پاکستانی ٹیلنٹ ممبئی میں

وہاں کونسا ٹیلنٹ ہے جو نہیں ہے لیکن پھر بھی یہاں کا ’’ ٹیلنٹ ‘‘ وہاں دکھایا جاتا ہے

barq@email.com

یہ اچھا ہوا اور بہت اچھا ہوا کہ جو کام پاکستان کو کرنا چاہیے تھا ، اسے بھارت نے کر دیا۔ ان ''سپوتوں اور سپوتنیوں ''کو ویزے دینے سے انکار کر دیا ہے جو '' ٹیلنٹ '' سے ناکوں ناک بھرے ہوئے ''موم بائی'' جاتے رہتے ہیں اور وہاں پاکستان کو ''چار سورج '' لگاتے رہتے تھے ۔ چاندوں کا زمانہ تو اب گیا ہے کیونکہ پاکستان کو اتنے زیادہ چاند لگائے جا چکے ہیں کہ اب کسی اور چاند کے لیے جگہ ہی نہیں بچی ہے ۔ بلکہ چاند میری زمین، پھول میرا وطن ہو گیا ہے۔

پاکستان کے ساتھ ہمیشہ یہ '' دو '' کا ہندسہ نتھی رہا ہے ۔ یہ جب بنا تب بھی ایک کی جگہ دو پاکستان بنے تھے یعنی '' دوئی'' اس کی بنیاد سے شروع ہوئی ہے، اس کے بعد یہ '' دو'' کا پہاڑہ مسلسل چلتا رہا ہے، یہاں سیاست بھی دو طرح کی ہے اور انسان بھی دو طرح کے بستے ہیں۔ ایک کالا نعام جو انسانوں سے بہت کم اور جانوروں سے بہت زیادہ قریب ہیں اور دوسرے وہ جو انسانوں سے بہت زیادہ اور خدا سے تھوڑے سے کم ہیں ، اسی بنیاد پر یہ دو کا پہاڑہ چلتا ہو ا ہر مقام پر چل رہا ہے۔

سرکاری اور غیر سرکاری قرض خور اور قرض دار ، لٹنے والے اور لوٹنے والے ۔ قانون بنانے والے اور قانون بھگتنے والے ، کمانے والا اور کھانے والے ، لا ڈلے اور سوتیلے،ترانے بنانے والے اور ترانے گانے والے ، بھارت کے شدید دشمن اور بھارت کے شدید دوست اور یہ ان ہی شدید دوستوں اور ان کے سپوتوں اور سپوتنیوں کا المیہ ہے جو موم بائی جاکر ٹیلنٹ دکھاتے ہیں اور پھر اخبارات ان کے ٹیلنٹ کے گن گاتے ہیں۔

اس کی ابتدا بہت زمانہ ہوا ایک محترمہ نے کی تھی۔ اس نے یہاں پی ٹی وی پر جھنڈے گاڑنے کے بعد موم بائی میں انٹری دی تو پہلا بیان یہ دیا کہ اسلام میں چار شادیاں ظلم ہے اور اگر مرد کو چار شادیاں کرنے کی اجازت ہے تو عورت کو بھی چار شوہر کرنے کی اجازت ہونا چاہیے لیکن اس کے باوجود بھی اسے وہاں جو ٹیلنٹ دینا تھا وہ دے دیا اور بنیوں نے بچاری کو کچھ بھی نہیں دیا ۔

شاید غالب کی زبان میں جواب دیا ہو کہ تم نے میرے پاؤں دابے اور میں نے تمہاری اجرت دابی حساب برابر ۔ پھر ایک اور سپوتن نے وہاں جاکر جب ٹیلنٹ دکھانے کا مظاہرہ کیا اور اس پر مچ گیا شور ۔ تو بولی کہ میں تو پاکستان کی ہوں ہی نہیں میں تو برطانیہ کی شہری ہوں۔ کسی نے نہیں پوچھا کہ پھر برطانیہ سے سیدھی ممبئی جاتی وایا پاکستان جانے کی کیا ضرورت تھی ؟

اور پھر وہ اٹھارہ من کی دھو بن ۔ جس نے یہاں سب کچھ پایا تھا سرکاری نعمتوں کا جی بھر کر استعمال کیا تھا نہ صرف وہاں جا کر اپنی شہریت پاکستان کو اٹھائیس چاند لگانے کے لیے بدل دی بلکہ اپنے اندر کا سب کچھ مع '' چربی '' کے شہریت پر قربان کردیا ۔یہ ایک لمبی داستان ہے جس کا ماحصل یہ ہے کہ '' دشمنی '' صرف ان بد بختوں کے لیے ہے جو ایک ہی ترانے پر تن من دھن سے قربان ہو جاتے ہیں لیکن ان کے لیے دوستی ہی دوستی ہے جو اسی دشمنی کا دیا کھاتے ہیں۔ وہ جو انسانوں سے بہت اونچے اور خد سے ذرا چھوٹے ہیں، یہ سب آخری اور بہت بڑا '' دو ''ہے


مضحکہ خیز بھی ہے باعث حیرانی بھی
کچھ نہ ہوتے ہوئے بندوں کا خدا ہو جانا

وہاں جاکر یہ سپوت اور سپوتنیاں کرتے کیا ہیں، اس کے بارے میں جب ہماری ''محب الوطن ترین ''صحافت چپ ہے تو ہم بھی چپ ہی رہیں گے لیکن یہ کوئی معمہ بھی نہیں جو سمجھا نہ جا سکے ۔کہ وہاں کونسا ٹیلنٹ ہے جو نہیں ہے لیکن پھر بھی یہاں کا '' ٹیلنٹ '' وہاں دکھایا جاتا ہے اور بروایت پاکستانی شوبز صحافت '' پاکستانی ٹیلنٹ کی وہاں بڑی قدر ومنزلت ہے بلکہ بیچارے بھارت والے راہ تکتے رہتے ہیں ،کب پاکستان سے ٹیلنٹ آئے اور گلشن کا کاروبار چلے۔ ہم تو وہاں آتے جاتے رہتے ہیں اور دیکھتے رہتے ہیں کہ وہاں پاکستانیوں سے کیا باعزت سلوک کیا جاتا ہے۔

ہم نے تو پاکستان بنا کر ان مسلمانوں کو ہندؤوں کے ظلم و ستم سے بچا لیا جو کبھی خطرے میں نہیں تھے، مسلمان اکثر یتی علاقوں میں تو مسلمانوں کو کوئی خطرہ تھا ہی نہیں، خطرہ ان مسلمانوں کو تھا اور ہے جو ہندو اکثریتی علاقوں میں تھے اور ہم نے نہایت بہادری کے ساتھ '' ادھر تم ادھر ہم '' کہہ کر ان کو بھیڑیئے کے جبڑوں ہی میں چھوڑدیا ۔ کہ جہاں رہو خوش رہو، ہم تو چلے ۔یہ بات ہم نے تاریخ بیان کرنے کے لیے شروع نہیں کی ہے ورنہ پھر یہ بھی بتانا پڑے گا کہ ہندی لوگ جو ہمیشہ '' اقلیتوں '' کے محکوم رہے ہیں، آٹھ سو سال تک مسلمانوں کی اقلیتی حکومتوں میں بھی شانت رہے، ان میں پاکستان بننے کے بعد یہ '' مذہبی جنون'' کیوں اور کیسے پیدا ہوا۔

انھوں نے پہلے تو کبھی مذہب کا نام نہیں لیا تھا، بنئے لوگ تھے اپنی دکاندروں میں خوش تھے لیکن اب اچانک بال ٹھاکرے، مودی اور بابری مسجد گرانے والے اور گجرات کو خون میں نہلانے والے کیوں بن گئے ۔بات کو صرف شوبز کی حد تک رکھتے ہوئے ذرا موم بائی کی فلمی تاریخ پر نظر ڈالیے تو موجودہ عریانی فحاشی اور جنس زدگی کی ابتدا مسلمان '' برائے نام سہی '' اداکاراؤں سے ہوتی ہے۔

زینت امان ، پروین بابی ممتاز وغیرہ وہ ادا کارائیں ہیں جنہوں نے سب سے پہلے لباس اتار ڈالاتھا۔ کیوں ؟ اسی زمانے میں ہندو اداکارائیں مالا سنہا ، سادھنا ، آشا پاریکھ، ریکھا ، راکھی گلزار ، نیتو سنگھ ، ببیتا وغیرہ باقاعدہ '' آپے '' میں نظر آتی ہیں، صرف مسلمان نام رکھنے والیوں کو آپے سے باہر کر دیا گیا ۔کیوں ؟

اس لیے کہ ان بچاریوں کے لیے کوئی اور راستہ بچا ہی نہیں وہ '' سب کچھ '' مان کر ہی پذیرائی حاصل کر سکتی تھیں ۔ اس کے بعد بھی جو مسلمان خانوں سمیت نظر آرہے ہیں وہ بھی سب کچھ '' مان '' کر ہی آتے ہیں۔ سب کے سب صرف '' نام '' کی حد تک مسلمان اور خان ہیں، سب کے گھروں میں '' انڈیا '' چل رہا ہے۔ ب

ہو بیٹیاں بھی '' انڈیا '' کو بیاہی جا رہی ہیں۔اور پاکستانی '' ٹیلنٹ '' کو اتنی شدت سے چاہتے ہیں کہ عام زندگی میں تو مسلمان عورت کا جو حال ہے وہ نہ ہی بتایا جائے تو اچھا ہے۔ کبھی کبھی تو ہمیں شرم آجاتی ہے کہ پاکستانی ٹیلنٹ اور اسی سے جڑا ہوا شوبز، صحافت یا تو بالکل اندھا، بہرا ،گونگا ہے اور یا ۔ وہ دوسرا لفظ ہم استعمال نہیں کرنا چاہتے۔بس آپ خود سمجھدار ہیں، سمجھ لیں۔
Load Next Story