لہو گرم رکھنے کا ہے اِک بہانہ
احتساب کا شکنجہ پنجاب کی حدود میں کیا داخل ہوتا سندھ ہی میں وہ کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ کرسکا۔
جب سے ملک میں مشرف کی آمرانہ حکومت کے بعد جمہوریت نے ایک نئے جنم کے ساتھ سفر شروع کیا الیکٹرانک میڈیا سے تعلق رکھنے والے ہمار ے بے شمار اینکرز اور حالات حاضرہ پر خیال آرائی کرنے والے بہت سے ماہرین اور تبصرہ نگار روزانہ شام کو چار سے چھ گھنٹے اِس قوم کا لہو گرماتے رہتے ہیں۔''جتنے منہ اُتنی بات'' کی مصداق یہ ارباب اہل فکر و دانش ایسی ایسی کہانیاں اور لن ترایناں سناتے رہتے ہیں کہ تھوڑی دیر کے لیے تو ہمیں اُن کی قابلیت اوردانش مندی پر ماتم کرنے اور اپنا ٹی وی سیٹ خود توڑ لینے کو دل چاہتا ہے۔
کوئی صاحب اسلام آباد میں حکومت کے جلد از جلد خاتمے اور ٹرپل ون بریگیڈ کے قبضے کی خبریں سناتے توکوئی ٹیکنوکریٹس اور قومی حکومت کی باتیں کرتے۔ کوئی صاحب''پہلے احتساب اور پھر انتخاب'' کے ضیاء دور کے پرانے آزمودہ ناکام فارمولے کو ایک بار پھر سے آزمانے کی کوششوں میں سرگرداں نظر آتے توکوئی سخت احتساب کو ''دھبڑ دھوس'' جیسی نئی اور عجیب اصطلاح سے قوم کو خوش گمانیوں اور خام خیالیوں میں مبتلا کرتے رہتے ہیں۔ یہ صاحب آج سے دو برس پہلے بھی کچھ ایسی ہی خوش فہمیاں ہماری قوم کے گوش گزار کرتے ہوتے تھے جب 2015ء میں اُس وقت کے آرمی چیف راحیل شریف نے نیشنل ایکشن پروگرام کے تحت کراچی میں امن و امان قائم کرنے کی غرض سے کچھ کارروائیاں کی تھیں۔
یہ وہ زمانہ تھا جب سندھ لینڈ ڈپارٹمنٹ کے دفاتر میں چھاپے مارے جارہے تھے اورکرپشن کے خلاف بظاہر کوئی بڑا آپریشن ہونے جارہا تھا۔سندھ رینجرز کی کارروائیاں دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ اُس کا دائرہ کار اب مزید وسیع ہوگا اورکسی کو بھی نہیں بخشا جائے گا۔الیکٹرانک میڈیا پر بیٹھے ہمارے کئی صاحبِ فہم و فراست دانشور اور تبصرہ نگاراِس حوالے سے ایسی ایسی پیش گوئیاں کرتے کہ عوام یہ سمجھنے پر مجبور ہوگئے کہ واقعی اب کسی کو بھی بخشا نہیں جائے گا۔کرپشن اور غیر قانونی مال بنانے والے اب بچ نہیں پائیں گے۔ احتساب کا شکنجہ صوبہ سندھ سے نکل کر پنجاب اور پھر سارے ملک میں پھیل جائے گا ۔سندھ کے بعد پنجاب کی بھی باری آنی ہے اور وہاں مسلم لیگ (ن) کی حکومت بھی اُسی طرح چیخے چلائے گی جس طرح آج سندھ کی حکومت شور مچا رہی ہے۔ مگر افسوس اُس خوش گمانی پر جو ادھوری کی ادھوری رہ گئی۔ احتساب کا شکنجہ پنجاب کی حدود میں کیا داخل ہوتا سندھ ہی میں وہ کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ کرسکا۔
بیچارے ہمارے عوام نے بھی اُن کی اِس بات کو درست اور صحیح سمجھ لیا اور جنرل راحیل شریف سے ایسی ایسی فضول، ناجائز اور غیر منتقی توقعات وابستہ کرلیں جو شاید اُن کے دائرہ اختیار میں بھی نہ تھیں۔ جگہ جگہ اُن کی تائید و حمایت میں بڑے بڑے پوسٹر آویزاں کردیے گئے اوراُن کے کارناموں کو اتنا بڑھا چڑھاکرپیش کیا گیا کہ جیسے صرف وہی ایک ایسے عظیم مسیحا جو کرپشن اور بدعنوانیوں کے دلدل میں پھنسی اِس قوم کو مشکلات اورعذاب سے باہر نکال سکتے ہیں۔''شکریہ راحیل شریف''کے الفاظ اور فقروں سے اُس دور میں کیے جانے والے ہر اچھے کام کو اُن کے کھاتے میں ڈال دیا گیا اور ناکامیوںاور نامرادیوں کا سارا ملبہ حکمرانوں کے سر تھوپ دیاگیا ۔ نیشنل ایکشن پلان اور ضرب عضب کے تحت ملک میں اگر دہشتگردی کے خلاف جو بھی کوئی کامیاب آپریشن کیاجاتا تو اُس کا تمام سہرا راحیل شریف اور اُن کی ٹیم کے سر باندھ دیا گیا لیکن پھر کہیں کوئی اکا دکادھماکا یاخود کش حملہ ہوجائے تواُسے حکومت کے پلڑے میں ڈال کر خوب ملعون و مطعون کیا جاتا رہا۔
خوش فہمیوں اورخوش گمانیوں کے شیش محل آج بھی کچھ اُسی طرح تیار ہورہے ہیں جیسے آج سے دو سال پہلے تعمیر کیے جارہے تھے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ میاں نواز شریف کی ذات سے شروع کیا جانے والا احتساب اب کسی کو بھی نہیں بخشے گا ۔رفتہ رفتہ اُس کی گرفت میں سارے بڑے بڑے مگرمچھ آئیں گے۔زرداری صاحب اور اُن کے رفقاء بھی اِس کڑے اور بے رحم احتساب کے شکنجے میں جکڑے جائیں گے، لیکن کوئی یہ نہیں بتا رہا کہ یہ احتساب کرے گا کون۔عدالت عظمیٰ کے پاس تو منصفین کے اتنی بڑی ٹیم تو ہے ہی نہیں کہ وہ اتنے سارے کیس بیک وقت نمٹا سکے۔ابھی پاناما کیس کے 400 نامزد ملزموں میں سے صرف ایک شخص کو لپیٹ میں لیاگیا ہے اور باقی 399 مزے کررہے ہیں۔
اُس ایک ملزم میاں نواز شریف کو بھی جو سزا سنائی گئی ہے وہ پاناما کیس میںلگائے گئے کسی ایک الزام سے بھی وارا نہیں کھاتی۔ دبئی کی ایک تین چار سال پہلے بند ہوجانے والی فرم کا اقامہ رکھنے کے جرم میں انھیں اپنے عہدے سے معزول توکردیا گیا ہے لیکن اس جرم کو باوزن بنانے کا کام نیب عدالت کے سپرد کردیا گیا ہے۔ لند ن فلیٹوں کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی کوتشکیل دیا گیا تھااور اُس کے دس کی دس جلدوں پر مشتمل تحقیقاتی رپورٹ میں اگر قابلِ سرتابی یاسرکوبی کوئی شہ ملی بھی تو وہ صرف ایک ایسا اقامہ ملا جسے میاں صاحب کی جانب سے الیکشن میں حصہ لیتے ہوئے اپنے گوشواروں میں شامل یادکھایا نہیں کیاگیا تھا۔
چھ آٹھ مہینوں کی کوششوں اورمشقتوں سے بھر پور عدالتی کارروائی کے بعد ایک وزیراعظم کو اگر سزا دی بھی گئی تو کس بڑے اور سنگین جرم کے پاداش میں۔ یہ فیصلہ از خود عدلیہ کی عزت و حرمت کے لیے ایک سوال بن چکا ہے۔ پاناما کیس عدالت عالیہ کے لیے ایک چیلینج سے کم نہ تھا کیونکہ اِس کیس میںپہلے ہی کہا جاچکاتھاکہ فیصلہ عدل وانصاف کی اعلیٰ قدروں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے صدیوں یاد رکھاجائے گا۔ پاناما کیس میں اب تک مختلف قسطوں پر مشتمل چھ بارفیصلے آچکے ہیں جب کہ اصل اور حتمی فیصلہ ابھی آناباقی ہے۔ وہ نیب عدالت کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد آپائے گا۔عدالت کو پھر شاید کہیں جاکراتنی فرصت ملے گی اور وہ پاناما کے باقی ماندہ ملزموں کو بھی کٹہرے میں لانے کا اہتمام کرسکے۔
اِدھر حالیہ دنوں میں کراچی کی سیاست میں ایک بار پھر ہلچل سی دیکھی جانے لگی اور ایک دوسرے کو لعنت ملامت کرنے والے اچانک مہاجرکاز کے نام پرمتحد ویکجا دکھائی دینے لگے۔ ایم کیو ایم اور پی ایس پی نے ایک دن ساتھ مل بیٹھ کر یہ طے کیا کہ آپس میں لڑنے اور جھگڑا کرنے سے نقصان صرف اور صرف مہاجر عوام کا ہی ہورہا ہے ۔ لہذا کیوں نہ دونوں گروپس مل جل کر اور آپس میں سیر وشکر ہوکر اگلے انتخابات بھر پور طریقے سے حصہ لیں ، لیکن افسوس کہ یہ اتحاد 12گھنٹے بھی نہ چل سکا اور پریس کانفرنس ختم ہوتے ہی حقیقتاً نیست ونابود ہوگیا ۔7نومبر کی رات پریس کلب سے گھر جاتے ہی متحدہ کے سربراہ پر یہ انکشاف ہوا کہ اُن کے ساتھ توپی ایس پی کے مصطفی کمال نے ہاتھ کردیا ہے اور انھوں نے لفظ ایم کیو ایم کا ہی نام ونشاں مٹادینے کی بات کردی۔یہ خیال نجانے انھیں پریس کانفرنس کے دوران کیوں نہیں آیا۔
حالانکہ مصطفی کمال کی ساری باتیں بڑے غور سے سن بھی رہے تھے اوراُن کی تائیدوحمایت میںسر بھی ہل ارہے تھے۔لیکن پریس کلب سے نکلتے ہی انھیں سمندر پار کسی ملک سے جو پیغام اور حکم نامہ ملا اُس نے ساری صورتحال بدل ڈالی اور وہ دوسرے دن رات نو بجے ہنگامی پریس کانفرنس پر مجبو ر ہوگئے ۔ اس سارے واقعے سے ایک بات تواظہر من الشمس کی مانند واضح اورعیاں ہوگئی کہ اِن دونوں فریق کو یوں اچانک اورعجلت میں ملانے اور یکجا کرنے والا کوئی نہ کوئی فریق خفیہ اور پس پردہ ضرور تھا، جس کے فرمانِ امروز پر تعمیل بجالائی گئی مگر بدقسمتی سے جو ناکام و نامراد ہوکر سعی رائیگاں بن گئی۔ ہم لاکھ انکار کریں لیکن ہماری قومی سیاست میں نادیدہ قوتوں کاعمل دخل آج بھی اُسی طرح قائم ودائم ہے جیسے نوے کی دہائی میں ہوا کرتا تھا ۔
کوئی صاحب اسلام آباد میں حکومت کے جلد از جلد خاتمے اور ٹرپل ون بریگیڈ کے قبضے کی خبریں سناتے توکوئی ٹیکنوکریٹس اور قومی حکومت کی باتیں کرتے۔ کوئی صاحب''پہلے احتساب اور پھر انتخاب'' کے ضیاء دور کے پرانے آزمودہ ناکام فارمولے کو ایک بار پھر سے آزمانے کی کوششوں میں سرگرداں نظر آتے توکوئی سخت احتساب کو ''دھبڑ دھوس'' جیسی نئی اور عجیب اصطلاح سے قوم کو خوش گمانیوں اور خام خیالیوں میں مبتلا کرتے رہتے ہیں۔ یہ صاحب آج سے دو برس پہلے بھی کچھ ایسی ہی خوش فہمیاں ہماری قوم کے گوش گزار کرتے ہوتے تھے جب 2015ء میں اُس وقت کے آرمی چیف راحیل شریف نے نیشنل ایکشن پروگرام کے تحت کراچی میں امن و امان قائم کرنے کی غرض سے کچھ کارروائیاں کی تھیں۔
یہ وہ زمانہ تھا جب سندھ لینڈ ڈپارٹمنٹ کے دفاتر میں چھاپے مارے جارہے تھے اورکرپشن کے خلاف بظاہر کوئی بڑا آپریشن ہونے جارہا تھا۔سندھ رینجرز کی کارروائیاں دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ اُس کا دائرہ کار اب مزید وسیع ہوگا اورکسی کو بھی نہیں بخشا جائے گا۔الیکٹرانک میڈیا پر بیٹھے ہمارے کئی صاحبِ فہم و فراست دانشور اور تبصرہ نگاراِس حوالے سے ایسی ایسی پیش گوئیاں کرتے کہ عوام یہ سمجھنے پر مجبور ہوگئے کہ واقعی اب کسی کو بھی بخشا نہیں جائے گا۔کرپشن اور غیر قانونی مال بنانے والے اب بچ نہیں پائیں گے۔ احتساب کا شکنجہ صوبہ سندھ سے نکل کر پنجاب اور پھر سارے ملک میں پھیل جائے گا ۔سندھ کے بعد پنجاب کی بھی باری آنی ہے اور وہاں مسلم لیگ (ن) کی حکومت بھی اُسی طرح چیخے چلائے گی جس طرح آج سندھ کی حکومت شور مچا رہی ہے۔ مگر افسوس اُس خوش گمانی پر جو ادھوری کی ادھوری رہ گئی۔ احتساب کا شکنجہ پنجاب کی حدود میں کیا داخل ہوتا سندھ ہی میں وہ کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ کرسکا۔
بیچارے ہمارے عوام نے بھی اُن کی اِس بات کو درست اور صحیح سمجھ لیا اور جنرل راحیل شریف سے ایسی ایسی فضول، ناجائز اور غیر منتقی توقعات وابستہ کرلیں جو شاید اُن کے دائرہ اختیار میں بھی نہ تھیں۔ جگہ جگہ اُن کی تائید و حمایت میں بڑے بڑے پوسٹر آویزاں کردیے گئے اوراُن کے کارناموں کو اتنا بڑھا چڑھاکرپیش کیا گیا کہ جیسے صرف وہی ایک ایسے عظیم مسیحا جو کرپشن اور بدعنوانیوں کے دلدل میں پھنسی اِس قوم کو مشکلات اورعذاب سے باہر نکال سکتے ہیں۔''شکریہ راحیل شریف''کے الفاظ اور فقروں سے اُس دور میں کیے جانے والے ہر اچھے کام کو اُن کے کھاتے میں ڈال دیا گیا اور ناکامیوںاور نامرادیوں کا سارا ملبہ حکمرانوں کے سر تھوپ دیاگیا ۔ نیشنل ایکشن پلان اور ضرب عضب کے تحت ملک میں اگر دہشتگردی کے خلاف جو بھی کوئی کامیاب آپریشن کیاجاتا تو اُس کا تمام سہرا راحیل شریف اور اُن کی ٹیم کے سر باندھ دیا گیا لیکن پھر کہیں کوئی اکا دکادھماکا یاخود کش حملہ ہوجائے تواُسے حکومت کے پلڑے میں ڈال کر خوب ملعون و مطعون کیا جاتا رہا۔
خوش فہمیوں اورخوش گمانیوں کے شیش محل آج بھی کچھ اُسی طرح تیار ہورہے ہیں جیسے آج سے دو سال پہلے تعمیر کیے جارہے تھے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ میاں نواز شریف کی ذات سے شروع کیا جانے والا احتساب اب کسی کو بھی نہیں بخشے گا ۔رفتہ رفتہ اُس کی گرفت میں سارے بڑے بڑے مگرمچھ آئیں گے۔زرداری صاحب اور اُن کے رفقاء بھی اِس کڑے اور بے رحم احتساب کے شکنجے میں جکڑے جائیں گے، لیکن کوئی یہ نہیں بتا رہا کہ یہ احتساب کرے گا کون۔عدالت عظمیٰ کے پاس تو منصفین کے اتنی بڑی ٹیم تو ہے ہی نہیں کہ وہ اتنے سارے کیس بیک وقت نمٹا سکے۔ابھی پاناما کیس کے 400 نامزد ملزموں میں سے صرف ایک شخص کو لپیٹ میں لیاگیا ہے اور باقی 399 مزے کررہے ہیں۔
اُس ایک ملزم میاں نواز شریف کو بھی جو سزا سنائی گئی ہے وہ پاناما کیس میںلگائے گئے کسی ایک الزام سے بھی وارا نہیں کھاتی۔ دبئی کی ایک تین چار سال پہلے بند ہوجانے والی فرم کا اقامہ رکھنے کے جرم میں انھیں اپنے عہدے سے معزول توکردیا گیا ہے لیکن اس جرم کو باوزن بنانے کا کام نیب عدالت کے سپرد کردیا گیا ہے۔ لند ن فلیٹوں کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی کوتشکیل دیا گیا تھااور اُس کے دس کی دس جلدوں پر مشتمل تحقیقاتی رپورٹ میں اگر قابلِ سرتابی یاسرکوبی کوئی شہ ملی بھی تو وہ صرف ایک ایسا اقامہ ملا جسے میاں صاحب کی جانب سے الیکشن میں حصہ لیتے ہوئے اپنے گوشواروں میں شامل یادکھایا نہیں کیاگیا تھا۔
چھ آٹھ مہینوں کی کوششوں اورمشقتوں سے بھر پور عدالتی کارروائی کے بعد ایک وزیراعظم کو اگر سزا دی بھی گئی تو کس بڑے اور سنگین جرم کے پاداش میں۔ یہ فیصلہ از خود عدلیہ کی عزت و حرمت کے لیے ایک سوال بن چکا ہے۔ پاناما کیس عدالت عالیہ کے لیے ایک چیلینج سے کم نہ تھا کیونکہ اِس کیس میںپہلے ہی کہا جاچکاتھاکہ فیصلہ عدل وانصاف کی اعلیٰ قدروں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے صدیوں یاد رکھاجائے گا۔ پاناما کیس میں اب تک مختلف قسطوں پر مشتمل چھ بارفیصلے آچکے ہیں جب کہ اصل اور حتمی فیصلہ ابھی آناباقی ہے۔ وہ نیب عدالت کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد آپائے گا۔عدالت کو پھر شاید کہیں جاکراتنی فرصت ملے گی اور وہ پاناما کے باقی ماندہ ملزموں کو بھی کٹہرے میں لانے کا اہتمام کرسکے۔
اِدھر حالیہ دنوں میں کراچی کی سیاست میں ایک بار پھر ہلچل سی دیکھی جانے لگی اور ایک دوسرے کو لعنت ملامت کرنے والے اچانک مہاجرکاز کے نام پرمتحد ویکجا دکھائی دینے لگے۔ ایم کیو ایم اور پی ایس پی نے ایک دن ساتھ مل بیٹھ کر یہ طے کیا کہ آپس میں لڑنے اور جھگڑا کرنے سے نقصان صرف اور صرف مہاجر عوام کا ہی ہورہا ہے ۔ لہذا کیوں نہ دونوں گروپس مل جل کر اور آپس میں سیر وشکر ہوکر اگلے انتخابات بھر پور طریقے سے حصہ لیں ، لیکن افسوس کہ یہ اتحاد 12گھنٹے بھی نہ چل سکا اور پریس کانفرنس ختم ہوتے ہی حقیقتاً نیست ونابود ہوگیا ۔7نومبر کی رات پریس کلب سے گھر جاتے ہی متحدہ کے سربراہ پر یہ انکشاف ہوا کہ اُن کے ساتھ توپی ایس پی کے مصطفی کمال نے ہاتھ کردیا ہے اور انھوں نے لفظ ایم کیو ایم کا ہی نام ونشاں مٹادینے کی بات کردی۔یہ خیال نجانے انھیں پریس کانفرنس کے دوران کیوں نہیں آیا۔
حالانکہ مصطفی کمال کی ساری باتیں بڑے غور سے سن بھی رہے تھے اوراُن کی تائیدوحمایت میںسر بھی ہل ارہے تھے۔لیکن پریس کلب سے نکلتے ہی انھیں سمندر پار کسی ملک سے جو پیغام اور حکم نامہ ملا اُس نے ساری صورتحال بدل ڈالی اور وہ دوسرے دن رات نو بجے ہنگامی پریس کانفرنس پر مجبو ر ہوگئے ۔ اس سارے واقعے سے ایک بات تواظہر من الشمس کی مانند واضح اورعیاں ہوگئی کہ اِن دونوں فریق کو یوں اچانک اورعجلت میں ملانے اور یکجا کرنے والا کوئی نہ کوئی فریق خفیہ اور پس پردہ ضرور تھا، جس کے فرمانِ امروز پر تعمیل بجالائی گئی مگر بدقسمتی سے جو ناکام و نامراد ہوکر سعی رائیگاں بن گئی۔ ہم لاکھ انکار کریں لیکن ہماری قومی سیاست میں نادیدہ قوتوں کاعمل دخل آج بھی اُسی طرح قائم ودائم ہے جیسے نوے کی دہائی میں ہوا کرتا تھا ۔