تاج محل بھی ہندو انتہا پسندوں کے نشانے پر
تاج محل کو نظر اندراز کرنے سے سیاحت سے ہونے والی آمدن کو نقصان پہنچے گا، ماہرین
مسلمان بھارت کی سب سے بڑی اقلیت ہیں۔ ان کی آبادی بھارت کی کل آبادی کا تقریباً 14.2 فیصد ہے مگر تعلیم، روزگار، صحت اور سیاسی نمائندگی کے اعتبار سے وہ ملک میں سب سے پیچھے ہیں۔ ان کی سماجی، اقتصادی اور تعلیمی حیثیت یکساں نہیں ہے اور بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد تو مسلمانوں کی مشکلات بہت بڑھ گئی ہیں۔
آبادی کے لحاظ سے بھارت کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے حالیہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی زبردست جیت اور یوگی آدتیہ ناتھ کے وزیر اعلی بننے کے بعد ریاست کے مسلمانوں میں مزید پریشانی پھیل گئی ہے اور بی جے پی کی کامیابی سے انھیں بڑا سیاسی دھچکا لگا۔ ریاست اتر پردیش میں مسلمانوں کی آبادی 20 فیصد ہے، یعنی ریاست میں چار کروڑ مسلمان بستے ہیں۔ اسمبلی کی 403 نشستوں کے لیے حال ہی میں ہونے والے انتخابات میں بی جے پی نے کسی بھی مسلمان کو پارٹی ٹکٹ نہیں دیا اور نہ ہی اس نے مسلمانوں سے ووٹ مانگے۔
اس کے باوجود پارٹی کوتاریخ ساز کامیابی ملی۔ گذشتہ انتخابات میں 65 مسلمان امیدوار منتخب ہوئے تھے۔ اس اسمبلی میں ان کی تعداد گھٹ کر 23 رہ گئی ہے جن میں سے زیادہ تر سماج وادی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ غیر قانونی کہے جانے والے مذبح خانوں کے خلاف کارروائی اور رام مندر بنانے کے لیے نئے سرے سے بیان بازی کی وجہ سے مسلمانوں میں خوف بڑھ رہا ہے۔ انھیں لگ رہا ہے کہ اب ان کے حق چھین لیے جائیں گے اور وہ دوسرے درجے کے شہری بن کر رہ جائیں گے۔ انھیں صرف ہندو انتہاپسندوں کے ہاتھوں تشدد کا ہی خوف نہیں بلکہ اترپردیش میں حکومت نے غیر قانونی مذبح خانوں کو بند کرنے کے نام پر اور مویشیوں کی خرید وفروخت کے نئے ضابطوں سے مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی کو ایک لمحے میں بے روزگار کر دیا ہے۔
سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلوں پر قوم پرستی کی لہر جاری ہے اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز پیغامات پوسٹ اور تبصروں کا ایک منظم سلسلہ شروع ہے۔ حکمراں بی جے پی ایک ہندو نواز جماعت ہے اور ہندوتوا کے سیاسی اور مذہبی نظریے پر یقین رکھتی ہے۔ وہ ملک کو ایک ہندو راشٹر بنانے کے تصور پر عمل پیرا ہے جس میں مسلمان اور مسیحی اقلیتوں کے لوگ دوسرے درجے کے شہری ہوں گے۔مسلمانوں نے ابتدا سے ہی بی جے پی کی مخالفت کی۔ اب جبکہ بی جے پی اپنے زور پر اقتدار میں آ گئی ہے تو اس نے مسلمانوں کو پوری طرح مسترد ہی نہیں بلکہ محدود کر دیا ہے۔
اپوزیشن انتہائی کمزور اور پوری طرح منتشر ہے۔ قوم پرستی کے اس دور میں میڈیا حکومت نواز ہو چکا ہے ۔ اسی لیے بی جے پی کا سیاسی اثر مزید بڑھتا جا رہا ہے اور اپوزیشن جماعتیں کوئی نظریاتی یا سیاسی چیلنج بننے کے بجائے اپنے باقی ماندہ وجود کو بچانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ بہت سے مسلمانوں کا خیال ہے کہ انھیں تقسیم ہند کے بعد، اب تک کے سب سے سنگین بحران کا سامنا ہے رام پور سے کئی بار انتخابات جیتنے والے رکن اسمبلی اعظم خان، جو وزیر بھی رہے ہیں، کے مطابق ''مسلمان تو اب اپنا نام بتانے سے ڈرتے ہیں۔ مسلمانوں کے ووٹ دینے کے حق کو ختم کرنے اور ان کو دوسرے، تیسرے درجے کا شہری بنانے کی بات بہت عرصے سے چل رہی ہے اور یہ آر ایس ایس کا ایجنڈا بھی ہے''۔ کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں ملک کے اعتدال پسندوں اور جمہوریت نواز اکثریت کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے۔
مسلمان بھارتی جمہوریت میں ہمیشہ مین سٹریم سیاسی جماعتوں سے وابستہ رہے ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں نے مسلمانوں کو ووٹ بینک کے طور پر استعمال کیا اور انھیں غربت اور پسماندگی میں دھکیلتی گئیں۔ ان دشوار مراحل میں بھی مسلمانوں کا رویہ ہمیشہ مثبت رہا۔ انھوں نے اپنی علیحدہ سیاسی جماعت کے تصور کو کبھی قبول نہیں کیا۔بھارتی جمہوریت کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب ملک کی پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی سب سے نیچے آگئی ہے۔ وہ بی جے پی کو ایک ہندوتوا وادی اور مسلمان مخالف جماعت سمجھتے آئے ہیں اور اس کو صرف اپنے لیے نہیں ملک کی جمہوریت کے لیے بھی خطرہ سمجھتے ہیں۔ ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی جس طرح کی فضا بنی ہوئی ہے، اس ماحول میں ملک کے طول و عرض میں ہر جگہ ان میںگھبراہٹ اور بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت کی خطرے میں گھری ہوئی جمہوریت کو درپیش چیلنجز میں بھارتی مسلمانوں کو کوئی ایسا راہنما ملے جو ان کی کی سیاسی رہنمائی کر سکے۔
بی جے پی کے رویے پر ذرا غور کیجئے۔ شیو بہادر سکسینہ بی جے پی کے ایک سینیئر لیڈر ہیں۔ وہ دو بار وزیر رہ چکے ہیں۔ سکسینہ کا کہنا ہے کہ ''مسلمان فکر مند ہیں کہ اب تک جو من مانی وہ کرتے تھے اب نہیں چلے گی۔ رام پور میں ہندو اقلیت میں ہیں۔ مسلمان ان کو دباتے تھے۔ ان ہندوؤں میں یہ احساس بیدار ہوا ہے کہ اب ان کی حکومت آ گئی ہے''جبکہ یوپی کے مسلمانوں کا بی جے پی کے متعلق کہناہے کہ ''مسلمان جب ان کے قریب جانے کی کوشش کرتا ہے تو ان کا برتاؤ ایسا ہونے لگتا ہے کہ مسلمان ان سے دور ہونے لگتا ہے جیسے کہ گائے کا معاملہ یا تین طلاق کا مسئلہ۔ ان سب مسائل سے مسلمان بدظن ہیں۔ اگر وہ یہ باتیں دور کر دیں تو مسلمان ان کے قریب آ سکتے ہیں۔'
دوسری طرف شیو بہادر سکسینہ کہتے ہیں کہ ''ان کی پارٹی مسلمانوں کو قبول کرنے کو تیار بیٹھی ہے۔ یہ ایک قدم ہماری طرف آ کر تو دیکھیں، ہم دو قدم آگے بڑھ کر گلے نہیں لگائیں تو بات ہے لیکن یوپی کے مسلمانوں کو اپنی ذہنیت بدلنی پڑے گی'' لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ذہنیت تبدیل کرنے کا کیا مطلب ہے ؟ سکسینہ کا کہنا ہے کہ ''مسلمانوں کو بی جے پی پر بھروسہ کرنا ہوگا۔ وزیر اعظم کا نعرہ ہے سب کا ساتھ سب کی وکاس (ترقی)۔ ہم اس میں انھیں بھی شامل کرنا چاہتے ہیں''۔کیا مسلمان ان کی بات پر اعتبار کر سکتے ہیں؟
بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد مسلمانوں میں بھی اب غور و فکر جاری ہے۔ ایک متفقہ خیال یہ ہے کہ اگر بی جے پی مسلمان مخالف ہے تو خود کو 'مسلمانوں کا مسیحا' کہنے والی پارٹیوں نے ان کا کیا بھلا کیا ؟ سنبھل کے سینئر مسلم لیڈر شفیق الرحمن برق سماج وادی پارٹی کے بانی رکن تھے اور چار بار لوک سبھا کا الیکشن جیت چکے ہیں۔ وہ حال ہی میں آل انڈیا اتحاد المسلمین میں شامل ہو گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ''سماج وادی پارٹی اور دوسری سیکولر پارٹیوں نے مسلمانوں کو صرف اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا ہے۔ ان پارٹیوں نے بھی مسلمانوں کو برابر کا شریک نہیں سمجھا جس کی وجہ سے مسلمانوں میں غربت، بے روزگاری اور تعلیم کا مسئلہ حل نہیں ہو سکا ہے''۔
دوسری طرف مسلمان کے درمیان اتحاد کی بات بھی زور پکڑ رہی ہے۔ اتحاد کے معاملے پر رہنما اور عوام دونوں متفق ہیں۔ مسلمانوں کو احساس ہو رہا ہے کہ وہ بہت سے فرقوں اور گروہوں میں منقسم ہیں جس کی وجہ سے ان کے ووٹ بھی تقسیم ہو جاتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ انتخابات میں کسی پارٹی کا ووٹ بینک نہ بنا جائے بلکہ تمام مسلمان ایک علاقے میں ایک ہی مسلمان امیدوار کو ووٹ دیں تاکہ ان کا ووٹ تقسیم نہ ہو۔لیکن زیادہ تر مسلمانوںکاخیال ہے کہ مسلم اتحاد کافی نہیں ہے۔ مسلمانوں کو سیکولر طاقتوں کے ساتھ مکمل طور پر جڑنا ہوگا۔ لیکن یہ کہنا جتنا آسان ہے کرنا اتنا ہی مشکل۔ مسلمانوں کے مطابق فی الحال اس بات کی ضرورت ہے کہ ریاست میں امن قائم ہو۔ بی جے پی کے جتنے بھی لیڈر ہیں وہ اپنی زبان سنبھالیں اور مسلمانوں کے ساتھ محبت سے پیش آئیں۔
بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے سخت گیر ہندو نظریات کے حامل رہنما یوگی ادتیہ ناتھ کو ریاست اترپردیش کا وزیر اعلی بنانے فیصلہ کیا۔ پارٹی نے حالیہ اسبملی انتخابات میں زبردست کامیابی حاصل کی تھی جس کے بعد سے قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ آخر یو پی کا وزیر اعلی کون ہوگا ؟ پارٹی کا کہنا ہے کہ اس کی جماعت کے منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی نے متفقہ طور پر یوگی کو وزیر اعلی منتخب کرنے کا فیصلہ کیا۔ یوگی آدتیہ ناتھ شہر گورکھپور سے پانچویں بار رکن پارلیمان منتخب ہوئے ہیں۔ وہ گورکھ پور کے معروف مندر گورکھ ناتھ مٹھ کے مہنتھ یعنی مندر کے سربراہ بھی ہیں۔ان کا تعلق پہاڑی ریاست اتراکھنڈ کے گڑھوال کے ایک گاؤں سے بتایا جاتا ہے۔
ان کا اصل نام اجے سنگھ بشٹ ہے لیکن یوگی آدتیہ ناتھ بننے سے پہلے کی ان کی زندگی کے بارے میں لوگوں کو زیادہ معلوم نہیں ہے۔ وہ یم وتی نندن بہوگنا یونیورسٹی سے سائنس کے گریجویٹ ہیں اور ان کے خاندان کے لوگ ٹرانسپورٹ بزنس میں ہیں۔ لیکن سیاست میں یوگی آدتیہ ناتھ کی شناخت ایک انتہاپسند ہندو رہنما کی ہے۔ وہ مسلمانوں کے بارے میں اپنے متنازع بیانات کے لیے مشہور ہیں جن کی ایک طویل فہرست ہے۔ وہ سخت گیر ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کے نظریات سے کافی قریب سمجھے جاتے ہیں۔ گذشتہ برس مارچ میں گورکھناتھ مندر میں ہونے والے ایک اجلاس میں، جہاں آر ایس ایس کے سرکردہ رہنما بھی موجود تھے، یوگی آدتیہ ناتھ کو یو پی کا وزیر اعلی بنانے کا عہد کیا گیا تھا۔
یوگی آدتیہ ناتھ کی ہندو یوا واہنی نامی ایک ملیشیا بھی ہے جسے انھوں نے خود قائم کیا تھا۔ ان کے مطابق یہ ملیشیا دراصل ایک 'ثقافتی تنظیم' ہے جو ہندو مخالف، ملک مخالف اور ماؤنواز مخالف سرگرمیوں کو کنٹرول کرتی ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ کی سیاست تشدد سے پر رہی ہے اور خود ان کے خلاف بھی قتل کرنے کی کوشش، فساد برپا کرنے، سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے، ہندووئں اورمسلمانوں کے درمیان نفرت پھیلانے، مزار کو نقصان پہنچانے جیسے الزامات کے تحت مقدمات درج ہیں۔
یوگی آدتیہ ناتھ نے گزشتہ دنوں بابری مسجد کے مقام پر تعمیر متنازع رام مندر میں پوجا کی۔ سوال یہ ہے کہ وہ لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اما بھارتی جیسے بی جے پی کے سینیئر رہنماؤں کے خلاف بابری مسجد کی شہادت سے متعلق کیس میں مجرمانہ سازش کی فرد جرم عائد کیے جانے کے صرف ایک دن بعد ایودھیا کیوں گئے ؟ یہ دراصل ہندوتوا کی کڑھائی کو کبھی دھیمی تو کبھی تیز آنچ پر ابالتے رکھنے کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ جب وہ پہلے رام مندر اور پھر ایودھیا سے گزرنے والی سریو ندی کے گھاٹ پر پوجا کر رہے تھے تو ایک طرح سے وہ اسی سیاسی پیغام کو دہرا رہے تھے جو بھارتیہ جنتا پارٹی نے اتر پردیش کے حالیہ اسمبلی انتخابات میں ریاست کے مسلمانوں کو دیا تھا ''نہ ہم کسی مسلمان کو ٹکٹ دیں گے اور نہ ہی ہمیں ان کے ووٹ کی ضرورت ہے''۔
بی جے پی کے بڑے رہنما جانتے ہیں کہ بحیثیت وزیراعلیٰ یوگی کی ایودھیا یاترا سے رام جنم بھومی کی تحریک پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ بی جے پی لگاتار کہتی رہی ہے کہ اس مسئلے کو باہمی مذاکرات یا عدالت کے ذریعہ ہی حل کیا جائے گا۔لیکن ہندوتوا کی بھٹی کی آگ کو لگاتار سلگائے رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ رام جنم بھومی کا مسئلہ خبروں میں رہے تاکہ لوگ اسے بھول نہ جائیں اور اسے ہندوؤں کے حقوق کی لڑائی سے جوڑا جا سکے۔ اس آگ کو جلائے رکھنے کے لیے آر ایس ایس یا اس سے وابستہ اداروں سے وابستہ درجنوں لوگ اور تنظیمیں اپنی حیثیت اور طاقت کے مطابق کبھی گائے تو کبھی انڈین فوج، جواہر لال نہرو یونیورسٹی، لو جہاد، اینٹی رومیو سکواڈ یا گھر واپسی جیسے معاملات اٹھاتے رہتے ہیں۔ اس طرح ہندوتوا کی کڑھائی کو سنگھ پریوار نے گذشتہ تین برسوں سے تیز آنچ پر رکھا ہے کیونکہ اسے حکومت کی حمایت حاصل ہے۔
ان تین برسوں میں دہلی کے قریب دادری میں ایک مسلمان کو صرف اس افواہ کی بنیاد پر مار دیا گیا کہ اس کے گھر میں گائے کا گوشت تھا اور جب ملزمان میں سے ایک کی بیماری کی وجہ سے جیل میں موت ہوگئی تو اس کی لاش کو قومی پرچم میں لپیٹ کر 'شہید' کا درجہ دیا گیا۔ انہیں تین برسوں میں سوامی اسیم آنند اور سادھوی پرگیا سنگھ ٹھاکر جیسے کئی ایسے لوگ بھی ضمانت پر جیل سے باہر آ گئے جنھیں دہشت گردی کے الزامات میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اسیم آنند پر مکہ مسجد، اجمیرشریف اور سمجھوتہ ایکسپریس میں دھماکے کرنے کا الزام ہے۔
ان واقعات میں درجنوں لوگ ہلاک ہوگئے تھے۔ قومی تفتیشی بیورو کا کہنا ہے کہ اسیم آنند کی ضمانت کو وہ اعلیٰ عدالت میں چیلنج نہیں کرے گی۔ کیا ان واقعات سے ہندوتوا کے ماننے والوں کو یہ پیغام نہیں ملتا کہ قانون توڑنے پر اگر وہ پولیس اور عدالت کے چکر میں پھنس بھی گئے تو آخرکار انہیں بچا لیا جائے گا؟ خود وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ پر 2007 میں مذہبی منافرت پھیلانے کا الزام ہے لیکن ان کے خلاف مقدمہ ریاستی حکومت کی اجازت کے بغیر نہیں چل سکتا۔ وہ خود وزیراعلیٰ ہیں لہٰذا ظاہر ہے کہ ریاستی حکومت نے اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ لیکن اس سے پہلے بھی کئی دہائیوں سے یہ آنچ خاموشی سے جل رہی تھی۔ سنگھ پریوار کی کامیابی یہ ہے کہ اس نے ہندوتوا کے نظریے اور ہندو مذہب کے فرق کو پوری طرح بے شک ختم نہ کیا ہو لیکن عام لوگوں کی نظروں میں دھندلا ضرور دیا ہے۔
بھارت میں بڑھتی ہوئی انتہاپسندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی وسطی ریاست تلنگانہ میں بی جے پی کے رکن اسمبلی ٹی راجا سنگھ گائے اور رام مندر کے لیے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کے حق میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ''انسانی جان کی قیمت گائے سے زیادہ نہیں ہے۔ منہدم بابری مسجد کی جگہ ایودھیا میں رام مندر بنانے کے لیے وہ اپنے عہد کے پابند ہیں اور اس کے لیے وہ 'جان دینے اور جان لینے' کو تیار ہیں''۔ وہ کہتے ہیں کہ ''رکن اسمبلی سے پہلے میں ایک ہندو ہوں۔ اور میں اپنا فرض ادا کر رہا ہوں''۔ بہرحال اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ یہ ان کی پارٹی کا نہیں، بلکہ ان کا ذاتی موقف ہے۔ رام مندر کے متعلق متنازع بیان پر راجا سنگھ نے کہا ''رام مندر بنانا ہر ہندو کا عزم ہے اور میرا بھی عہد ہے۔
ہندو ہو یا مسلمان سکھ ہو یا عیسائی اگر کوئی بھی رام مندر کی تعمیر کی راہ میں آتا ہے تو ہم جان دے بھی سکتے ہیں اور ہم ان کی جان لے بھی سکتے ہیں''۔ٹی راجا سنگھ مزید دھمکی آمیز لہجے میں کہتے ہیں ''اگر کوئی بات نہیں مانتا ہے تو ہم ہر طرح سے تیار ہیں۔ بس ہمارا مقصد ایودھیا میں رام مندر بنانا ہے۔ ہم ہر طرح سے تیار ہیں۔ آپ سمجھ لیجیے۔ ہم ان کو نہیں چھوڑیں گے۔ گو یہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے' لیکن اگر فیصلہ ہمارے خلاف آیا توہم جان دے دیں گے لیکن ایودھیا میں رام مندر بنا کر رہیں گے۔'' ٹی راجا سنگھ گؤ رکھشا (گائے کے تحفظ) کے معاملے پر بھی واضح موقف رکھتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ'' 1999ء میں انھوں نے 'شری رام یوا سینا گؤ رکھشا دل' نامی تنظیم بنائی اور گائے کے ذبیحے کے خلاف تحریک شروع کی۔ ان کا کہنا ہے کہ گؤرکھشا کے لیے انھوں نے کئی لڑائیاں لڑی ہیں اور ان کے خلاف مقدمے بھی درج کیے گئے ہیں۔ٹی راجا سنگھ گؤ رکھشا کے متعلق آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کے حالیہ بیان کی حمایت کی بات تو کرتے ہیں، لیکن گائے کو بچانے کے لیے تشدد کو غلط نہیں سمجھتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں ''میں موہن بھاگوت کے اس بیان کی حمایت کرتا ہوں کہ جو گؤرکھشا کرتے ہیں وہ کسی کے اوپر حملہ نہ کریں۔ لیکن جب ہم گؤرکھشا کو جاتے ہیں۔ ٹرک کرائے پر لیتے ہیں، تب اگر ان کی طرف سے حملہ ہوتا ہے تو اپنا تحفظ تو کرنا ہوگا۔ نہیں تو ہم مارے جائیں گے''۔ حال ہی میں راجستھان کے الور ضلعے میں گؤرکھشاؤں کے مبینہ حملے میں ایک شخص کی موت کے معاملے پر وہ کہتے ہیں ''ہم نے بھی وہ ویڈیو دیکھی ہے۔ ہمیں بھی بہت تکلیف ہوئی کہ اس طرح ایک بوڑھے کو نہیں مارنا چاہیے لیکن گائے کی اہمیت زیادہ ہے اگر کوئی شخص اس کی جان لیتا ہے تو گؤ رکھشا کرنے والا اپنے آپے میں نہیں رہتا۔ گائے سے بڑھ کر ہمارے لیے کچھ نہیں ہے''۔ ان کے نزدیک گائے سے بڑھ کر انسان بھی نہیں ہے۔
بی جے پی کی حکمت عملی ملاحظہ ہو کہ کیسے وہ اپنے انتہاپسندانہ ایجنڈے کو پائے تکمیل تک پہنچانے کے لئے طلبہ کو بھی استعمال کر رہی ہے۔ اس کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک کی کئی یونیورسٹیوں میں آر ایس ایس کی طلبہ شاخ اکھل بھارتیہ ودھیارتھی پریشد یعنی اے بی وی پی اور بائیں بازو سے وابستہ طلبہ کے درمیان بالا دستی کی کشمکش چل رہی ہے۔ اس کشمکش کا ایک اہم پہلو جارحانہ قوم پرستی ہے جس کا استعمال اے بی وی پی اپنے مخالفین کے خلاف کرتی ہے۔ جو ادارے اور طلبہ ان کے نظریاتی دائرے میں نہیں ہیں اور آزادانہ پوزیشن اختیارکرتے ہیں انھیں ملک دشمن، ماؤ نواز اور جہادی جیسے نام دیے جاتے ہیں۔
اس وجہ سے یونیورسٹیوں میں اب جس طرح کا ماحول ہے اس میں کھلی بحث و مباحثے اور اظہار کی آزادی کے راستے بند ہوتے جارہے ہیں۔ بھارت کے وزیرمملکت برائے داخلہ نے اپنی حکومت کے اس امر کا اعادہ کیا ہے کہ یونیورسٹی کے کیمپسز میں (بقول ان کے) ملک دشمن سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس طرح کے بیانات سے نہ صرف جارحانہ قوم پرستی کو ہوا مل رہی ہے بلکہ یونیورسٹیوں میں بحث و مباحثے کے کلچر کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ کشمیر، ماؤ نواز تحریک اور مذہبی دہشت گردی جیسے اہم سوالوں پر کسی طرح کی بحث اور مباحثے اب خطرات سے خالی نہیں ہیں۔ یہ ایک خطرناک لیکن غیر متوقع صورتحال نہیں ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی مذہبی قوم پرستی کی علم بردار ہیں۔ ان کا نظریہ اعتدال پسند سیاسی، سماجی اور ثقافتی نظریے سے متصادم ہے۔ اس وقت ملک میں جو ہو رہا ہے وہ دراصل دو سیاسی نظریوں کا ٹکراؤ ہے۔ بی جے پی جیسے جیسے مضبوط ہو گی اس ٹکراؤ کا دائرہ اور بھی وسیع ہو گا۔
بھارت میں حالات اب اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ حکمراں جماعت بی جے پی کے ایک سینئر رہنما سوم سنگیت نے کہا ہے کہ بھارت کی تاریخ میں تاج محل کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ بی جے پی کے رہنما نے کہا کہ تاج محل کی عمارت کو ایک ایسے بادشاہ نے بنوایا ہے جس نے ہندوؤں کا قتل عام کیا تھا۔انہوں نے ہندوستان کے مغل بادشاہوں کو 'لٹیرے' اور 'غدار' قرار دیا۔ یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب چند ہفتے قبل اتر پردیش کی حکومت نے تاج محل کو محکمہ سیاحت کے کتابچے سے ہٹا دیا ہے۔ سوم سنگیت نے میرٹھ میں ایک ریلی سے خطاب ہوئے مغل بادشاہوں بابر، اکبر، شاہجہان اور اورنگزیب کو لٹیرے اور غدار قرار دیا اور مطالبہ کیا کہ ان کا نام بھارت کی تاریخ سے مٹا دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ شاہجہان ہندوستان کے سبھی ہندوؤں کو ختم کرنا چاہتا تھا اور ایسے حکمران کی بنائی ہوئی عمارت ہندوستان کی تاریخ کا حصہ نہیں ہو سکتی۔
جب تاج محل کو محکمہ سیاحت کے کتابچے سے ہٹایا گیا تو بہت لوگوں کو درد ہوا۔ سوم سنگیت کے مطابق گذشتہ سالوں میں تاریخ کو مسخ کر دیا گیا تھا اور اب اسے ٹھیک کیا جا رہا ہے۔ بقول ان کے بھگوان رام سے بھگوان کرشن تک مہارانا پرتاب سے شیو جی تک سبھی کو صحیح مقام تک لایا جا رہا ہے۔ اکبر اورنگزیب اور بابر کے کلنک کو ہٹایا جا رہا ہے۔ ان کے اس بیان کی بی جے پی کے قومی ترجمان نسیون جی نے بھی یہ کہتے ہوئے حمایت کی کہ ''سچائی یہ ہے کہ مسلم لیڈروں اور مغلوں نے اس دیش کو برباد کیا ہے۔بھارت کی تہذیبی قدروں پر وار کیا'' تاہم پارٹی کے ایک ترجمان نریند کوہلی نے تاج محل سے متعلق سوم سنگیت کے بیان کو ان کا ذاتی خیال قرار دیا۔ نریند کوہلی نے کہا کہ ''تاج محل بھارت کی تاریخ کا حصہ ہے۔
جو واقعات ہوئے ہیں انھیں تاریخی پس منظر میں دیکھنا چاہیے اور اسے مٹایا نہیں جا سکتا''۔ مجلس اتحاد مسلمین کے رہنما اور رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے ایک پرائیوٹ ٹی وی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ ''سوم سنگیت نے جو کہا ہے وہ بی جے پی کے بنیادی نظریے کا حصہ ہے اور وہ انتخابات کے پیش نظر معاشرے میں منافرت پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں''۔ انھوں نے سوال اٹھایا کہ ''کیا مسٹر مودی لال قلعے کی فصیل سے بھارتی جھنڈا لہرانا بند کر دیں گے۔ لال قلعہ بھی غداروں کا بنایا ہوا ہے۔ اور اگر حکومت میں دم ہے تو یونیسکو سے کہے کہ تاج محل کو ثقافتی ورثے کی فہرست سے نکال دے''۔ تاج محل دنیا کی حسین ترین عمارت تصور کیا جاتا ہے اور ہر سال لاکھوں سیاح ہر سال اس عمارت کو دیکھنے کے لیے بھارت آتے ہیں۔ بی جے پی سینئر رہنما سوم سنگیت کی جانب سے تاج محل کو انڈیا پر بدنما داغ قرار دیے جانے کے بعد سماج وادی پارٹی کے رہنما اعظم خان نے کہا کہ ''تاج محل ہی نہیں، راشٹر پتی بھون اور پارلیمنٹ کو بھی منہدم کر دینا چاہیے۔
اگر غلامی کی نشانیوں کو مٹانا ہے تو صرف 'تاج محل ہی کیوں ؟ راشٹر پتی بھون، پارلیمنٹ، لال قلعہ، قطب مینار، آگرے کا قلعہ سبھی کو گرائیے۔ یہ سبھی عمارتیں تو غداروں اور لٹیروں نے ہی بنوائی تھیں''۔ انہوں نے کہا کہ ''ان سبھی عمارتوں کو گرا دیانا چاہیے 'جن سے ماضی کے حکمرانوں کی بو آتی ہو'' لیکن وزیر اعظم نریندر مودی نے تاج محل کا نام لیے بغیر ایک تقریب میں کہا ''کوئی بھی ترقی تب تک ممکن نہیں جب تک لوگ اپنی تاریخ، اپنی وراثت اور اپنی روایات پر فخر نہیں کرتے''۔ وزیر اعظم کے اس بیان کے بعد اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ اور سادھو آدتیہ ناتھ یوگی نے بھی اپنا موقف تبدیل کرلیا اور کہا کہ ''تاج محل کس نے بنوایا، کس مقصد سے بنوایا یہ اہم نہیں ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ یہ بھارت کے مزدوروں کے خون پسینے کی کمائی سے تعمیر کیا گیا تھا۔ سیاحت کے نقطہ نظر سے اس کا فروغ اور تحقظ حکومت کی ذمہ داری ہے''۔ حالانکہ کچھ دن پہلے آدیتہ ناتھ یوگی نے یہ کہا تھا کہ'' تاج محل انڈیا کی تاریخ اور تہذیب سے مطابقت نہیں رکھتا''۔ تاج محل کے بارے میں سخت گیر ہندو قوم پرست رہنماؤں کے متنازع بیانات کو انتخابی حکمت عملی کے طورپر دیکھا جا رہا ہے۔ مبصرین ان بیانات کو ملک کی معیشت میں سست روی اور اپوزیشن جماعت کانگریس کے بڑھتے ہوئے اعتماد کے پیش نظر ہماچل اور گجرات کے انتخابات میں حکمراں بی جے کی ووٹروں کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ان بیانات پر ملک کے ٹی وی چینلز اور اخبارات میں زبردست نکتہ چینی ہوئی تھی اور یورپ اور امریکہ کے اخبارات میں بھی خبریں شائع ہوئی تھیں۔ اتر پردیش اسمبلی میں گذشتہ دنوں ریاست کا سالانہ بجٹ پیش کیا گیا۔ اس بجٹ میں ریاست کے مذہبی اور تقافتی مرکزوں اور شہروں کے فروغ کے لیے 'ہماری ثقافتی وراثت' کے نام سے ایک علیحدہ فنڈ مختص کیا گیا ہے۔
لیکن ریاست کی سب سے اہم ثقافتی اور سیاحتی عمارت تاج محل کو اس میں شامل نہیں کیا گیاکیونکہ آگرہ کے تاج محل کو ہندوستان کے مغل بادشاہ شاہجہاں نے اپنے دور بادشاہت میں تعمیر کرایا تھا اور وزیر اعلی آدتیہ ناتھ تاج محل کو 'غیر ہندوستانی' تصور کرتے ہیں اور ان کے خیال میں بھارت کی یہ حسین عمارت اس کے ماضی کی ثقافت کی عکاسی نہیں کرتی کیونکہ یہ حملہ آوروں کی بنوائی ہوئی ہے۔ اس بحٹ میں ایودھیا، بنارس، متھرا اور چتر کوٹ جیسے ہندو مذہب کے اہم مراکز کی ترقی کے لیے کئی سکیموں کا اعلان کیا گیا ہے۔ تاج محل اور بعض دوسری عمارتوں اور مقبروں کو تقافتی ورثے کے منصوبے سے الگ رکھا گیا ہے۔
حکومت نے ایودھیا، بنارس، اور متھرا میں ثقافتی مراکز کی تعمیر اور شہر کے ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لیے 20 ارب روپے سے زیادہ کی رقم منظور کی۔ بعض مورخین کا کہنا ہے کہ اترپردیش میں ثقافتی وراثت کو صرف ہندو مذہب سے شناخت کرنا ریاست کی مشترکہ وراثت کی حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو سبھی مذاہب کی ملی جلی ثقافت اور کلچر کو فرغ دینا چاہیے۔ کئی ماہرین کا خیال ہے کہ تاج محل کو نظر اندراز کرنے سے سیاحت سے ہونے والی آمدن کو نقصان پہنچے گا۔آگرہ میں میں تین عالمی ورثے کی تاریخی عمارتیں ہیں۔ ان کی دیکھ بھال اور ان کی سیاحتی ترقی کے لیے مناسب بجٹ کی ضرورت ہے۔ اس کے برعکس اگر اسے نظر انداز کیا گیا تو اس سے سیاحتی سرگرمیوں کو شدید نقصان پہنچے گا۔ اتر پردیش کے وزیر اعلی آدتیہ ناتھ ماضی میں کئی بار 'محبت کے اس عظیم شاہکار' سے اپنی نفرت کا اظہار کر چکے ہیں۔
ابھی حال میں انھوں نے کہا تھا کہ اب جب کسی ملک کے سربراہ حکومت یا مملکت بھارت کے دورے پر آتے ہیں تو انھیں تاج محل کا نمونہ تحفے میں نہیں دیا جاتا کیونکہ وہ غیر ہندوستانی ہے اور ملک کی عکاسی نہیں کرتا۔ انھوں نے کہا کہ اب اہم شخصیات کو ہندوؤں کی مذہبی کتاب گیتا تحفے میں دی جاتی ہے۔ آدتیہ ناتھ چونکہ ایک ہندو سادھو ہیں اور ہندوتوا کی تحریک سے بہت عرصے سے وابستہ ہیں۔ وہ ریاست کا وزیر اعلیٰ بننے سے پہلے ہی مسلمانوں کے خلاف اپنے بیانات کی وجہ سے بدنام تھے۔ اس لیے وہ ہندوتوا کے اس بنیادی فلسفے میں یقین رکھتے ہیں کہ بھارت صرف انگریزوں کے زمانے میں ہی غلام نہیں تھا بلکہ ہندو یہاں ایک ہزار برس قبل یعنی مسلم سلاطین کی حکمرانی کے وقت سے غلام ہیں۔
وہ افغانستان، ایران اور وسط ایشیا سے آئے ہوئے ان سلاطین کو حملہ آور اور لٹیرا قرار دیتے ہیں اور صدیوں تک اس ملک میں رہنے اور یہاں کی ثقافت اور مٹی میں رچ بس جانے کے باوجود انھیں غیر ملکی حملہ آور ہی تصور کرتے ہیں۔تاج محل کے خالق شاہجہاں کے آبا و اجداد ان سے سو برس قبل بھارت آئے تھے۔ اس سو برس میں ان کی کئی نسلیں ہندوستان میں پروان چڑھیں۔ شاہجہاں ایک ہندوستانی بادشاہ تھا۔ وہ اپنے تیموری اور منگولیائی پس منظر کے ساتھ ساتھ خود کو ہندوستان سے بھی پوری طرح شناخت کرتا تھا۔ بھارت کا جو تصور آج ہے اس طرح کا شاہجہاں کے زمانے میں نہیں تھا۔ جدید انڈیا کو انگریزوں نے تیار کیا اور اسے ایک جدید نیشن سٹیٹ کی شکل دی۔ ہندوتوا کے پیروکاروں کا تصور ہے کہ ہندو، بودھ، جین اور سکھ مذاہب میں یقین رکھنے والے ہی اصل بھارتی ہیں۔ مسلم یا عیسائی خواہ وہ انڈیا میں ہی پیدا ہوئے ہوں وہ اپنے مذہبی عقیدے کی طرح اصل بھارتی نہیں ہیں۔
اس نظریے کو صحیح ثابت کرنے کے لیے ہندوتوا کے پیروکار اس تھیوری کو بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ آریہ نسل کے لوگ مختلف گروپوں میں چار ہزار برس قبل وسطی ایشیا سے بھارت آئے۔ سبھی مسلمان بادشاہوں کو حملہ آور اور مسلمانوں کو غیر ہندوستانی قرار دینے کے لیے وہ اس دلیل پر مصر ہیں کہ آرین یہیں بھارت کے ہی تھے۔ کئی تجزیہ کاروں کے مطابق حملہ آور تھیوری ہندو قوم پرستی کا ایک بہت بڑا ہتھیار ہے۔ یہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف عام ہندوؤں کو متحد کرنے میں کافی مددگار ہے۔قوم پرستی کی نئی لہر میں مغل بادشاہ اور ان کی یادگاریں بھی نفرتوں کی زد میں ہیں۔ دہلی میں اورنگزیب نام کی سڑک کا نام بدل دیا گیا ہے۔ نصابی کتابوں میں بادشاہ اکبر کے نام ساتھ 'اعظم' لکھا جاتا تھا وہ ہٹا لیا گیا ہے۔
اکبر سے جنگ لڑنے والے راجپوت راجہ رانا پرتاپ کو اب 'گریٹ' کہا جاتا ہے۔ اتر پردیش کی حکومت ریاست کے ایک شہر مغل سرائے کا نام تبدیل کرنے والی ہے کیوں کہ اس میں مغل نام لگا ہوا ہے۔ تاج محل بھی ایک عرصے سے نفرتوں کی زد میں ہے۔ چونکہ یہ عالمی ورثے کی ایک اہم عمارت ہے اس لیے اس سے منسوب تنازع زیادہ زور نہیں پکڑ سکا۔ لیکن اب مرکز اور ریاست دونوں جگہ ہندوتوا نواز حکومتیں قائم ہیں اس لیے قوم پرستی کی موجودہ لہر میں وہ دن دور نہیں جب آئندہ بحث مسلم حکمرانوں اور ان کی یادگاروں پر ہو۔
بھارت سے ان دنوں تواتر سے خبر آ رہی ہے کہ معیشت کی حالت اچھی نہیں اور یہ بات صرف نریندر مودی کے روایتی ناقد نہیں بلکہ سابق واجپائی حکومت کے وزیرِ خزانہ و خارجہ یشونت سنہا اور میڈیائی نظریہ ساز ارون شوری جیسے پائے کے لوگ کہہ رہے ہیں۔کالے دھن کی روک تھام کے لیے ہزار اور پانچ سو کے نوٹوں کی منسوخی سے جو توقعات وابستہ تھیں وہ تو پوری نہ ہو سکیں اور ساری دولت پھر سے بینکوں میں آ گئی البتہ چھوٹا کاروباری اور مزدور تب سے مسلسل چیخ رہا ہے۔ مزید براں قومی سطح پر جنرل سیلز ٹیکس کی منطق بھی کسی کے پلے نہیں پڑ رہی۔ ہر سال ایک کروڑ سے زائد نوجوان ملازمت کی مارکیٹ میں داخل ہو رہے ہیں۔
مودی نے ووٹ لیتے وقت بیروزگاری کے خاتمے کا جو خواب دکھایا تھا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ تین برس میں لگ بھگ چار لاکھ باقاعدہ ملازمتیں ہی پیدا ہو پائیں۔ اس پورے عرصے میں بھارتی میڈیا یک زبان 'مودی مہاراج کی جے ہو' کہتے کہتے اب دبے دبے لفظوں میں تنقید کرنے لگا ہے۔ پچھلے دنوں سیکولرازم کی علم بردار معروف صحافی گوری لنکیش کا قتل بھی بہت غلط وقت پر ہوا۔ ہماچل اور گجرات میں انتخابات کی تلوار سر پر ہے۔ مودی کے گجرات میں اگر بی جے پی نہ بھی ہارے مگر کم اکثریت سے جیتے تو یہ نتائج بھی سنگھ پریوار کے بلڈوزرانہ نظریاتی و سیاسی سفر کو آہستہ کر سکتے ہیں لہذا من جملہ مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے ضرورت ہے کہ ایسے ہوائی مسائل ایجاد ہوتے رہیں کہ لوگوں کی توجہ حکومت کی دن بدن متنازع کارکردگی سے ہٹی رہے۔
پاکستان، کشمیر اور دہشت گردی جیسے موضوعات سے حاصل ہونے وا لے فوائد اپنی جگہ مگر اب کچھ نیا بھی چاہیے چنانچہ یہ بے بنیاد بحث چھیڑ دی گئی کہ مغلوں کا ہندوستانی تاریخ میں کیا مقام ہے ؟ اور ان کی قائم کردہ یادگاروں اور تاج محل جیسے شاہکاروں کو قومی نشانی مانا جائے یا لٹیروں کی میراث سمجھ کے پرے پھینک دیا جائے ؟ چنانچہ ایک کونے سے یوگی آدتیہ ناتھ بولتا ہے تو دوسرے کونے سے کوئی سوم سنگیت اس پرگرہ لگاتے ہوئے آواز اٹھاتا ہے۔ جب حسبِ منشا اصل مسائل پر بحث کا رخ کچھ دنوں کے لیے مڑ جاتا ہے تو پھر مودی صاحب یا ان کا کوئی ترجمان اعتدال پسندی اختیار کرنے کا ٹویٹ کر دیتے ہیں۔ چند دن خاموشی رہتی ہے اور پھر پٹاری سے کوئی نیا سانپ نکل آتا ہے۔ کل بابری مسجد تھی، آج تاج محل ہے، کل کچھ اور آ جائے گا۔اہم بات یہ ہے کہ کون سامعاملہ کس وقت کام آ سکتا ہے ؟
خدشہ یہی ہے کہ اگر انڈیا میں سنگھ پریوار کو لگا کہ اس کا جادو اپنا اثر کھو رہا ہے تو پھر اگلے دو برس میں بہت سے تاج محل، بہت سے تاریخی لٹیرے اور بہت سے غدار سیاست کے چرنوں میں بھینٹ کے لیے ذہنی طور پر تیار رہیں۔
آبادی کے لحاظ سے بھارت کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے حالیہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی زبردست جیت اور یوگی آدتیہ ناتھ کے وزیر اعلی بننے کے بعد ریاست کے مسلمانوں میں مزید پریشانی پھیل گئی ہے اور بی جے پی کی کامیابی سے انھیں بڑا سیاسی دھچکا لگا۔ ریاست اتر پردیش میں مسلمانوں کی آبادی 20 فیصد ہے، یعنی ریاست میں چار کروڑ مسلمان بستے ہیں۔ اسمبلی کی 403 نشستوں کے لیے حال ہی میں ہونے والے انتخابات میں بی جے پی نے کسی بھی مسلمان کو پارٹی ٹکٹ نہیں دیا اور نہ ہی اس نے مسلمانوں سے ووٹ مانگے۔
اس کے باوجود پارٹی کوتاریخ ساز کامیابی ملی۔ گذشتہ انتخابات میں 65 مسلمان امیدوار منتخب ہوئے تھے۔ اس اسمبلی میں ان کی تعداد گھٹ کر 23 رہ گئی ہے جن میں سے زیادہ تر سماج وادی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ غیر قانونی کہے جانے والے مذبح خانوں کے خلاف کارروائی اور رام مندر بنانے کے لیے نئے سرے سے بیان بازی کی وجہ سے مسلمانوں میں خوف بڑھ رہا ہے۔ انھیں لگ رہا ہے کہ اب ان کے حق چھین لیے جائیں گے اور وہ دوسرے درجے کے شہری بن کر رہ جائیں گے۔ انھیں صرف ہندو انتہاپسندوں کے ہاتھوں تشدد کا ہی خوف نہیں بلکہ اترپردیش میں حکومت نے غیر قانونی مذبح خانوں کو بند کرنے کے نام پر اور مویشیوں کی خرید وفروخت کے نئے ضابطوں سے مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی کو ایک لمحے میں بے روزگار کر دیا ہے۔
سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلوں پر قوم پرستی کی لہر جاری ہے اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز پیغامات پوسٹ اور تبصروں کا ایک منظم سلسلہ شروع ہے۔ حکمراں بی جے پی ایک ہندو نواز جماعت ہے اور ہندوتوا کے سیاسی اور مذہبی نظریے پر یقین رکھتی ہے۔ وہ ملک کو ایک ہندو راشٹر بنانے کے تصور پر عمل پیرا ہے جس میں مسلمان اور مسیحی اقلیتوں کے لوگ دوسرے درجے کے شہری ہوں گے۔مسلمانوں نے ابتدا سے ہی بی جے پی کی مخالفت کی۔ اب جبکہ بی جے پی اپنے زور پر اقتدار میں آ گئی ہے تو اس نے مسلمانوں کو پوری طرح مسترد ہی نہیں بلکہ محدود کر دیا ہے۔
اپوزیشن انتہائی کمزور اور پوری طرح منتشر ہے۔ قوم پرستی کے اس دور میں میڈیا حکومت نواز ہو چکا ہے ۔ اسی لیے بی جے پی کا سیاسی اثر مزید بڑھتا جا رہا ہے اور اپوزیشن جماعتیں کوئی نظریاتی یا سیاسی چیلنج بننے کے بجائے اپنے باقی ماندہ وجود کو بچانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ بہت سے مسلمانوں کا خیال ہے کہ انھیں تقسیم ہند کے بعد، اب تک کے سب سے سنگین بحران کا سامنا ہے رام پور سے کئی بار انتخابات جیتنے والے رکن اسمبلی اعظم خان، جو وزیر بھی رہے ہیں، کے مطابق ''مسلمان تو اب اپنا نام بتانے سے ڈرتے ہیں۔ مسلمانوں کے ووٹ دینے کے حق کو ختم کرنے اور ان کو دوسرے، تیسرے درجے کا شہری بنانے کی بات بہت عرصے سے چل رہی ہے اور یہ آر ایس ایس کا ایجنڈا بھی ہے''۔ کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں ملک کے اعتدال پسندوں اور جمہوریت نواز اکثریت کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے۔
مسلمان بھارتی جمہوریت میں ہمیشہ مین سٹریم سیاسی جماعتوں سے وابستہ رہے ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں نے مسلمانوں کو ووٹ بینک کے طور پر استعمال کیا اور انھیں غربت اور پسماندگی میں دھکیلتی گئیں۔ ان دشوار مراحل میں بھی مسلمانوں کا رویہ ہمیشہ مثبت رہا۔ انھوں نے اپنی علیحدہ سیاسی جماعت کے تصور کو کبھی قبول نہیں کیا۔بھارتی جمہوریت کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب ملک کی پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی سب سے نیچے آگئی ہے۔ وہ بی جے پی کو ایک ہندوتوا وادی اور مسلمان مخالف جماعت سمجھتے آئے ہیں اور اس کو صرف اپنے لیے نہیں ملک کی جمہوریت کے لیے بھی خطرہ سمجھتے ہیں۔ ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی جس طرح کی فضا بنی ہوئی ہے، اس ماحول میں ملک کے طول و عرض میں ہر جگہ ان میںگھبراہٹ اور بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت کی خطرے میں گھری ہوئی جمہوریت کو درپیش چیلنجز میں بھارتی مسلمانوں کو کوئی ایسا راہنما ملے جو ان کی کی سیاسی رہنمائی کر سکے۔
بی جے پی کے رویے پر ذرا غور کیجئے۔ شیو بہادر سکسینہ بی جے پی کے ایک سینیئر لیڈر ہیں۔ وہ دو بار وزیر رہ چکے ہیں۔ سکسینہ کا کہنا ہے کہ ''مسلمان فکر مند ہیں کہ اب تک جو من مانی وہ کرتے تھے اب نہیں چلے گی۔ رام پور میں ہندو اقلیت میں ہیں۔ مسلمان ان کو دباتے تھے۔ ان ہندوؤں میں یہ احساس بیدار ہوا ہے کہ اب ان کی حکومت آ گئی ہے''جبکہ یوپی کے مسلمانوں کا بی جے پی کے متعلق کہناہے کہ ''مسلمان جب ان کے قریب جانے کی کوشش کرتا ہے تو ان کا برتاؤ ایسا ہونے لگتا ہے کہ مسلمان ان سے دور ہونے لگتا ہے جیسے کہ گائے کا معاملہ یا تین طلاق کا مسئلہ۔ ان سب مسائل سے مسلمان بدظن ہیں۔ اگر وہ یہ باتیں دور کر دیں تو مسلمان ان کے قریب آ سکتے ہیں۔'
دوسری طرف شیو بہادر سکسینہ کہتے ہیں کہ ''ان کی پارٹی مسلمانوں کو قبول کرنے کو تیار بیٹھی ہے۔ یہ ایک قدم ہماری طرف آ کر تو دیکھیں، ہم دو قدم آگے بڑھ کر گلے نہیں لگائیں تو بات ہے لیکن یوپی کے مسلمانوں کو اپنی ذہنیت بدلنی پڑے گی'' لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ذہنیت تبدیل کرنے کا کیا مطلب ہے ؟ سکسینہ کا کہنا ہے کہ ''مسلمانوں کو بی جے پی پر بھروسہ کرنا ہوگا۔ وزیر اعظم کا نعرہ ہے سب کا ساتھ سب کی وکاس (ترقی)۔ ہم اس میں انھیں بھی شامل کرنا چاہتے ہیں''۔کیا مسلمان ان کی بات پر اعتبار کر سکتے ہیں؟
بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد مسلمانوں میں بھی اب غور و فکر جاری ہے۔ ایک متفقہ خیال یہ ہے کہ اگر بی جے پی مسلمان مخالف ہے تو خود کو 'مسلمانوں کا مسیحا' کہنے والی پارٹیوں نے ان کا کیا بھلا کیا ؟ سنبھل کے سینئر مسلم لیڈر شفیق الرحمن برق سماج وادی پارٹی کے بانی رکن تھے اور چار بار لوک سبھا کا الیکشن جیت چکے ہیں۔ وہ حال ہی میں آل انڈیا اتحاد المسلمین میں شامل ہو گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ''سماج وادی پارٹی اور دوسری سیکولر پارٹیوں نے مسلمانوں کو صرف اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا ہے۔ ان پارٹیوں نے بھی مسلمانوں کو برابر کا شریک نہیں سمجھا جس کی وجہ سے مسلمانوں میں غربت، بے روزگاری اور تعلیم کا مسئلہ حل نہیں ہو سکا ہے''۔
دوسری طرف مسلمان کے درمیان اتحاد کی بات بھی زور پکڑ رہی ہے۔ اتحاد کے معاملے پر رہنما اور عوام دونوں متفق ہیں۔ مسلمانوں کو احساس ہو رہا ہے کہ وہ بہت سے فرقوں اور گروہوں میں منقسم ہیں جس کی وجہ سے ان کے ووٹ بھی تقسیم ہو جاتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ انتخابات میں کسی پارٹی کا ووٹ بینک نہ بنا جائے بلکہ تمام مسلمان ایک علاقے میں ایک ہی مسلمان امیدوار کو ووٹ دیں تاکہ ان کا ووٹ تقسیم نہ ہو۔لیکن زیادہ تر مسلمانوںکاخیال ہے کہ مسلم اتحاد کافی نہیں ہے۔ مسلمانوں کو سیکولر طاقتوں کے ساتھ مکمل طور پر جڑنا ہوگا۔ لیکن یہ کہنا جتنا آسان ہے کرنا اتنا ہی مشکل۔ مسلمانوں کے مطابق فی الحال اس بات کی ضرورت ہے کہ ریاست میں امن قائم ہو۔ بی جے پی کے جتنے بھی لیڈر ہیں وہ اپنی زبان سنبھالیں اور مسلمانوں کے ساتھ محبت سے پیش آئیں۔
بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے سخت گیر ہندو نظریات کے حامل رہنما یوگی ادتیہ ناتھ کو ریاست اترپردیش کا وزیر اعلی بنانے فیصلہ کیا۔ پارٹی نے حالیہ اسبملی انتخابات میں زبردست کامیابی حاصل کی تھی جس کے بعد سے قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ آخر یو پی کا وزیر اعلی کون ہوگا ؟ پارٹی کا کہنا ہے کہ اس کی جماعت کے منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی نے متفقہ طور پر یوگی کو وزیر اعلی منتخب کرنے کا فیصلہ کیا۔ یوگی آدتیہ ناتھ شہر گورکھپور سے پانچویں بار رکن پارلیمان منتخب ہوئے ہیں۔ وہ گورکھ پور کے معروف مندر گورکھ ناتھ مٹھ کے مہنتھ یعنی مندر کے سربراہ بھی ہیں۔ان کا تعلق پہاڑی ریاست اتراکھنڈ کے گڑھوال کے ایک گاؤں سے بتایا جاتا ہے۔
ان کا اصل نام اجے سنگھ بشٹ ہے لیکن یوگی آدتیہ ناتھ بننے سے پہلے کی ان کی زندگی کے بارے میں لوگوں کو زیادہ معلوم نہیں ہے۔ وہ یم وتی نندن بہوگنا یونیورسٹی سے سائنس کے گریجویٹ ہیں اور ان کے خاندان کے لوگ ٹرانسپورٹ بزنس میں ہیں۔ لیکن سیاست میں یوگی آدتیہ ناتھ کی شناخت ایک انتہاپسند ہندو رہنما کی ہے۔ وہ مسلمانوں کے بارے میں اپنے متنازع بیانات کے لیے مشہور ہیں جن کی ایک طویل فہرست ہے۔ وہ سخت گیر ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کے نظریات سے کافی قریب سمجھے جاتے ہیں۔ گذشتہ برس مارچ میں گورکھناتھ مندر میں ہونے والے ایک اجلاس میں، جہاں آر ایس ایس کے سرکردہ رہنما بھی موجود تھے، یوگی آدتیہ ناتھ کو یو پی کا وزیر اعلی بنانے کا عہد کیا گیا تھا۔
یوگی آدتیہ ناتھ کی ہندو یوا واہنی نامی ایک ملیشیا بھی ہے جسے انھوں نے خود قائم کیا تھا۔ ان کے مطابق یہ ملیشیا دراصل ایک 'ثقافتی تنظیم' ہے جو ہندو مخالف، ملک مخالف اور ماؤنواز مخالف سرگرمیوں کو کنٹرول کرتی ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ کی سیاست تشدد سے پر رہی ہے اور خود ان کے خلاف بھی قتل کرنے کی کوشش، فساد برپا کرنے، سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے، ہندووئں اورمسلمانوں کے درمیان نفرت پھیلانے، مزار کو نقصان پہنچانے جیسے الزامات کے تحت مقدمات درج ہیں۔
یوگی آدتیہ ناتھ نے گزشتہ دنوں بابری مسجد کے مقام پر تعمیر متنازع رام مندر میں پوجا کی۔ سوال یہ ہے کہ وہ لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اما بھارتی جیسے بی جے پی کے سینیئر رہنماؤں کے خلاف بابری مسجد کی شہادت سے متعلق کیس میں مجرمانہ سازش کی فرد جرم عائد کیے جانے کے صرف ایک دن بعد ایودھیا کیوں گئے ؟ یہ دراصل ہندوتوا کی کڑھائی کو کبھی دھیمی تو کبھی تیز آنچ پر ابالتے رکھنے کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ جب وہ پہلے رام مندر اور پھر ایودھیا سے گزرنے والی سریو ندی کے گھاٹ پر پوجا کر رہے تھے تو ایک طرح سے وہ اسی سیاسی پیغام کو دہرا رہے تھے جو بھارتیہ جنتا پارٹی نے اتر پردیش کے حالیہ اسمبلی انتخابات میں ریاست کے مسلمانوں کو دیا تھا ''نہ ہم کسی مسلمان کو ٹکٹ دیں گے اور نہ ہی ہمیں ان کے ووٹ کی ضرورت ہے''۔
بی جے پی کے بڑے رہنما جانتے ہیں کہ بحیثیت وزیراعلیٰ یوگی کی ایودھیا یاترا سے رام جنم بھومی کی تحریک پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ بی جے پی لگاتار کہتی رہی ہے کہ اس مسئلے کو باہمی مذاکرات یا عدالت کے ذریعہ ہی حل کیا جائے گا۔لیکن ہندوتوا کی بھٹی کی آگ کو لگاتار سلگائے رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ رام جنم بھومی کا مسئلہ خبروں میں رہے تاکہ لوگ اسے بھول نہ جائیں اور اسے ہندوؤں کے حقوق کی لڑائی سے جوڑا جا سکے۔ اس آگ کو جلائے رکھنے کے لیے آر ایس ایس یا اس سے وابستہ اداروں سے وابستہ درجنوں لوگ اور تنظیمیں اپنی حیثیت اور طاقت کے مطابق کبھی گائے تو کبھی انڈین فوج، جواہر لال نہرو یونیورسٹی، لو جہاد، اینٹی رومیو سکواڈ یا گھر واپسی جیسے معاملات اٹھاتے رہتے ہیں۔ اس طرح ہندوتوا کی کڑھائی کو سنگھ پریوار نے گذشتہ تین برسوں سے تیز آنچ پر رکھا ہے کیونکہ اسے حکومت کی حمایت حاصل ہے۔
ان تین برسوں میں دہلی کے قریب دادری میں ایک مسلمان کو صرف اس افواہ کی بنیاد پر مار دیا گیا کہ اس کے گھر میں گائے کا گوشت تھا اور جب ملزمان میں سے ایک کی بیماری کی وجہ سے جیل میں موت ہوگئی تو اس کی لاش کو قومی پرچم میں لپیٹ کر 'شہید' کا درجہ دیا گیا۔ انہیں تین برسوں میں سوامی اسیم آنند اور سادھوی پرگیا سنگھ ٹھاکر جیسے کئی ایسے لوگ بھی ضمانت پر جیل سے باہر آ گئے جنھیں دہشت گردی کے الزامات میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اسیم آنند پر مکہ مسجد، اجمیرشریف اور سمجھوتہ ایکسپریس میں دھماکے کرنے کا الزام ہے۔
ان واقعات میں درجنوں لوگ ہلاک ہوگئے تھے۔ قومی تفتیشی بیورو کا کہنا ہے کہ اسیم آنند کی ضمانت کو وہ اعلیٰ عدالت میں چیلنج نہیں کرے گی۔ کیا ان واقعات سے ہندوتوا کے ماننے والوں کو یہ پیغام نہیں ملتا کہ قانون توڑنے پر اگر وہ پولیس اور عدالت کے چکر میں پھنس بھی گئے تو آخرکار انہیں بچا لیا جائے گا؟ خود وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ پر 2007 میں مذہبی منافرت پھیلانے کا الزام ہے لیکن ان کے خلاف مقدمہ ریاستی حکومت کی اجازت کے بغیر نہیں چل سکتا۔ وہ خود وزیراعلیٰ ہیں لہٰذا ظاہر ہے کہ ریاستی حکومت نے اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ لیکن اس سے پہلے بھی کئی دہائیوں سے یہ آنچ خاموشی سے جل رہی تھی۔ سنگھ پریوار کی کامیابی یہ ہے کہ اس نے ہندوتوا کے نظریے اور ہندو مذہب کے فرق کو پوری طرح بے شک ختم نہ کیا ہو لیکن عام لوگوں کی نظروں میں دھندلا ضرور دیا ہے۔
بھارت میں بڑھتی ہوئی انتہاپسندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی وسطی ریاست تلنگانہ میں بی جے پی کے رکن اسمبلی ٹی راجا سنگھ گائے اور رام مندر کے لیے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کے حق میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ''انسانی جان کی قیمت گائے سے زیادہ نہیں ہے۔ منہدم بابری مسجد کی جگہ ایودھیا میں رام مندر بنانے کے لیے وہ اپنے عہد کے پابند ہیں اور اس کے لیے وہ 'جان دینے اور جان لینے' کو تیار ہیں''۔ وہ کہتے ہیں کہ ''رکن اسمبلی سے پہلے میں ایک ہندو ہوں۔ اور میں اپنا فرض ادا کر رہا ہوں''۔ بہرحال اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ یہ ان کی پارٹی کا نہیں، بلکہ ان کا ذاتی موقف ہے۔ رام مندر کے متعلق متنازع بیان پر راجا سنگھ نے کہا ''رام مندر بنانا ہر ہندو کا عزم ہے اور میرا بھی عہد ہے۔
ہندو ہو یا مسلمان سکھ ہو یا عیسائی اگر کوئی بھی رام مندر کی تعمیر کی راہ میں آتا ہے تو ہم جان دے بھی سکتے ہیں اور ہم ان کی جان لے بھی سکتے ہیں''۔ٹی راجا سنگھ مزید دھمکی آمیز لہجے میں کہتے ہیں ''اگر کوئی بات نہیں مانتا ہے تو ہم ہر طرح سے تیار ہیں۔ بس ہمارا مقصد ایودھیا میں رام مندر بنانا ہے۔ ہم ہر طرح سے تیار ہیں۔ آپ سمجھ لیجیے۔ ہم ان کو نہیں چھوڑیں گے۔ گو یہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے' لیکن اگر فیصلہ ہمارے خلاف آیا توہم جان دے دیں گے لیکن ایودھیا میں رام مندر بنا کر رہیں گے۔'' ٹی راجا سنگھ گؤ رکھشا (گائے کے تحفظ) کے معاملے پر بھی واضح موقف رکھتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ'' 1999ء میں انھوں نے 'شری رام یوا سینا گؤ رکھشا دل' نامی تنظیم بنائی اور گائے کے ذبیحے کے خلاف تحریک شروع کی۔ ان کا کہنا ہے کہ گؤرکھشا کے لیے انھوں نے کئی لڑائیاں لڑی ہیں اور ان کے خلاف مقدمے بھی درج کیے گئے ہیں۔ٹی راجا سنگھ گؤ رکھشا کے متعلق آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کے حالیہ بیان کی حمایت کی بات تو کرتے ہیں، لیکن گائے کو بچانے کے لیے تشدد کو غلط نہیں سمجھتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں ''میں موہن بھاگوت کے اس بیان کی حمایت کرتا ہوں کہ جو گؤرکھشا کرتے ہیں وہ کسی کے اوپر حملہ نہ کریں۔ لیکن جب ہم گؤرکھشا کو جاتے ہیں۔ ٹرک کرائے پر لیتے ہیں، تب اگر ان کی طرف سے حملہ ہوتا ہے تو اپنا تحفظ تو کرنا ہوگا۔ نہیں تو ہم مارے جائیں گے''۔ حال ہی میں راجستھان کے الور ضلعے میں گؤرکھشاؤں کے مبینہ حملے میں ایک شخص کی موت کے معاملے پر وہ کہتے ہیں ''ہم نے بھی وہ ویڈیو دیکھی ہے۔ ہمیں بھی بہت تکلیف ہوئی کہ اس طرح ایک بوڑھے کو نہیں مارنا چاہیے لیکن گائے کی اہمیت زیادہ ہے اگر کوئی شخص اس کی جان لیتا ہے تو گؤ رکھشا کرنے والا اپنے آپے میں نہیں رہتا۔ گائے سے بڑھ کر ہمارے لیے کچھ نہیں ہے''۔ ان کے نزدیک گائے سے بڑھ کر انسان بھی نہیں ہے۔
بی جے پی کی حکمت عملی ملاحظہ ہو کہ کیسے وہ اپنے انتہاپسندانہ ایجنڈے کو پائے تکمیل تک پہنچانے کے لئے طلبہ کو بھی استعمال کر رہی ہے۔ اس کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک کی کئی یونیورسٹیوں میں آر ایس ایس کی طلبہ شاخ اکھل بھارتیہ ودھیارتھی پریشد یعنی اے بی وی پی اور بائیں بازو سے وابستہ طلبہ کے درمیان بالا دستی کی کشمکش چل رہی ہے۔ اس کشمکش کا ایک اہم پہلو جارحانہ قوم پرستی ہے جس کا استعمال اے بی وی پی اپنے مخالفین کے خلاف کرتی ہے۔ جو ادارے اور طلبہ ان کے نظریاتی دائرے میں نہیں ہیں اور آزادانہ پوزیشن اختیارکرتے ہیں انھیں ملک دشمن، ماؤ نواز اور جہادی جیسے نام دیے جاتے ہیں۔
اس وجہ سے یونیورسٹیوں میں اب جس طرح کا ماحول ہے اس میں کھلی بحث و مباحثے اور اظہار کی آزادی کے راستے بند ہوتے جارہے ہیں۔ بھارت کے وزیرمملکت برائے داخلہ نے اپنی حکومت کے اس امر کا اعادہ کیا ہے کہ یونیورسٹی کے کیمپسز میں (بقول ان کے) ملک دشمن سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس طرح کے بیانات سے نہ صرف جارحانہ قوم پرستی کو ہوا مل رہی ہے بلکہ یونیورسٹیوں میں بحث و مباحثے کے کلچر کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ کشمیر، ماؤ نواز تحریک اور مذہبی دہشت گردی جیسے اہم سوالوں پر کسی طرح کی بحث اور مباحثے اب خطرات سے خالی نہیں ہیں۔ یہ ایک خطرناک لیکن غیر متوقع صورتحال نہیں ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی مذہبی قوم پرستی کی علم بردار ہیں۔ ان کا نظریہ اعتدال پسند سیاسی، سماجی اور ثقافتی نظریے سے متصادم ہے۔ اس وقت ملک میں جو ہو رہا ہے وہ دراصل دو سیاسی نظریوں کا ٹکراؤ ہے۔ بی جے پی جیسے جیسے مضبوط ہو گی اس ٹکراؤ کا دائرہ اور بھی وسیع ہو گا۔
بھارت میں حالات اب اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ حکمراں جماعت بی جے پی کے ایک سینئر رہنما سوم سنگیت نے کہا ہے کہ بھارت کی تاریخ میں تاج محل کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ بی جے پی کے رہنما نے کہا کہ تاج محل کی عمارت کو ایک ایسے بادشاہ نے بنوایا ہے جس نے ہندوؤں کا قتل عام کیا تھا۔انہوں نے ہندوستان کے مغل بادشاہوں کو 'لٹیرے' اور 'غدار' قرار دیا۔ یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب چند ہفتے قبل اتر پردیش کی حکومت نے تاج محل کو محکمہ سیاحت کے کتابچے سے ہٹا دیا ہے۔ سوم سنگیت نے میرٹھ میں ایک ریلی سے خطاب ہوئے مغل بادشاہوں بابر، اکبر، شاہجہان اور اورنگزیب کو لٹیرے اور غدار قرار دیا اور مطالبہ کیا کہ ان کا نام بھارت کی تاریخ سے مٹا دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ شاہجہان ہندوستان کے سبھی ہندوؤں کو ختم کرنا چاہتا تھا اور ایسے حکمران کی بنائی ہوئی عمارت ہندوستان کی تاریخ کا حصہ نہیں ہو سکتی۔
جب تاج محل کو محکمہ سیاحت کے کتابچے سے ہٹایا گیا تو بہت لوگوں کو درد ہوا۔ سوم سنگیت کے مطابق گذشتہ سالوں میں تاریخ کو مسخ کر دیا گیا تھا اور اب اسے ٹھیک کیا جا رہا ہے۔ بقول ان کے بھگوان رام سے بھگوان کرشن تک مہارانا پرتاب سے شیو جی تک سبھی کو صحیح مقام تک لایا جا رہا ہے۔ اکبر اورنگزیب اور بابر کے کلنک کو ہٹایا جا رہا ہے۔ ان کے اس بیان کی بی جے پی کے قومی ترجمان نسیون جی نے بھی یہ کہتے ہوئے حمایت کی کہ ''سچائی یہ ہے کہ مسلم لیڈروں اور مغلوں نے اس دیش کو برباد کیا ہے۔بھارت کی تہذیبی قدروں پر وار کیا'' تاہم پارٹی کے ایک ترجمان نریند کوہلی نے تاج محل سے متعلق سوم سنگیت کے بیان کو ان کا ذاتی خیال قرار دیا۔ نریند کوہلی نے کہا کہ ''تاج محل بھارت کی تاریخ کا حصہ ہے۔
جو واقعات ہوئے ہیں انھیں تاریخی پس منظر میں دیکھنا چاہیے اور اسے مٹایا نہیں جا سکتا''۔ مجلس اتحاد مسلمین کے رہنما اور رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے ایک پرائیوٹ ٹی وی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ ''سوم سنگیت نے جو کہا ہے وہ بی جے پی کے بنیادی نظریے کا حصہ ہے اور وہ انتخابات کے پیش نظر معاشرے میں منافرت پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں''۔ انھوں نے سوال اٹھایا کہ ''کیا مسٹر مودی لال قلعے کی فصیل سے بھارتی جھنڈا لہرانا بند کر دیں گے۔ لال قلعہ بھی غداروں کا بنایا ہوا ہے۔ اور اگر حکومت میں دم ہے تو یونیسکو سے کہے کہ تاج محل کو ثقافتی ورثے کی فہرست سے نکال دے''۔ تاج محل دنیا کی حسین ترین عمارت تصور کیا جاتا ہے اور ہر سال لاکھوں سیاح ہر سال اس عمارت کو دیکھنے کے لیے بھارت آتے ہیں۔ بی جے پی سینئر رہنما سوم سنگیت کی جانب سے تاج محل کو انڈیا پر بدنما داغ قرار دیے جانے کے بعد سماج وادی پارٹی کے رہنما اعظم خان نے کہا کہ ''تاج محل ہی نہیں، راشٹر پتی بھون اور پارلیمنٹ کو بھی منہدم کر دینا چاہیے۔
اگر غلامی کی نشانیوں کو مٹانا ہے تو صرف 'تاج محل ہی کیوں ؟ راشٹر پتی بھون، پارلیمنٹ، لال قلعہ، قطب مینار، آگرے کا قلعہ سبھی کو گرائیے۔ یہ سبھی عمارتیں تو غداروں اور لٹیروں نے ہی بنوائی تھیں''۔ انہوں نے کہا کہ ''ان سبھی عمارتوں کو گرا دیانا چاہیے 'جن سے ماضی کے حکمرانوں کی بو آتی ہو'' لیکن وزیر اعظم نریندر مودی نے تاج محل کا نام لیے بغیر ایک تقریب میں کہا ''کوئی بھی ترقی تب تک ممکن نہیں جب تک لوگ اپنی تاریخ، اپنی وراثت اور اپنی روایات پر فخر نہیں کرتے''۔ وزیر اعظم کے اس بیان کے بعد اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ اور سادھو آدتیہ ناتھ یوگی نے بھی اپنا موقف تبدیل کرلیا اور کہا کہ ''تاج محل کس نے بنوایا، کس مقصد سے بنوایا یہ اہم نہیں ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ یہ بھارت کے مزدوروں کے خون پسینے کی کمائی سے تعمیر کیا گیا تھا۔ سیاحت کے نقطہ نظر سے اس کا فروغ اور تحقظ حکومت کی ذمہ داری ہے''۔ حالانکہ کچھ دن پہلے آدیتہ ناتھ یوگی نے یہ کہا تھا کہ'' تاج محل انڈیا کی تاریخ اور تہذیب سے مطابقت نہیں رکھتا''۔ تاج محل کے بارے میں سخت گیر ہندو قوم پرست رہنماؤں کے متنازع بیانات کو انتخابی حکمت عملی کے طورپر دیکھا جا رہا ہے۔ مبصرین ان بیانات کو ملک کی معیشت میں سست روی اور اپوزیشن جماعت کانگریس کے بڑھتے ہوئے اعتماد کے پیش نظر ہماچل اور گجرات کے انتخابات میں حکمراں بی جے کی ووٹروں کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ان بیانات پر ملک کے ٹی وی چینلز اور اخبارات میں زبردست نکتہ چینی ہوئی تھی اور یورپ اور امریکہ کے اخبارات میں بھی خبریں شائع ہوئی تھیں۔ اتر پردیش اسمبلی میں گذشتہ دنوں ریاست کا سالانہ بجٹ پیش کیا گیا۔ اس بجٹ میں ریاست کے مذہبی اور تقافتی مرکزوں اور شہروں کے فروغ کے لیے 'ہماری ثقافتی وراثت' کے نام سے ایک علیحدہ فنڈ مختص کیا گیا ہے۔
لیکن ریاست کی سب سے اہم ثقافتی اور سیاحتی عمارت تاج محل کو اس میں شامل نہیں کیا گیاکیونکہ آگرہ کے تاج محل کو ہندوستان کے مغل بادشاہ شاہجہاں نے اپنے دور بادشاہت میں تعمیر کرایا تھا اور وزیر اعلی آدتیہ ناتھ تاج محل کو 'غیر ہندوستانی' تصور کرتے ہیں اور ان کے خیال میں بھارت کی یہ حسین عمارت اس کے ماضی کی ثقافت کی عکاسی نہیں کرتی کیونکہ یہ حملہ آوروں کی بنوائی ہوئی ہے۔ اس بحٹ میں ایودھیا، بنارس، متھرا اور چتر کوٹ جیسے ہندو مذہب کے اہم مراکز کی ترقی کے لیے کئی سکیموں کا اعلان کیا گیا ہے۔ تاج محل اور بعض دوسری عمارتوں اور مقبروں کو تقافتی ورثے کے منصوبے سے الگ رکھا گیا ہے۔
حکومت نے ایودھیا، بنارس، اور متھرا میں ثقافتی مراکز کی تعمیر اور شہر کے ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لیے 20 ارب روپے سے زیادہ کی رقم منظور کی۔ بعض مورخین کا کہنا ہے کہ اترپردیش میں ثقافتی وراثت کو صرف ہندو مذہب سے شناخت کرنا ریاست کی مشترکہ وراثت کی حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو سبھی مذاہب کی ملی جلی ثقافت اور کلچر کو فرغ دینا چاہیے۔ کئی ماہرین کا خیال ہے کہ تاج محل کو نظر اندراز کرنے سے سیاحت سے ہونے والی آمدن کو نقصان پہنچے گا۔آگرہ میں میں تین عالمی ورثے کی تاریخی عمارتیں ہیں۔ ان کی دیکھ بھال اور ان کی سیاحتی ترقی کے لیے مناسب بجٹ کی ضرورت ہے۔ اس کے برعکس اگر اسے نظر انداز کیا گیا تو اس سے سیاحتی سرگرمیوں کو شدید نقصان پہنچے گا۔ اتر پردیش کے وزیر اعلی آدتیہ ناتھ ماضی میں کئی بار 'محبت کے اس عظیم شاہکار' سے اپنی نفرت کا اظہار کر چکے ہیں۔
ابھی حال میں انھوں نے کہا تھا کہ اب جب کسی ملک کے سربراہ حکومت یا مملکت بھارت کے دورے پر آتے ہیں تو انھیں تاج محل کا نمونہ تحفے میں نہیں دیا جاتا کیونکہ وہ غیر ہندوستانی ہے اور ملک کی عکاسی نہیں کرتا۔ انھوں نے کہا کہ اب اہم شخصیات کو ہندوؤں کی مذہبی کتاب گیتا تحفے میں دی جاتی ہے۔ آدتیہ ناتھ چونکہ ایک ہندو سادھو ہیں اور ہندوتوا کی تحریک سے بہت عرصے سے وابستہ ہیں۔ وہ ریاست کا وزیر اعلیٰ بننے سے پہلے ہی مسلمانوں کے خلاف اپنے بیانات کی وجہ سے بدنام تھے۔ اس لیے وہ ہندوتوا کے اس بنیادی فلسفے میں یقین رکھتے ہیں کہ بھارت صرف انگریزوں کے زمانے میں ہی غلام نہیں تھا بلکہ ہندو یہاں ایک ہزار برس قبل یعنی مسلم سلاطین کی حکمرانی کے وقت سے غلام ہیں۔
وہ افغانستان، ایران اور وسط ایشیا سے آئے ہوئے ان سلاطین کو حملہ آور اور لٹیرا قرار دیتے ہیں اور صدیوں تک اس ملک میں رہنے اور یہاں کی ثقافت اور مٹی میں رچ بس جانے کے باوجود انھیں غیر ملکی حملہ آور ہی تصور کرتے ہیں۔تاج محل کے خالق شاہجہاں کے آبا و اجداد ان سے سو برس قبل بھارت آئے تھے۔ اس سو برس میں ان کی کئی نسلیں ہندوستان میں پروان چڑھیں۔ شاہجہاں ایک ہندوستانی بادشاہ تھا۔ وہ اپنے تیموری اور منگولیائی پس منظر کے ساتھ ساتھ خود کو ہندوستان سے بھی پوری طرح شناخت کرتا تھا۔ بھارت کا جو تصور آج ہے اس طرح کا شاہجہاں کے زمانے میں نہیں تھا۔ جدید انڈیا کو انگریزوں نے تیار کیا اور اسے ایک جدید نیشن سٹیٹ کی شکل دی۔ ہندوتوا کے پیروکاروں کا تصور ہے کہ ہندو، بودھ، جین اور سکھ مذاہب میں یقین رکھنے والے ہی اصل بھارتی ہیں۔ مسلم یا عیسائی خواہ وہ انڈیا میں ہی پیدا ہوئے ہوں وہ اپنے مذہبی عقیدے کی طرح اصل بھارتی نہیں ہیں۔
اس نظریے کو صحیح ثابت کرنے کے لیے ہندوتوا کے پیروکار اس تھیوری کو بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ آریہ نسل کے لوگ مختلف گروپوں میں چار ہزار برس قبل وسطی ایشیا سے بھارت آئے۔ سبھی مسلمان بادشاہوں کو حملہ آور اور مسلمانوں کو غیر ہندوستانی قرار دینے کے لیے وہ اس دلیل پر مصر ہیں کہ آرین یہیں بھارت کے ہی تھے۔ کئی تجزیہ کاروں کے مطابق حملہ آور تھیوری ہندو قوم پرستی کا ایک بہت بڑا ہتھیار ہے۔ یہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف عام ہندوؤں کو متحد کرنے میں کافی مددگار ہے۔قوم پرستی کی نئی لہر میں مغل بادشاہ اور ان کی یادگاریں بھی نفرتوں کی زد میں ہیں۔ دہلی میں اورنگزیب نام کی سڑک کا نام بدل دیا گیا ہے۔ نصابی کتابوں میں بادشاہ اکبر کے نام ساتھ 'اعظم' لکھا جاتا تھا وہ ہٹا لیا گیا ہے۔
اکبر سے جنگ لڑنے والے راجپوت راجہ رانا پرتاپ کو اب 'گریٹ' کہا جاتا ہے۔ اتر پردیش کی حکومت ریاست کے ایک شہر مغل سرائے کا نام تبدیل کرنے والی ہے کیوں کہ اس میں مغل نام لگا ہوا ہے۔ تاج محل بھی ایک عرصے سے نفرتوں کی زد میں ہے۔ چونکہ یہ عالمی ورثے کی ایک اہم عمارت ہے اس لیے اس سے منسوب تنازع زیادہ زور نہیں پکڑ سکا۔ لیکن اب مرکز اور ریاست دونوں جگہ ہندوتوا نواز حکومتیں قائم ہیں اس لیے قوم پرستی کی موجودہ لہر میں وہ دن دور نہیں جب آئندہ بحث مسلم حکمرانوں اور ان کی یادگاروں پر ہو۔
بھارت سے ان دنوں تواتر سے خبر آ رہی ہے کہ معیشت کی حالت اچھی نہیں اور یہ بات صرف نریندر مودی کے روایتی ناقد نہیں بلکہ سابق واجپائی حکومت کے وزیرِ خزانہ و خارجہ یشونت سنہا اور میڈیائی نظریہ ساز ارون شوری جیسے پائے کے لوگ کہہ رہے ہیں۔کالے دھن کی روک تھام کے لیے ہزار اور پانچ سو کے نوٹوں کی منسوخی سے جو توقعات وابستہ تھیں وہ تو پوری نہ ہو سکیں اور ساری دولت پھر سے بینکوں میں آ گئی البتہ چھوٹا کاروباری اور مزدور تب سے مسلسل چیخ رہا ہے۔ مزید براں قومی سطح پر جنرل سیلز ٹیکس کی منطق بھی کسی کے پلے نہیں پڑ رہی۔ ہر سال ایک کروڑ سے زائد نوجوان ملازمت کی مارکیٹ میں داخل ہو رہے ہیں۔
مودی نے ووٹ لیتے وقت بیروزگاری کے خاتمے کا جو خواب دکھایا تھا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ تین برس میں لگ بھگ چار لاکھ باقاعدہ ملازمتیں ہی پیدا ہو پائیں۔ اس پورے عرصے میں بھارتی میڈیا یک زبان 'مودی مہاراج کی جے ہو' کہتے کہتے اب دبے دبے لفظوں میں تنقید کرنے لگا ہے۔ پچھلے دنوں سیکولرازم کی علم بردار معروف صحافی گوری لنکیش کا قتل بھی بہت غلط وقت پر ہوا۔ ہماچل اور گجرات میں انتخابات کی تلوار سر پر ہے۔ مودی کے گجرات میں اگر بی جے پی نہ بھی ہارے مگر کم اکثریت سے جیتے تو یہ نتائج بھی سنگھ پریوار کے بلڈوزرانہ نظریاتی و سیاسی سفر کو آہستہ کر سکتے ہیں لہذا من جملہ مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے ضرورت ہے کہ ایسے ہوائی مسائل ایجاد ہوتے رہیں کہ لوگوں کی توجہ حکومت کی دن بدن متنازع کارکردگی سے ہٹی رہے۔
پاکستان، کشمیر اور دہشت گردی جیسے موضوعات سے حاصل ہونے وا لے فوائد اپنی جگہ مگر اب کچھ نیا بھی چاہیے چنانچہ یہ بے بنیاد بحث چھیڑ دی گئی کہ مغلوں کا ہندوستانی تاریخ میں کیا مقام ہے ؟ اور ان کی قائم کردہ یادگاروں اور تاج محل جیسے شاہکاروں کو قومی نشانی مانا جائے یا لٹیروں کی میراث سمجھ کے پرے پھینک دیا جائے ؟ چنانچہ ایک کونے سے یوگی آدتیہ ناتھ بولتا ہے تو دوسرے کونے سے کوئی سوم سنگیت اس پرگرہ لگاتے ہوئے آواز اٹھاتا ہے۔ جب حسبِ منشا اصل مسائل پر بحث کا رخ کچھ دنوں کے لیے مڑ جاتا ہے تو پھر مودی صاحب یا ان کا کوئی ترجمان اعتدال پسندی اختیار کرنے کا ٹویٹ کر دیتے ہیں۔ چند دن خاموشی رہتی ہے اور پھر پٹاری سے کوئی نیا سانپ نکل آتا ہے۔ کل بابری مسجد تھی، آج تاج محل ہے، کل کچھ اور آ جائے گا۔اہم بات یہ ہے کہ کون سامعاملہ کس وقت کام آ سکتا ہے ؟
خدشہ یہی ہے کہ اگر انڈیا میں سنگھ پریوار کو لگا کہ اس کا جادو اپنا اثر کھو رہا ہے تو پھر اگلے دو برس میں بہت سے تاج محل، بہت سے تاریخی لٹیرے اور بہت سے غدار سیاست کے چرنوں میں بھینٹ کے لیے ذہنی طور پر تیار رہیں۔