دہشت گردی کے خلاف جنگ یا جھوٹ کی جنگ

مشہور مغربی حکومتیں شبہ میں پکڑے جانیوالے مسلمانوں کو سزائے موت جبکہ دہشت گرد کو معمولی سزائیں دیتی ہیں، چشم کشا رپورٹ

رپورٹ کے اعداد و شمار سے ریڈیکل اسلامک ٹیررازم کے بارے میں پھیلائی گئیں تمام باتیں تقریباً غلط ثابت ہوجاتی ہے۔ فوٹو: نیٹ

دہشت گردی کے عفریت نے یوں تو دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے لیکن ہر مرتبہ جب بھی امریکہ یا یورپ میں دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے تو وہاں رہنے والی مسلم کمیونٹی میں تشویش کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے۔

عام تاثر جوتقریباً پوری دنیا میں پایا جاتا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات کا تعلق اسلام یامسلمانوں سے جڑا ہوتا ہے۔ اس تاثرکی سب سے بڑی وجہ مغربی میڈیا کا ایک طے شدہ پروپیگنڈا ہے۔ جب بھی کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے جس میں کوئی مسلمان ملوث ہو تو دنیا بھر کا میڈیا اسے بہت زیادہ کوریج دیتا ہے۔ دنیا بھر کے اخبارات کی ہیڈ لائنز اور کور پیجز پہ اسے نمایاںکیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر اس طرح کے واقعات میں کوئی غیر مسلم ملوث ہو تو اسے غیر اہم خبر کے طور پر دبا دیا جاتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ اسے نفرت پر مبنی جرائم میں شامل کیاجاتاہے جبکہ عموماً اس میں ملوث فرد کو 'ذہنی مریض' قراردیدیاجاتاہے۔

قانون کی حکمرانی اور انصاف پہ مبنی نظام کے لئے مشہور مغربی ممالک کا مسلمانوں کے ساتھ یہ طرزعمل کیا قانون اور انصاف کے اصولوں کی بنیاد قائم ہے؟ مغربی ممالک خصوصاً امریکی میڈیا اور حکومت مسلمانوں کے دہشت گردی سے منسلک ہونے کا پروپیگنڈا کرتی ہے،کیا حقیقت پر مبنی ہے؟

ایف بی آئی کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں 2005 - 1980ء تک دہشت گردی کے جتنے بھی واقعات ہوئے ان میں 94 فیصد غیرمسلم لوگ ملوث تھے۔ یعنی ایک امریکی شہری کے دہشت گرد ہونے کے امکانات مسلمان دہشت گرد کے مقابلے میں نو گنا زیادہ تھے۔

اسی رپورٹ کے مطابق یہودیوں کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کی تعداد بھی مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ تھی لیکن کیا آپ نے کبھی مغربی میڈیا یا اخبار میں''یہودی دہشت گردی'' کے بارے میں پڑھا؟ جس طرح ہم ان دہشت گردوں کے عیسائیت یا یہودیت سے تعلق رکھنے پر ان مذاہب کو ذمہ دار نہیں ٹہرا سکتے اسی طرح ہم کسی مسلم دہشت گرد گروپ کی وجہ سے تمام مسلمانوں یا دینِِ اسلام کو بھی ذمہ دار نہیں ٹہرا سکتے لیکن اس پورے پروپیگنڈے کو اس سال پبلش ہونے والی ایک اسٹڈی نے مکمل طور پر بے نقاب کردیا ہے

ایک تحقیقاتی رپورٹ (جو ریویل نیوز اور انویسٹی گیٹو فنڈ ایٹ دی نیشنل انسٹیٹیوٹ (نان پرافٹ میڈیا سینٹر) آؤٹ لیٹ نیوز کے زیر انتظام مکمل کی گئی) میں جو حقائق اور اعداد وشمار سامنے آئے ہیں وہ عام طور پر پائے جانے والے پراپیگنڈے سے بالکل مختلف ہیں۔ اس پراجیکٹ میں2011-2008ء کے دوران میں امریکہ میں پیش آنے والے201 واقعات کا جائزہ لیا گیا جس کے مطابق رائیٹ ونگ کے انتہا پسندوں کے دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کی تعداد مسلمانوں کے مقابلے میں دوگنا زیادہ تھی۔

اس رپورٹ میں مسلمانوں سے متعلق دہشت گردی کے واقعات کو 'اسلامک ڈومیسٹک ٹیررازم' کا نام دیا گیا (جس میں 'دولت اسلامیہ' کے ملوث ہونے کے امکانات بھی شامل ہیں)۔ اس کے مطابق دہشت گردی سے متعلق واقعات جس میں مسلمان ملوث پائے گئے،کی تعداد تریسٹھ (63) تھی جبکہ اسی دوران میں دائیں بازو کے انتہا پسند جن میں سفید فام شامل ہیں ایک سو پندرہ (115) واقعات کے ذمہ دار تھے۔ 'مسلم ڈومیسٹک ٹیررازم' کے واقعات میں مرنے والوں کی تعداد 90 جبکہ دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے واقعات میں مرنے والوں کی تعداد 79 تھی، ان دونوں کا فرق محض 13 فیصد ہے۔2008ء سے 2016ء کے درمیان میں لیفٹ ونگ کے دہشت گردی کے 19واقعات میں 60 لوگ ہلاک ہوئے۔



رپورٹ کے اعداد و شمار سے ریڈیکل اسلامک ٹیررازم کے بارے میں پھیلائی گئیں تمام باتیں تقریباً غلط ثابت ہوجاتی ہے۔ خصوصاً ٹرمپ کی پوری انتخابی مہم میں اس بات کو مرکزی نکتہ بنایا گیا تھا کہ مسلمانوں سے ملک کو خطرات لاحق ہیں اور ان کے امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کردی جائے گی۔

واضح رہے کہ اسی مرکزی نقطہ کی بنیاد پر اب تک مسلمانوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی سے متعلق دو بل عدالت کالعدم کرچکی ہے۔ اس میں قابل غور بات یہ بھی ہے کہ جن ممالک پر ٹرمپ نے داخلے پر پابندی لگائی تھی، دہشت گردی کے تمام واقعات میں ان کے لوگوں کی شمولیت کا تناسب صرف ایک فیصد تھا جبکہ87 فیصد (جی ہاں ستاسی فیصد) دہشت گردی کے واقعات میں ایسے لوگ شامل تھے جو امریکہ ہی میں پیدا ہوئے تھے۔


یہ مسئلہ صرف دہشت گردی اور نفرت پر مبنی جرائم کے فرق تک ہی محدود نہیں۔ انصاف، قانون اور جمہوریت کے علمبردار ملک کے عدالتی نظام پر بھی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے جہاں مسلمانوں کو دہشت گردی کو فروغ دینے والوںکے طور پر دیکھا جاتا ہے بجائے دہشت گردی کا شکار ہونے والے کے۔ امریکی عدالتی نظام کے تعصب کا یہ عالم ہے کہ 'دہشت گردی' کے شبے میں جن لوگوں کو گرفتار کرکے سزا سنائی گئی،کی کم ازکم سزا بھی 14 سال تھی جبکہ سات لوگوں کو سزائے موت بھی سنائی گئی۔

انہی کے مقابلے میں لیفٹ اور رائٹ ونگ کے انتہا پسندوں کو مجرمانہ سرگرمیوں کی وجہ سے جو سزائیں دی گئیں وہ مسلمانوں کے مقابلے میں نہ صرف کم تھی بلکہ واضح طور پر کافی نرم بھی۔مثلاً ان کی زیادہ سے زیادہ سزا بھی نو سال سے زائد نہ تھی،کسی ایک فرد کو بھی سزائے موت نہیں دی گئی حالانکہ ان لوگوں کے جرائم میں قتل کے علاوہ عبادت گاہوںاور مساجد پر حملے بھی شامل ہیں۔

اس روئیے میں کسی قدر تبدیلی اس وقت آئی جب 2015 میں ساؤتھ کیرولینا میں ایک چرچ پر حملہ کیا گیا جس میں نو لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کے ذمہ دار سفید فام امریکی لوگ تھے۔ پھر اس وقت نظامِ انصاف والوں نے اس سوچ کو تسلیم کیا کہ سفید فام بھی اس طرح کی دہشت گردی میں ملوث ہوسکتے ہیں اور اقلیتیں خصوصاً مسلمان بھی ان واقعات کا نشانہ بھی ہوسکتے ہیں، ایسے واقعات میں دائیں، بائیں بازو، علیحدگی پسند اور حکومت مخالف متشدد گروہوںکا بھی کردار ہوسکتا ہے جو بلا تفریق عیسائی، مسلم اور دوسری اقلیتوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔

پھر اس حقیقت کو بلاشبہ بہت دیر سے سہی لیکن مان لیا گیا کہ داخلی گروہوں یا عناصر کی طرف سے دہشت گردی کے خطرات ہوسکتے ہیں۔ اس طرح پہلی بار اس سلسلے میں تحقیقات بھی کی گئیںکہ لوگوں کو کس قسم کے خطرات کا سامنا ہوسکتا ہے۔ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ ان گروہوں کی مجرمانہ سرگرمیوں میں مساجد اور دیگر اہلِ مذاہب کی عبادت گاہوں پر حملوںکے علاوہ سیناگاگ پر حملہ ہوا، غیر قانونی ہتھیار رکھنے کے علاوہ اور بائیولوجیکل اور کیمیکل ہتھیاروں کا جمع کرنا بھی شامل تھا۔

اسی ضمن میں 'یوروپول' کی 2016ء کی رپورٹ جو 2017ء میں شائع کی گئی انتہائی اہم اور یورپی خطے کے اسلاموفوبیا میں گرفتار ہونے کی ایک بڑی مثال ہے۔ رپورٹ کے مطابق یورپ میں 142 دہشت گردی کے واقعات ہوئے جس میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر اہل مذاہب بھی شامل ہیں۔ آٹھ ریاستوں میں ہونے والے ان واقعات میں سے تقریباً آدھے برطانیہ میں رونما ہوئے جو2015 کے مقابلے میں 33فیصد کم ہیں۔ ان واقعات کے نتیجے میں379 لوگ زخمی ہوئے جبکہ مرنے والوں کی تعداد 142 تھی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ان میں سے 99 حملے علیحدگی پسندوں اور لیفٹ ونگ کے انارکسٹوں کی طرف سے کئے گئے تھے۔اگرچہ دہشت گردی کے واقعات میں کمی ہوئی تاہم داخلی عناصر کی طرف سے ہونے والے واقعات میں 100 فیصد اضافہ ہوا ہے۔2015 ء میں ان واقعات کی تعداد صرف 13 تھی جبکہ 2016ء میں ایسے 27 واقعات رونما ہوئے۔

اس کے ساتھ ہی ساتھ برطانیہ میں ہونے والی دہشت گردی کا جائزہ لیا جائے تو علیحدگی پسند گروہ 76 واقعات کے ذمہ دار تھے جبکہ فرانس میں 18 اور اسپین میں پانچ واقعات علیحدگی پسندوں نے کئے تھے۔ 'یوروپول' کے سروے کے مطابق کم از کم 13 ایسے واقعات تھے جنہیں 'مذہبی دہشت گردی' کہا جاسکتا ہے جن میں فرانس میں پانچ ، جرمنی اور بلجئیم میں ہونے والے چار واقعات شامل ہیں۔ ان واقعات کے نتیجے میں 135 لوگ جان گنوا بیٹھے یعنی جانی نقصان کے لحاظ سے یہ سب سے بڑی کیٹاگری تھی۔

گرفتاریوں کے اعتبارسے 'یوروپول' کی سروے رپورٹ دیکھی جائے تو انسان حیران رہ جاتا ہے۔ اسلامو فوبیا کی اس سے بدتر مثال نہیں مل سکتی۔گرفتار ہونے والوں کی تفصیل کے مطابق علیحدگی پسند 84 ، لیفٹ ونگ31، رائٹ ونگ 12 ، مذہبی دہشت گرد 718 ، نان سپیسیفائیڈ گروپ157 پکڑے گئے۔ ان گرفتار لوگوں کی سزاؤں کا جائزہ لیا جائے تو580 لوگوں کو سزائیں دی گئیں جن میں اسلامی جہادی گروپ کے358، لیفٹ ونگ کے تین ، رائٹ ونگ کے نو لوگ اور علیحدگی پسندوں کے125 لوگوں کے علاوہ نان اسپیسیفائیڈ گروپ کے92 لوگ شامل ہیں۔

اس تمام تر تفصیل کے بعد' گلوبل ٹیررازم انڈیکس' کو دیکھا جائے تو عراق ، افغانستان ، نائیجریا اور پاکستان، یہ چار ممالک دہشت گردی سے متاثرہ ملکوں میںسر فہرست ہیں۔ صرف پاکستان میں 2002ء سے 2016ء تک تقریباً15000 لوگ دہشت گردی کے واقعات میں جان گنوا بیٹھے ہیں۔صرف2016ء میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں 1086ہلاک اور 1337 افراد زخمی ہوئے۔

یہ اعدادوشمار ان حقائق کو آشکار کرنے کے لئے کافی ہیںکہ دنیا بھر میں کس طرح مسلمانوں کیدہشت گردی میں ملوث ہونے کا غلط اور جھوٹا تاثر پھیلایا گیا ہے جبکہ 'گلوبل ٹیررازم انڈیکس' میں سرفہرست مسلمان ممالک کا ہونا انہیں دنیا بھر کے مقابلے میں سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار ثابت کرتا ہے۔ ایک خاص متعصبانہ رویہ یہ بھی ہے کہ اگر کسی غیر مسلم کا دہشت گردی کے واقعے میں ملوث ہونا ثابت بھی ہوجائے تو اسے 'ذہنی مریض' کہہ کر معاملے کی شدت کو انتہائی کم کردیا جاتا ہے۔

اب تک امریکہ اور یورپ میں ہونے والے دہشت گردی کے متعدد واقعات کے ذمہ داروں کو 'ذہنی مریض' کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ جہاں ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا وہاں جرم کو 'نفرت پر مبنی جرم' کا رنگ دے دیا جاتا ہے۔ یہ رویہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے لئے ذہنی پریشانی اور اذیت کی وجہ بنتا جارہا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پروپیگنڈے کا پول کھولا جائے اور اس کے اثرات کو زائل کرنے کی حکمت عملی تیار کی جائے۔ پروپیگنڈے کی اس جنگ کا جواب خاموشی نہیں موثر جوابی پروپیگنڈا ہی ہوسکتا ہے۔
Load Next Story