نقش کتاب

یہ ایک ایسی دلچسپ کتاب ہے جسے خرید کر پڑھنا گھاٹے کا سودا نہیں،کتاب پڑھ کر یقینا آپ مجھ سے اتفاق کریں گے۔

fatimaqazi7@gmail.com

رفیع الزماں زبیری ایکسپریس کے سینئر کالم نویس ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ادیب بھی ہیں، آپ کی کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ زیر نظر کتاب ''نقشِ کتاب'' بہت ساری اچھی کتابوں پہ لکھے گئے کالموں کا ایسا بہترین مجموعہ ہے کہ پڑھ کر لطف آجاتا ہے۔ اس کتاب میں تنقید، سوانح، خاکے، شکاریات، سفرنامے اور خود نوشتیں سبھی کچھ شامل ہیں۔ یہ ایک ایسی دلچسپ کتاب ہے جسے خرید کر پڑھنا گھاٹے کا سودا نہیں،کتاب پڑھ کر یقینا آپ مجھ سے اتفاق کریں گے۔

رفیع الزماں زبیری ریڈیو پاکستان میں نیوزکنٹرولر اور چیف رپورٹر رہ چکے ہیں۔ ہمدرد فاؤنڈیشن میں ڈائریکٹر نونہال ادب رہے، کراچی آرٹ ایجوکیشن سوسائٹی کے وائس پریزیڈنٹ ہیں۔ چند اقتباسات ''نقشِ کتاب'' کے پیش خدمت ہیں۔ ''بزم داغ...یادداشتیں'' میں لکھتے ہیں ''ایک دن مرزا صاحب نے فرمایا مجھے تمام عمر میں پانچ عشق ہوئے ہیں، جن میں سے دو اب تک میرے رگ و ریشہ میں سمائے ہوئے ہیں۔ ایک بی منی بائی حجاب کا عشق، دوسرا حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کا۔''

''اذن سفر دیا تھا کیوں'' ڈاکٹر نگار اور ان کے ساتھی ''مینار جنباں'' دیکھنے گئے، یہ ایک عمارت تھی جس کے دو مینار ایسے تھے کہ کوئی انھیں ہلائے تو درخت کی شاخوں کی طرح ہلتے تھے۔''

''فنونِ لطیفہ کی لازوال ہستیاں'' کا ایک اقتباس ''عطیہ فیضی پہلی ہندوستانی خاتون تھیں جنھوں نے بیرون ملک جاکر تعلیم حاصل کی اور پیرس کی یونیورسٹی میں لیکچر دیا۔ انھیں ادب کے ساتھ علم موسیقی پر بھی عبور تھا۔ انھوں نے اس کی نہ صرف تربیت حاصل کی بلکہ اس معاملے میں ان کا مطالعہ بڑا وسیع تھا۔ خاص طور پر مصری موسیقی کی مختلف راگ راگنیوں کے بارے میں ان کی معلومات حیرت انگیز تھیں۔ وہ ان راگ راگنیوں کے بارے میں استاد بندوخاں جیسے بڑے فنکاروں کو دھنیں بناکر بتایا کرتی تھیں۔ یہ وہ عطیہ بیگم تھیں جن کی بارگاہ عقیدت میں بڑے بڑے نام شامل ہیں۔ بالخصوص اقبال اور شبلی۔''

''مٹھی بھر یادیں'' بہت سے ادیبوں کے پاس گاڑیاں دیکھ کر منیر نیازی کو بھی گاڑی کی طلب ہوئی، کسی ادیب کے بیٹے کی شادی تھی جس میں شہباز شریف بھی آرہے تھے، منیر وہیل چیئر پہ بیٹھ کر اس شادی میں گیا، شہباز شریف نے پوچھا ''میں کیا خدمت کرسکتا ہوں؟'' منیر نے فوراً کہا۔ میرے پاس گاڑی نہیں ہے۔ اگلے دن گاڑی ان کے دروازے پہ موجود تھی، اب ہوا ڈرائیور کا مسئلہ حکومت نے یہ بھی انتظام کردیا۔''

'' تیسرا پہلو'' ہماری بدن بولی ہمارے مائنڈ سیٹ کی وجہ سے بنتی ہے۔ آپ خود کو لاکھ چھپائیں، آپ کا ذہن آپ کے جسم کی لاشعوری حرکات سے پڑھا جاسکتا ہے، ہمارا جسم، ہمارا چہرہ، ہمارا ہاتھ اور ہمارے چلنے اور دیکھنے کا انداز یہ سب بغیر زبان کے بذات خود گفتگو کرتے ہیں'' ڈاکٹر خالد بیویوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ شوہر پر گہری نظر ضرور رکھیں لیکن شک کی نظر رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں، اگر اس نے کچھ کرنا ہے تو وہ اتنا آزاد ہوتا ہے کہ کوئی نہ کوئی طریقہ ڈھونڈ ہی لیتا ہے''...''اوراق ناخواندہ'' ...یوسفی صاحب کے فقرے بے شک نہایت چمک دارکی طرح زبان زد خاص و عام ہوجانے والے ہیں، لیکن بدقسمتی سے میری نگاہ عیب کو جوکہ ان فقروں کے عقب سے وہ مشقت اور محنت جھانکتی ہوئی نظر آجاتی ہے جو لکھتے، سوچتے اور گھڑتے ہوئے ان پر کی گئی ہے۔ یہ وہی فرق ہے جو کسی پہاڑی دوشیزہ کے حسن اور اس کے مقابلے میں کسی میک اپ زدہ حسینہ میں پایا جاتا ہے۔''

''اردو کے نادر و کمیاب شخصی خاکے'' سالک صاحب کی زندگی میں فقرہ بازی کے اتنے واقعات ہیں کہ ان پر ایک ضخیم کتاب مرتب کی جاسکتی ہے۔ ایک مرتبہ شعرا کے استقبالیہ میں سوشلسٹ اور سرخوں کے مطابق فرمانے لگے۔ ''سرخے اور شلجم ایک جیسے ہوتے ہیں، کئی شلجم اوپر سے سفید اور اندر سے لال ہوتے ہیں اور کئی اوپر سے لال اور اندر سے سفید ہوتے ہیں اور بہت کم ایسے ہوتے ہیں کہ اندر اور باہر دونوں طرف سے سرخ ہوں۔''

''خواجہ احمد عباس کی فلم کی شوٹنگ کا پہلا دن تھا، مینا کماری ہیروئن تھیں، اس روز موسلا دھار بارش ہو رہی تھی، میک اپ روم میں صرف ایک اسسٹنٹ تھا اس نے کہا، ایسے سمے میں مینا کماری کہاں آئے گی۔ خواجہ احمد عباس نے کہا شوٹنگ کا پہلا دن ہے ہیروئن کا امتحان بھی ہوجائے گا ۔ ٹھیک وقت پر موسلا دھار پانی گرنے کی آواز کو چیرتا ہوا ایک موٹرکا ہارن سنائی دیا۔ وہ موٹر پانی میں تیرتی ہوئی میک اپ روم کی سیڑھیوں کے پاس آکر رک گئی مگر یہ سیڑھیاں خود پانی میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ پھر موٹر سے پہلے ہیروئن کے دو ننگے گورے گورے نازک سے پاؤں نکلے، پھر دو ہاتھ چپل سنبھالے اور اس کے ساتھ سفید ساڑھی پہنے سر پر بڑا سا تولیہ اوڑھے ہیروئن باہر آئی۔ کہنے لگی۔ ''آداب عرض ہے مجھے دیر تو نہیں ہوئی؟''یہ مینا کماری تھی۔''

نخشب جارچوی کا خاکہ ''ایک شاعر، ایک فلم ڈائریکٹر، ریس کا بہترین کھلاڑی اور رومان پرست حسیناؤں کی تمناؤں کا مرکز، ایک ایسا شخص جس نے جہاں قدم رکھا اپنے نقش پا چھوڑ گیا۔ فلم ''زینت'' کی قوالی ''آہیں نہ بھریں شکوے نہ کیے'' جو اپنے وقت میں بڑی مشہور ہوئی نخشب ہی کی لکھی ہوئی تھی۔ وہ بعد میں بمبئی سے کراچی آگئے اور یہیں ان کا انتقال ہوا۔''


ایک خاکہ جدن بائی کا ہے جو شوکت ہاشمی نے لکھا ہے۔ جدن بائی کی ایک بڑی پہچان یہ تھی کہ وہ مشہور فلم ایکٹریس نرگس کی ماں تھیں۔ ایک مرتبہ سیٹ پر نرگس اور دلیپ ایک دوسرے سے گھل مل کر باتیں کر رہے تھے۔ جدن بائی نے دیکھا تو دلیپ کمار سے بولیں '' اگر تمہیں بے بی سے انس ہے تو تم مجھ سے کہو۔ شریف ماں باپ کی اولاد ہو، شریف طریقے سے اپنالو، سیٹ پر لوگوں کے سامنے یوں کھسر پھسر کرنے سے کیا فائدہ، اسے بھی بدنام کرتے ہو اور خود بھی بدنام ہوتے ہو۔''

عطیہ فیضی کے خاکے میں نصر اللہ خاں لکھتے ہیں ''عطیہ بیگم فیضی جوانی میں ایک رنگین داستان تھیں، بڑھاپے میں وہ اس داستان کی داستان بن گئیں اور اسی کے سہارے اور سایہ میں وہ زندہ رہیں۔ مشہور مصور فیضی رحمین جو عطیہ کے عشق میں یہودی سے مسلمان ہوگئے تھے۔ ان کے اشاروں پہ ناچتے تھے۔ ویسے عطیہ کے اشاروں پہ کون نہیں ناچا، کسی نے دل نذر کیا تو کسی نے ایمان۔''

''اقسام افسران بزبان افسران'' صاحب افسر۔ یہ سرکاری افسران کی بڑی اعلیٰ قسم ہے۔ پاکستان بننے سے پہلے انھیں آئی۔سی۔ایس (انڈین سول سروس) کہا جاتا تھا۔ آج کے ''صاحب افسر'' میں انگریزی دور کی خصوصیات بدرجہ اتم موجود ہیں۔ یہ عموماً انگریزی لباس زیب تن کرتا ہے۔ یہ دفتر میں تبدیلی لانے اور دیر سے آنے کا شوقین ہوتا ہے۔ چنانچہ نئی جگہ پر آتے ہی کمرے کا رنگ، پردے، فرنیچر اور بعض اوقات عملہ بھی تبدیل کروا دیتا ہے۔ یہ میٹنگ کرنے کا شیدائی ہوتا ہے، اس سے ملاقات اگر مشکل ہے لیکن اگر سیاسی شخصیات کے نام اور پتے معلوم ہوں تو اس سے کام نکالے جاسکتے ہیں۔''

حیرت سے تک رہا ہے جہان وفا مجھے

تم نے بنا دیا ہے محبت میں کیا مجھے

٭٭٭

یوں نہ رہ رہ کر ہمیں تڑپائیے

آئیے آجائیے آ جائیے

یہ غزلیں جب ماسٹر مدن نے گائیں اور آل انڈیا ریڈیو کے دہلی اسٹیشن سے نشر ہوئیں، اس وقت ماسٹر مدن کی عمر صرف آٹھ سال تھی، سارے ملک میں ان کی گائیکی کی دھوم مچ گئی بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ نظر لگ گئی اور یہ ہونہار لڑکا اپنی پندرہویں سالگرہ سے پہلے اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ ایک موہ لینے والی آواز خاموش ہوگئی۔ نہ جانے کتنے کانوں میں یہ آواز مدتوں تک گونجتی رہی ہوگی۔''

قارئین! اقتباسات سے آپ کو کتاب کی اہمیت اور دلچسپی کا اندازہ بخوبی ہوگیا ہوگا اور پوری کتاب پڑھنے کا اشتیاق بھی بڑھ گیا ہوگا۔ کیونکہ یہ کتاب ہے ہی ایسی کہ ایک بار ہاتھ میں لے کر ختم کیے بغیر چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا۔
Load Next Story