مفادات کی سیاست
جدید سیاست کا تقاضا ہے کہ اخلاقی ضابطوں کو بالائے طاق رکھ کر کامیابی کے زیادہ سے زیادہ امکان پیدا کئے جائیں۔
ملکی مفاد کی تشہیر کر کے ذاتی مفاد حاصل کرنا ، لوگوں کے جذبات سے کھیلنا ، اچھے دنوں کی آس دلا کر خود ، مشکل آنے پر منظر سے غائب ہو جانا ، عوام کو اپنی انگلیوں پر نچانا یا پھر وعدے کر کے مکر جانا ہے.
ملک میں اس وقت سیاسی گہما گہمی عروج پر ہے ۔ جوڑ توڑ کا کھیل زور پکڑ چکا ہے ۔ سیاست کے میدان میں گرمی اس بات کا پتا دیتی ہے کہ الیکشن کی آ مد آمد ہے ۔ ہر پارٹی اس وقت اپنے آپ کو نہ صرف مخلص اور محب وطن ثابت کرنے میں لگی ہوئی ہے بلکہ قوم کا درد کچھ اس طرح سے ان کے دلوں میں جاگا ہے کہ ان کی راتوں کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں ۔ ہر سیاست دان اصول پسند اور اپنے آپ کو بہترین ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے ۔ کہیں نئے نئے سیاسی اتحاد بن رہے ہیں تو کہیں پرانے ساتھی روٹھ رہے ہیں ۔ وہی پرانے چہرے نئے رنگوں میں نظر آ رہے ہیں ۔
عوام کے لیے یہ محبت اور مخلصی در حقیقت سب دکھاوا ہیں ۔ حقیقت کیا ہے ؟ ہماری سیاست ہے کیا ؟ ملکی مفاد کی تشہیر کر کے ذاتی مفاد حاصل کرنا ، لوگوں کے جذبات سے کھیلنا ، اچھے دنوں کی آس دلا کر خود ، مشکل آنے پر منظر سے غائب ہو جانا ، عوام کو اپنی انگلیوں پر نچانا یا پھر وعدے کر کے مکر جانا ۔ ہنری کسنجر نے شاید ہم جیسے ملکوں کی سیاست کے بارے میں ہی کہا تھا کہ سیاست کے سینے میں دل ہوتا ہے اور نہ ہی سیاست کا کوئی اخلاق ہوتا ہے کیونکہ اکثر سیاست دان اجتماعی مفادات کو انفرادی منفعت کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں ۔
جدید سیاست کا تقاضا ہے کہ اخلاقی ضابطوں کو بالائے طاق رکھ کر کامیابی کے زیادہ سے زیادہ امکان پیدا کئے جائیں۔ دانشور وں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سیاست دراصل موقع شناسی ، سوچ بچار ، غور و تدبر اور باریک بینی کا نام ہے اور ہماری سیاست میں آپ کو ان میں سے کن افکار کی جھلک دکھائی دیتی ہے اس کا فیصلہ آپ لوگ کریں لیکن میرے نزدیک سیاست کا رنگ دنیا میں کیسا ہی کیوں نہ ہو ،جب سے پاکستان بنا ہے ایک ہی رنگ دکھائی دیا ہے ذاتی مفاد کا ، جس کو ملکی مفاد کا نام دے کر عوام کے جذبات واحساسات کی ہر مرحلے پر توہین کی گئی ہے ۔ سیاست ہمارے ہاں اسٹیج کی مانند ہے جہاں جس کی اداکاری جتنی اچھی ہوتی ہے اس کو اتنی ہی داد ملتی ہے ۔
ملکی مفاد کا نام لے کر ذاتی مفاد کے حصول کی کہانی پاکستان میں کوئی نئی نہیں ہے ۔ جب سے پاکستان بنا ہے اس ملک کی سیاست ذات کے محور سے باہر آ ہی نہیں سکی۔ جمہوریت ہو یا آمریت یا پھر ما رشل لاء ہمیں تو کچھ بھی راس نہیں آیا ۔ موروثی سیاست کا کینسر اس طرح سے ہماری سیاسی پارٹیوں میں سرائیت کر چکا ہے کہ اس نے سارے نظام کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے ۔ سیاست بذات خود جنس شرافت ہے اور نہ ہی شیطانی وراثت اس کے حواری اگر پست کردار ہوں تو یہ یوں ہی تماش بینوں کا کھیل بن جاتی ہے جس کے اپنے بنائے ہوئے کردار عوام کے سامنے آکر اپنی اداکاری کے جوہر دکھا کر منظر سے غائب ہو جاتے ہیں جنہیں بعد میں تاریخ مختلف ناموں سے یاد کرتی ہے ۔
موجودہ پانچ سالہ دور حکومت اس لحاظ سے پاکستان کی تاریخ میں منفرد ہے کہ اس میں تقریبا ہر پارٹی کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی حوالے سے اقتدار کا حصہ ضرور رہی ہے اور ہر کسی نے شراکت اقتدار کے مزے لوٹے ہیں ۔ ہوا کیا ؟ آج پانچ برس گزر جانے کے بعد اہل حکمراں کی تو جیبیں بھر گئیں پر لوگ تہی داماں رہ گئے ۔ عوام کے لیے مہنگائی ، کرپشن ، امن عامہ کے اعتبار سے یہ بد ترین سال ثابت ہوئے ۔
ملکی ادارے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں ، معیشت آخری دموں پر ہے ۔ پاکستان اس وقت جس نازک دور سے گزر رہا ہے وہ ہر پاکستانی کے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔ لیکن ہماری سیاست کے ایوانوں میں کھیل تماشا جاری ہے ۔ انہیں اس بات سے کوئی سروکا ر نہیں کہ ملک کے اندر کیا ہو رہا ہے اور باہر کیا ، انہیں صرف فکر ہے تو اپنی سیاست کی اور کرسی حاصل کرنے کی ۔ معیشیت تباہ ہو رہی ہے تو ہوتی رہے ، لوگ مر رہے ہیں تو مرتے رہیں ، دشمن کے ہاتھ ہماری شہ رگ تک پہنچ جاتے ہیں تو پہنچتے رہیں ۔ یہاں خوشی اس بات کی ہے کہ سیاست کے اس کھیل کو جمہوریت ، قومی مفاد اور مفاہمت کے نام پہ پانچ سال کی کھلی آزادی ملی رہی ۔
قومی مفاد کا سہارا لینے و الوں نے یہ لفظ عوام کے لیے سزا بنا دیا ہے ۔ اہل اقتدار آخر عوام کو سمجھا ہی دیں کہ قومی مفاد کس چیز کا نام ہے ۔ 65 برس بیت گئے لیکن ہم آج تک یہ نہیں جان پائے کہ آخر ہمارا ملکی مفاد ہے کیا ؟ زرداری صاحب نے پانچ سال مفاہمت اور ملکی مفاد کے نام پہ اس ملک کا جو حشر کیا وہ ہم سب کے سامنے ہے ۔ اور باقی جماعتوں کی کہانی بھی کچھ الگ نہیں ، جب پرویز الہی کو مونس الہی کی اربوں روپے کی کرپشن چھپانے اور کورٹ کچہری سے باہر نکلنے کا کوئی اور راستہ دکھائی نہ دیا تو وہ ملک کو بچانے کے لیے حکومت کا حصہ بن جانے کو تیار ہو گئے اور قاتل لیگ کا نعرہ لگانے والے اپنی حکومت بچانے کے لیے ان کو گلے لگا کر بیٹھ گئے ۔
ایم کیو ایم جنہوں نے عوام کی حمایت کا نعرہ لگا کر حکومت کے پیٹرول کی قیمتیں بڑھانے پر حکومتی اتحاد سے الگ ہونے کا اصولی فیصلہ کیا اور چند ماہ باہر بیٹھنے کے بعد جب احساس ہوا کہ یہ تو گھاٹے کا سودا کر لیا ہے باہر بیٹھ کر بھلا عیاشی کیسے ممکن ہے ، باوجود حکومت کے اس کے بعد کئی دفعہ قیمتیں بڑھانے کے ملکی مفاد اور جمہوریت کی خاطر پھر حکومت سے بغلگیر ہو گئی کہ آخر کسی کو تو جمہوریت بچانے اور سسٹم کو چلانے کے لیے آگے آنا ہی تھا ۔ نواز شریف صاحب پانچ سال معنی خیز خاموشی کے ساتھ یوں چپ سادھ کے بیٹھے رہے کہ آج تک یہ پتا نہیں چل سکا کہ وہ درپردہ حکومت کے حمایتی تھے یا اپوزیشن رہنما، و ہ بھی جمہوریت کو بچانے کے لیے قومی مفاد کو گلے لگائے فرینڈلی اپوزیشن کرتے رہے ۔
عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی صاحب جنہوں نے 2008 کو حلف اٹھانے کے بعد ایوان میں اپنی پہلی تقریر میں یہ کہا تھا کہ خدارا ہمیں بندوق نہیں قلم چاہیے ، عوام کے جذبات کو الفاظ دے کر قومی مفاد میں یوں منظر سے غائب رہے کہ ان کے ووٹروں کو ان کا دیدار تک نہ نصیب ہو سکا ۔ حکومت کے سب سے بڑے حمایتی اور ہر اچھے برے فیصلے پہ اپنی حمایت کا یقیں دلانے والے مولانا فضل ا لرحمن صاحب جو کہ اپنے وزیر کے بے جا بر طرف کئے جانے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے حکومتی اتحاد سے الگ ہو گئے تھے۔
انہوں نے بھی قومی مفاد کی ڈھال کا سہارا لیتے ہوئے اصولی موقف اپنانے کا فیصلہ کیا کل کو ووٹروں کو بھی تو جا کے شکل دکھانی تھی انہیں یہ فیصلہ کرنے میںکافی دشواری ہوئی کہ آخر ملکی مفاد میں وہ ایک دفعہ پھر حکومتی اتحاد کا حصہ بنتے یا اپوزیشن کے ساتھ کھڑے ہوتے اس لیے انہوں نے کمال سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک پاوئں حکومت میں رکھا اور ایک اپوزیشن میں ۔ یعنی ایک ٹکٹ میں دو مزے ۔۔۔ سیاست کے اس کھیل میں آج تک ہمیشہ سب سے زیادہ نقصان ملک کا ہی ہوا ہے۔ ایک دفعہ جسٹس کیانی نے ہماری سیاست کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا تھا کہ سیاست دان لوگوں کو پہلے سبز باغ دکھایا کرتے تھے اور اب ''کالا باغ'' دکھائے جاتے ہیں ۔یاد رہے اس وقت مغربی پاکستان کے گورنر نواب آف کالا باغ تھے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم کھرے کھوٹے کی پہچان سیکھ لیں اور اپنے لیے ایسے نمائندے نہ منتخب کریں جو ہمیں قومی مفاد کا جھانسہ دے کر ذاتی مفادات کی سیاست میں الجھے رہیں ، جھوٹے وعدے اور لارے لگا کر خود اقتدار کے مزے لوٹتے رہیں اور عوام ظلم و ستم سہتی رہے ۔ ہمارا ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک ہم ان سیاسی نوٹنکیوں اور شعبدہ بازوں سے چھٹکارا حاصل نہیں کر لیتے اور اس کا واحد حل اپنے ووٹ کا صیح استعمال ہے ۔ عوام دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہیں ہمیں صرف اپنی طاقت کا ادراک کرنا ضروری ہے اگر آج ہم اپنے ملک کا مفاد اپنے ہاتھ میں لے لیں اور اپنے لیے مخلص حکمران ڈھونڈ لیں تو یقین جانیں ہمارے مسائل کا حل نہ صرف ممکن ہو گا بلکہ نئی اور روشن راہوں کا سفر بھی ہمارا نصیب بن جائے گا۔
ملک میں اس وقت سیاسی گہما گہمی عروج پر ہے ۔ جوڑ توڑ کا کھیل زور پکڑ چکا ہے ۔ سیاست کے میدان میں گرمی اس بات کا پتا دیتی ہے کہ الیکشن کی آ مد آمد ہے ۔ ہر پارٹی اس وقت اپنے آپ کو نہ صرف مخلص اور محب وطن ثابت کرنے میں لگی ہوئی ہے بلکہ قوم کا درد کچھ اس طرح سے ان کے دلوں میں جاگا ہے کہ ان کی راتوں کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں ۔ ہر سیاست دان اصول پسند اور اپنے آپ کو بہترین ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے ۔ کہیں نئے نئے سیاسی اتحاد بن رہے ہیں تو کہیں پرانے ساتھی روٹھ رہے ہیں ۔ وہی پرانے چہرے نئے رنگوں میں نظر آ رہے ہیں ۔
عوام کے لیے یہ محبت اور مخلصی در حقیقت سب دکھاوا ہیں ۔ حقیقت کیا ہے ؟ ہماری سیاست ہے کیا ؟ ملکی مفاد کی تشہیر کر کے ذاتی مفاد حاصل کرنا ، لوگوں کے جذبات سے کھیلنا ، اچھے دنوں کی آس دلا کر خود ، مشکل آنے پر منظر سے غائب ہو جانا ، عوام کو اپنی انگلیوں پر نچانا یا پھر وعدے کر کے مکر جانا ۔ ہنری کسنجر نے شاید ہم جیسے ملکوں کی سیاست کے بارے میں ہی کہا تھا کہ سیاست کے سینے میں دل ہوتا ہے اور نہ ہی سیاست کا کوئی اخلاق ہوتا ہے کیونکہ اکثر سیاست دان اجتماعی مفادات کو انفرادی منفعت کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں ۔
جدید سیاست کا تقاضا ہے کہ اخلاقی ضابطوں کو بالائے طاق رکھ کر کامیابی کے زیادہ سے زیادہ امکان پیدا کئے جائیں۔ دانشور وں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سیاست دراصل موقع شناسی ، سوچ بچار ، غور و تدبر اور باریک بینی کا نام ہے اور ہماری سیاست میں آپ کو ان میں سے کن افکار کی جھلک دکھائی دیتی ہے اس کا فیصلہ آپ لوگ کریں لیکن میرے نزدیک سیاست کا رنگ دنیا میں کیسا ہی کیوں نہ ہو ،جب سے پاکستان بنا ہے ایک ہی رنگ دکھائی دیا ہے ذاتی مفاد کا ، جس کو ملکی مفاد کا نام دے کر عوام کے جذبات واحساسات کی ہر مرحلے پر توہین کی گئی ہے ۔ سیاست ہمارے ہاں اسٹیج کی مانند ہے جہاں جس کی اداکاری جتنی اچھی ہوتی ہے اس کو اتنی ہی داد ملتی ہے ۔
ملکی مفاد کا نام لے کر ذاتی مفاد کے حصول کی کہانی پاکستان میں کوئی نئی نہیں ہے ۔ جب سے پاکستان بنا ہے اس ملک کی سیاست ذات کے محور سے باہر آ ہی نہیں سکی۔ جمہوریت ہو یا آمریت یا پھر ما رشل لاء ہمیں تو کچھ بھی راس نہیں آیا ۔ موروثی سیاست کا کینسر اس طرح سے ہماری سیاسی پارٹیوں میں سرائیت کر چکا ہے کہ اس نے سارے نظام کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے ۔ سیاست بذات خود جنس شرافت ہے اور نہ ہی شیطانی وراثت اس کے حواری اگر پست کردار ہوں تو یہ یوں ہی تماش بینوں کا کھیل بن جاتی ہے جس کے اپنے بنائے ہوئے کردار عوام کے سامنے آکر اپنی اداکاری کے جوہر دکھا کر منظر سے غائب ہو جاتے ہیں جنہیں بعد میں تاریخ مختلف ناموں سے یاد کرتی ہے ۔
موجودہ پانچ سالہ دور حکومت اس لحاظ سے پاکستان کی تاریخ میں منفرد ہے کہ اس میں تقریبا ہر پارٹی کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی حوالے سے اقتدار کا حصہ ضرور رہی ہے اور ہر کسی نے شراکت اقتدار کے مزے لوٹے ہیں ۔ ہوا کیا ؟ آج پانچ برس گزر جانے کے بعد اہل حکمراں کی تو جیبیں بھر گئیں پر لوگ تہی داماں رہ گئے ۔ عوام کے لیے مہنگائی ، کرپشن ، امن عامہ کے اعتبار سے یہ بد ترین سال ثابت ہوئے ۔
ملکی ادارے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں ، معیشت آخری دموں پر ہے ۔ پاکستان اس وقت جس نازک دور سے گزر رہا ہے وہ ہر پاکستانی کے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔ لیکن ہماری سیاست کے ایوانوں میں کھیل تماشا جاری ہے ۔ انہیں اس بات سے کوئی سروکا ر نہیں کہ ملک کے اندر کیا ہو رہا ہے اور باہر کیا ، انہیں صرف فکر ہے تو اپنی سیاست کی اور کرسی حاصل کرنے کی ۔ معیشیت تباہ ہو رہی ہے تو ہوتی رہے ، لوگ مر رہے ہیں تو مرتے رہیں ، دشمن کے ہاتھ ہماری شہ رگ تک پہنچ جاتے ہیں تو پہنچتے رہیں ۔ یہاں خوشی اس بات کی ہے کہ سیاست کے اس کھیل کو جمہوریت ، قومی مفاد اور مفاہمت کے نام پہ پانچ سال کی کھلی آزادی ملی رہی ۔
قومی مفاد کا سہارا لینے و الوں نے یہ لفظ عوام کے لیے سزا بنا دیا ہے ۔ اہل اقتدار آخر عوام کو سمجھا ہی دیں کہ قومی مفاد کس چیز کا نام ہے ۔ 65 برس بیت گئے لیکن ہم آج تک یہ نہیں جان پائے کہ آخر ہمارا ملکی مفاد ہے کیا ؟ زرداری صاحب نے پانچ سال مفاہمت اور ملکی مفاد کے نام پہ اس ملک کا جو حشر کیا وہ ہم سب کے سامنے ہے ۔ اور باقی جماعتوں کی کہانی بھی کچھ الگ نہیں ، جب پرویز الہی کو مونس الہی کی اربوں روپے کی کرپشن چھپانے اور کورٹ کچہری سے باہر نکلنے کا کوئی اور راستہ دکھائی نہ دیا تو وہ ملک کو بچانے کے لیے حکومت کا حصہ بن جانے کو تیار ہو گئے اور قاتل لیگ کا نعرہ لگانے والے اپنی حکومت بچانے کے لیے ان کو گلے لگا کر بیٹھ گئے ۔
ایم کیو ایم جنہوں نے عوام کی حمایت کا نعرہ لگا کر حکومت کے پیٹرول کی قیمتیں بڑھانے پر حکومتی اتحاد سے الگ ہونے کا اصولی فیصلہ کیا اور چند ماہ باہر بیٹھنے کے بعد جب احساس ہوا کہ یہ تو گھاٹے کا سودا کر لیا ہے باہر بیٹھ کر بھلا عیاشی کیسے ممکن ہے ، باوجود حکومت کے اس کے بعد کئی دفعہ قیمتیں بڑھانے کے ملکی مفاد اور جمہوریت کی خاطر پھر حکومت سے بغلگیر ہو گئی کہ آخر کسی کو تو جمہوریت بچانے اور سسٹم کو چلانے کے لیے آگے آنا ہی تھا ۔ نواز شریف صاحب پانچ سال معنی خیز خاموشی کے ساتھ یوں چپ سادھ کے بیٹھے رہے کہ آج تک یہ پتا نہیں چل سکا کہ وہ درپردہ حکومت کے حمایتی تھے یا اپوزیشن رہنما، و ہ بھی جمہوریت کو بچانے کے لیے قومی مفاد کو گلے لگائے فرینڈلی اپوزیشن کرتے رہے ۔
عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی صاحب جنہوں نے 2008 کو حلف اٹھانے کے بعد ایوان میں اپنی پہلی تقریر میں یہ کہا تھا کہ خدارا ہمیں بندوق نہیں قلم چاہیے ، عوام کے جذبات کو الفاظ دے کر قومی مفاد میں یوں منظر سے غائب رہے کہ ان کے ووٹروں کو ان کا دیدار تک نہ نصیب ہو سکا ۔ حکومت کے سب سے بڑے حمایتی اور ہر اچھے برے فیصلے پہ اپنی حمایت کا یقیں دلانے والے مولانا فضل ا لرحمن صاحب جو کہ اپنے وزیر کے بے جا بر طرف کئے جانے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے حکومتی اتحاد سے الگ ہو گئے تھے۔
انہوں نے بھی قومی مفاد کی ڈھال کا سہارا لیتے ہوئے اصولی موقف اپنانے کا فیصلہ کیا کل کو ووٹروں کو بھی تو جا کے شکل دکھانی تھی انہیں یہ فیصلہ کرنے میںکافی دشواری ہوئی کہ آخر ملکی مفاد میں وہ ایک دفعہ پھر حکومتی اتحاد کا حصہ بنتے یا اپوزیشن کے ساتھ کھڑے ہوتے اس لیے انہوں نے کمال سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک پاوئں حکومت میں رکھا اور ایک اپوزیشن میں ۔ یعنی ایک ٹکٹ میں دو مزے ۔۔۔ سیاست کے اس کھیل میں آج تک ہمیشہ سب سے زیادہ نقصان ملک کا ہی ہوا ہے۔ ایک دفعہ جسٹس کیانی نے ہماری سیاست کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا تھا کہ سیاست دان لوگوں کو پہلے سبز باغ دکھایا کرتے تھے اور اب ''کالا باغ'' دکھائے جاتے ہیں ۔یاد رہے اس وقت مغربی پاکستان کے گورنر نواب آف کالا باغ تھے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم کھرے کھوٹے کی پہچان سیکھ لیں اور اپنے لیے ایسے نمائندے نہ منتخب کریں جو ہمیں قومی مفاد کا جھانسہ دے کر ذاتی مفادات کی سیاست میں الجھے رہیں ، جھوٹے وعدے اور لارے لگا کر خود اقتدار کے مزے لوٹتے رہیں اور عوام ظلم و ستم سہتی رہے ۔ ہمارا ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک ہم ان سیاسی نوٹنکیوں اور شعبدہ بازوں سے چھٹکارا حاصل نہیں کر لیتے اور اس کا واحد حل اپنے ووٹ کا صیح استعمال ہے ۔ عوام دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہیں ہمیں صرف اپنی طاقت کا ادراک کرنا ضروری ہے اگر آج ہم اپنے ملک کا مفاد اپنے ہاتھ میں لے لیں اور اپنے لیے مخلص حکمران ڈھونڈ لیں تو یقین جانیں ہمارے مسائل کا حل نہ صرف ممکن ہو گا بلکہ نئی اور روشن راہوں کا سفر بھی ہمارا نصیب بن جائے گا۔