حسینیت منشورِ حیاتِ دائمی ہے
اِس بے مثل دستورِ زندگی کی سب سے بڑی اور سب سے عملی مثال سن 61ہجری قمری میں پیش آنے والا واقعۂ کربلا ہے۔
ISLAMABAD:
شہیدِ انسانیت، جانِ کربلا، سیّد الشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت سے ضرورت اِس امر کی ہے کہ امامِ عالی مقام ؓ کی یاد کے ساتھ آپ اور آپ کے گھرانے کی تعلیماتِ حمیدہ معاشرے میں عام کی جائیں تاکہ معاشرے کے افراد اُن پر عمل پیرا ہوں اور یوں معاشرے کے سُدھار کی راہ ہم وار ہوسکے۔
'' یااللہ، جس نے تجھے چھوڑ دیا، اُس نے کیا پایا ؟ اور جس نے تجھے پالیا، اُس نے کیا کھویا ؟''
یہ امام حسین ؓ کا نورانی جملہ ہے۔ حضرت امام حسین ؓ کا عصرِِ عاشور اطمینانِ کامل توحید کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ ایک اور مقام پر حضرت امام حسین ؓ فرماتے ہیں:
'' عالِم زندہ ہے چاہے رحلت کرجائے۔ وہ کبھی نہیں مرتا اور جاہل مُردہ ہے، چاہے چلتا پھرتا دِکھائی دے رہا ہو۔'' سیّد الشہداء، امامِ مظلوم، امامِ عاشقین حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کی تعلیماتِ جلیلہ میں ہمیں یہ دستورِ زندگی بھی باصراحت ملتا ہے : '' دِین پر سب کچھ قربان کیا جاسکتا ہے، لیکن دِین کو کسی پر بھی قربان نہیں کیا جاسکتا۔''
اِس بے مثل دستورِ زندگی کی سب سے بڑی اور سب سے عملی مثال سن 61ہجری قمری میں پیش آنے والا واقعۂ کربلا ہے۔
حضرت امام جعفرِ صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمانِ مبارکہ ہے:
تین چیزوں کے بارے میں کوئی عذر قابلِ قبول نہ ہوگا۔ (1) عہد کا پورا کرنا، خواہ کسی سے عہد کیا ہو۔ (2) والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کرنا، خواہ کیسے ہی والدین ہَوں۔ (3) امانت کو واپس کرنا، خواہ کسی کی ہو۔''
(ماخوذ از: انوار القرآن)
ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ نورانی اور فکر انگیز قول ہمارے ہی معاشرے کی بہتری کے لیے ارشاد ہوا ہے۔ اسلامی معاشرہ اُس وقت تک ترقی نہیں کرے گا، جب تک علم رکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ نہ ہو رہا ہو۔ اور یہ مضمون کائنات کی جس عظیم ترین ہستی کی یاد میں تحریر کیا جارہا ہے، اُس عظیم القدر ہستی کا تو تعلق ہی ایسے خانوادے سے ہے جن کا سب سے بڑا اِمتیاز علم ہے۔ مدینۂ منوّرہ سے سفرِ کربلا کا آغاز کرتے ہوئے جب لوگوں نے امام عالی مقام ؓ سے پوچھا کہ آپ مدینہ کیوں چھوڑ رہے ہیں؟ تو آپ ؓ نے فرمایا : ''میں اپنے نانا (جَد) کی اُمّت کی اصلاح کے لیے جارہا ہوں۔'' (بحار الانوار) جس اُمّت میں یزید جیسا فاسق و فاجر حکم راں ہوجائے، اُس اُمّت کو یقیناً اصلاح ہی کی ضرورت ہے۔
حضرت امام سیّد ِسجاد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : '' اگر اِس شمرِ خبیث نے وہ خنجر جس سے میرے بابا کو ذبح کیا ہے، امانتاً میرے پاس رکھوایا ہوتا اور وقتِ شہادتِ امام حسین ؓ مجھ سے مانگنے آجاتا، میں وہ خنجر دے دیتا۔''
یہ ہے امانت داری کا اصل مفہوم۔
عدالت کا نفاذ، حقوق کی ادائی ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ حقوق دِیے جائیں، جس کا جو حق ہے، وہ اُسے دیا جائے اور سب کے ساتھ انصاف کیا جائے۔
احادیثِ متواترہ میں سے ایک معروف حدیثِ مبارکہ ہے۔ رسالت مآب آنحضرت محمد مصطفیٰ صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے فرمایا :
'' حسنؓ اور حسین ؓ جوانانِ اہلِ جنت کے سردار ہیں۔''
حضرت امام حسین ؓ کا دن دراصل بی بی زینب ؓ کی دائمی اور ابدی فتح کا دن ہے۔ یہ دن جنابِ زینب ؓ کی بے مثال فتح کا دن ہے۔ ایک بی بیؓ جن کے ہاتھ میں رسّی باندھ کر لائے تھے، وہ قیامت تک یزید کے ہاتھ میں رسّی ڈال رہی ہیں۔ وہ قیامت تک کے لیے یزید کو داخلِ دُشنام قرار دے رہی ہیں۔ اب جب تک اما م حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یاد کرنے والے رہیں گے، بی بی زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پیروکار رہیں گے، کوئی یزید کا نام ادب سے نہیں لے پائے گا۔ اور ہمیشہ کردارِ زینبی ؓ رائج رہے گا۔ ہمیشہ سیرتِ حسینی ؓ کی حکومت رہے گی۔
حکومت دِلوں پہ ہوا کرتی ہے۔ کرسیوں کی حکومت تو چھن جایا کرتی ہے۔ حکومت کا تعلق تو دل سے ہے۔ حضرت امام سیّد سجّاد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا : '' اللہ نے ہماری محبت مومنوں کے دِلوں میں رکھی ہے۔'' (سحابِ رحمت)
حضرت امام زین العابدینؓ نے اِس ابدی حقیقت کو اپنے فضائل میں سے ایک فضیلت قرار دیا۔ لہٰذا چہلم کا دن جو اسیر بنا کے لائے گئے تھے، اُن کی اسیری کا دن نہیں ہے، بل کہ درحقیقت باطل کی اسیری کا دن ہے۔ ظالم کی اسیری کا دن ہے۔ اب قیامت تک جو بھی ظالم اور باطل ہوگا، تذکرۂ امام حسین ؓ اُسے اسیر بناتا رہے گا۔ زینبیؓ آواز اُسے اسیر بناتی رہے گی۔ ذکر ِحسین ؓ اصل میں بی بی زینب ؓ کی آواز کا تسلسل ہے۔ اس لیے کہ امام حسین ؓنے عاشورے کے دن اپنی قربانی راہِ خدا میں نذر کردی۔ آپؓ بی بی زینب ؓ کو اِس لیے لائے تھے کہ یہ قربانی چُھپنے نہ پائے۔
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اِس کی حسینؓ، ابتدا ہے اسمٰعیلؑ
یہ ایسی قربانی نہیں ہے جسے کوئی مٹا نے کی کوشش کرے گا اور یہ مٹ جائے گی۔
امام حسین ؓ مشیّتِ ایزدی کے مطابق اپنے ساتھ اپنی بہن بی بی زینب ؓ کو لے آئے۔ اس لیے اِن بی بیؓ کو لے کر آئے ہیں تاکہ یہ قربانی، کُوچہ کُوچہ، بازار بازار اور دربار دربار پہنچ جائے۔ تذکرۂ امام حسین ؓ تحریکِ زینبیہ ؓ کا تسلسل ہے۔ تحریکِ زینبیہ ؓ تحریکِ حسینی ؓ ہی کا حصّہ ہے۔ پیام اعظمی نے کیا خوب چار مصرعے کہے ہیں:
ملتا نہیں ہے کوئی سہارا یزید کو
زینب ؓ نے اِس طرح سے اُجاڑا یزید کو
خاتون جنگ کر نہیں سکتی تھیں اِس لیے
خطبوں کی ذوالفقار سے مارا یزید کو
کربلا میں حق و باطل کی جنگ میں امام حسینؓ جیتے، بی بی زینب ؓ جیتیں، امام زین العابدین ؓ جیتے۔ یزید ہارا اور یہ صرف یزید نہیں ہارا ہے، یزیدیت ہاری ہے۔ اِس لیے کہ امام حسین ؓ نے ایک نظام دیا: '' مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا۔''
امام عالی مقامؓ نے اگر یہ کہہ دیا ہوتا کہ میں یزید کی بیعت نہیں کروں گا، تو شاید ایک تحریک شروع نہیں ہوتی۔ حسینؓ ابنِ علی ؓ کا یہ جملہ ایک باقاعدہ تحریک ہے۔ امام حسین ؓ کا یہ جملہ ایک مسلسل جدوجہد کا استعارہ ہے۔ یہ درحقیقت سب کو جھنجوڑ رہا ہے کہ تم حسین ؓ جیسے تو نہیں ہوسکتے، مگر حسینی ؓ خوش بُو تو تم میں آسکتی ہے۔ تمہارے اندر امام حسین ؓ کے کردار کی خوش بُو تو آسکتی ہے۔ پس! جسے بھی یزید صفت دیکھو تو حسینی ؓ خوش بُو کو اپناؤ۔ اور اُس کے آگے ہاتھ نہ بڑھاؤ اور اُس کی بیعت نہ کرو اور اُس کی تائید نہ کرو۔ اُس سے اختلاف کرو، اُس سے نفرت کا اظہار کرو۔ اِسے حسینی ؓ خوش بُو کہا جاتا ہے۔ حسینیت کی خوش بُو یہی ہے کہ ظالم سے کبھی سمجھوتا نہیں ہوگا اور مظلوم سے کبھی نفرت نہیں ہوگی۔ مظلوم سے ہمیشہ پیار ہوگا۔ مظلوم کوئی بھی ہو، مظلوم کسی بھی مکتب کا ہو، مظلوم کسی بھی مسلک کا ہو، کسی بھی رنگ، نسل کا ہو، کسی بھی ملک کا ہو، کوئی زبان بولتا ہو، مظلوم ہمارا ہے۔ ظالم کوئی بھی ہو، چاہے برابر میں رہتا ہو، ساتھ بیٹھتا ہو، ظالم ظالم ہے۔ ہم اُس سے نفرت کریں گے۔ یہ ایک نظام ہے، جو سیّد الشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ عطا فرما رہے ہیں۔
جب بھی کبھی ضمیر کا سودا ہو دوستو
قائم رہو حسین ؓ کے اِنکار کی طرح
شہیدِ انسانیت، جانِ کربلا، سیّد الشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت سے ضرورت اِس امر کی ہے کہ امامِ عالی مقام ؓ کی یاد کے ساتھ آپ اور آپ کے گھرانے کی تعلیماتِ حمیدہ معاشرے میں عام کی جائیں تاکہ معاشرے کے افراد اُن پر عمل پیرا ہوں اور یوں معاشرے کے سُدھار کی راہ ہم وار ہوسکے۔
'' یااللہ، جس نے تجھے چھوڑ دیا، اُس نے کیا پایا ؟ اور جس نے تجھے پالیا، اُس نے کیا کھویا ؟''
یہ امام حسین ؓ کا نورانی جملہ ہے۔ حضرت امام حسین ؓ کا عصرِِ عاشور اطمینانِ کامل توحید کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ ایک اور مقام پر حضرت امام حسین ؓ فرماتے ہیں:
'' عالِم زندہ ہے چاہے رحلت کرجائے۔ وہ کبھی نہیں مرتا اور جاہل مُردہ ہے، چاہے چلتا پھرتا دِکھائی دے رہا ہو۔'' سیّد الشہداء، امامِ مظلوم، امامِ عاشقین حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کی تعلیماتِ جلیلہ میں ہمیں یہ دستورِ زندگی بھی باصراحت ملتا ہے : '' دِین پر سب کچھ قربان کیا جاسکتا ہے، لیکن دِین کو کسی پر بھی قربان نہیں کیا جاسکتا۔''
اِس بے مثل دستورِ زندگی کی سب سے بڑی اور سب سے عملی مثال سن 61ہجری قمری میں پیش آنے والا واقعۂ کربلا ہے۔
حضرت امام جعفرِ صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمانِ مبارکہ ہے:
تین چیزوں کے بارے میں کوئی عذر قابلِ قبول نہ ہوگا۔ (1) عہد کا پورا کرنا، خواہ کسی سے عہد کیا ہو۔ (2) والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کرنا، خواہ کیسے ہی والدین ہَوں۔ (3) امانت کو واپس کرنا، خواہ کسی کی ہو۔''
(ماخوذ از: انوار القرآن)
ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ نورانی اور فکر انگیز قول ہمارے ہی معاشرے کی بہتری کے لیے ارشاد ہوا ہے۔ اسلامی معاشرہ اُس وقت تک ترقی نہیں کرے گا، جب تک علم رکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ نہ ہو رہا ہو۔ اور یہ مضمون کائنات کی جس عظیم ترین ہستی کی یاد میں تحریر کیا جارہا ہے، اُس عظیم القدر ہستی کا تو تعلق ہی ایسے خانوادے سے ہے جن کا سب سے بڑا اِمتیاز علم ہے۔ مدینۂ منوّرہ سے سفرِ کربلا کا آغاز کرتے ہوئے جب لوگوں نے امام عالی مقام ؓ سے پوچھا کہ آپ مدینہ کیوں چھوڑ رہے ہیں؟ تو آپ ؓ نے فرمایا : ''میں اپنے نانا (جَد) کی اُمّت کی اصلاح کے لیے جارہا ہوں۔'' (بحار الانوار) جس اُمّت میں یزید جیسا فاسق و فاجر حکم راں ہوجائے، اُس اُمّت کو یقیناً اصلاح ہی کی ضرورت ہے۔
حضرت امام سیّد ِسجاد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : '' اگر اِس شمرِ خبیث نے وہ خنجر جس سے میرے بابا کو ذبح کیا ہے، امانتاً میرے پاس رکھوایا ہوتا اور وقتِ شہادتِ امام حسین ؓ مجھ سے مانگنے آجاتا، میں وہ خنجر دے دیتا۔''
یہ ہے امانت داری کا اصل مفہوم۔
عدالت کا نفاذ، حقوق کی ادائی ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ حقوق دِیے جائیں، جس کا جو حق ہے، وہ اُسے دیا جائے اور سب کے ساتھ انصاف کیا جائے۔
احادیثِ متواترہ میں سے ایک معروف حدیثِ مبارکہ ہے۔ رسالت مآب آنحضرت محمد مصطفیٰ صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے فرمایا :
'' حسنؓ اور حسین ؓ جوانانِ اہلِ جنت کے سردار ہیں۔''
حضرت امام حسین ؓ کا دن دراصل بی بی زینب ؓ کی دائمی اور ابدی فتح کا دن ہے۔ یہ دن جنابِ زینب ؓ کی بے مثال فتح کا دن ہے۔ ایک بی بیؓ جن کے ہاتھ میں رسّی باندھ کر لائے تھے، وہ قیامت تک یزید کے ہاتھ میں رسّی ڈال رہی ہیں۔ وہ قیامت تک کے لیے یزید کو داخلِ دُشنام قرار دے رہی ہیں۔ اب جب تک اما م حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یاد کرنے والے رہیں گے، بی بی زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پیروکار رہیں گے، کوئی یزید کا نام ادب سے نہیں لے پائے گا۔ اور ہمیشہ کردارِ زینبی ؓ رائج رہے گا۔ ہمیشہ سیرتِ حسینی ؓ کی حکومت رہے گی۔
حکومت دِلوں پہ ہوا کرتی ہے۔ کرسیوں کی حکومت تو چھن جایا کرتی ہے۔ حکومت کا تعلق تو دل سے ہے۔ حضرت امام سیّد سجّاد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا : '' اللہ نے ہماری محبت مومنوں کے دِلوں میں رکھی ہے۔'' (سحابِ رحمت)
حضرت امام زین العابدینؓ نے اِس ابدی حقیقت کو اپنے فضائل میں سے ایک فضیلت قرار دیا۔ لہٰذا چہلم کا دن جو اسیر بنا کے لائے گئے تھے، اُن کی اسیری کا دن نہیں ہے، بل کہ درحقیقت باطل کی اسیری کا دن ہے۔ ظالم کی اسیری کا دن ہے۔ اب قیامت تک جو بھی ظالم اور باطل ہوگا، تذکرۂ امام حسین ؓ اُسے اسیر بناتا رہے گا۔ زینبیؓ آواز اُسے اسیر بناتی رہے گی۔ ذکر ِحسین ؓ اصل میں بی بی زینب ؓ کی آواز کا تسلسل ہے۔ اس لیے کہ امام حسین ؓنے عاشورے کے دن اپنی قربانی راہِ خدا میں نذر کردی۔ آپؓ بی بی زینب ؓ کو اِس لیے لائے تھے کہ یہ قربانی چُھپنے نہ پائے۔
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اِس کی حسینؓ، ابتدا ہے اسمٰعیلؑ
یہ ایسی قربانی نہیں ہے جسے کوئی مٹا نے کی کوشش کرے گا اور یہ مٹ جائے گی۔
امام حسین ؓ مشیّتِ ایزدی کے مطابق اپنے ساتھ اپنی بہن بی بی زینب ؓ کو لے آئے۔ اس لیے اِن بی بیؓ کو لے کر آئے ہیں تاکہ یہ قربانی، کُوچہ کُوچہ، بازار بازار اور دربار دربار پہنچ جائے۔ تذکرۂ امام حسین ؓ تحریکِ زینبیہ ؓ کا تسلسل ہے۔ تحریکِ زینبیہ ؓ تحریکِ حسینی ؓ ہی کا حصّہ ہے۔ پیام اعظمی نے کیا خوب چار مصرعے کہے ہیں:
ملتا نہیں ہے کوئی سہارا یزید کو
زینب ؓ نے اِس طرح سے اُجاڑا یزید کو
خاتون جنگ کر نہیں سکتی تھیں اِس لیے
خطبوں کی ذوالفقار سے مارا یزید کو
کربلا میں حق و باطل کی جنگ میں امام حسینؓ جیتے، بی بی زینب ؓ جیتیں، امام زین العابدین ؓ جیتے۔ یزید ہارا اور یہ صرف یزید نہیں ہارا ہے، یزیدیت ہاری ہے۔ اِس لیے کہ امام حسین ؓ نے ایک نظام دیا: '' مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا۔''
امام عالی مقامؓ نے اگر یہ کہہ دیا ہوتا کہ میں یزید کی بیعت نہیں کروں گا، تو شاید ایک تحریک شروع نہیں ہوتی۔ حسینؓ ابنِ علی ؓ کا یہ جملہ ایک باقاعدہ تحریک ہے۔ امام حسین ؓ کا یہ جملہ ایک مسلسل جدوجہد کا استعارہ ہے۔ یہ درحقیقت سب کو جھنجوڑ رہا ہے کہ تم حسین ؓ جیسے تو نہیں ہوسکتے، مگر حسینی ؓ خوش بُو تو تم میں آسکتی ہے۔ تمہارے اندر امام حسین ؓ کے کردار کی خوش بُو تو آسکتی ہے۔ پس! جسے بھی یزید صفت دیکھو تو حسینی ؓ خوش بُو کو اپناؤ۔ اور اُس کے آگے ہاتھ نہ بڑھاؤ اور اُس کی بیعت نہ کرو اور اُس کی تائید نہ کرو۔ اُس سے اختلاف کرو، اُس سے نفرت کا اظہار کرو۔ اِسے حسینی ؓ خوش بُو کہا جاتا ہے۔ حسینیت کی خوش بُو یہی ہے کہ ظالم سے کبھی سمجھوتا نہیں ہوگا اور مظلوم سے کبھی نفرت نہیں ہوگی۔ مظلوم سے ہمیشہ پیار ہوگا۔ مظلوم کوئی بھی ہو، مظلوم کسی بھی مکتب کا ہو، مظلوم کسی بھی مسلک کا ہو، کسی بھی رنگ، نسل کا ہو، کسی بھی ملک کا ہو، کوئی زبان بولتا ہو، مظلوم ہمارا ہے۔ ظالم کوئی بھی ہو، چاہے برابر میں رہتا ہو، ساتھ بیٹھتا ہو، ظالم ظالم ہے۔ ہم اُس سے نفرت کریں گے۔ یہ ایک نظام ہے، جو سیّد الشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ عطا فرما رہے ہیں۔
جب بھی کبھی ضمیر کا سودا ہو دوستو
قائم رہو حسین ؓ کے اِنکار کی طرح