جنوبی ایشیامیں دہشتگردی کا ذمے دارامریکا ہے پرویز مشرف
افغانستان میں ایسی حکومت لانے کی ضرورت ہے جس میں پشتونوں کی نمائندگی زیادہ ہو
سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے جنوبی ایشیا میں دہشتگردی کا ذمے دار امریکا کو ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا کی ناکام پالیسیوں کی وجہ سے جنوبی ایشیاء میں دہشت گردی بڑھ رہی ہے۔
فارن پالیسی میگزین میں اپنے آرٹیکل میں پرویز مشرف نے لکھا ہے کہ امریکیوں نے پہلی غلطی1989ء میں کی جب انھوں نے سوویت یونین کے جانے کے بعد افغانستان کو چھوڑ دیا اور پاکستان سے دوری پیدا کر لی ۔ اپنی غلطیوں کو انھوں نے مزید بڑھاوا دیا اور امریکا نے بھارت کیساتھ اسٹریٹجک تعلقات کو فروغ دیا اور پاکستان پر پابندیاں عائد کر دیں ۔
مشرف کے بقول دوسری امریکی غلطی اس وقت ہوئی جب امریکا نے افغانستان میں موجود طالبان کو تنہا چھوڑ دیا۔ مشرف نے لکھا کہ میں نے مختلف حکمت عملی تجویز کی تھی کہ امریکا اور دنیا طالبان کو تسلیم کرے اور افغانستان میں سفارتخانے کھولے لیکن کلنٹن اس بات پر متفق نہیں ہوئے اور امریکا نے تنہائی کی پالیسی جاری رکھی۔ اگر واشنگٹن نے طالبان کیساتھ سفارتی تعلقات رکھے ہوتے تو امریکا اور پاکستان مشترکہ طور پر نائن الیون کے بعد اسامہ کو ان کے حوالے کرنے کیلیے طالبان پر زور ڈال سکتے تھے لیکن بدقسمتی سے پاکستان اکیلا تھا اور میں نے ہر طرح کے لوگوں پر مشتمل پانچ وفود بھیجے جس میں مذہبی رہنما بھی شامل تھے تاکہ وہ ملا عمر کو اسامہ کو دینے پر زور دے سکیں۔
تیسری غلطی نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکا کا حملہ کرنا تھا۔ وہ ایک سیاسی فتح کو افغانستان میں فوجی فتح میں تبدیل کرنے میں ناکام رہے۔ مشرف نے کہا کہ کابل میں امریکا نے حکومت بنائی جو لوگوں کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہی جس کی وجہ سے 2005 اور 2006 میں طالبان واپس آئے ۔ ہمیں ایسی حکومت لانے کی ضرورت ہے جس میں پشتون زیادہ ہوں کیونکہ پشتون ہی افغانستان میں زیادہ تعداد میں ہیں۔
فارن پالیسی میگزین میں اپنے آرٹیکل میں پرویز مشرف نے لکھا ہے کہ امریکیوں نے پہلی غلطی1989ء میں کی جب انھوں نے سوویت یونین کے جانے کے بعد افغانستان کو چھوڑ دیا اور پاکستان سے دوری پیدا کر لی ۔ اپنی غلطیوں کو انھوں نے مزید بڑھاوا دیا اور امریکا نے بھارت کیساتھ اسٹریٹجک تعلقات کو فروغ دیا اور پاکستان پر پابندیاں عائد کر دیں ۔
مشرف کے بقول دوسری امریکی غلطی اس وقت ہوئی جب امریکا نے افغانستان میں موجود طالبان کو تنہا چھوڑ دیا۔ مشرف نے لکھا کہ میں نے مختلف حکمت عملی تجویز کی تھی کہ امریکا اور دنیا طالبان کو تسلیم کرے اور افغانستان میں سفارتخانے کھولے لیکن کلنٹن اس بات پر متفق نہیں ہوئے اور امریکا نے تنہائی کی پالیسی جاری رکھی۔ اگر واشنگٹن نے طالبان کیساتھ سفارتی تعلقات رکھے ہوتے تو امریکا اور پاکستان مشترکہ طور پر نائن الیون کے بعد اسامہ کو ان کے حوالے کرنے کیلیے طالبان پر زور ڈال سکتے تھے لیکن بدقسمتی سے پاکستان اکیلا تھا اور میں نے ہر طرح کے لوگوں پر مشتمل پانچ وفود بھیجے جس میں مذہبی رہنما بھی شامل تھے تاکہ وہ ملا عمر کو اسامہ کو دینے پر زور دے سکیں۔
تیسری غلطی نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکا کا حملہ کرنا تھا۔ وہ ایک سیاسی فتح کو افغانستان میں فوجی فتح میں تبدیل کرنے میں ناکام رہے۔ مشرف نے کہا کہ کابل میں امریکا نے حکومت بنائی جو لوگوں کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہی جس کی وجہ سے 2005 اور 2006 میں طالبان واپس آئے ۔ ہمیں ایسی حکومت لانے کی ضرورت ہے جس میں پشتون زیادہ ہوں کیونکہ پشتون ہی افغانستان میں زیادہ تعداد میں ہیں۔