جہانگیر بدر پیپلزپارٹی کا ایک دکھی جیالا
کارکن آخری وقت تک پارٹی مسائل کے حوالے سے سارا غصہ جہانگیر بدر پر ہی نکالتے تھے
جہانگیر بدر کو دنیا سے رخصت ہوئے ایک سال بیت گیا، ان کا سیاسی کردار، جمہوریت کی بقا اور ترویج کے لیے ان کی شاندار جدوجہد سیاست کے طالب علموں اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک مکمل درسگاہ کی حیثیت سے قائم رہے گی۔ آج کے مفاد پرست سیاستدانوں اور کرپشن سے لتھڑے ہوئے جاگیرداروں اور وڈیروں کے لیے وہ ایک مثال تھے۔ مارشل لاء ہو یا ایمرجنسیوں کے تازیانے ہوں، چلچلاتی دھوپ میں آزادیٔ جمہورکے لیے پابجولاں تحریک ہو یا جیل کی کال کوٹھری میں گزارے جانے والے کربناک لمحات ہوں، جہانگیر بدر نے انسانی معاشرے کی معراج یعنی جمہوریت کو شرمندہ نہ ہونے دیا۔ بقول شاعر
کردار ہی کی بات ہے وگرنہ عارف
قد میں تو سایہ بھی انسان سے بڑا ہوتا ہے
وہ مجھ سے اکثر کہا کرتے تھے کہ پاکستان میں ہمیشہ سیاستدانوں کی وجہ سے ڈکٹیٹر شپ قائم ہوئی۔ چونکہ میرا اور جہانگیر بدر کا ساتھ زمانہ طالب علمی سے تھا، وہ مجھ سے سینئر ضرور تھے مگر ''سیاسی دوستی'' اور اُن کی دل جوئی نے کبھی سینئر جونیئر کا فرق محسوس نہیں ہونے دیا تھا۔ اس لیے اُن سے اکثر دل کی باتوں کا تبادلہ ہو جایا کرتا تھا۔زمانہ طالب علمی سے پرجوش اور دلیر رہے۔70ء کی دہائی میں طلبہ سیاست سے کیرئیر آغاز کیا۔ جہانگیر بدر بھی ایوب خان کے خلاف چلنے والی طلبہ تحریک کی صف اول کی قیادت میں شامل تھے۔ اور پھر1966ء میں ذوالفقار علی بھٹوسے ملے اور پھر پیپلز پارٹی کا ساتھ کبھی نہ چھوڑا۔
جہانگیر بدر اکثر میرے گھر آیا کرتے تھے، میرے والد مرحوم اُن سے بڑی شفقت کرتے تھے چونکہ وہ خود بھی پیپلز پارٹی کا حصہ تھے۔ ضیاء کے دور میں 1985ء تک ہمارے گھر کی چھت پر پیپلز پارٹی کا جھنڈا لہرانے نہیں دیا گیا تھا، جب بھی پارٹی کا جھنڈا لگایا جاتا پولیس آ کر اتار دیتی۔کوئی عید، کوئی تہوار ہم اپنے گھروں میں نہیں منا سکتے تھے۔جب دل چاہتا پولیس ہمیں گھر میں نظر بند کردیتی تھی۔ 1985ء میں آغانوید، محمد اعظم، عثمان سلیم وغیرہ جیسے پیپلز پارٹی کے جیالوں کے ہمراہ مجھے بھی گرفتار کر لیا گیا، یوں شاہی قلعہ کی قید سے آشنائی ہوئی۔
تاریخ گواہ ہے کہ 10 اپریل 1986ء کو لاہور میں بینظیر بھٹو کا جو فقیدالمثال استقبال اور جلسہ ہوا، لاہور کی تاریخ میں آج تک ایسا جلسہ کسی نے نہیں دیکھا ہوگا۔ جہانگیر بدر اس مہم کا ہیرو اور بینظیر کا بھائی قرار پایا۔ اسے پی پی پی کے جیالوں کے نام ازبر تھے۔انھی دنوں بینظیر نے لاہور آکر طوفانی دورے کیے اور بے تحاشا جلسے کیے، اور یہ سب کچھ جہانگیر بدر ہی کی مرہون منت رہا۔
جنرل ضیا الحق کے دور میں اکثر وقت جہانگیر بدر نے جیل میں گزارا اور ان کو کوڑے بھی لگے۔ انھوں نے قلعہ بھی بھگتا۔ ضیاء الحق حادثے میں جاں بحق ہوگئے اور پھر ''موسمی سیاستدانوں'' اور ضیاء کی باقیات نے سر اٹھانا شروع کردیا۔ 1988ء میں فاروق لغاری نے بینظیر کو اُکسا کر ضیاء کی باقیات کو پارٹی میں شامل کر لیا اور''بھٹو کا مشن ''پیچھے چھوڑ دیا گیا، جہانگیر بدر جیسے رہنماؤں کو بہت تکلیف پہنچی۔ وہ بینظیر کی اس زیادتی پر کڑھتے رہتے تھے، یہی حال آج تحریک انصاف کے ساتھ ہے جس میں نظریاتی کارکن پیچھے چلا گیا ہے اور ''وننگ اُمیدوار'' امپورٹ کیے جارہے ہیں۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ جیسے آج عمران خان کو اُکسایا جارہا ہے کہ وہ ایسے امیدوار لائیں جو الیکشن ونر ہوں، ایسے ہی فاروق لغاری گروپ بینظیر کو اُکسایا کرتا تھا ۔بینظیر اُن لوگوں کی باتوں میں آ گئیں اور ضیاء کی باقیات کو پارٹی میں شامل کرنا شروع کر دیا جس کا جہانگیر بدر کو بہت دکھ تھا، مجھے یاد ہے کہ 1988ء میں غلام اسحاق خان نے بینظیر کو مشروط حکومت دی تو جہانگیر بدر اس کے سب سے بڑے مخالف تھے، وہ اپوزیشن میں بیٹھنا چاہتے تھے مگر ضیاء کی باقیات ہر قیمت پر اقتدار میں بیٹھنا چاہتی تھیں۔ وہ 1988ء کی ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت بھی بہت دکھی تھے اور اکثر ملاقاتوں میں کہا کرتے تھے کہ جو ہورہا ہے برا ہو رہا ہے، اس سے پارٹی کو نقصان ہوگا۔کئی دفعہ جہانگیر بدر سے ملاقات ہوتی تو اکثر پارٹی کی باتیں لے کر دل کی بھڑاس نکالا کرتے تھے۔ کارکنوں کی آخری اُمید اور سہارا وہی تھے،کارکن آخری وقت تک پارٹی مسائل کے حوالے سے سارا غصہ جہانگیر بدر پر ہی نکالتے تھے ورنہ کس کی جرأت تھی کہ وہ فاروق لغاری، شاہ محمود قریشی یا مخدوم امین فہیم وغیرہ کو کچھ کہہ سکے؟
بہرکیف یہی غلطیاں آج عمران خان کر رہے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ وہ چند شخصیات پسند کے ذریعے اقتدار میں آسکتے ہیں۔ حالانکہ جنرل الیکشن میں وننگ اُمیدوار کوئی نہیں ہوتا، یہ ایک لہر ہوتی ہے جو لوگوں کے خیالات کو تبدیل کر تی ہے۔ جنرل الیکشن میں ہمیشہ خاموش ووٹ اپنا کردار ادا کرتا ہے۔وہ ظلم دیکھتا ہے، کرپشن دیکھتا ہے، زیادتیاں دیکھتا اور محسوس کرتا ہے اورپھر اپنا فیصلہ سناتا ہے۔
بینظیر بھی یہ سمجھتی تھیں کہ انھیں وننگ امیدوار چاہئیں، اس تاثر نے پیپلزپارٹی کو تباہ کیا۔میرے خیال میں بینظیر بھی پارٹی کی تباہی میں اتنی ہی شامل ہے جتنا آصف علی زرداری شامل ہیں۔ آج عمران خان بھی اسی راستے پرہے۔ آج جو تحریک انصاف کا ووٹر ہے وہ حقیقت میں پیپلز پارٹی کا ووٹر ہے، اگر عمران خان نے بھی وہی کیا جو 1988ء میں کیا تھاتو اس کا حشر بھی پیپلزپارٹی جیسا ہی ہوگا۔ میرا آج کا موضوع تحریک انصاف نہیں مگر جو باتیں جہانگیر بدر کہا کرتے تھے آج وہ ساری عمران خان اور اس کی پارٹی پر پوری اتررہی ہیں۔ انھیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ انھیں حکومت دیتی ہے جو اس کے چمچے اور کڑچھے ہوتے ہیں۔
خیر بات ہورہی تھی جہانگیر بدر کی تو وہ خود مانا کرتے تھے کہ ہم اپنے اصل مقصد سے پیچھے ہٹ چکے ہیں، وہ کہا کرتے تھے کہ پارٹی کے چند لوگ کرپشن کرتے ہیں لیکن بدنام سب ہوتے ہیں۔ جہانگیر جیسا نفیس شخص اور اس جیسے کارکن دل ہی دل میں کڑھتے رہے۔اُس شخص نے اپنی پوری زندگی پیپلز پارٹی کے لیے خرچ کر دی جب کہ زیادتی کی انتہا دیکھیں کہ اُن کے اوپر وہ لوگ آکر بیٹھ گئے جن کا پیپلز پارٹی کے ساتھ دور دور کا تعلق نہیں تھا، اور آخری وقت میں تو سینیٹ کی ٹکٹ بلاول بھٹو نے لے کر دی تھی ورنہ زرداری کبھی یہ نہ ہونے دیتے ۔ کیونکہ وہ مخصوص لوگوں کو آگے لانا چاہتے تھے۔
خیر یہ باتیں چلتی رہیں گی مگر جہانگیر بدر کا شمار پاکستان میں ان سیاستدانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے کبھی سیاسی وفاداریاں تبدیل نہیں کیں اور نہ آمریت کے سامنے سر تسلیم خم کیا۔ چاہے وہ ایوب خان، یحییٰ خان اور پرویز مشرف کا آمریت کا دور ہو۔ ان کی حالیہ قید جنرل مشرف کے دور حکومت میں تھی۔ وہ اکثر سیاسی وابستگی اور سیاسی سرگرمیوں کی بنا پر ہی پابند سلاسل کیے جاتے رہے ہیں۔پارٹی کے ہر مشکل وقت میں ہمیشہ مخالفین کے لیے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے اور پیپلز پارٹی نے بھی ہمیشہ ان پر بڑی ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ خوب بھروسہ کیا۔
جہانگیر بدر کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے پیپلز پارٹی کے بانی قائد ذوالفقار علی بھٹو شہید، بیگم نصرت بھٹو، محترمہ بینظیر بھٹو شہید، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ اپنی سیاسی سرگرمیاں عروج پر رکھیں اور انھوں نے پیپلز پارٹی کی تین نسلوں کے ساتھ وفاداریوں کا ثبوت تا مرگ نبھایا۔وہ دکھی تھے اور دکھی ہی چلے گئے مگر اُن کی کہی ہوئی باتیں آج کی سیاست خصوصاََ تحریک انصاف پر مکمل فٹ بیٹھتی ہیں۔
کردار ہی کی بات ہے وگرنہ عارف
قد میں تو سایہ بھی انسان سے بڑا ہوتا ہے
وہ مجھ سے اکثر کہا کرتے تھے کہ پاکستان میں ہمیشہ سیاستدانوں کی وجہ سے ڈکٹیٹر شپ قائم ہوئی۔ چونکہ میرا اور جہانگیر بدر کا ساتھ زمانہ طالب علمی سے تھا، وہ مجھ سے سینئر ضرور تھے مگر ''سیاسی دوستی'' اور اُن کی دل جوئی نے کبھی سینئر جونیئر کا فرق محسوس نہیں ہونے دیا تھا۔ اس لیے اُن سے اکثر دل کی باتوں کا تبادلہ ہو جایا کرتا تھا۔زمانہ طالب علمی سے پرجوش اور دلیر رہے۔70ء کی دہائی میں طلبہ سیاست سے کیرئیر آغاز کیا۔ جہانگیر بدر بھی ایوب خان کے خلاف چلنے والی طلبہ تحریک کی صف اول کی قیادت میں شامل تھے۔ اور پھر1966ء میں ذوالفقار علی بھٹوسے ملے اور پھر پیپلز پارٹی کا ساتھ کبھی نہ چھوڑا۔
جہانگیر بدر اکثر میرے گھر آیا کرتے تھے، میرے والد مرحوم اُن سے بڑی شفقت کرتے تھے چونکہ وہ خود بھی پیپلز پارٹی کا حصہ تھے۔ ضیاء کے دور میں 1985ء تک ہمارے گھر کی چھت پر پیپلز پارٹی کا جھنڈا لہرانے نہیں دیا گیا تھا، جب بھی پارٹی کا جھنڈا لگایا جاتا پولیس آ کر اتار دیتی۔کوئی عید، کوئی تہوار ہم اپنے گھروں میں نہیں منا سکتے تھے۔جب دل چاہتا پولیس ہمیں گھر میں نظر بند کردیتی تھی۔ 1985ء میں آغانوید، محمد اعظم، عثمان سلیم وغیرہ جیسے پیپلز پارٹی کے جیالوں کے ہمراہ مجھے بھی گرفتار کر لیا گیا، یوں شاہی قلعہ کی قید سے آشنائی ہوئی۔
تاریخ گواہ ہے کہ 10 اپریل 1986ء کو لاہور میں بینظیر بھٹو کا جو فقیدالمثال استقبال اور جلسہ ہوا، لاہور کی تاریخ میں آج تک ایسا جلسہ کسی نے نہیں دیکھا ہوگا۔ جہانگیر بدر اس مہم کا ہیرو اور بینظیر کا بھائی قرار پایا۔ اسے پی پی پی کے جیالوں کے نام ازبر تھے۔انھی دنوں بینظیر نے لاہور آکر طوفانی دورے کیے اور بے تحاشا جلسے کیے، اور یہ سب کچھ جہانگیر بدر ہی کی مرہون منت رہا۔
جنرل ضیا الحق کے دور میں اکثر وقت جہانگیر بدر نے جیل میں گزارا اور ان کو کوڑے بھی لگے۔ انھوں نے قلعہ بھی بھگتا۔ ضیاء الحق حادثے میں جاں بحق ہوگئے اور پھر ''موسمی سیاستدانوں'' اور ضیاء کی باقیات نے سر اٹھانا شروع کردیا۔ 1988ء میں فاروق لغاری نے بینظیر کو اُکسا کر ضیاء کی باقیات کو پارٹی میں شامل کر لیا اور''بھٹو کا مشن ''پیچھے چھوڑ دیا گیا، جہانگیر بدر جیسے رہنماؤں کو بہت تکلیف پہنچی۔ وہ بینظیر کی اس زیادتی پر کڑھتے رہتے تھے، یہی حال آج تحریک انصاف کے ساتھ ہے جس میں نظریاتی کارکن پیچھے چلا گیا ہے اور ''وننگ اُمیدوار'' امپورٹ کیے جارہے ہیں۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ جیسے آج عمران خان کو اُکسایا جارہا ہے کہ وہ ایسے امیدوار لائیں جو الیکشن ونر ہوں، ایسے ہی فاروق لغاری گروپ بینظیر کو اُکسایا کرتا تھا ۔بینظیر اُن لوگوں کی باتوں میں آ گئیں اور ضیاء کی باقیات کو پارٹی میں شامل کرنا شروع کر دیا جس کا جہانگیر بدر کو بہت دکھ تھا، مجھے یاد ہے کہ 1988ء میں غلام اسحاق خان نے بینظیر کو مشروط حکومت دی تو جہانگیر بدر اس کے سب سے بڑے مخالف تھے، وہ اپوزیشن میں بیٹھنا چاہتے تھے مگر ضیاء کی باقیات ہر قیمت پر اقتدار میں بیٹھنا چاہتی تھیں۔ وہ 1988ء کی ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت بھی بہت دکھی تھے اور اکثر ملاقاتوں میں کہا کرتے تھے کہ جو ہورہا ہے برا ہو رہا ہے، اس سے پارٹی کو نقصان ہوگا۔کئی دفعہ جہانگیر بدر سے ملاقات ہوتی تو اکثر پارٹی کی باتیں لے کر دل کی بھڑاس نکالا کرتے تھے۔ کارکنوں کی آخری اُمید اور سہارا وہی تھے،کارکن آخری وقت تک پارٹی مسائل کے حوالے سے سارا غصہ جہانگیر بدر پر ہی نکالتے تھے ورنہ کس کی جرأت تھی کہ وہ فاروق لغاری، شاہ محمود قریشی یا مخدوم امین فہیم وغیرہ کو کچھ کہہ سکے؟
بہرکیف یہی غلطیاں آج عمران خان کر رہے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ وہ چند شخصیات پسند کے ذریعے اقتدار میں آسکتے ہیں۔ حالانکہ جنرل الیکشن میں وننگ اُمیدوار کوئی نہیں ہوتا، یہ ایک لہر ہوتی ہے جو لوگوں کے خیالات کو تبدیل کر تی ہے۔ جنرل الیکشن میں ہمیشہ خاموش ووٹ اپنا کردار ادا کرتا ہے۔وہ ظلم دیکھتا ہے، کرپشن دیکھتا ہے، زیادتیاں دیکھتا اور محسوس کرتا ہے اورپھر اپنا فیصلہ سناتا ہے۔
بینظیر بھی یہ سمجھتی تھیں کہ انھیں وننگ امیدوار چاہئیں، اس تاثر نے پیپلزپارٹی کو تباہ کیا۔میرے خیال میں بینظیر بھی پارٹی کی تباہی میں اتنی ہی شامل ہے جتنا آصف علی زرداری شامل ہیں۔ آج عمران خان بھی اسی راستے پرہے۔ آج جو تحریک انصاف کا ووٹر ہے وہ حقیقت میں پیپلز پارٹی کا ووٹر ہے، اگر عمران خان نے بھی وہی کیا جو 1988ء میں کیا تھاتو اس کا حشر بھی پیپلزپارٹی جیسا ہی ہوگا۔ میرا آج کا موضوع تحریک انصاف نہیں مگر جو باتیں جہانگیر بدر کہا کرتے تھے آج وہ ساری عمران خان اور اس کی پارٹی پر پوری اتررہی ہیں۔ انھیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ انھیں حکومت دیتی ہے جو اس کے چمچے اور کڑچھے ہوتے ہیں۔
خیر بات ہورہی تھی جہانگیر بدر کی تو وہ خود مانا کرتے تھے کہ ہم اپنے اصل مقصد سے پیچھے ہٹ چکے ہیں، وہ کہا کرتے تھے کہ پارٹی کے چند لوگ کرپشن کرتے ہیں لیکن بدنام سب ہوتے ہیں۔ جہانگیر جیسا نفیس شخص اور اس جیسے کارکن دل ہی دل میں کڑھتے رہے۔اُس شخص نے اپنی پوری زندگی پیپلز پارٹی کے لیے خرچ کر دی جب کہ زیادتی کی انتہا دیکھیں کہ اُن کے اوپر وہ لوگ آکر بیٹھ گئے جن کا پیپلز پارٹی کے ساتھ دور دور کا تعلق نہیں تھا، اور آخری وقت میں تو سینیٹ کی ٹکٹ بلاول بھٹو نے لے کر دی تھی ورنہ زرداری کبھی یہ نہ ہونے دیتے ۔ کیونکہ وہ مخصوص لوگوں کو آگے لانا چاہتے تھے۔
خیر یہ باتیں چلتی رہیں گی مگر جہانگیر بدر کا شمار پاکستان میں ان سیاستدانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے کبھی سیاسی وفاداریاں تبدیل نہیں کیں اور نہ آمریت کے سامنے سر تسلیم خم کیا۔ چاہے وہ ایوب خان، یحییٰ خان اور پرویز مشرف کا آمریت کا دور ہو۔ ان کی حالیہ قید جنرل مشرف کے دور حکومت میں تھی۔ وہ اکثر سیاسی وابستگی اور سیاسی سرگرمیوں کی بنا پر ہی پابند سلاسل کیے جاتے رہے ہیں۔پارٹی کے ہر مشکل وقت میں ہمیشہ مخالفین کے لیے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے اور پیپلز پارٹی نے بھی ہمیشہ ان پر بڑی ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ خوب بھروسہ کیا۔
جہانگیر بدر کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے پیپلز پارٹی کے بانی قائد ذوالفقار علی بھٹو شہید، بیگم نصرت بھٹو، محترمہ بینظیر بھٹو شہید، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ اپنی سیاسی سرگرمیاں عروج پر رکھیں اور انھوں نے پیپلز پارٹی کی تین نسلوں کے ساتھ وفاداریوں کا ثبوت تا مرگ نبھایا۔وہ دکھی تھے اور دکھی ہی چلے گئے مگر اُن کی کہی ہوئی باتیں آج کی سیاست خصوصاََ تحریک انصاف پر مکمل فٹ بیٹھتی ہیں۔