اور ہاکی ٹوٹ گئی۔۔۔۔

ایشیا کپ کے بعد 4 ملکی ٹورنامنٹ میں بھی ناکامیوں کا سلسلہ جاری

پاکستان کو اب تک 4 بار عالمی کپ جیتنے کا اعزاز حاصل ہے۔ فوٹو:فائل

BEIRUT:
26 ویں ایف آئی ایچ چیمپئنز ٹرافی سپین کے شہر ٹریسا میں کھیلی گئی، پاکستان ہاکی فیڈریشن نے نیا تجربہ کرتے ہوئے ہیڈ کوچ اور ٹیم منیجر کی ذمہ داریاں سابق اولمپئن محمد آصف باجوہ کے سپرد کیں، پاکستانی ٹیم نے چیمپئنز ٹرافی کے دوران نہ صرف جرمنی کے خلاف مقابلہ 3-3 گول سے برابر کھیلا بلکہ میگا ایونٹ کے دوران موجودہ اولمپک چیمپئن ارجنٹائن کو2 بار شکست کا مزہ بھی چکھایا تاہم 25 جولائی2006ء کو شیڈول میچ کے دوران ہالینڈ نے گرین شرٹس کو 2 کے مقابلے میں 9 گول سے شکست دی، ٹیم کی اس ناکامی پر ملک بھر میں بھونچال آ گیا، ٹیم مینجمنٹ نے ناکامی کی ذمہ داری کھلے دل کے ساتھ قبول کی اور اپنے عہدوں سے مستعفی ہو گئی۔

11 سال کے بعد تاریخ نے خود کو ایک بار پھر دہرایا ہے اور میلبورن میں جاری چار ملکی انٹرنیشنل فیسٹول میں میزبان آسٹریلیا نے پاکستانی ٹیم کو 9-1سے شکست دے دی۔بات یہی پر ختم نہیں ہوئی بلکہ عالمی رینکنگ میں 16 ویں نمبر پر براجمان جاپان نے بھی قومی ٹیم کو ایک کے مقابلے میں 3 گول سے زیر کیا، تیسرے میچ میں نیوزی لینڈ نے بھی پاکستان کو 2 کے مقابلے میں3 گول سے ہرا کر پاکستان ٹیم کی رہی سہی عزت کا بھی جنازہ نکال دیا، چار ملکی ٹورنامنٹ کے دوران پاکستانی ٹیم نے3 میچز کھیلے، مجموعی طور پر 15گول اس کے خلاف ہوئے جبکہ وہ صرف چار گول کرنے میں ہی کامیاب رہی۔

گزشتہ ماہ ڈھاکہ میں شیڈول ایشیا کپ میں بھی پاکستانی ٹیم صرف بنگلہ دیش اور جنوبی کوریا کو شکست دینے میں کامیاب ہو سکی تھی اور اسے ٹورنامنٹ میں بھارت نے2 مرتبہ شکست دی تھی جبکہ وہ ملائشیا کو بھی شکست دینے میں کامیاب نہ ہوسکی تھی۔غور طلب بات یہ ہے کہ آسٹریلیا کے اس چار قومی ہاکی ٹورنامنٹ کے لیے پاکستانی ہاکی ٹیم ٹرائلز کے بغیر منتخب کی گئی ہے جس سے پاکستان ہاکی فیڈریشن کی سلیکشن کے بارے میں غیرمستقل مزاج کارکردگی ظاہر ہوتی ہے۔

اس سے قبل ورلڈ کپ کوالیفائنگ راؤنڈ کے سیمی فائنل مقابلوں کے دوران بھی پاکستانی ٹیم کی کارکردگی انتہائی شرمناک رہی اور قومی ٹیم آٹھ ٹیموں کے مقابلوں میں ساتویں نمبر پر رہی تھی۔ٹیم کی ان شرمناک شکستوں کے بعد اب چار ملکی ٹورنامنٹ میں بھی عبرت ناک ناکامیوں کے باوجود بھی زمین پھٹے گی اور نہ ہی آسمان ٹوٹے گابلکہ وطن واپسی پر مگر مچھ کے آنسو بہائے جائیں گے، یورپی ممالک کے اربوں، کھربوں کے انفراسٹرکچر اور پاکستان میں گنتی کے چند آسٹروٹرف کی باتیں کی جائیں گی، قصہ مختصر ٹیم کی شکست کو اس انداز میں پیش کیا جائے گا کہ بھولی اور سیدھی سادھی قوم کو ورلڈ ہاکی لیگ میں شریک ٹیمیں ظالم اور قومی ٹیم مظلوم دکھائی دینے لگے گی۔

پاکستان کو اب تک 4 بار عالمی کپ جیتنے کا اعزاز حاصل ہے، آخری بار گرین شرٹس نے شہباز احمد سینئر کی قیادت میں ورلڈ کپ کا ٹائٹل اپنے نام کیا تھا، اس کو آپ شہباز سینئر کی خوش قسمتی کہیں یا بدقسمتی، پاکستان ہاکی فیڈریشن کے موجودہ سیکرٹری بھی اس وقت شہباز سینئر ہی ہیں جو اپنی آنکھوں سے قومی کھیل کو سسکتا اور دم توڑتا ہوا دیکھ رہے ہیں، قومی پلیئرز کی ہاکی کے کھیل میں کتنی مہارت ہے، ایشیا کپ کے بعد آسٹریلیا میں جاری چار ملکی ٹورنامنٹ کے ابتدائی دو مقابلوں کے دوران وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں۔


کھلاڑیوں کی اس مایوس کن کارکردگی نے ماضی کے عظیم کھلاڑی کا دل کرچی کرچی کر دیا ہے، ان کی رائے میں ملک کے لئے کھیلنا کسی بھی کھلاڑی کے لئے عزت کی بات ہوتی ہے، تاہم بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ موجودہ ٹیم میں فائٹنگ سپرٹ ہے اور نہ ہی جیت کی تڑپ موجود ہے، ہمارے کھلاڑیوں کو یہ تک نہیں معلوم کہ انہوں نے کس طرح کی ہاکی کھیلنی ہے، کھلاڑی محض وقت پاس کر رہے ہیں اور ان کا زیادہ تر فوکس ہاکی لیگ کی جانب ہے، ایونٹ کے دونوں میچوں کے دوران گرین شرٹس کو جس طرح شکستوں کا سامنا رہا، وہ مایوس کن ہے۔

سابق چیف کوچ شہناز شیخ کا کہنا ہے کہ چار ملکی ٹورنامنٹ میں شرکت کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا تھا، ہماری موجودہ ٹیم ایسی نہیں ہے کہ آسٹریلیا یا نیوزی لینڈ کے خلاف کامیابی حاصل کر سکے، ایشیا کپ میں ناقص کارکردگی کے بعد کھلاڑیوں کا مورال پہلے ہی ڈاؤن تھا، پلیئرز کو 36 گھنٹے کے طویل سفر کے بعد دنیا کی بہترین ٹیموں کے خلاف میدان میں اتار کر الٹا ان کے حوصلے مزید پست کر دیئے گئے، آسٹریلیا کے دورے پر جتنا خرچہ کیا گیا ہے اتنے پیسوں سے یورپ کے تین ٹورز کئے جا سکتے تھے، میں حیران ہوں کہ پی ایچ ایف ایک طرف تو فنڈز نہ ہونے کا رونا روتے ہیں اور اوپر سے آسٹریلیا کے بغیر مقصد ٹور پر کروڑوں روپے خرچ کئے جا رہے ہیں۔

''ایکسپریس'' سے بات چیت میں ماضی کے عظیم کھلاڑی کا کہنا تھا کہ موجودہ قومی ٹیم کی کارکردگی کا عالم یہ ہے کہ وہ ملائیشیا، جاپان اور بھارت جیسی ٹیموں سے بار بار ہار رہی ہے۔ ان کے مطابق اگر کوئی باتھ روم کے ٹب میں نہا کر یہ دعویٰ کرے کہ مجھے سوئمنگ آ گئی ہے تو اسے اس کی خام خیالی ہی کہا جائے گا۔

ملکی کھیلوں کا جو حال ہے وہ تو سب کے سامنے ہے، کتنے افسوس کی بات ہے کہ 20 کروڑ سے زائد باسیوں کی سرزمین باصلاحیت کھلاڑ ی پیدا کرنے میں بانجھ دکھائی دیتی ہے جبکہ 50 ،60 اور ایک کروڑ تک کے آبادی کے بیشتر ممالک اولمپکس سمیت دنیا کے بڑے ایونٹس میں میڈلز جیت کر اپنے ملک کی نیک نامی کا سبب بنتے ہیں، واحد گیم ہاکی ہی بچتی تھی جس سے قوم کو عالمی ایونٹس میں میڈلز کی امید ہوتی تھی، سو اس کا بھی بیڑہ غرق کر دیا گیا۔

میں پوچھتا ہوں کہ دیوار چین، فلائنگ ہارس کے القاب سے پکارے جانے والے کھلاڑی کہاں گئے، کہاں ہیں وہ اے جی خان، شاہ رخ، بریگیڈیئر حمیدی، ڈاکٹر غلام رسول چوہدری، نصیر بندہ، انوار خان، منیر ڈار، ذاکر سید، خالد محمود، استاد سعید انور، اشفاق احمد، رشید جونیئر، شہناز شیخ، منظورالحسن، اختر رسول، منظورجونیئر، سمیع اللہ، حسن سردار، شاہد علی خان، حنیف خان، اصلاح الدیں صدیقی، شہباز سینئر، سہیل عباس، کہاں گئے وہ دن جب میچ کے دوران پاکستانی کھلاڑیوں کے اللہ اکبر کے نعرے سٹیڈیم میں موجود ہزاروں تماشائیوں اور ٹی وی سکرینوں کے سامنے بیٹھے کروڑوں پاکستانیوں کے دلوں کو گرما دیتے تھے۔

کہاں گئے وہ دن جب مخالف ٹیموں کے کھلاڑی تمہارا رعب ودبدبہ دیکھ کر مقابلے سے پہلے ہی ہمت ہار بیٹھتے تھے، کہاں گئے وہ دن جب دنیا فخر سے کہتی تھی کہ اگر ہاکی سیکھنی ہو تو پاکستان جاؤ۔کہتے ہیں جب نیتوں میں کھوٹ ہوں تو نتائج بھی ویسے ہی ملتے ہیں، اب عالم یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم عالمی رینکنگ میں ابتدائی10 پوزیشنوں سے بھی باہر ہو کر 13ویں نمبر پر ہے، قومی کھیل کی تنزلی کا سفر کہاں تک جاری رہتا ہے، اس کا ہمیں اور آپ کو انتظار رہے گا۔
Load Next Story