اندرون سندھ غذائی قلت کا مسئلہ عام ہے حکومت توجہ نہیں دیتی ماہرین
بجٹ کا صرف ایک فیصد حصہ صحت کے شعبے کے لیے مختص کیا گیا ہے، اقبال میمن
لاہور:
یونیسیف کی چیف آف نیوٹریشن میلانین گالوین نے کہا کہ اندرون سندھ غذائی قلت کا مسئلہ عام ہے لیکن اس جانب یہاں کی حکومت توجہ نہیں دیتی۔
میلانین گالوین نے روزنامہ ''ایکسپریس'' سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ اندرون سندھ غذائی قلت کا مسئلہ عام ہے لیکن اس جانب یہاں کی حکومت توجہ نہیں دیتی، پنجاب میں اس کے برعکس صورتحال بہتر ہے جب کہ صوبائی محکمہ صحت کی ساتھ مل کر عالمی ادارے صوبے میں صحت کے شعبے کو بہتر بنارہے ہیں۔
میلانین گالوین کا کہنا تھا کہ صوبے میں کوئی پالیسی ترتیب نہیں دی جارہی جیسے یہاں کے لوگوں کی ضروریات ہیں ، یونیسیف کے تعاون سے صوبے میں ماں اور بچے کی غذا کو بہتر بنانے اور ماں کی صحت کو بہتر بنانے کے لیے کام شروع کیا گیا ہے یونیسیف صوبائی محکمہ سندھ کی ہر ممکن لحاظ سے مدد کرے گا، انھوں نے کہا کہ صوبے سندھ میں ڈبے والے دودھ پر کوئی پالیسی تاحال موجود نہیں یہی وجہ ہے کہ یہاں 6 ماہ سے کم عمر بچے کو ڈبے والا دودھ پلایا جاتا ہے۔
سندھ میں انفینٹ فیڈنگ بورڈ کے حوالے سے میلانین گالوین کہنا تھا کہ بورڈ میں کئی ایسے ممبرز شامل ہیں جو ڈبے والے دودھ کو خود ہی پروموٹ کرسکتے ہیں، دوسری جانب ذرائع کے مطابق سندھ حکومت نے اینفینٹ فیڈنگ بورڈ بنایا ضرور تھا لیکن صوبہ سندھ میں باقی اداروں اور قوانین کی طرح اس قانون کو بھی کاغذوں کی نذرکردیا گیا۔
دوسری جانب کراچی میں ہونے والی یونیسیف کے اشتراک سے کانفرنس میں کہی کانفرنس کا موضوع ''ماں اور بچے کی صحت بہتر'' میں ڈاکٹر اقبال میمن نے بتایا کہ خواتین میں چھاتی کا سرطان ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے اس کا اہم ترین پہلو یہ بھی ہے کہ مائیں بچوں کو اپنا دودھ نہیں پلاتیں، بچوں کو دودھ نہ پلانے والی خواتین کی صحت متاثر ہورہی ہے، بچوں کو ڈبے کا دودھ پلانے پر ہر ماہ آمدن کی اچھی خاصی رقم لگتی ہے۔
ڈاکٹر اقبال میمن نے کہا کہ جب ماں کی صحت خراب ہوگی تو بچے کی بھی صحت ماں کی صحت سے ہی متاثر ہوگی یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بچے اب کمزور پیدا ہورہے ہیں اور ٹھیک نشونما نہ ملنے پر ان کی صحت مزید گرتی جاتی ہے یہی بچے بعد میں دماغی اور جسمانی طور پر کئی کمزوریوں کا شکار ہوتے ہیں جب کہ صوبائی محکمہ صحت کی جانب سے سندھ کے بجٹ کا صرف ایک فیصد حصہ صحت کے شعبے کے لیے مختص کیا ہے جو پہلے ہی آٹے میں نمک کے برابر ہے لیکن اس کے باعث 7.6 ارب یا جی ڈی پی کا 3 فیصد حصہ خسارے میں جارہا ہے جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ محکمہ صحت سندھ کس حد تک عوام کی فلاح وبہبود کے لیے کام کررہا ہے۔
یونیسیف کی چیف آف نیوٹریشن میلانین گالوین نے کہا کہ اندرون سندھ غذائی قلت کا مسئلہ عام ہے لیکن اس جانب یہاں کی حکومت توجہ نہیں دیتی۔
میلانین گالوین نے روزنامہ ''ایکسپریس'' سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ اندرون سندھ غذائی قلت کا مسئلہ عام ہے لیکن اس جانب یہاں کی حکومت توجہ نہیں دیتی، پنجاب میں اس کے برعکس صورتحال بہتر ہے جب کہ صوبائی محکمہ صحت کی ساتھ مل کر عالمی ادارے صوبے میں صحت کے شعبے کو بہتر بنارہے ہیں۔
میلانین گالوین کا کہنا تھا کہ صوبے میں کوئی پالیسی ترتیب نہیں دی جارہی جیسے یہاں کے لوگوں کی ضروریات ہیں ، یونیسیف کے تعاون سے صوبے میں ماں اور بچے کی غذا کو بہتر بنانے اور ماں کی صحت کو بہتر بنانے کے لیے کام شروع کیا گیا ہے یونیسیف صوبائی محکمہ سندھ کی ہر ممکن لحاظ سے مدد کرے گا، انھوں نے کہا کہ صوبے سندھ میں ڈبے والے دودھ پر کوئی پالیسی تاحال موجود نہیں یہی وجہ ہے کہ یہاں 6 ماہ سے کم عمر بچے کو ڈبے والا دودھ پلایا جاتا ہے۔
سندھ میں انفینٹ فیڈنگ بورڈ کے حوالے سے میلانین گالوین کہنا تھا کہ بورڈ میں کئی ایسے ممبرز شامل ہیں جو ڈبے والے دودھ کو خود ہی پروموٹ کرسکتے ہیں، دوسری جانب ذرائع کے مطابق سندھ حکومت نے اینفینٹ فیڈنگ بورڈ بنایا ضرور تھا لیکن صوبہ سندھ میں باقی اداروں اور قوانین کی طرح اس قانون کو بھی کاغذوں کی نذرکردیا گیا۔
دوسری جانب کراچی میں ہونے والی یونیسیف کے اشتراک سے کانفرنس میں کہی کانفرنس کا موضوع ''ماں اور بچے کی صحت بہتر'' میں ڈاکٹر اقبال میمن نے بتایا کہ خواتین میں چھاتی کا سرطان ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے اس کا اہم ترین پہلو یہ بھی ہے کہ مائیں بچوں کو اپنا دودھ نہیں پلاتیں، بچوں کو دودھ نہ پلانے والی خواتین کی صحت متاثر ہورہی ہے، بچوں کو ڈبے کا دودھ پلانے پر ہر ماہ آمدن کی اچھی خاصی رقم لگتی ہے۔
ڈاکٹر اقبال میمن نے کہا کہ جب ماں کی صحت خراب ہوگی تو بچے کی بھی صحت ماں کی صحت سے ہی متاثر ہوگی یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بچے اب کمزور پیدا ہورہے ہیں اور ٹھیک نشونما نہ ملنے پر ان کی صحت مزید گرتی جاتی ہے یہی بچے بعد میں دماغی اور جسمانی طور پر کئی کمزوریوں کا شکار ہوتے ہیں جب کہ صوبائی محکمہ صحت کی جانب سے سندھ کے بجٹ کا صرف ایک فیصد حصہ صحت کے شعبے کے لیے مختص کیا ہے جو پہلے ہی آٹے میں نمک کے برابر ہے لیکن اس کے باعث 7.6 ارب یا جی ڈی پی کا 3 فیصد حصہ خسارے میں جارہا ہے جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ محکمہ صحت سندھ کس حد تک عوام کی فلاح وبہبود کے لیے کام کررہا ہے۔