقبال کا مضمون ''قومی زندگی'' ایک ایسی ہی تحریر ہے جو آج سے کم و بیش ایک صدی پہلے لکھی گئی لیکن اپنے موضوعاتی دائرے کے اعتبار سے آج پاکستان کے عصری سماجی و سیاسی مسائل سے نبردآزما ہونے میں معاونت کرتی نظر آتی ہے۔ علامہ نے یہ مضمون 1904ء میں تحریر کیا جب اُن کی عمر صرف 28 برس تھی۔ وہ اس وقت نوجوان تھے مگر 'جوانوں کو پیروں کا اُستاد کر' کے مصداق ہندوستان کی سیاست و سماج پر بڑی گہری نظر رکھے ہوئے تھے۔ یہ مضمون پہلی بار اکتوبر 1904ء میں سرعبدالقادر کے موقرماہ نامے مخزن میں شائع ہوا اور اس میں بڑی جامعیت کے ساتھ اس وقت کے ہندوستان کی مجموعی حالتِ زار کے ساتھ ساتھ خصوصیت کے ساتھ مسلمانوں کی ابتر صورتِ حال پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
اقبال نے نہ صرف مسلمانوں کی تمدنی و اقتصادی پس ماندگی کی وجوہات قلم بند کی ہیں بل کہ وہ کمال درجے کی ذہانت کے ساتھ ان مسائل کے حل بھی تجویز کرتے ہیں۔ اس مضمون کی وجہ تخلیق ان کے پیش نظر یہ رہی کہ قومی زندگی کے بعض مسائل اور ضروریات کے آئینے میں یہ دیکھا جائے کہ دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کی تمدنی احتیاجات کیا ہیں اور ہندوستان بالخصوص یہاں کے مسلمانوں کو کن حالات کا سامنا ہے؟ نیز ان کی پس ماندگی کی کیا وجوہات ہیں اور ان سے نبردآزما ہونے کے لیے کیا لائحہ عمل تجویز کیا جا سکتا ہے۔
چناں چہ اقبال کے مضمون ''قومی زندگی'' میں یہ تمام امور زیر بحث آئے ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ کم و بیش ایک صدی کا عرصہ گزر جانے کے باوجود اور ایک آزاد مملکت کے حصول کے باوصف مسلمانانِ پاکستان کا وہی عالم ہے۔ وہی تمدنی و سماجی اور اقتصادی مسائل آج درپیش ہیں جو اس وقت تھے بل کہ گزرتے وقت نے ان میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ ایسے میں مفکرِ پاکستان کی اس نادر تحریر سے استفادہ وقت کی ایک اہم ضرورت ہے اور اس مضمون میں متعدد ایسے نکات موجود ہیں جو اہلِ نظر کو دعوتِ تدبر دیتے ہیں۔
''قومی زندگی'' کے آغاز میں اقبال فرماتے ہیں کہ قوموں کی تاریخ میں نازک وقت اس امر کے متقاضی ہوتے ہیں کہ کوئی بھی قوم ان کی روشنی میں اپنی موجودہ حالت پر غور کرے بل کہ اقوامِ عالم میں اپنا مقام بنانے کے لیے آئندہ نسلوں کی بہبودی کو بھی اپنا موجودہ واقعہ تصور کرے اور ایسا طرزِ عمل اختیار کرے کہ جس کے احاطۂ اثر میں اس کے آباواجداد کا تمدّن بھی اپنی جھلک دکھاتا ہو۔ انھوں نے بڑے دو ٹوک اُسلوب میں مسلمانوں کو احساس دلایا ہے کہ وہ زمانہ رخصت ہو گیا جب اقوام کی معرکہ آرائیوں کا فیصلہ فولادی حربوں سے ہوا کرتا تھا۔
حال کا زمانہ 'کاٹھ کی تلوار' یعنی قلم کی جنگ سے عبارت ہے جو ایک خاموش جنگ ہے۔ ہندوستانیوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ یہ زمانہ 'دماغوں، تہذیبوں اور تمدنوں کی ہنگامہ آرائیوں' کا ہے۔ دنیا کی قومیں بڑی تیزی کے ساتھ ایک دوسرے کے تہذیب و تمدن سے اثرات قبول کر رہی ہیں اور سائنسی ترقیوں نے مقابلے کی دوڑ تیز تر کر رکھی ہے۔ ایسے میں زندگی کے لیے نئے سامان بہم پہنچانے کی اشد ضرورت ہے۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو یہ اچھی طرح سمجھنا چاہیے کہ انھیں کن مشکلات کا سامنا ہے۔ انھیں عقل سے کام لینے کی ضرورت ہے اور عقل اللہ تعالیٰ کی ودیعت کردہ وہ صلاحیت ہے جو جمادات و حیوانات کے مقابلے میں انسان کا امتیاز قائم رکھتی ہے۔ چناں چہ اس کی وساطت سے مسائل کا حل تلاش کرنا وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔
اقبال نے زیرِ نظر مضمون کے ابتدائی حصے میں مختلف اقوام کی ترقی پر مبنی شرائط زندگی پر نظری لحاظ سے مفصل بحث کرنے کے بعد مسلمانوں کو درپیش مشکلات کی طرف نظر دوڑائی ہے اور مسلمانانِ ہند کے مسائل میں سرِفہرست ان کی اقوامِ غالب کے سامنے دریوزہ گری کو قرار دیا ہے۔ وہ اس امر کو 'مقامِ افسوس'سے تعبیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس حوالے سے ہندوستان کی حالت کو دیکھا جائے تو 'ایک مایوس کن نظارہ' دیکھنے کو ملتا ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر ہم اقوامِ غیر کے محتاج ہیں اور روزبروز ہوتے جا رہے ہیں۔
خام مال کثرت کے ساتھ ترقی یافتہ ممالک کو بھیجا جاتا ہے اور اس سے زیادہ بدقسمت ملک کوئی نہیں ہو سکتا جو محض دوسرے ملکوں کے لیے مصالح خام کا ایک ذخیرہ ہو اور مختلف مصنوعات کے لیے ان کا محتاج ہو۔ اقبال احساس دلاتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمانوں کی کج فہمی ہے کہ وہ یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ایسا ملک جس کا دارومدار محض زراعت پر ہو، جیسا کہ ہندوستان کا ہے، وہ ترقی کی دوڑ میں کبھی کامیاب ہو سکے گا۔ آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے صرف زراعت پر انحصار کافی نہیں۔ جب تک اس کے ساتھ ساتھ صنعت و تجارت پر توجہ نہ دی جائے گی، ہم کبھی ترقی یافتہ اقوام مثلاًجاپانیوں کی طرح (جو اقبال کے نزدیک دنیوی ترقی کا بہترین نمونہ ہے)اپنے پاؤں پر نہ کھڑے ہو سکیں گے۔
قدرت ہمیں قحط اور وباؤں کے تازیانے لگاتی رہے گی جب تک کہ ہم وقت کے تقاضوں کو نہ سمجھیں گے۔ اقبال بڑی دردمندی کے ساتھ دوسروں کی دست نگری سے بچنے کے لیے زراعت اورصنعت و تجارت کے فروغ پر زور دیتے ہیں اور خاص طور پر مسلمانانِ ہند کو متنبہ کرتے ہیں کہ اگر اس حوالے سے غور نہ کیا گیا تو بربادی ہمیشہ کے لیے ان کا مقدرہو جائے گی۔ وہ سختی سے مسلمانوں کو جھنجھوڑتے ہیں اور اس امر کی بھرپور مذمت کرتے ہیں کہ معاشی اعتبار سے پس ماندہ ہونے کے باوجود یہ قوم ''وقت کے تقاضوں سے غافل اور افلاس کی تیز تلوار سے مجروح ہو کر ایک بے معنی توکل کا عصا ٹیکے کھڑی ہے۔'' حال آں کہ ضرورت حرکت و عمل کو اہمیت دینے اور صنعتی و تجارتی منصوبوں کی واضح صورت گری کرنے کی ہے۔
دوسرا پہلواصلاحِ تمدن سے منسلک ہے جسے اقبال نے خصوصیت کے ساتھ اہمیت دی ہے۔ وہ اس امر پر تاسف کا اظہار کرتے ہیں کہ غایت درجے کی پس ماندگی کے باوجود مسلمان 'ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا' ہیں۔ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ ابھی تک ان کے مذہبی نزاع کا ہی فیصلہ نہیںہو پایا جس کے باعث آئے دن ایک نیا فرقہ جنم لیتا ہے اور باقیوں کو جہنم کا ایندھن قرار دے کر خود کو جنت کا وارث گردانتا ہے۔ خیرالامم ﷺ کی اُمت اس قدر انتشار کا شکار ہو گئی ہے کہ بہ ظاہر اب اتفاق و اتحاد کی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ مولوی صاحبان کسی مسئلے پر متفق نہیں اور اگر کوئی بحث چھڑ جائے تو بقول اقبال:''ایسی جوتیوں میں دال بٹتی ہے کہ خدا کی پناہ!'' دوسری جانب علما کی یہ حالت ہے کہ وہ علم و فضل جو کبھی اس قوم کا خاصہ تھا، اب نام کو نہیں۔ طبقۂ امرا کو دیکھو تو وہ فلاحِ علامہ کے بجائے عیش و عشرت میں غرق ہیں۔
عوام ہے تو وہ جاہل، اس قدر کہ افلاس کے باوصف رسوم و رواج میں الجھی ہوئی ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر مقدمے بازیاں ہو رہی ہیں اور جائیداد کے جھگڑوں میں جائیدادیں لٹائی جا رہی ہیں، لڑکیاں غیرتعلیم یافتہ، نوجوان جاہل اور بے روزگار، نوکری انھیں ملتی نہیں اور صنعت سے یہ گھبراتے ہیں۔ نتیجتاً جرائم کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ''غرض کس کس کی شکایت کریں لنکا میں جو رہتا ہے، باون ہی گز کا ہے___ دماغ شاہجہانی، آمدنیاں قلیل۔'' مسلمانانِ ہند کی اس ابتر صورتِ حال کا نقشہ کھینچنے کے بعد اقبال ترغیب دلاتے ہیں کہ اگر دل و دماغ کی اصلاح کی جائے تو یہ تمام مسائل دور ہو سکتے ہیں۔ اس کے لیے سب سے ضروری امر تو یہ ہے کہ اصلاحِ احوال کا جذبہ دل میں پیدا ہو۔ فرماتے ہیں:''دنیا میں کسی قوم کی اصلاح نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس قوم کے افراد اپنی ذاتی اصلاح کی طرف توجہ نہ کریں۔'' اس لیے کہ فرد کی زندگی حقیقت میں قوم کی امانت ہے۔
اقبال نے اصلاحِ تمدن کی ذیل میں حقوقِ نسواں کے مسئلے کو خصوصیت کے ساتھ چھیڑا ہے اور اس وقت مسلمانانِ ہند میں خواتین کو جن مسائل کا سامنا تھا، اُن کی اصلاح کو تمدن کی فلاح و اصلاح کے لیے بہت ضروری سمجھا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے تعددِ ازدواج، نسوانی حیا اور پردہ، تعلیم نسواں اور تربیت سے وابستہ امور پر سیر حاصل گفت گو کی ہے اور وہ اس بات پر شدت سے زور دیتے ہیں کہ اسلام میں عورتوں کی حیثیت غلامانہ ہرگز نہیں ہے۔ چناں چہ اقبال عورتوں کو صرف فرائض کی ادائیگی تک محدود نہیں دیکھنا چاہتے بل کہ اس بات کے خواہاں ہیں کہ عورت کو تمدن کی جڑ سمجھتے ہوئے تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا اشد ضروری سمجھا جائے۔ علامہ کے نزدیک:''مرد کی تعلیم صرف فردِ واحد کی تعلیم ہے، مگر عورت کو تعلیم دینا حقیقت میں پورے خاندان کو تعلیم دینا ہے۔ دنیا میں کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی، اگر اس قوم کا آدھا حصہ جاہل مطلق رہ جائے۔'' اسی طرح وہ شادی کی قبیح رسومات کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں جو نہ صرف قومی زندگی کے تمدن کو برباد کر رہی ہیں بل کہ روپے پیسے اور وقت کا ضیاع بھی ہیں۔ دیگر حوالوں سے بھی اقبال نے بڑی مہارت کے ساتھ اصلاحِ تمدن کی ضرورت پر زوردیا ہے۔
اصلاحِ احوال کی ذیل میں اقبال نے تیسری بنیادی ضرورت 'تعلیم عام' کو قرار دیا ہے اور اس نقطئہ نظر کی تفہیم کرائی ہے کہ عام طور پر مسلمانوں کا قیاس یہ ہے کہ تعلیم کا مقصد محض دماغی تربیت ہے حال آں کہ یہ بات درست نہیں، تعلیم کا حقیقی مقصد نوجوانوں میں تمدنی فرائض انجام دینے کی قابلیت پیدا کرنا ہے۔ نوجوانوں کے لیے وہ تعلیم زیادہ مفید ہے جو ہنرمندی، دست کاری اور صنعت و حرفت کی صلاحیتوں سے انھیں پورے طور پر بہرہ ور کر سکے۔ ایسا کرنے سے دوسری قوموں کی دریوزہ گری سے نجات ملنے کے ساتھ ساتھ خود اپنی ضروریات کو اپنی محنت سے حاصل کرنے کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اقبال قومی زندگی کے لیے تعلیمِ عام کی اہمیت کے شدید قائل ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ: ''جو قوم تعلیم کی اس نہایت ضروری شاخ(صنعت و حرفت) کی طرف توجہ نہ کرے گی وہ یقینا ذلیل و خوار ہوتی جائے گی، یہاں تک کہ صفحۂ ہستی پر اُس کا نام و نشاں بھی باقی نہ رہے گا ۔ لیکن افسوس مسلمان ہے کہ مسلمان بالخصوص اس سے غافل ہیں اور مجھے اندیشہ ہے کہ وہ اپنی غفلت کا خمیازہ نہ اٹھائیں۔''
یوں ''قومی زندگی'' ایک ایسا قابلِ قدر مضمون ہے جس میں علامہ اقبال نے بڑی دردمندی کے ساتھ اس وقت کے ہندوستان، بالخصوص وہاں کے مسلمانوں کی تمدنی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر اظہارِ خیال کیا ہے۔ اقبال نے کم و بیش ایک صدی پیش تر جن مسائل کا ادراک کیا اور اس وقت کی مناسبت سے جس طرح ان کے حل تجویز کیے، وہ بلاشبہہ ان کی نفسیاتی و سماجی بصیرت کی ایک عمدہ مثال ہے۔ اب جب کہ پاکستان کے قیام کو ستر سال ہو گئے ہیں، اس نظریاتی مملکت کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔ عالمی سیاسی منظرنامے سے قطع نظر کرتے ہوئے محض تمدنی سطح ہی پر دیکھا جائے تو ارضِ وطن کی سماجی و اقتصادی مشکلات ہنوز وہی ہیں جو اقبال کے زیر نظر مضمون میں بیان ہو چکیں۔ ہماری 'قومی زندگی' کا اب بھی کوئی پرسانِ حال نہیں ۔آج بھی اقوامِ غیر کی دریوزہ گری درپیش ہے۔
اتفاق و اتحاد ناپید ہے۔ رسوم و رواج کی افراط ہے۔ خود آگے بڑھ کر اپنی حالتِ زار درست کرنے کی جانب توجہ نہیں۔ جرائم میں روز بروز اضافہ اوربے روزگاری سے پیدا ہونے والے مسائل مزید پریشانی کا باعث ہیں ۔ طبقۂ امرا فلاحِ عامہ کے بجائے عیش و عشرت کے سامان بہم پہنچانے میں محو ہے۔ تعلیم محض دماغی تربیت کا ذریعہ ہے اور صنعت و حرفت و تجارت جیسی عام تعلیمی قابلیتوں سے صرفِ نظر کرنے کے باعث غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عورت آج بھی غلامانہ زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور حقوقِ نسواں کی پاسداری کا شعور تک نہیں۔ اسے تعلیم کی سہولیات حاصل نہیں اور نہ ہی اس کی تربیت خالصتاً اسلامی انداز نظر کے مطابق کی جا رہی ہے بل کہ زیادہ تر رواجی و سماجی قوانین کے آئینے میں قوم کے اس نصف حصے کی صلاحیتیں برباد کی جا رہی ہیں۔
یہ تو صرف وہ مسائل ہیں، جو علامہ اقبال نے ''قومی زندگی'' میں ذکر فرمائے تھے ۔مسائل اور مصائب تو مزید بڑھ چکے ہیں اور سیاسی و عصری منظرنامہ بھی تبدیل ہو چکا ہے۔ ایسے میں وقت کے تقاضوں کو پہچاننے کی ضرورت ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ یاد رہے کہ جس قوم کے پاس اقبال جیسا شاعر ہو، اُسے نہ تو مایوس ہونے کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی لائحۂ عمل وضع کرنے کے لیے پریشان ہونے کی۔ اقبال کے اشعار اور اُن کے افکار کی تفہیم اور پھر ان کا ابلاغ آج بھی ہماری 'قومی زندگی' کی فلاح و بقا اور اس کی بدنصیبی کو خوش نصیبی میں بدلنے کے لیے بے حد ضروری ہے۔ خود اقبال کہہ گئے ہیں:
تلاش اس کی فضاؤں میں کر نصیب اپنا
جہانِ تازہ مری آہِ صبحگاہ میں ہے!
مرے کدو کو غنیمت سمجھ کہ بادئہ ناب
نہ مدرسے میں ہے باقی، نہ خانقاہ میں ہے!
کھول کر آنکھیں مرے آئینہ گفتار میں
آنے والے دَور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ
یہ شعرِ اقبال کی تخصیص ہے کہ اُن کی گفتارکے آئینے میں فردا کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ اقبال وہ مفکرِ عظیم ہیں جنھوں نے اپنی ژرف نگاہی اور دروں بینی سے یہ محسوس کر لیا تھا کہ مسلمان اور ہندو اکٹھے نہیں رہ سکتے___ چناں چہ تصورِ پاکستان( 1930ء) علامہ کی اس بے مثل صلاحیت کا عملی اظہار ہے کہ وہ آنے والے دور کو اپنے خداداد تخیل کے باعث درکر سکتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اُن کی شاعری انقلابِ زیست و حیات کی ایک امتیازی دستاویز اسی لیے ہے کہ اس سے زندگی کے ہر شعبے میں رہ نمائی لی جا سکتی ہے۔
اس سلسلے میں شعرِ اقبال کے ساتھ ساتھ گفتارِ اقبال پر مبنی گراں قدر حصے یعنی ان کی نثری نگارشات کا اہم کردار ہے اور جس طرح اُن کے خطبات و مقالات، تفکر آمیز شذراتِ فکر (Stray Reflections) ان کی گفت گوئیں، بیانات اور مکاتیب زندگی کے مختلف مسائل و مصائب کی عقدہ کشائی میں معاونت کرتے نظر آتے ہیں اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ ان تحریروں میں اقبال نے بڑی اثرانگیزی کے ساتھ مسلمانوں کو درپیش صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کی راہیں سجھائی ہیں۔ چناں چہ اُن کی شاعری کی طرح یہ نثری سرمایہ بھی پڑھنے والے کی فکرونظر کے بے شمار دروا کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ یہاں متعدد مقامات ایسے ہیں کہ یہ تحریریں افراد و اقوام کے نظری و عصری مسائل میں بھرپور ذہنی و قلبی رہ نمائی کرتی محسوس ہوتی ہیں۔
اقبال کا مضمون ''قومی زندگی'' ایک ایسی ہی تحریر ہے جو آج سے کم و بیش ایک صدی پہلے لکھی گئی لیکن اپنے موضوعاتی دائرے کے اعتبار سے آج پاکستان کے عصری سماجی و سیاسی مسائل سے نبردآزما ہونے میں معاونت کرتی نظر آتی ہے۔ علامہ نے یہ مضمون 1904ء میں تحریر کیا جب اُن کی عمر صرف 28 برس تھی۔ وہ اس وقت نوجوان تھے مگر 'جوانوں کو پیروں کا اُستاد کر' کے مصداق ہندوستان کی سیاست و سماج پر بڑی گہری نظر رکھے ہوئے تھے۔ یہ مضمون پہلی بار اکتوبر 1904ء میں سرعبدالقادر کے موقرماہ نامے مخزن میں شائع ہوا اور اس میں بڑی جامعیت کے ساتھ اس وقت کے ہندوستان کی مجموعی حالتِ زار کے ساتھ ساتھ خصوصیت کے ساتھ مسلمانوں کی ابتر صورتِ حال پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
اقبال نے نہ صرف مسلمانوں کی تمدنی و اقتصادی پس ماندگی کی وجوہات قلم بند کی ہیں بل کہ وہ کمال درجے کی ذہانت کے ساتھ ان مسائل کے حل بھی تجویز کرتے ہیں۔ اس مضمون کی وجہ تخلیق ان کے پیش نظر یہ رہی کہ قومی زندگی کے بعض مسائل اور ضروریات کے آئینے میں یہ دیکھا جائے کہ دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کی تمدنی احتیاجات کیا ہیں اور ہندوستان بالخصوص یہاں کے مسلمانوں کو کن حالات کا سامنا ہے؟ نیز ان کی پس ماندگی کی کیا وجوہات ہیں اور ان سے نبردآزما ہونے کے لیے کیا لائحہ عمل تجویز کیا جا سکتا ہے۔
چناں چہ اقبال کے مضمون ''قومی زندگی'' میں یہ تمام امور زیر بحث آئے ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ کم و بیش ایک صدی کا عرصہ گزر جانے کے باوجود اور ایک آزاد مملکت کے حصول کے باوصف مسلمانانِ پاکستان کا وہی عالم ہے۔ وہی تمدنی و سماجی اور اقتصادی مسائل آج درپیش ہیں جو اس وقت تھے بل کہ گزرتے وقت نے ان میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ ایسے میں مفکرِ پاکستان کی اس نادر تحریر سے استفادہ وقت کی ایک اہم ضرورت ہے اور اس مضمون میں متعدد ایسے نکات موجود ہیں جو اہلِ نظر کو دعوتِ تدبر دیتے ہیں۔
''قومی زندگی'' کے آغاز میں اقبال فرماتے ہیں کہ قوموں کی تاریخ میں نازک وقت اس امر کے متقاضی ہوتے ہیں کہ کوئی بھی قوم ان کی روشنی میں اپنی موجودہ حالت پر غور کرے بل کہ اقوامِ عالم میں اپنا مقام بنانے کے لیے آئندہ نسلوں کی بہبودی کو بھی اپنا موجودہ واقعہ تصور کرے اور ایسا طرزِ عمل اختیار کرے کہ جس کے احاطۂ اثر میں اس کے آباواجداد کا تمدّن بھی اپنی جھلک دکھاتا ہو۔ انھوں نے بڑے دو ٹوک اُسلوب میں مسلمانوں کو احساس دلایا ہے کہ وہ زمانہ رخصت ہو گیا جب اقوام کی معرکہ آرائیوں کا فیصلہ فولادی حربوں سے ہوا کرتا تھا۔
حال کا زمانہ 'کاٹھ کی تلوار' یعنی قلم کی جنگ سے عبارت ہے جو ایک خاموش جنگ ہے۔ ہندوستانیوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ یہ زمانہ 'دماغوں، تہذیبوں اور تمدنوں کی ہنگامہ آرائیوں' کا ہے۔ دنیا کی قومیں بڑی تیزی کے ساتھ ایک دوسرے کے تہذیب و تمدن سے اثرات قبول کر رہی ہیں اور سائنسی ترقیوں نے مقابلے کی دوڑ تیز تر کر رکھی ہے۔ ایسے میں زندگی کے لیے نئے سامان بہم پہنچانے کی اشد ضرورت ہے۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو یہ اچھی طرح سمجھنا چاہیے کہ انھیں کن مشکلات کا سامنا ہے۔ انھیں عقل سے کام لینے کی ضرورت ہے اور عقل اللہ تعالیٰ کی ودیعت کردہ وہ صلاحیت ہے جو جمادات و حیوانات کے مقابلے میں انسان کا امتیاز قائم رکھتی ہے۔ چناں چہ اس کی وساطت سے مسائل کا حل تلاش کرنا وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔
اقبال نے زیرِ نظر مضمون کے ابتدائی حصے میں مختلف اقوام کی ترقی پر مبنی شرائط زندگی پر نظری لحاظ سے مفصل بحث کرنے کے بعد مسلمانوں کو درپیش مشکلات کی طرف نظر دوڑائی ہے اور مسلمانانِ ہند کے مسائل میں سرِفہرست ان کی اقوامِ غالب کے سامنے دریوزہ گری کو قرار دیا ہے۔ وہ اس امر کو 'مقامِ افسوس'سے تعبیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس حوالے سے ہندوستان کی حالت کو دیکھا جائے تو 'ایک مایوس کن نظارہ' دیکھنے کو ملتا ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر ہم اقوامِ غیر کے محتاج ہیں اور روزبروز ہوتے جا رہے ہیں۔
خام مال کثرت کے ساتھ ترقی یافتہ ممالک کو بھیجا جاتا ہے اور اس سے زیادہ بدقسمت ملک کوئی نہیں ہو سکتا جو محض دوسرے ملکوں کے لیے مصالح خام کا ایک ذخیرہ ہو اور مختلف مصنوعات کے لیے ان کا محتاج ہو۔ اقبال احساس دلاتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمانوں کی کج فہمی ہے کہ وہ یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ایسا ملک جس کا دارومدار محض زراعت پر ہو، جیسا کہ ہندوستان کا ہے، وہ ترقی کی دوڑ میں کبھی کامیاب ہو سکے گا۔ آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے صرف زراعت پر انحصار کافی نہیں۔ جب تک اس کے ساتھ ساتھ صنعت و تجارت پر توجہ نہ دی جائے گی، ہم کبھی ترقی یافتہ اقوام مثلاًجاپانیوں کی طرح (جو اقبال کے نزدیک دنیوی ترقی کا بہترین نمونہ ہے)اپنے پاؤں پر نہ کھڑے ہو سکیں گے۔
قدرت ہمیں قحط اور وباؤں کے تازیانے لگاتی رہے گی جب تک کہ ہم وقت کے تقاضوں کو نہ سمجھیں گے۔ اقبال بڑی دردمندی کے ساتھ دوسروں کی دست نگری سے بچنے کے لیے زراعت اورصنعت و تجارت کے فروغ پر زور دیتے ہیں اور خاص طور پر مسلمانانِ ہند کو متنبہ کرتے ہیں کہ اگر اس حوالے سے غور نہ کیا گیا تو بربادی ہمیشہ کے لیے ان کا مقدرہو جائے گی۔ وہ سختی سے مسلمانوں کو جھنجھوڑتے ہیں اور اس امر کی بھرپور مذمت کرتے ہیں کہ معاشی اعتبار سے پس ماندہ ہونے کے باوجود یہ قوم ''وقت کے تقاضوں سے غافل اور افلاس کی تیز تلوار سے مجروح ہو کر ایک بے معنی توکل کا عصا ٹیکے کھڑی ہے۔'' حال آں کہ ضرورت حرکت و عمل کو اہمیت دینے اور صنعتی و تجارتی منصوبوں کی واضح صورت گری کرنے کی ہے۔
دوسرا پہلواصلاحِ تمدن سے منسلک ہے جسے اقبال نے خصوصیت کے ساتھ اہمیت دی ہے۔ وہ اس امر پر تاسف کا اظہار کرتے ہیں کہ غایت درجے کی پس ماندگی کے باوجود مسلمان 'ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا' ہیں۔ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ ابھی تک ان کے مذہبی نزاع کا ہی فیصلہ نہیںہو پایا جس کے باعث آئے دن ایک نیا فرقہ جنم لیتا ہے اور باقیوں کو جہنم کا ایندھن قرار دے کر خود کو جنت کا وارث گردانتا ہے۔ خیرالامم ﷺ کی اُمت اس قدر انتشار کا شکار ہو گئی ہے کہ بہ ظاہر اب اتفاق و اتحاد کی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ مولوی صاحبان کسی مسئلے پر متفق نہیں اور اگر کوئی بحث چھڑ جائے تو بقول اقبال:''ایسی جوتیوں میں دال بٹتی ہے کہ خدا کی پناہ!'' دوسری جانب علما کی یہ حالت ہے کہ وہ علم و فضل جو کبھی اس قوم کا خاصہ تھا، اب نام کو نہیں۔ طبقۂ امرا کو دیکھو تو وہ فلاحِ علامہ کے بجائے عیش و عشرت میں غرق ہیں۔
عوام ہے تو وہ جاہل، اس قدر کہ افلاس کے باوصف رسوم و رواج میں الجھی ہوئی ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر مقدمے بازیاں ہو رہی ہیں اور جائیداد کے جھگڑوں میں جائیدادیں لٹائی جا رہی ہیں، لڑکیاں غیرتعلیم یافتہ، نوجوان جاہل اور بے روزگار، نوکری انھیں ملتی نہیں اور صنعت سے یہ گھبراتے ہیں۔ نتیجتاً جرائم کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ''غرض کس کس کی شکایت کریں لنکا میں جو رہتا ہے، باون ہی گز کا ہے___ دماغ شاہجہانی، آمدنیاں قلیل۔'' مسلمانانِ ہند کی اس ابتر صورتِ حال کا نقشہ کھینچنے کے بعد اقبال ترغیب دلاتے ہیں کہ اگر دل و دماغ کی اصلاح کی جائے تو یہ تمام مسائل دور ہو سکتے ہیں۔ اس کے لیے سب سے ضروری امر تو یہ ہے کہ اصلاحِ احوال کا جذبہ دل میں پیدا ہو۔ فرماتے ہیں:''دنیا میں کسی قوم کی اصلاح نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس قوم کے افراد اپنی ذاتی اصلاح کی طرف توجہ نہ کریں۔'' اس لیے کہ فرد کی زندگی حقیقت میں قوم کی امانت ہے۔
اقبال نے اصلاحِ تمدن کی ذیل میں حقوقِ نسواں کے مسئلے کو خصوصیت کے ساتھ چھیڑا ہے اور اس وقت مسلمانانِ ہند میں خواتین کو جن مسائل کا سامنا تھا، اُن کی اصلاح کو تمدن کی فلاح و اصلاح کے لیے بہت ضروری سمجھا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے تعددِ ازدواج، نسوانی حیا اور پردہ، تعلیم نسواں اور تربیت سے وابستہ امور پر سیر حاصل گفت گو کی ہے اور وہ اس بات پر شدت سے زور دیتے ہیں کہ اسلام میں عورتوں کی حیثیت غلامانہ ہرگز نہیں ہے۔ چناں چہ اقبال عورتوں کو صرف فرائض کی ادائیگی تک محدود نہیں دیکھنا چاہتے بل کہ اس بات کے خواہاں ہیں کہ عورت کو تمدن کی جڑ سمجھتے ہوئے تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا اشد ضروری سمجھا جائے۔ علامہ کے نزدیک:''مرد کی تعلیم صرف فردِ واحد کی تعلیم ہے، مگر عورت کو تعلیم دینا حقیقت میں پورے خاندان کو تعلیم دینا ہے۔ دنیا میں کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی، اگر اس قوم کا آدھا حصہ جاہل مطلق رہ جائے۔'' اسی طرح وہ شادی کی قبیح رسومات کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں جو نہ صرف قومی زندگی کے تمدن کو برباد کر رہی ہیں بل کہ روپے پیسے اور وقت کا ضیاع بھی ہیں۔ دیگر حوالوں سے بھی اقبال نے بڑی مہارت کے ساتھ اصلاحِ تمدن کی ضرورت پر زوردیا ہے۔
اصلاحِ احوال کی ذیل میں اقبال نے تیسری بنیادی ضرورت 'تعلیم عام' کو قرار دیا ہے اور اس نقطئہ نظر کی تفہیم کرائی ہے کہ عام طور پر مسلمانوں کا قیاس یہ ہے کہ تعلیم کا مقصد محض دماغی تربیت ہے حال آں کہ یہ بات درست نہیں، تعلیم کا حقیقی مقصد نوجوانوں میں تمدنی فرائض انجام دینے کی قابلیت پیدا کرنا ہے۔ نوجوانوں کے لیے وہ تعلیم زیادہ مفید ہے جو ہنرمندی، دست کاری اور صنعت و حرفت کی صلاحیتوں سے انھیں پورے طور پر بہرہ ور کر سکے۔ ایسا کرنے سے دوسری قوموں کی دریوزہ گری سے نجات ملنے کے ساتھ ساتھ خود اپنی ضروریات کو اپنی محنت سے حاصل کرنے کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اقبال قومی زندگی کے لیے تعلیمِ عام کی اہمیت کے شدید قائل ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ: ''جو قوم تعلیم کی اس نہایت ضروری شاخ(صنعت و حرفت) کی طرف توجہ نہ کرے گی وہ یقینا ذلیل و خوار ہوتی جائے گی، یہاں تک کہ صفحۂ ہستی پر اُس کا نام و نشاں بھی باقی نہ رہے گا ۔ لیکن افسوس مسلمان ہے کہ مسلمان بالخصوص اس سے غافل ہیں اور مجھے اندیشہ ہے کہ وہ اپنی غفلت کا خمیازہ نہ اٹھائیں۔''
یوں ''قومی زندگی'' ایک ایسا قابلِ قدر مضمون ہے جس میں علامہ اقبال نے بڑی دردمندی کے ساتھ اس وقت کے ہندوستان، بالخصوص وہاں کے مسلمانوں کی تمدنی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر اظہارِ خیال کیا ہے۔ اقبال نے کم و بیش ایک صدی پیش تر جن مسائل کا ادراک کیا اور اس وقت کی مناسبت سے جس طرح ان کے حل تجویز کیے، وہ بلاشبہہ ان کی نفسیاتی و سماجی بصیرت کی ایک عمدہ مثال ہے۔ اب جب کہ پاکستان کے قیام کو ستر سال ہو گئے ہیں، اس نظریاتی مملکت کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔ عالمی سیاسی منظرنامے سے قطع نظر کرتے ہوئے محض تمدنی سطح ہی پر دیکھا جائے تو ارضِ وطن کی سماجی و اقتصادی مشکلات ہنوز وہی ہیں جو اقبال کے زیر نظر مضمون میں بیان ہو چکیں۔ ہماری 'قومی زندگی' کا اب بھی کوئی پرسانِ حال نہیں ۔آج بھی اقوامِ غیر کی دریوزہ گری درپیش ہے۔
اتفاق و اتحاد ناپید ہے۔ رسوم و رواج کی افراط ہے۔ خود آگے بڑھ کر اپنی حالتِ زار درست کرنے کی جانب توجہ نہیں۔ جرائم میں روز بروز اضافہ اوربے روزگاری سے پیدا ہونے والے مسائل مزید پریشانی کا باعث ہیں ۔ طبقۂ امرا فلاحِ عامہ کے بجائے عیش و عشرت کے سامان بہم پہنچانے میں محو ہے۔ تعلیم محض دماغی تربیت کا ذریعہ ہے اور صنعت و حرفت و تجارت جیسی عام تعلیمی قابلیتوں سے صرفِ نظر کرنے کے باعث غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عورت آج بھی غلامانہ زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور حقوقِ نسواں کی پاسداری کا شعور تک نہیں۔ اسے تعلیم کی سہولیات حاصل نہیں اور نہ ہی اس کی تربیت خالصتاً اسلامی انداز نظر کے مطابق کی جا رہی ہے بل کہ زیادہ تر رواجی و سماجی قوانین کے آئینے میں قوم کے اس نصف حصے کی صلاحیتیں برباد کی جا رہی ہیں۔
یہ تو صرف وہ مسائل ہیں، جو علامہ اقبال نے ''قومی زندگی'' میں ذکر فرمائے تھے ۔مسائل اور مصائب تو مزید بڑھ چکے ہیں اور سیاسی و عصری منظرنامہ بھی تبدیل ہو چکا ہے۔ ایسے میں وقت کے تقاضوں کو پہچاننے کی ضرورت ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ یاد رہے کہ جس قوم کے پاس اقبال جیسا شاعر ہو، اُسے نہ تو مایوس ہونے کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی لائحۂ عمل وضع کرنے کے لیے پریشان ہونے کی۔ اقبال کے اشعار اور اُن کے افکار کی تفہیم اور پھر ان کا ابلاغ آج بھی ہماری 'قومی زندگی' کی فلاح و بقا اور اس کی بدنصیبی کو خوش نصیبی میں بدلنے کے لیے بے حد ضروری ہے۔ خود اقبال کہہ گئے ہیں:
تلاش اس کی فضاؤں میں کر نصیب اپنا
جہانِ تازہ مری آہِ صبحگاہ میں ہے!
مرے کدو کو غنیمت سمجھ کہ بادئہ ناب
نہ مدرسے میں ہے باقی، نہ خانقاہ میں ہے!