اندھیرا چھٹ رہا ہے

وطن سے بے وفائی کرنے والے وہ عاقبت نااندیش ہوتے ہیں جو کسی لالچ میں آکر ایسا رویہ اختیارتوکرلیتے ہیں

usmandamohi@yahoo.com

ISLAMABAD:
عامر لیاقت ایم کیو ایم میں دوبارہ کیا شامل ہوئے کہ متحدہ کے حصے بخرے ہوگئے اور پھر وہ واقعہ بھی رونما ہوا کہ گزشتہ تیس سالوں سے کراچی پر چھائے لندن والوں کو الوداع کہہ دیا گیا۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا اس کے لیے بڑی ہمت اور جرأت کی ضرورت تھی یہ دراصل پاکستان کو خواب سے حقیقت میں بدلنے والے ہمارے بزرگوں کی عطا کردہ وطن پرستی کی وہ طاقت تھی جس کے ذریعے سارے سابقہ بندھنوں کو توڑ کر عوام نے خود کو ان سے آزاد کرلیا تھا۔ اس کی وجہ ایک تو یہ تھی کہ سب ہی قتل وغارت گری اور تباہی وبربادی سے تنگ آچکے تھے پھر جس راستے پر وہ چل رہے تھے یہ اس پر نہیں چل سکتے تھے، وطن سے بے وفائی کا یہ سوچ بھی نہیں سکتے۔

وطن سے بے وفائی کرنے والے وہ عاقبت نااندیش ہوتے ہیں جو کسی لالچ میں آکر ایسا رویہ اختیارتوکرلیتے ہیں مگر بعد میں ان کا حشر میر جعفر اور میر صادق جیسا ہی ہوتا ہے۔ کراچی جو تیس سال تک دنیا کا سب سے زیادہ دہشتزدہ شہر بنا رہا تو اس کی وجہ اب سب کی سمجھ میں آگئی ہے کہ یہ تمام کھیل دشمن کی ہدایت پر کھیلا جا رہا تھا اور اس کا باقاعدہ معاوضہ بھی وصول کیا جا رہا تھا۔ ہڑتالوں کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ غریب مزدوروں اور پتھارے داروں کے تو چولہے ہی ٹھنڈے کردیے گئے تھے۔ کاروبار ٹھپ، بازار بند، گلی کوچے سنسان۔ اگر کوئی دکان بند نہ کرنے کی ضد کرتا تو اسے دنیا میں رہنے کا کوئی حق نہ ہوتا،کتنے ہی معصوم لوگ اس جرم میں مارے گئے۔

بھتہ نہ دینے پر فیکٹریاں بند کرادی جاتیں یا ان میں آگ لگا دی جاتی۔ جس کی واضح مثال بلدیہ ٹاؤن کی وہ بدنصیب گارمنٹ فیکٹری ہے جس میں ڈھائی سو کے قریب بے قصور محنت کش مار دیے گئے۔ ان کے لواحقین آج بھی انصاف کے لیے تڑپ رہے ہیں مگر انصاف کیسے ملے جب کہ ابھی تک تحقیقاتی کمیٹی یہ پتہ نہیں کر پائی کہ آگ کیسے لگی؟ کس نے لگائی اور کس کے حکم پر لگائی گئی؟ لیکن کوئی بھی راز ہمیشہ راز نہیں رہتا وہ ضرور فاش ہوکر رہتا ہے۔

چنانچہ آگ لگانے کا راز بھی اب فاش ہوچکا ہے مگر افسوس کہ پھر بھی پیشرفت نہیں ہو رہی ہے۔ مقدمہ جہاں پہلے تھا اب بھی وہیں اٹکا ہوا ہے۔ چند دن قبل حماد صدیقی کی دبئی سے گرفتاری کی خبر آئی تھی مگر ابھی بھی گومگو کی کیفیت برقرار ہے۔ اب اگر اسے پکڑ کر کراچی لایا بھی جاتا ہے تو بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ کیونکہ وہ ملبہ لندن والوں پر ڈال دے گا مگر لندن والے تو وہاں محفوظ بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان پر کوئی مقدمہ چل ہی نہیں پاتا اس لیے بھی کہ وہ وہاں ''ایم سکس'' اور ''را'' کے مہمان بنے ہوئے ہیں۔

لندن پولیس نے منی لانڈرنگ اور ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیسز کو کافی آگے بڑھایا تھا مگر اسکاٹ لینڈ یارڈ نے آخر میں ناکافی ثبوتوں کا کہہ کر انھیں ٹھنڈا کردیا تھا۔ ''را'' کا ایک سابق سربراہ پہلے ہی ایک انٹرویو میں بتا چکا ہے کہ لندن والے ''را'' اور ''ایم سکس'' کی حفاظت میں ہیں۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ برطانوی اور بھارتی حکومتیں ان پر مہربان ہیں تو ایسے میں ان پر کوئی مقدمہ کیسے چلایا جاسکتا ہے۔

ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کے سلسلے میں دو قاتلوں کی نشاندہی بھی ہوچکی ہے اور انھوں نے اعتراف قتل بھی کرلیا ہے۔ انھوں نے جس کے حکم پر یہ واردات کی تھی اس کی بھی نشاندہی ہوچکی ہے لیکن اس کے بعد بھی نہ ہی لندن میں مقدمہ آگے بڑھ سکا اور نہ ہی پاکستان میں کچھ پیشرفت ہوسکی۔ انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچا دیا جاتا۔


چلو لندن کی بات اور ہے مگر یہاں پاکستان میں یہ کیس کیوں سست روی کا شکار ہے اسی طرح منی لانڈرنگ کیس کو لندن پولیس نے خود ہی اٹھایا تھا اور پھر خود ہی ختم کردیا چلو یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے مگر پاکستان میں کیوں سستی دکھائی جا رہی ہے۔ سرفراز مرچنٹ پہلے بھی منی لانڈرنگ کے سلسلے میں تمام دستاویزات مہیا کرچکا تھا۔ اب پھر پاکستان کی جانب سے اس سلسلے میں پیشرفت ہوئی ہے اور سرفراز مرچنٹ نے نئے ثبوت پیش کردیے ہیں۔ اب اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچ جانا چاہیے۔

منی لانڈرنگ کے سلسلے میں خود لندن پولیس نے گزشتہ سال گھر اور دفتر میں چھاپے مار کر بہت سی کرنسی برآمد کرلی تھی۔ اسے دیواروں کے خفیہ خانوں میں چھپایا گیا تھا۔ اس رقم کو چھپانے کی بات سمجھ میں نہیں آئی اگر یہ جائز رقم تھی تو اسے چھپانے کی کیا ضرورت تھی؟ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس رقم میں وہ انعامی رقم بھی شامل تھی جو کراچی میں ہڑتالیں کرانے کے لیے باقاعدگی سے موصول ہوتی رہی تھی۔ ہڑتالوں کے ذریعے کراچی کی معیشت کا بھٹہ بٹھانے کی پوری کوششیں کی گئی تھیں اس لیے کہ کراچی پاکستان کی معیشت کا انجن ہے اس کی معیشت سے ملک کی معیشت چلتی ہے۔

کراچی کی معیشت کو نقصان پہنچانے کا مقصد پاکستان کی معیشت کو تباہ کرنا تھا یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ تیس سال پاکستان کی معیشت محض کراچی کے برے حالات کی وجہ سے ڈانوا ڈول رہی۔ کراچی میں ہنگاموں اور ہڑتالوں نے بیروزگاری کو جنم دیا جس سے کراچی میں ڈکیتیوں اور اسٹریٹ کرائمز میں ریکارڈ توڑ اضافہ ہوا۔ عوام اس بات پر متفق ہیں کہ کراچی کے برے دن کبھی ختم نہ ہوتے اگر مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی دبئی سے آکر امن دشمنوں کو نہ للکارتے۔ چونکہ کراچی کے لوگ قتل و غارت گری ہڑتالوں اور بھتہ خوری سے پہلے ہی بیزار ہوچکے تھے چنانچہ رفتہ رفتہ حالات سدھرتے گئے ادھر آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد نے بھی امن و امان کی بحالی میں اپنا حق ادا کردیا۔

اب حقیقت یہ ہے کہ عوام حوصلہ پاکر طاغوتی عناصر کے جال سے باہر آچکے ہیں اور تیس سال تک جو خوف کے سائے چھائے رہے وہ اب سمٹ چکے ہیں۔ کراچی کیا حیدرآباد اور دیگر شہروں کی رونقیں بحال ہوچکی ہیں لیکن حالات اور واقعات سے اب یہ بات سامنے آچکی ہے کہ مہاجروں کے نام پر سیاست ایک خوف ناک غلطی تھی جس نے مہاجروں کو ناقابل تلافی نقصان ہی نہیں پہنچایا بلکہ ان کی شخصیت کو مسخ کردیا ہے۔ بدقسمتی سے اب پھر مہاجروں کے نام پر سیاست کو تازہ کیا جا رہا ہے جس کی اب مہاجر اجازت نہیں دے سکتے۔

سیاست کرنے کے لیے لسانیات، قومیت اور صوبائیت جیسے بدنام شوشوں کے علاوہ بھی ایشوز ہیں جن پر سیاست کی جاسکتی ہے۔ پاکستان میں تعصب کی سیاست کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہونا چاہیے لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک نفرت پھیلانے والی سیاسی جماعتوں پر الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی نہیں لگائی جاتی۔ عوام کے دل ان کے مسائل حل کرکے ہی جیتے جا سکتے ہیں لیکن ہمارے ہاں سیاسی پارٹیاں الیکشن جیت کر عوامی مسائل کو یکسر بھول جاتی ہیں یہ روش اب ختم ہونی چاہیے۔

کراچی اس وقت مسائلستان بنا ہوا ہے مگر نہ تو سندھ حکومت اس جانب توجہ دے رہی ہے اور میئر کراچی اپنے اختیارات میں نقب زنی کا گلہ شکوہ کرکے عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر عوام کو اس طرح مطمئن نہیں کیا جاسکتا۔ مضمون کی ابتدا میں عامر لیاقت کا ذکر کیا گیا تھا وہ بلاشبہ ایک منجھے ہوئے دینی اسکالر ہیں انھوں نے اب تحریک انصاف کو جوائن کرلیا ہے خدا کرے پی ٹی آئی میں سب ٹھیک ہی رہے البتہ عوام کی ان سے درخواست ہے کہ موصوف جس دینی اور وطن پرستی کے مشن پر ذوق و شوق سے کام کر رہے ہیں اسے ہی جاری رکھیں کیونکہ اس سے ملک میں حب الوطنی، قومی یکجہتی اور تمام فرقوں میں زبردست ہم آہنگی پیدا ہوئی ہے۔
Load Next Story