ذیابیطس سے بچنے کےلیے احتیاط ضروری ہے
صحت بخش غذا اور ورزش کو معمول بنا کر شوگر کی بیماری سے محفوظ رہا جاسکتا ہے
14 نومبر کا دن درحقیقت انسولین دریافت کرنے والے فریڈرک بینٹنگ کا یوم پیدائش ہے، اسی وجہ سے عالمی ادارہ صحت کے زیراہتمام پاکستان سمیت دنیا بھر میں 14 نومبر کا دن ذیابیطس ( شوگر) سے آگہی کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ دن منانے کا بنیادی مقصد ذیابیطس (شوگر) کے مرض کی بڑھتی ہوئی شرح پر قابو پانے کےلیے دنیا کو متوجہ کرنا اور اس کی علامات، علاج، پرہیز اور بچاؤ سے متعلق آگہی فراہم کرنا ہے۔
ذیابیطس جسے عرف عام میں شوگرکہا جاتا ہے، روز بروز بڑھنے والا ایسا مرض ہے جومسلسل لوگوں کی بڑی تعداد کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے جبکہ عوام میں اس مرض سے متعلق مناسب آگہی ہونے پر نہ صرف چند احتیاطی تدابیر اختیار کرکے اس سے محفوظ رہا جاسکتا ہے بلکہ ذیابیطس کے مریض بھی احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے معمول کے مطابق زندگی بسر کرسکتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 42 کروڑ سے بھی زائد افراد اس خطرناک مرض کا شکار ہیں جبکہ جاں بحق ہونے والا ہر چھٹا فرد ذیابیطس میں مبتلا ہوتا ہے۔ شوگر کی بیماری سے ہر دس سیکنڈ میں ایک شخص کی موت واقع ہو رہی ہے۔ اس بیماری کی وجہ سے ہونے والی 80 فیصد اموات کا تعلق غریب اور توسط طبقے سے ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد ڈیڑھ کروڑ سے بھی زیادہ ہے۔ ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ اگر اس مرض سے بچاؤ کے مناسب اقدامات نہ کیے گئے تو 2030 تک ذیابیطس دنیا کی ساتویں بڑی جان لیوا بیماری بن سکتی ہے۔
ماہرین صحت کے مطابق ذیابیطس کے اسباب میں موٹاپا، تمباکو نوشی اور ورزش نہ کرنا شامل ہیں۔ یہ مرض جسم میں انسولین کی مقدارغیر معتدل ہونے سے پیدا ہوتا ہے۔ انسان جو غذا بھی کھاتا ہے، اس کا بیشتر حصہ خاص طور پر میٹھی اور نشاستہ دار مادّوں (شوگر) میں تبدیل ہوتا ہے۔ یہ شکر کی سادہ ترین قسم ہے جسے ''گلوکوز'' کہا جاتا ہے اور یہی گلوکوز جسم کو توانائی فراہم کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ انسانی جسم میں معدے سے ذرا نیچے لبلبہ (Pancreas) ہوتاہے جو ''انسولین'' نامی ہارمون پیدا کرتا ہے جو گلوکوز کی مقدار کو محفوظ حدود میں رکھتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی ممکن بناتا ہے کہ ہمارے اعضاء خون کے ذریعے گلوکوز حاصل کرسکیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو انسانی جسم میں شامل چربی ہی توانائی کا ذریعہ رہ جاتی ہے۔
انسولین کا انسانی جسم کی نگہداشت میں انتہائی اہم کردار ہے۔ اگر لبلبہ اپنا کام ٹھیک سے نہ کرسکے اور مقدار یا معیار کے اعتبار سے صحیح انسولین نہ بناسکے تو نتیجتاً ذیابیطس کا مرض لاحق ہوجاتا ہے۔ دوسری صورت یہ بھی ممکن ہے کہ خلیات بھی انسولین سے درست طور پر استفادہ کرنے کے قابل نہ رہیں۔ دونوں صورتوں میں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خون میں گلوکوز کی مقدار توازن میں نہیں رہتی جس کے باعث تمام اعضاء پر برا اثر پڑتا ہے۔ سب سے برا اثر خون کی شریانوں پر ہوتا ہے۔ ذیابیطس کا تاحال کوئی مکمل علاج نہیں، یعنی اس بیماری سے بچا جاسکتا ہے یا پھر اس کے اثرات کو محدود کیا جاسکتا ہے مگر بیماری لاحق ہونے کی صورت میں اس کا مکمل خاتمہ کسی طور ممکن نہیں۔ اگر مستقبل قریب میں مصنوعی لبلبے کی ایجاد قدرتی لبلبے کے متبادل کے طور پر پختہ ہوجاتی ہے تو پھر امید کی جاسکتی ہے کہ اس بیماری کا علاج ہوجائے، لیکن یہ منزل بھی فی الحال خاصی دُور دکھائی دے رہی ہے۔ سرِدست مصنوعی لبلبہ طبی آزمائشوں (کلینیکل ٹرائلز) کے مرحلے پر ہے اور اگر یہ کامیاب رہا تو پھر ہوسکتا ہے کہ اسے 2018 تک فروخت کےلیے پیش کردیا جائے۔ البتہ مصنوعی لبلبہ بھی عام لوگوں کی پہنچ سے خاصا دور ہوگا۔
بنیادی طور پر ذیابیطس کی دو قسمیں ہیں: قسمِ اوّل (ٹائپ ون ڈائبٹیز) جس میں جسم میں انسولین قطعاً نہیں بنتی۔ اگرچہ یہ بیماری کبھی بھی نمودار ہوسکتی ہے مگر عموماً بچپن ہی سے لوگ اس کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کا واحد علاج مستقل انسولین لیتے رہنا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ خون میں گلوکوز کی مقدار پر باقاعدگی سے نظر رکھنا بھی ضروری ہے تاکہ انسولین کی صحیح مقدار لی جاسکے۔ کچھ صورتوں میں خون میں گلوکوز کی مقدار بہت زیادہ یا بہت کم ہو سکتی ہے، لہٰذا محتاط رہنا ضروری ہے۔ ذیابیطس قسم دوم (ٹائپ ٹو ڈائبٹیز) میں خلیات اور بافتوں (ٹشوز) میں انسولین کے ساتھ کام کرنے والے کیمیائی اجزاء صحیح طریقے سے اپنا کام سرانجام نہیں دے پاتے جس کے باعث وہ نظام جسے انسولین کی آمد کے بعد کام کرنا ہوتا ہے، یہ اندازہ نہیں لگا پاتا کہ انسولین کی مقدار کتنی ہے۔ نتیجتاً جسم کو گلوکوز کی صحیح مقدار حاصل نہیں ہو پاتی اور یوں جسم میں گلوکوز کی زیادتی یا کمی، دونوں میں سے کچھ بھی واقع ہوسکتی ہے۔ ذیابیطس کی یہ قسم زیادہ عام ہے۔
ذیابیطس کی عمومی علامات میں دھندلا نظر آنا، چکر آنا، مستقل پیاس لگنا، تیزی سے وزن گرنا، بھوک لگتے رہنا، بہت زیادہ پیشاب آنا وغیرہ شامل ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان علامات کا خیال رکھا جائے؛ ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ ذیابیطس پر نظر رکھی جائے اور وقتاً فوقتاً ذیابیطس کا ٹیسٹ کروایا جاتا رہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ مذکورہ علامات ایک ایسی کیفیت کا اشارہ ہوسکتی ہیں جسے قبل از ذیابیطس مرحلہ قرار دیا جاسکتا ہے یعنی ایسے اثرات کہ جو ذیابیطس کی طرف لے جاسکتے ہیں۔ باقاعدگی سے ٹیسٹ کرواتے رہنے سے بروقت آگہی حاصل ہوسکتی ہے اور بروقت حفاظتی اقدامات بھی کیے جاسکتے ہیں۔
علاوہ ازیں چالیس سال سے زیادہ عمر کے خواتین و حضرات کو بھی ذیابیطس کی طرف سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ وزن زیادہ ہونا، رہن سہن اور اوقات میں بے ترتیبی، بے ڈھنگی زندگی، چہل قدمی اور ورزش نہ کرنا یا جسمانی مشقت نہ ہونا، بہت زیادہ مرغن غذا کا استعمال، بلند فشار خون (ہائی بلڈ پریشر) وغیرہ ذیابیطس کی وجہ بن سکتے ہیں۔ ذیابیطس موروثی اثرات کی بنا پر بھی ہوسکتی ہے یعنی ماں باپ یا ان کے والدین اگر ذیابیطس کے مریض رہے ہیں تو اگلی نسل میں ذیابیطس کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
ذیابیطس کے اثرات پورے جسم پر پڑتے ہیں اور لمبے عرصے میں خاصی مشکلات پیش آسکتی ہیں جیسے کہ آنکھوں اور بینائی پر اثرات، بلند فشار خون (ہائی بلڈ پریشر) اور نتیجتاً دل کی بیماریاں، جلد کی بیماریاں، پورے جسم خصوصاً ٹانگوں پر چوٹوں کا ٹھیک نہ ہونا، گردوں کی بیماریاں۔ اس کے علاوہ یہ مرض رگوں اور شریانوں پر بھی اثر انداز ہو تا ہے، اور بہت سی جان لیوا بیماریوں کی وجہ بن سکتا ہے۔ بظاہر ذیابیطس اور دل کے عوارض دو مختلف چیزیں ہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ ذیابیطس میں مبتلا افراد کی اکثریت کئی ایک پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتی ہے جن میں امراض قلب سرِفہرست ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق ذیابیطس میں مبتلا افراد میں سے پچاس فیصد کی اموات کا سبب عارضہ قلب ہی ہوتا ہے۔ ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا شخص عام لوگوں کی نسبت ذیابیطس میں مبتلا ہونے کے زیادہ خطرات رکھتا ہے۔ اسی طرح ذیابیطس میں مبتلا افراد ذیابیطس پر خراب کنٹرول کے باعث گردوں کی خرابی کی زد میں بھی آجاتے جس کے ساتھ وہ ہائی بلڈ پریشر کے مریض بھی بن جاتے ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس، دونوں میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس معاملے کا سنگین پہلو یہ ہے کہ جب یہ دونوں بیماریاں مل جائیں تو سخت احتیاط کی ضرورت رہتی ہے کیونکہ یہ دونوں امراض ایک دوسرے کےلیے سازگار ماحول فراہم کرتے ہیں۔ ہائی بلڈ پریشر پر کنٹرول اس اعتبار سے اہم ہے کہ بہت سی صورتوں میں صرف احتیاط ہی سے یہ مرض کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔
ذیابیطس سے بچنے کےلیے وزن کو بڑھنے نہ دینا، پوری نیند لینا، دن میں جاگنا اور رات میں بروقت سونا، غذا میں توازن رکھنا، سبزیوں کے استعمال سے پروٹین کا مناسب حصول، زیادہ چکنائی اور نشاستہ سے بھری غذاؤں سے اجتناب جبکہ گوشت، جمنے والی چکنائیوں، مکھن، بناسپتی گھی اور مارجرین وغیرہ کا استعمال ترک کرنا (کیونکہ ان سے کولیسٹرول کی سطح بڑھ سکتی ہے) موزوں بلکہ مستحسن اقدامات کا درجہ رکھتے ہیں۔ دوسری جانب مناسب یہی ہے کہ غذا میں مغزیات جیسے کہ مونگ پھلی، زیتون کا تیل، کینولا کا تیل، چکنی یا روغنی مچھلی وغیرہ شامل رکھے جائیں اور روزانہ کم ازکم 30 منٹ کی ورزش کی عادت اپنائی جائے، چاہے وہ ورزش تیز قدموں سے پیدل چلنے کی صورت ہی میں کیوں نہ ہو۔
تمام معالجین اس پر متفق ہیں کہ اگر شوگر کا مریض ورزش کو اپنے معمول کا حصہ بنالے تو وہ اس بیماری کے بُرے اثرات سے محفوظ رہ کر پرلطف زندگی گزار سکتا ہے کیونکہ ورزش سے اس مرض کی شدت میں کمی واقع ہوتی ہے اور ورزش بالواسطہ طور پر لبلبے کو تحریک دے کر انسولین کے افراز میں بھی اضافہ کرتی ہے۔ علاوہ ازیں ورزش انسانی جسم میں انسولین لیول متوازن کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ذیابیطس جسے عرف عام میں شوگرکہا جاتا ہے، روز بروز بڑھنے والا ایسا مرض ہے جومسلسل لوگوں کی بڑی تعداد کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے جبکہ عوام میں اس مرض سے متعلق مناسب آگہی ہونے پر نہ صرف چند احتیاطی تدابیر اختیار کرکے اس سے محفوظ رہا جاسکتا ہے بلکہ ذیابیطس کے مریض بھی احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے معمول کے مطابق زندگی بسر کرسکتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 42 کروڑ سے بھی زائد افراد اس خطرناک مرض کا شکار ہیں جبکہ جاں بحق ہونے والا ہر چھٹا فرد ذیابیطس میں مبتلا ہوتا ہے۔ شوگر کی بیماری سے ہر دس سیکنڈ میں ایک شخص کی موت واقع ہو رہی ہے۔ اس بیماری کی وجہ سے ہونے والی 80 فیصد اموات کا تعلق غریب اور توسط طبقے سے ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد ڈیڑھ کروڑ سے بھی زیادہ ہے۔ ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ اگر اس مرض سے بچاؤ کے مناسب اقدامات نہ کیے گئے تو 2030 تک ذیابیطس دنیا کی ساتویں بڑی جان لیوا بیماری بن سکتی ہے۔
ماہرین صحت کے مطابق ذیابیطس کے اسباب میں موٹاپا، تمباکو نوشی اور ورزش نہ کرنا شامل ہیں۔ یہ مرض جسم میں انسولین کی مقدارغیر معتدل ہونے سے پیدا ہوتا ہے۔ انسان جو غذا بھی کھاتا ہے، اس کا بیشتر حصہ خاص طور پر میٹھی اور نشاستہ دار مادّوں (شوگر) میں تبدیل ہوتا ہے۔ یہ شکر کی سادہ ترین قسم ہے جسے ''گلوکوز'' کہا جاتا ہے اور یہی گلوکوز جسم کو توانائی فراہم کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ انسانی جسم میں معدے سے ذرا نیچے لبلبہ (Pancreas) ہوتاہے جو ''انسولین'' نامی ہارمون پیدا کرتا ہے جو گلوکوز کی مقدار کو محفوظ حدود میں رکھتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی ممکن بناتا ہے کہ ہمارے اعضاء خون کے ذریعے گلوکوز حاصل کرسکیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو انسانی جسم میں شامل چربی ہی توانائی کا ذریعہ رہ جاتی ہے۔
انسولین کا انسانی جسم کی نگہداشت میں انتہائی اہم کردار ہے۔ اگر لبلبہ اپنا کام ٹھیک سے نہ کرسکے اور مقدار یا معیار کے اعتبار سے صحیح انسولین نہ بناسکے تو نتیجتاً ذیابیطس کا مرض لاحق ہوجاتا ہے۔ دوسری صورت یہ بھی ممکن ہے کہ خلیات بھی انسولین سے درست طور پر استفادہ کرنے کے قابل نہ رہیں۔ دونوں صورتوں میں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خون میں گلوکوز کی مقدار توازن میں نہیں رہتی جس کے باعث تمام اعضاء پر برا اثر پڑتا ہے۔ سب سے برا اثر خون کی شریانوں پر ہوتا ہے۔ ذیابیطس کا تاحال کوئی مکمل علاج نہیں، یعنی اس بیماری سے بچا جاسکتا ہے یا پھر اس کے اثرات کو محدود کیا جاسکتا ہے مگر بیماری لاحق ہونے کی صورت میں اس کا مکمل خاتمہ کسی طور ممکن نہیں۔ اگر مستقبل قریب میں مصنوعی لبلبے کی ایجاد قدرتی لبلبے کے متبادل کے طور پر پختہ ہوجاتی ہے تو پھر امید کی جاسکتی ہے کہ اس بیماری کا علاج ہوجائے، لیکن یہ منزل بھی فی الحال خاصی دُور دکھائی دے رہی ہے۔ سرِدست مصنوعی لبلبہ طبی آزمائشوں (کلینیکل ٹرائلز) کے مرحلے پر ہے اور اگر یہ کامیاب رہا تو پھر ہوسکتا ہے کہ اسے 2018 تک فروخت کےلیے پیش کردیا جائے۔ البتہ مصنوعی لبلبہ بھی عام لوگوں کی پہنچ سے خاصا دور ہوگا۔
بنیادی طور پر ذیابیطس کی دو قسمیں ہیں: قسمِ اوّل (ٹائپ ون ڈائبٹیز) جس میں جسم میں انسولین قطعاً نہیں بنتی۔ اگرچہ یہ بیماری کبھی بھی نمودار ہوسکتی ہے مگر عموماً بچپن ہی سے لوگ اس کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کا واحد علاج مستقل انسولین لیتے رہنا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ خون میں گلوکوز کی مقدار پر باقاعدگی سے نظر رکھنا بھی ضروری ہے تاکہ انسولین کی صحیح مقدار لی جاسکے۔ کچھ صورتوں میں خون میں گلوکوز کی مقدار بہت زیادہ یا بہت کم ہو سکتی ہے، لہٰذا محتاط رہنا ضروری ہے۔ ذیابیطس قسم دوم (ٹائپ ٹو ڈائبٹیز) میں خلیات اور بافتوں (ٹشوز) میں انسولین کے ساتھ کام کرنے والے کیمیائی اجزاء صحیح طریقے سے اپنا کام سرانجام نہیں دے پاتے جس کے باعث وہ نظام جسے انسولین کی آمد کے بعد کام کرنا ہوتا ہے، یہ اندازہ نہیں لگا پاتا کہ انسولین کی مقدار کتنی ہے۔ نتیجتاً جسم کو گلوکوز کی صحیح مقدار حاصل نہیں ہو پاتی اور یوں جسم میں گلوکوز کی زیادتی یا کمی، دونوں میں سے کچھ بھی واقع ہوسکتی ہے۔ ذیابیطس کی یہ قسم زیادہ عام ہے۔
ذیابیطس کی عمومی علامات میں دھندلا نظر آنا، چکر آنا، مستقل پیاس لگنا، تیزی سے وزن گرنا، بھوک لگتے رہنا، بہت زیادہ پیشاب آنا وغیرہ شامل ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان علامات کا خیال رکھا جائے؛ ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ ذیابیطس پر نظر رکھی جائے اور وقتاً فوقتاً ذیابیطس کا ٹیسٹ کروایا جاتا رہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ مذکورہ علامات ایک ایسی کیفیت کا اشارہ ہوسکتی ہیں جسے قبل از ذیابیطس مرحلہ قرار دیا جاسکتا ہے یعنی ایسے اثرات کہ جو ذیابیطس کی طرف لے جاسکتے ہیں۔ باقاعدگی سے ٹیسٹ کرواتے رہنے سے بروقت آگہی حاصل ہوسکتی ہے اور بروقت حفاظتی اقدامات بھی کیے جاسکتے ہیں۔
علاوہ ازیں چالیس سال سے زیادہ عمر کے خواتین و حضرات کو بھی ذیابیطس کی طرف سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ وزن زیادہ ہونا، رہن سہن اور اوقات میں بے ترتیبی، بے ڈھنگی زندگی، چہل قدمی اور ورزش نہ کرنا یا جسمانی مشقت نہ ہونا، بہت زیادہ مرغن غذا کا استعمال، بلند فشار خون (ہائی بلڈ پریشر) وغیرہ ذیابیطس کی وجہ بن سکتے ہیں۔ ذیابیطس موروثی اثرات کی بنا پر بھی ہوسکتی ہے یعنی ماں باپ یا ان کے والدین اگر ذیابیطس کے مریض رہے ہیں تو اگلی نسل میں ذیابیطس کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
ذیابیطس کے اثرات پورے جسم پر پڑتے ہیں اور لمبے عرصے میں خاصی مشکلات پیش آسکتی ہیں جیسے کہ آنکھوں اور بینائی پر اثرات، بلند فشار خون (ہائی بلڈ پریشر) اور نتیجتاً دل کی بیماریاں، جلد کی بیماریاں، پورے جسم خصوصاً ٹانگوں پر چوٹوں کا ٹھیک نہ ہونا، گردوں کی بیماریاں۔ اس کے علاوہ یہ مرض رگوں اور شریانوں پر بھی اثر انداز ہو تا ہے، اور بہت سی جان لیوا بیماریوں کی وجہ بن سکتا ہے۔ بظاہر ذیابیطس اور دل کے عوارض دو مختلف چیزیں ہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ ذیابیطس میں مبتلا افراد کی اکثریت کئی ایک پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتی ہے جن میں امراض قلب سرِفہرست ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق ذیابیطس میں مبتلا افراد میں سے پچاس فیصد کی اموات کا سبب عارضہ قلب ہی ہوتا ہے۔ ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا شخص عام لوگوں کی نسبت ذیابیطس میں مبتلا ہونے کے زیادہ خطرات رکھتا ہے۔ اسی طرح ذیابیطس میں مبتلا افراد ذیابیطس پر خراب کنٹرول کے باعث گردوں کی خرابی کی زد میں بھی آجاتے جس کے ساتھ وہ ہائی بلڈ پریشر کے مریض بھی بن جاتے ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس، دونوں میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس معاملے کا سنگین پہلو یہ ہے کہ جب یہ دونوں بیماریاں مل جائیں تو سخت احتیاط کی ضرورت رہتی ہے کیونکہ یہ دونوں امراض ایک دوسرے کےلیے سازگار ماحول فراہم کرتے ہیں۔ ہائی بلڈ پریشر پر کنٹرول اس اعتبار سے اہم ہے کہ بہت سی صورتوں میں صرف احتیاط ہی سے یہ مرض کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔
ذیابیطس سے بچنے کےلیے وزن کو بڑھنے نہ دینا، پوری نیند لینا، دن میں جاگنا اور رات میں بروقت سونا، غذا میں توازن رکھنا، سبزیوں کے استعمال سے پروٹین کا مناسب حصول، زیادہ چکنائی اور نشاستہ سے بھری غذاؤں سے اجتناب جبکہ گوشت، جمنے والی چکنائیوں، مکھن، بناسپتی گھی اور مارجرین وغیرہ کا استعمال ترک کرنا (کیونکہ ان سے کولیسٹرول کی سطح بڑھ سکتی ہے) موزوں بلکہ مستحسن اقدامات کا درجہ رکھتے ہیں۔ دوسری جانب مناسب یہی ہے کہ غذا میں مغزیات جیسے کہ مونگ پھلی، زیتون کا تیل، کینولا کا تیل، چکنی یا روغنی مچھلی وغیرہ شامل رکھے جائیں اور روزانہ کم ازکم 30 منٹ کی ورزش کی عادت اپنائی جائے، چاہے وہ ورزش تیز قدموں سے پیدل چلنے کی صورت ہی میں کیوں نہ ہو۔
تمام معالجین اس پر متفق ہیں کہ اگر شوگر کا مریض ورزش کو اپنے معمول کا حصہ بنالے تو وہ اس بیماری کے بُرے اثرات سے محفوظ رہ کر پرلطف زندگی گزار سکتا ہے کیونکہ ورزش سے اس مرض کی شدت میں کمی واقع ہوتی ہے اور ورزش بالواسطہ طور پر لبلبے کو تحریک دے کر انسولین کے افراز میں بھی اضافہ کرتی ہے۔ علاوہ ازیں ورزش انسانی جسم میں انسولین لیول متوازن کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔