ایم کیو ایم اور پی ایس پی کا اتحاد …امکانات و خدشات

مذکورہ جماعتوں کی جانب سے تیسری سیاسی قوت بننے کی جانب کوششیں تیز ہوگئی

مذکورہ جماعتوں کی جانب سے تیسری سیاسی قوت بننے کی جانب کوششیں تیز ہوگئی۔ فوٹو:فائل

سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا، یہاں اتحاد بنتے بگڑتے ہیں، ماضی کے حریف مفادات کے تحت گلے مل کر تمام گلے شکوے بھلا دیتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ مظہربدھ کو کراچی پریس کلب میں اس وقت سامنے آیا جب ایم کیو ایم پاکستان کے فاروق ستار اور پاک سرزمین پارٹی کے مصطفیٰ کمال نے آیندہ انتخابات میں ایک ہونے کا فیصلہ کیا ہے، اگلا انتخاب ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی ایک نام، ایک منشور اور ایک پارٹی کے ساتھ لڑیں گی، اس کا مقصد کراچی اور سندھ کے ووٹ بینک کو تقسیم ہونے سے روکنا ہے۔

ماضی میں بھی انتخابات کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں کا الحاق اور مفاہمت سامنے آتی رہی ہے لیکن شہر قائد کی اہمیت کے تناظر اور موجودہ منتشر سیاسی فضا میں ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی کی اس مفاہمت کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ مذکورہ فیصلہ فریقین کی سیاسی بصیرت، تدبر اور مستقبل شناسی کو ظاہر کرتا ہے، یوں لگتا ہے کہ مذکورہ جماعتوں کی جانب سے تیسری سیاسی قوت بننے کی جانب کوششیں تیز ہوگئی ہیںتاہم جمعرات کو ایم کیو ایم پاکستان کا مشاورتی اجلاس ہوا جس میں فاروق ستار شریک نہیں ہوئے 'کنور ندیم کی زیر صدارت یہ اجلاس ہوا' اس کے بعد پی ایس پی اور ایم کیو ایم کے اتحاد کے مستقبل کے حوالے سے چہ مگوئیاں ہوتی رہیں۔بہر حال دیکھنا یہ ہے کہ اس صورت حال کا حتمی نتیجہ کیا نکلتا ہے۔

ایم کیو ایم کو کراچی کی بااثر اسٹیک ہولڈر جماعت کا درجہ حاصل ہے اور پی ایس پی کے تمام ہی رہنما سابقہ ایم کیو ایم سے تعلق رکھتے ہیں جن کا شہر کی سیاست میں موثر کردار رہا ہے۔ بلاشبہ اگر دونوں جماعتوں میں سیاسی معاملات پر کوئی مفاہمت آیندہ الیکشن کے تناظر میںہوجاتی ہے توکراچی کے سیاسی موسم پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے، اس اتحاد سے شہر کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے کہ ایم کیو ایم جو مہاجروں کا برانڈ نیم ہے اور ووٹرز اسی نام اور نشان سے جذباتی طور پر وابستہ ہیں وہ کسی نئے نام کو اتنی جلد قبول کر پائیں گے؟


واضح رہے کہ کراچی پریس کلب میں مشترکہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال نے واضح عندیہ دیا کہ مشترکہ اتحاد کا نام آیندہ اجلاس میں طے ہو گا تاہم ایم کیو ایم پاکستان ختم نہیں ہو رہی، نہ ہی پی ایس پی ضم ہوگی بلکہ یہ ایک سیاسی اتحاد ہوگا۔ جمعرات کو اس حوالے سے خاصی باتیں بھی سامنے آتی رہیں' یہ بھی کہا گیا کہ ایم کیو ایم کے اکثر ارکان پارٹی کا نام تبدیل کرنا چاہتے ہیں نہ ہی اس کے انتخابی نشان اور جھنڈے کے رنگ میں تبدیلی چاہتے ہیں۔ایم کیو ایم اور پی ایس پی کے درمیان کافی عرصہ سے مشاورتی عمل جاری تھا جس میں معاملات کسی حد تک آگے بڑھتے نظر آ رہے ہیں۔

یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ماضی میں پرشکوہ اور عظیم مقام رکھنے والا شہر قائد آج اپنی حقیقی شناخت کی تلاش میں ہے، پاکستان کے اس معاشی ہب کی بدقسمتی رہی کہ سیاسی جماعتوں نے اس شہر سے اپنے مفادات تو حاصل کیے لیکن کسی نے بھی اسے ''اون'' کرنے کی جرأت نہیں کی۔ کراچی میں صرف مہاجرین ہی نہیں پاکستان کے ہر شہر سے آئے ہوئے ہر قومیت کے افراد رہائش پذیر ہیں، اس شہر کے مسائل سے صرف نظر کرنے سے وہ اتنے گنجلک ہوگئے کہ حالات سنبھالے نہیں سنبھل رہے، شہر کچرے کا ڈھیر بن چکا ہے، لوگ گندا پانی پینے پر مجبور ہیں، شہر کے بیشتر علاقے صاف پانی سے محروم ہیں، بلدیاتی سہولیات عنقا ہیں۔

اس پر مستزاد ماضی میں پرتشدد سیاست، گینگ وار اور اختیارات کی جنگ نے بھی اس شہر کو کافی نقصان پہنچایا۔ اس تمام تر صورتحال میں ایم کیو ایم اور پی ایس پی کی مفاہمت کو شہری ایک نئے دور سے تعبیر کررہے ہیں لیکن ساتھ ہی ایک نیا بحران سامنے آنے کا بھی اندیشہ ہے، بدھ کو ہونے والے مذکورہ فیصلے سے ایم کیوایم کے کئی اہم اور سینئر رہنماؤں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے، عامر خان، شبیر قائم خانی، کشور زہرا، کنور نوید، شاہد پاشا، امین الحق اور کئی اراکین اسمبلی ناخوش ہیں، جب کہ علی رضا عابدی نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا ہے، جس کے بعد اس بات کا امکان ہے کہ کراچی کی سیاست میں مہاجر سیاست کے حوالے سے خلا بدستور برقرار رہے گا، اس بات کے بھی اشارے مل رہے ہیں کہ سینئر رہنما جلد اس بارے میں اپنے فیصلے کا بھی اعلان کریں گے، جب کہ ایم کیو ایم پاکستان نے اپنے ناراض رہنماؤں کو اعتماد میں لینے کا اعلان کیا ہے۔

سابقہ متحدہ کے بانی کی متنازعہ تقریر کے بعد مہاجر قوم جس سیاسی بحران سے دوچار ہوئی اس مرحلے تک پہنچنے کے بعد کوشش کی جانی چاہیے کہ یہ مثبت اقدام ضایع نہ جائے، سیاسی رہنماؤں کو شہر قائد اور مہاجروں کے وسیع تر مفاد میں فیصلہ لینے کی ضرورت ہے۔ امید ہے کہ ایم کیو ایم اور پی ایس پی کی قیادت ذمے داری کا ثبوت دیں گے۔ ماضی کے اختلافات بھلا کر ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرنا چاہیے، معاملہ فہمی کا مظاہرہ کیا جائے، سب کو مل کر اپنی اپنی ذمے داری ادا کرنی ہے اور شہر کو سیاسی بحران سے بچانا ہے۔
Load Next Story