سرکار بنام سرکار
پاکستان نے ناممکن کو ممکن بنا دیا ہے۔
میرا دوست جس کی 32 سال کی سرکاری ملازمت کا بیشتر حصہ مقدمے سننے، فیصلے کرتے، سزائیں سناتے یا بوجہ عدم ثبوت ملزموں کو بری کرتے گزرا ہے، چند روز قبل ملا تو ہنستے ہوئے کہنے لگا بے شمار مقدموں کی فائلوں پر ان کے عنوان پڑھے لیکن آج تک کسی کیس کا عنوان سرکار بنام سرکار نہیں سنا۔ میں نے جواب دیا کہ اس عنوان کا مقدمہ تو ہو بھی نہیں سکتا۔ اس نے جواب دیا کہ تم ٹھیک کہتے ہو لیکن پاکستان نے ناممکن کو ممکن بنا دیا ہے۔
اس کا کہنا تھا کہ گزشتہ ایک سال سے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے روبرو ملک کے وزیراعظم کے خلاف کرپشن، دروغ گوئی، اثاثے چھپانے، عدلیہ اور عوام کو بیوقوف بنانے، عدلیہ کی توہین کا مرتکب ہونے جیسے الزامات کا مرتکب ہونے کے معاملات زیرسماعت تھے۔ عدالت نے الزام علیہ وزیراعظم اور اس کے وکلاء کو صفائی پیش کرنے کا وسیع تر موقع فراہم کیا۔ الزام علیہ نہ صرف بیس کروڑ عوام کا نمایندہ تھا بلکہ ملزم کی حیثیت میں عدالت کے طلب کرنے پر پیش ہو رہا تھا۔
حیرت کی بات کہ اس کی کابینہ کے ارکان اور دیگر سرکاری اعلیٰ ملازم مقدمے کی سماعت کی ہر پیشی پر ملزم کی حمایت میں عدالت عظمیٰ کے اندر اور باہر جمع ہوکر عدالتی کارروائی کو تنقید کا نشانہ بناتے اور ملزم وزیراعظم کے حق میں تقاریر اور مظاہرے کرتے، نعرے بازی کرتے، ملزم کو بے قصور اور مظلوم قرار دیتے۔ بہ الفاظ دیگر عدالت عظمیٰ کے وقار کے خلاف حرکات کے مرتکب ہوتے ہیں۔
کیا ایسے مقدمے کو سرکار بنام سرکار نہ کہا جائے جس میں مدعی تو سرکار ہے لیکن ملزم کے حق میں بھی پوری کابینہ یعنی سرکار مدعا علیہ کے طور پر عدالت میں اس وقت تک موجود رہتی ہے جب تک مقدمے کی سماعت جاری رہتی ہے بلکہ بعض وزراء تو عدالت سے باہر آکر کھلی کچہری لگا کر عدلیہ کے خلاف اور ملزم ہی نہیں مجرم کے حق میں بولنے کے لیے مائیک پکڑ لیتے ہیں۔
عظیم سلطنت عثمانیہ کے شروع کے دور میں ایک قانون رائج تھا کہ جب بھی کوئی نیا بادشاہ تخت نشیں ہوتا وہ تمام ممکنہ امیدواران تخت کا دھڑن تختہ کردیتا یعنی ان کا سر قلم کرنے کا فرمان جاری کرتا۔ اس کی زد میں ہر عمر کے شہزادے بشمول نوزائیدہ بچے بھی آجاتے اور محل سے جنازوں کی قطاریں نکلتیں۔ یہ قانون عرصہ بعد ختم کردیا گیا تھا۔ خدا کا شکر کہ پاکستان میں جمہوری طرز حکومت ہے لیکن حالات کو نظر میں رکھیں تو شک گزرتا ہے کہ بعض حکمرانوں کے دلوں میں اس پرانے قانون کی خواہش کبھی کبھار کروٹ لیتی رہتی ہے۔
کئی ممالک میں اب بھی حکمران بسوں، ٹرینوں بلکہ سائیکلوں کے ذریعے اپنے دفاتر آتے ہیں اور موٹرکاروں میں سفر کرنے والوں کے آگے پیچھے نہ سیکیورٹی ہوتی ہے نہ ان کے لیے روٹ لگتا ہے اور نہ ہی ان کی موومنٹ سو پچاس کاروں، ایمبولینسوں اور بندوق برداروں کے جلو میں ہوتی ہے۔ بعض لوگوں کو تو کسی ریستوران میں بیٹھے کافی دیر بعد پتہ چلتا ہے کہ سامنے والی ٹیبل پر وزیراعظم بیٹھا لنچ بریک کے دوران کھانا کھا رہا ہے۔
عدلیہ کا کام فریقین مقدمہ کو انصاف کی فراہمی ہوتا ہے۔ فیصلہ ہونے پر ایک فریق کی دادرسی ہوجاتی ہے لیکن دوسرا فریق بھلے دل میں جانتا اور مانتا ہو کہ فیصلہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہوا ہے، واویلہ کرتا پایا جاتا ہے کہ عدالت نے اس کے ساتھ ظلم کیا ہے اور وہ فیصلے پر جائز تنقید کا حق رکھتا اور اپیل بھی کرسکتا ہے۔ پاکستان میں اس وقت حکمران فیملی کو جس کے سربراہ سابق وزیراعظم نواز شریف ہیں، سپریم کورٹ سے نااہل قرار دیے جانے کے علاوہ کرپشن، دروغ گوئی، اثاثے چھپانے، عدالت اور عوام کو بیوقوف بنانے جیسے کئی مقدمات کا سامنا ہے۔
دنیا کے دوسرے ممالک جن میں جمہوری نظام حکومت ہے حکمران ایک دو یا تین بار اقتدار میں رہ چکنے کے بعد پس منظر میں چلے جاتے ہیں لیکن پاکستان میں حکمرانوں کی حرص اقتدار انوکھی ہے۔ بڑا بھائی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں صوبائی وزیر بنا پھر دوبارہ صوبہ پنجاب کا وزیراعلیٰ رہا۔ اس کے بعد تین بار ملک کا وزیراعظم منتخب ہوا۔ اس کا برادر خورد تین بار صوبہ پنجاب کا وزیراعلیٰ منتخب ہوا۔ یوں اس فیملی نے اقتدار کی نو باریاں لیں لیکن ان کا دل نہیں بھرا اور وہ ملک کی حکمرانی سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ کون نہیں جانتا کہ اقتدار کی ہوس مال کی طمع کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔
جب کسی کے خلاف عدالت میں مقدمہ زیرتجویز ہو تو الزام علیہ ملزم کہلاتا ہے۔ اگر سزا پاجائے تو مجرم بن جاتا ہے۔ اگر کسی حکمران کے خلاف مقدمہ عدالت میں زیرسماعت ہو تو مدعی سرکار ہوتی ہے جس میں بنام کے بعد ملزم کا نام ہوتا ہے جیسے ''سرکار بنام نواز شریف'' لیکن اگر دوران سماعت ملک کے وزراء اور سرکاری ملازم ملزم والے کٹہرے میں نہ صرف کھڑے ہوجائیں بلکہ اس کے حق میں بولنا بھی شروع کردیں تو مقدمے کا نام سرکار بنام سرکار میں بدل جائے گا۔ پاکستان میں یہ مقدمے کا انوکھا (Unique) عنوان دیکھنے سننے میں آیا ہے جس کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملے گی۔
دنیا کے بہت سے ممالک میں وقت کے حکمرانوں کے خلاف کسی نہ کسی ایشو پر مقدمات چلے لیکن ایسا نہیں ہوا کہ ملزم عدلیہ پر حملہ آور ہوا ہو اور اس کے حواری کمرکس کر میدان میں آ کودے ہوں اور میڈیا پر مقبول ترین پروگرام حکمران کے ساتھیوں اور مخالفین کے درمیان بیان بازی اور الزام تراشی چلنے لگے اور ملک کا اہم ایشو سیاسی دنگل بن جائے، نااہل ڈیکلیئر کیا گیا حکمران عدلیہ کے فیصلوں کے بارے سخت الفاظ استعمال کرکے عدلیہ کو اشتعال دلائے تاکہ وہ اس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرے اور اسے سیاسی شہید بننے کا موقع فراہم ہوجائے۔ پھر جب عدالت کے فیصلے میں لکھا جائے کہ نااہل کیے گئے حکمران نے جھوٹ بولنے کے علاوہ عدالت کو بیوقوف تک بنا ڈالا تو مذکورہ نااہل حکمران ٹیلی ویژن پر توہین عدالت کرتے ہوئے یہ تک کہہ دے کہ ''جج صاحبان بغض سے بھرے بیٹھے ہیں اور ان کا غصہ عدالتی فیصلوں میں ڈھل گیا ہے۔'' پھر وہ وقت بھی آگیا کہ چیف جسٹس یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ''کیا آئین و قانون کو نشانہ بنانا حب الوطنی ہے۔'' اس صورت حال میں عدالت کا اپنے فیصلے میں ملزم کے بارے میں لکھا ہوا یہ شعر برمحل معلوم ہوتا ہے؎
تو اِدھر اُدھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے
اس کا کہنا تھا کہ گزشتہ ایک سال سے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے روبرو ملک کے وزیراعظم کے خلاف کرپشن، دروغ گوئی، اثاثے چھپانے، عدلیہ اور عوام کو بیوقوف بنانے، عدلیہ کی توہین کا مرتکب ہونے جیسے الزامات کا مرتکب ہونے کے معاملات زیرسماعت تھے۔ عدالت نے الزام علیہ وزیراعظم اور اس کے وکلاء کو صفائی پیش کرنے کا وسیع تر موقع فراہم کیا۔ الزام علیہ نہ صرف بیس کروڑ عوام کا نمایندہ تھا بلکہ ملزم کی حیثیت میں عدالت کے طلب کرنے پر پیش ہو رہا تھا۔
حیرت کی بات کہ اس کی کابینہ کے ارکان اور دیگر سرکاری اعلیٰ ملازم مقدمے کی سماعت کی ہر پیشی پر ملزم کی حمایت میں عدالت عظمیٰ کے اندر اور باہر جمع ہوکر عدالتی کارروائی کو تنقید کا نشانہ بناتے اور ملزم وزیراعظم کے حق میں تقاریر اور مظاہرے کرتے، نعرے بازی کرتے، ملزم کو بے قصور اور مظلوم قرار دیتے۔ بہ الفاظ دیگر عدالت عظمیٰ کے وقار کے خلاف حرکات کے مرتکب ہوتے ہیں۔
کیا ایسے مقدمے کو سرکار بنام سرکار نہ کہا جائے جس میں مدعی تو سرکار ہے لیکن ملزم کے حق میں بھی پوری کابینہ یعنی سرکار مدعا علیہ کے طور پر عدالت میں اس وقت تک موجود رہتی ہے جب تک مقدمے کی سماعت جاری رہتی ہے بلکہ بعض وزراء تو عدالت سے باہر آکر کھلی کچہری لگا کر عدلیہ کے خلاف اور ملزم ہی نہیں مجرم کے حق میں بولنے کے لیے مائیک پکڑ لیتے ہیں۔
عظیم سلطنت عثمانیہ کے شروع کے دور میں ایک قانون رائج تھا کہ جب بھی کوئی نیا بادشاہ تخت نشیں ہوتا وہ تمام ممکنہ امیدواران تخت کا دھڑن تختہ کردیتا یعنی ان کا سر قلم کرنے کا فرمان جاری کرتا۔ اس کی زد میں ہر عمر کے شہزادے بشمول نوزائیدہ بچے بھی آجاتے اور محل سے جنازوں کی قطاریں نکلتیں۔ یہ قانون عرصہ بعد ختم کردیا گیا تھا۔ خدا کا شکر کہ پاکستان میں جمہوری طرز حکومت ہے لیکن حالات کو نظر میں رکھیں تو شک گزرتا ہے کہ بعض حکمرانوں کے دلوں میں اس پرانے قانون کی خواہش کبھی کبھار کروٹ لیتی رہتی ہے۔
کئی ممالک میں اب بھی حکمران بسوں، ٹرینوں بلکہ سائیکلوں کے ذریعے اپنے دفاتر آتے ہیں اور موٹرکاروں میں سفر کرنے والوں کے آگے پیچھے نہ سیکیورٹی ہوتی ہے نہ ان کے لیے روٹ لگتا ہے اور نہ ہی ان کی موومنٹ سو پچاس کاروں، ایمبولینسوں اور بندوق برداروں کے جلو میں ہوتی ہے۔ بعض لوگوں کو تو کسی ریستوران میں بیٹھے کافی دیر بعد پتہ چلتا ہے کہ سامنے والی ٹیبل پر وزیراعظم بیٹھا لنچ بریک کے دوران کھانا کھا رہا ہے۔
عدلیہ کا کام فریقین مقدمہ کو انصاف کی فراہمی ہوتا ہے۔ فیصلہ ہونے پر ایک فریق کی دادرسی ہوجاتی ہے لیکن دوسرا فریق بھلے دل میں جانتا اور مانتا ہو کہ فیصلہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہوا ہے، واویلہ کرتا پایا جاتا ہے کہ عدالت نے اس کے ساتھ ظلم کیا ہے اور وہ فیصلے پر جائز تنقید کا حق رکھتا اور اپیل بھی کرسکتا ہے۔ پاکستان میں اس وقت حکمران فیملی کو جس کے سربراہ سابق وزیراعظم نواز شریف ہیں، سپریم کورٹ سے نااہل قرار دیے جانے کے علاوہ کرپشن، دروغ گوئی، اثاثے چھپانے، عدالت اور عوام کو بیوقوف بنانے جیسے کئی مقدمات کا سامنا ہے۔
دنیا کے دوسرے ممالک جن میں جمہوری نظام حکومت ہے حکمران ایک دو یا تین بار اقتدار میں رہ چکنے کے بعد پس منظر میں چلے جاتے ہیں لیکن پاکستان میں حکمرانوں کی حرص اقتدار انوکھی ہے۔ بڑا بھائی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں صوبائی وزیر بنا پھر دوبارہ صوبہ پنجاب کا وزیراعلیٰ رہا۔ اس کے بعد تین بار ملک کا وزیراعظم منتخب ہوا۔ اس کا برادر خورد تین بار صوبہ پنجاب کا وزیراعلیٰ منتخب ہوا۔ یوں اس فیملی نے اقتدار کی نو باریاں لیں لیکن ان کا دل نہیں بھرا اور وہ ملک کی حکمرانی سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ کون نہیں جانتا کہ اقتدار کی ہوس مال کی طمع کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔
جب کسی کے خلاف عدالت میں مقدمہ زیرتجویز ہو تو الزام علیہ ملزم کہلاتا ہے۔ اگر سزا پاجائے تو مجرم بن جاتا ہے۔ اگر کسی حکمران کے خلاف مقدمہ عدالت میں زیرسماعت ہو تو مدعی سرکار ہوتی ہے جس میں بنام کے بعد ملزم کا نام ہوتا ہے جیسے ''سرکار بنام نواز شریف'' لیکن اگر دوران سماعت ملک کے وزراء اور سرکاری ملازم ملزم والے کٹہرے میں نہ صرف کھڑے ہوجائیں بلکہ اس کے حق میں بولنا بھی شروع کردیں تو مقدمے کا نام سرکار بنام سرکار میں بدل جائے گا۔ پاکستان میں یہ مقدمے کا انوکھا (Unique) عنوان دیکھنے سننے میں آیا ہے جس کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملے گی۔
دنیا کے بہت سے ممالک میں وقت کے حکمرانوں کے خلاف کسی نہ کسی ایشو پر مقدمات چلے لیکن ایسا نہیں ہوا کہ ملزم عدلیہ پر حملہ آور ہوا ہو اور اس کے حواری کمرکس کر میدان میں آ کودے ہوں اور میڈیا پر مقبول ترین پروگرام حکمران کے ساتھیوں اور مخالفین کے درمیان بیان بازی اور الزام تراشی چلنے لگے اور ملک کا اہم ایشو سیاسی دنگل بن جائے، نااہل ڈیکلیئر کیا گیا حکمران عدلیہ کے فیصلوں کے بارے سخت الفاظ استعمال کرکے عدلیہ کو اشتعال دلائے تاکہ وہ اس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرے اور اسے سیاسی شہید بننے کا موقع فراہم ہوجائے۔ پھر جب عدالت کے فیصلے میں لکھا جائے کہ نااہل کیے گئے حکمران نے جھوٹ بولنے کے علاوہ عدالت کو بیوقوف تک بنا ڈالا تو مذکورہ نااہل حکمران ٹیلی ویژن پر توہین عدالت کرتے ہوئے یہ تک کہہ دے کہ ''جج صاحبان بغض سے بھرے بیٹھے ہیں اور ان کا غصہ عدالتی فیصلوں میں ڈھل گیا ہے۔'' پھر وہ وقت بھی آگیا کہ چیف جسٹس یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ''کیا آئین و قانون کو نشانہ بنانا حب الوطنی ہے۔'' اس صورت حال میں عدالت کا اپنے فیصلے میں ملزم کے بارے میں لکھا ہوا یہ شعر برمحل معلوم ہوتا ہے؎
تو اِدھر اُدھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے