ہم خود طاقت ور ہیں
نے پچھلے چند سالوں میں اپنی تاریخ کا اتنا قرض لے لیا ہے جتنا ہم نے پاکستان بننے سے اب تک لیا تھا۔
حکومت جب وجود میں آتی ہے تو سب سے پہلا رونا یہ رویا جاتا ہے کہ خزانہ خالی ملا ہے اور جب ذرا کچھ وقت گزر جاتا ہے تو قرضوں سے خزانہ بھرجاتا ہے اور پھر ملک کی معاشی صورتحال میں ابتری کا وقت آجاتا ہے اور یہ رونا دوبارہ رویا جانے لگتا ہے کہ ہمیں کام نہیں کرنے دیا گیا ورنہ ہم کب کا بیرونی قرضوں سے چھٹکارا پا چکے ہوتے۔ معاشی مسئلہ اور اسی طرح کے اور مسائل، وہ سب ہمارے اپنے پیدا کیے ہوئے ہیں، ان مسائل کو پیدا کرنے میں اگر باہر سے کسی نے حصہ لیا ہے تو وہ ہماری اپنی خواہش پر لیا ہے مثلاً ہمارا سب سے بڑا مسئلہ بیرونی قرضوں کا جو ہم پر کسی زور زبردستی سے نہیں ٹھونسے گئے بلکہ ہم نے اپنی عیاشیوں کو پورا کرنے کے لیے خود سے ہی لیے ہیں۔
اس کے لیے ہماری بیوروکریسی کئی طرح کے جتن کر کے ان قرضوں کے حصول کو ممکن بناتی ہے، جب یہ قرضے مل جاتے ہیں تو ان کی قسطیں ادا کرنے کے وقت ہماری چیخیں نکلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ ہم ان قرضوں کی قسطوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرضے لے کر پرانا قرض چکانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔قرض دینے والا اپنی شرائط پر قرض دیتا بھی ہے اور ان کی وصولی کے وقت اپنی مرضی بھی کرتا ہے، یہ قرض دینے والا کا حق ہے۔
بیرونی قرضوں کا جال ہم نے خود ہی بنا ہے اور اس میں اس طرح سے اپنے آپ کو پھنسا لیاہے کہ اس میں مزید پھنسنے کا طریقہ تو ہے لیکن قرضوں کے اس جال سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں، اگرچہ اس کے لیے ہم نے کئی اسکیمیں بھی مختلف ناموں سے متعارف کرائیں لیکن ہم پھر بھی قرض اتارنے اور ملک سنوارنے کے بجائے قرضوں کی دلدل میں پھنستے ہی چلے گئے۔ اعداو شمار کے مطابق ہم نے پچھلے چند سالوں میں اپنی تاریخ کا اتنا قرض لے لیا ہے جتنا ہم نے پاکستان بننے سے اب تک لیا تھا۔ یہ ہے وہ معاشی صورتحال جس سے ہم نبرد آزما ہیں ۔ قدرتی وسائل اور جفا کش افرادی قوت سے مالا مال اس ملک کو غربت و افلاس سے دوچار کیا ہے تو وہ ہماری کرپشن ، لوٹ کھسوٹ اور بری معاشی پالیسیاں ہیں،کوئی بھی ایسا مسئلہ نہیں جس کا الزام ہم کسی دوسرے پر عائد کر سکیں اور خود کو اس سے بری الذمہ قرار دے دیں۔
ہمارے تمام مسائل کا حل ہمارے اپنے پاس موجود ہے، حالات کی مہربانی ہے کہ ملک کو برباد کرنے کے باوجود اب تک اس ملک میں اتنی سکت باقی ہے کہ ہم اگر چاہیں تو بہتر پالیسیوں سے ان تمام مشکلات سے نکل سکتے ہیں لیکن ا س کے لیے ایک اچھی حکومت جس میں دیانت و امانت کے ساتھ عقل و فراست بھی ہو، ہمارے دکھوں کا علاج کر سکتی ہے ۔ یہ کوئی بات نہیں ہوئی کہ بجائے عوام کی سہولت کے لیے پالیسیاں بنانے کے عوام پر قرضوں کا مزید بوجھ لدد دیا جائے اور پھر ان قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید ٹیکس عوام پر لگا دیے جائیں تا کہ حکمرانوں کی عیاشیوں کی قیمت عوام ادا کرتے رہیں، ہمارے حکمرانوں سے توابھی تک ٹماٹر کی قیمت ہی کنٹرول نہیںہو پا رہی جو حکومت ایک معمولی کام نہ کرسکے وہ کیا حکومت ہوئی۔
عوام مخالف پالیسیوں کی وجہ سے حکومت کی مقبولیت میں کمی ہوئی، عوام نے تو ان کی آمد پر ان کا پرجوش خیر مقدم کیاتھا اور وہ اس خیر مقدم کو جاری بھی رکھنا چاہتے تھے لیکن حکومت نے ازخود ان کو مجبور کر دیا کہ وہ اپنی غیر مشروط حمایت واپس لے لی ورنہ حکومت کے سیاسی مخالفین میں تو اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ عوامی حمایت کے ساتھ حکومت کو غیر مقبول بنا دیتے، یہ سب کیا دھرا حکومت کا اپنا ہے، عوام حکومت کے سامنے مجبور ہوتے ہیں، ان کے سامنے کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں ہوتا جس سے وہ حکومت کو ختم کر سکیں،وہ الیکشن کا انتظار کرنے اور اس کے انعقاد تک طوہاً کراہاً حکومت کو برداشت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
حکمران اگر ایسی پالیساں بنائیں جن سے ملک کو فائدہ ہو تو وہ ہر قربانی کے لیے تیار ہوتے ہیں، ایک ہمدرد حکومت کی قیادت میں عوام قربانی کو جائز سمجھتے ہیں لیکن یہ نہیںہو سکتا کہ عوام تو قربانی کا بکرا بن جائیں لیکن حکومتی اشرافیہ طبقہ اپنے ہاتھ میں چھرے لے کر معمول کی آسودہ زندگی بسر کرتا رہے۔ لیکن اب تو معاشی صورتحال کچھ ایسی بن گئی ہے کہ ہماری موجودہ حکومت کو یہ سمجھ ہی نہیں آرہی کہ وہ معاشی محاذ پر کیا کرے کیونکہ ان کا وزیر خزانہ تو لندن میں اپنا علاج کرا رہا ہے اور پاکستان میں اس کے خلاف احتساب والے اس انتظار میں ہیں کہ وہ واپس پلٹے تو اس کو جھپٹ لیں، اس کی جگہ کسی دوسرے کو وزیر خزانہ بنانے کی جرات و ہمت ہمارے حکمران میں نہیں باوجود اس کے کہ وزیر خزانہ کٹہرے میں کھڑا ہے ۔
ملک کی معاشی صورتحال کے بارے میں بحث و تمحیص اور پریشانی ظاہر کرنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ بات یہ کرنے کی ہے کہ بیرونی قرض خواہوں سے دوٹوک بات کی جائے کہ وہ ہمیں قرض اتارنے کے لیے مہلت دیں بجائے اس کے کہ ہم ان سے ہی مزید قرض لے کر ان کے پرانے قرضوں کی قسطیں اتارتے رہیں بلکہ ان سے مہلت طلب کی جائے اور اس کے دورا ن اپنے آپ کو مضبوط کر نے کی کوشش کی جائے تاکہ ہم اپنے قرض اپنی جیب سے ادا کر سکیںاور آیندہ سے بیرونی قرضوں سے توبہ کرلی جائے اور اپنے وسائل میں ہی زندگی بسر کرنے کی عادت ڈالی جائے، اس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں ۔
ایٹمی طاقت اور مسلمان پاکستان جس کے ساتھ عالم اسلام کے عوام کے جذباتی رشتے ابھی زندہ ہیں، پاکستان کوئی معمولی ملک نہیں، ہماری سیاسی قیادتیں اس قابل نہیں کہ اپنے ملک کو مضبوط بنا سکتیں ورنہ ہماری طاقت تو ہمیں اسلامی دنیا کی قیادت کے قابل بناتی ہے۔ مسلمان دنیا کے حکمران نہ سہی لیکن ان کے عوام آج بھی پاکستان کی جانب دیکھتے ہیں اور اس کی طاقت اپنی طاقت اور اس کی کامیابی کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں لیکن افسوس سے یہ بات کہنا پڑتی ہے کہ ہمارے مغرب کے پروردہ مسلمان حکمرانوں کو پاکستان کی طاقت کا کبھی اندازہ نہیںہوسکا اور وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے ہمیشہ ان کی جانب ہی دیکھتے رہے اور جانتے بوجھتے بھی ایک جنت نظیر ملک کو اپنی عیاشیوں کو سہل بنانے کے لیے قرضو ں کی دلدل میں اتارتے رہے۔ دنیا کی یہ خواہش ہے کہ پاکستان بطور ایک ناکام ریاست کے دنیا کے نقشے سے غائب ہو جائے۔ یہ ان کی خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن پاکستان کے عوام اسے کبھی ناکام نہیں ہونے دیں گے۔ ناکام پاکستان نہیں اس کے حکمران ہیں۔
''قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن''
اس کے لیے ہماری بیوروکریسی کئی طرح کے جتن کر کے ان قرضوں کے حصول کو ممکن بناتی ہے، جب یہ قرضے مل جاتے ہیں تو ان کی قسطیں ادا کرنے کے وقت ہماری چیخیں نکلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ ہم ان قرضوں کی قسطوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرضے لے کر پرانا قرض چکانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔قرض دینے والا اپنی شرائط پر قرض دیتا بھی ہے اور ان کی وصولی کے وقت اپنی مرضی بھی کرتا ہے، یہ قرض دینے والا کا حق ہے۔
بیرونی قرضوں کا جال ہم نے خود ہی بنا ہے اور اس میں اس طرح سے اپنے آپ کو پھنسا لیاہے کہ اس میں مزید پھنسنے کا طریقہ تو ہے لیکن قرضوں کے اس جال سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں، اگرچہ اس کے لیے ہم نے کئی اسکیمیں بھی مختلف ناموں سے متعارف کرائیں لیکن ہم پھر بھی قرض اتارنے اور ملک سنوارنے کے بجائے قرضوں کی دلدل میں پھنستے ہی چلے گئے۔ اعداو شمار کے مطابق ہم نے پچھلے چند سالوں میں اپنی تاریخ کا اتنا قرض لے لیا ہے جتنا ہم نے پاکستان بننے سے اب تک لیا تھا۔ یہ ہے وہ معاشی صورتحال جس سے ہم نبرد آزما ہیں ۔ قدرتی وسائل اور جفا کش افرادی قوت سے مالا مال اس ملک کو غربت و افلاس سے دوچار کیا ہے تو وہ ہماری کرپشن ، لوٹ کھسوٹ اور بری معاشی پالیسیاں ہیں،کوئی بھی ایسا مسئلہ نہیں جس کا الزام ہم کسی دوسرے پر عائد کر سکیں اور خود کو اس سے بری الذمہ قرار دے دیں۔
ہمارے تمام مسائل کا حل ہمارے اپنے پاس موجود ہے، حالات کی مہربانی ہے کہ ملک کو برباد کرنے کے باوجود اب تک اس ملک میں اتنی سکت باقی ہے کہ ہم اگر چاہیں تو بہتر پالیسیوں سے ان تمام مشکلات سے نکل سکتے ہیں لیکن ا س کے لیے ایک اچھی حکومت جس میں دیانت و امانت کے ساتھ عقل و فراست بھی ہو، ہمارے دکھوں کا علاج کر سکتی ہے ۔ یہ کوئی بات نہیں ہوئی کہ بجائے عوام کی سہولت کے لیے پالیسیاں بنانے کے عوام پر قرضوں کا مزید بوجھ لدد دیا جائے اور پھر ان قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید ٹیکس عوام پر لگا دیے جائیں تا کہ حکمرانوں کی عیاشیوں کی قیمت عوام ادا کرتے رہیں، ہمارے حکمرانوں سے توابھی تک ٹماٹر کی قیمت ہی کنٹرول نہیںہو پا رہی جو حکومت ایک معمولی کام نہ کرسکے وہ کیا حکومت ہوئی۔
عوام مخالف پالیسیوں کی وجہ سے حکومت کی مقبولیت میں کمی ہوئی، عوام نے تو ان کی آمد پر ان کا پرجوش خیر مقدم کیاتھا اور وہ اس خیر مقدم کو جاری بھی رکھنا چاہتے تھے لیکن حکومت نے ازخود ان کو مجبور کر دیا کہ وہ اپنی غیر مشروط حمایت واپس لے لی ورنہ حکومت کے سیاسی مخالفین میں تو اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ عوامی حمایت کے ساتھ حکومت کو غیر مقبول بنا دیتے، یہ سب کیا دھرا حکومت کا اپنا ہے، عوام حکومت کے سامنے مجبور ہوتے ہیں، ان کے سامنے کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں ہوتا جس سے وہ حکومت کو ختم کر سکیں،وہ الیکشن کا انتظار کرنے اور اس کے انعقاد تک طوہاً کراہاً حکومت کو برداشت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
حکمران اگر ایسی پالیساں بنائیں جن سے ملک کو فائدہ ہو تو وہ ہر قربانی کے لیے تیار ہوتے ہیں، ایک ہمدرد حکومت کی قیادت میں عوام قربانی کو جائز سمجھتے ہیں لیکن یہ نہیںہو سکتا کہ عوام تو قربانی کا بکرا بن جائیں لیکن حکومتی اشرافیہ طبقہ اپنے ہاتھ میں چھرے لے کر معمول کی آسودہ زندگی بسر کرتا رہے۔ لیکن اب تو معاشی صورتحال کچھ ایسی بن گئی ہے کہ ہماری موجودہ حکومت کو یہ سمجھ ہی نہیں آرہی کہ وہ معاشی محاذ پر کیا کرے کیونکہ ان کا وزیر خزانہ تو لندن میں اپنا علاج کرا رہا ہے اور پاکستان میں اس کے خلاف احتساب والے اس انتظار میں ہیں کہ وہ واپس پلٹے تو اس کو جھپٹ لیں، اس کی جگہ کسی دوسرے کو وزیر خزانہ بنانے کی جرات و ہمت ہمارے حکمران میں نہیں باوجود اس کے کہ وزیر خزانہ کٹہرے میں کھڑا ہے ۔
ملک کی معاشی صورتحال کے بارے میں بحث و تمحیص اور پریشانی ظاہر کرنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ بات یہ کرنے کی ہے کہ بیرونی قرض خواہوں سے دوٹوک بات کی جائے کہ وہ ہمیں قرض اتارنے کے لیے مہلت دیں بجائے اس کے کہ ہم ان سے ہی مزید قرض لے کر ان کے پرانے قرضوں کی قسطیں اتارتے رہیں بلکہ ان سے مہلت طلب کی جائے اور اس کے دورا ن اپنے آپ کو مضبوط کر نے کی کوشش کی جائے تاکہ ہم اپنے قرض اپنی جیب سے ادا کر سکیںاور آیندہ سے بیرونی قرضوں سے توبہ کرلی جائے اور اپنے وسائل میں ہی زندگی بسر کرنے کی عادت ڈالی جائے، اس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں ۔
ایٹمی طاقت اور مسلمان پاکستان جس کے ساتھ عالم اسلام کے عوام کے جذباتی رشتے ابھی زندہ ہیں، پاکستان کوئی معمولی ملک نہیں، ہماری سیاسی قیادتیں اس قابل نہیں کہ اپنے ملک کو مضبوط بنا سکتیں ورنہ ہماری طاقت تو ہمیں اسلامی دنیا کی قیادت کے قابل بناتی ہے۔ مسلمان دنیا کے حکمران نہ سہی لیکن ان کے عوام آج بھی پاکستان کی جانب دیکھتے ہیں اور اس کی طاقت اپنی طاقت اور اس کی کامیابی کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں لیکن افسوس سے یہ بات کہنا پڑتی ہے کہ ہمارے مغرب کے پروردہ مسلمان حکمرانوں کو پاکستان کی طاقت کا کبھی اندازہ نہیںہوسکا اور وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے ہمیشہ ان کی جانب ہی دیکھتے رہے اور جانتے بوجھتے بھی ایک جنت نظیر ملک کو اپنی عیاشیوں کو سہل بنانے کے لیے قرضو ں کی دلدل میں اتارتے رہے۔ دنیا کی یہ خواہش ہے کہ پاکستان بطور ایک ناکام ریاست کے دنیا کے نقشے سے غائب ہو جائے۔ یہ ان کی خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن پاکستان کے عوام اسے کبھی ناکام نہیں ہونے دیں گے۔ ناکام پاکستان نہیں اس کے حکمران ہیں۔
''قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن''