حشر میں بندوں پر رحمت کی برسات
روز حشر کے دن بندوں کی مایوسی،مجبوری اورخود غرضی کا یہ عالم ہوگا کہ وہ نجات پانے کے لیے ایک ایک نیکی کوترس رہے ہوں گے۔
حضرت عمر فاروقؓ سے مروی ایک طویل حدیث کا حصہ ہے کہ حضور نبی کریمؐ نے فرمایا : ''اے میری امت کے لوگو! باہمی معاملات ٹھیک کرو، رنجش مٹاؤ اور ایک دوسرے کو مناؤ، کیوںکہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بندوں کے مابین صلح کرائے گا۔'' (مستدرک)
شرح و تفصیل
انسان طبعی طور پر کم زور، ضرورت مند اور حاجات و ضروریات کا اسیر ہے، جس نے اسے کسی حد تک خود غرض بنا دیا ہے، ضرورت پڑنے پر طوطا چشم بھی بن جاتا ہے اور اپنی ضرورت کو دیکھتے ہوئے ہزار خواہش کے باوجود ایثار و قربانی کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ دنیا میں تو اس کے ایثار و مروت کی بڑی بڑی اور حیرت انگیز مثالیں ملتی ہیں، مگر قیامت کے دن میدان حشر میں وہ بالکل صحیح معنوں میں طوطا چشم بن جائے گا اور اپنی نجات کے لیے آنکھیں ماتھے پر رکھ لے گا اور کسی کو ایک نیکی دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہوگا۔ یہاں تک کہ وہ لوگ جو دنیا میں کسی کے ماں باپ رہے ہوں گے، وہ بھی اپنی اولاد کو ایک نیکی دینے کے لیے آمادہ نہیں ہوں گے اور صاف کہہ دیں گے کہ وہ خود نجات کے لیے نیکیوں کے بہت زیادہ محتاج ہیں، اس لیے نیکیوں کی قربانی نہیں دے سکتے۔
فیضان رحمت
مگر حشر میں رحمت رب تعالیٰ کا فیضان پورے عروج پر ہوگا۔ حدیث پاک کی روشنی میں پتا چلتا ہے کہ رحمت و کرم کی ایسی ایسی نادر و نایاب مثالیں سامنے آئیں گی جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا۔ رب کریم اس طرح کرم کی آب شار بہائیں گے کہ دیکھنے والے دنگ رہ جائیں گے۔ ہم ان مناظر کی ایک خوب صورت و ایمان افروز جھلک پیش کرتے ہیں جو انسان کو دلاسا دینے اور ڈھارس بندھانے والی ہے۔ جنہیں سن کر گناہوں کے انبار میں ڈوبے ہوئے شخص کو امید کی کرن نظر آنے لگتی ہے کہ وہ بھی اس فیضان خاص اور ابر کرم سے محروم نہیں رہے گا، اور نبی اکرمؐ کا امتی ہونے کے ناطے وہ کچھ پالے گا جس کا اسے وہم و گمان بھی نہیں۔
دولت مند مفلس
''میدان حشر میں ایک شخص کو اس کے نیک و بد اعمال کا موازنہ کرنے کے لیے میزان پر لایا جائے گا، اس نے دنیا میں بہت نیکیاں کمائی ہوں گی، اسے اطمینان ہوگا کہ اتنی ڈھیر ساری نیکیاں اس کی نجات کے لیے کافی ہیں، وہ ان کے سہارے بہشت کے خواب ناک ماحول میں پہنچنے اور وہاں کی لازوال نعمتوں سے فیض یاب ہونے میں کام یاب ہوجائے گا۔ ابھی وہ شخص کام یابی کے نشے میں سرشار، اپنے خوب صورت تصورات اور سہانے سپنوں میں کھویا ہوا ہی ہوگا کہ ایک شخص آئے گا اور اس کا گریبان پکڑ لے گا اور دعویٰ کرے گا کہ تم میرے مجرم ہو، دنیا میں تم نے میر احق مارا تھا، مال و دولت چھینا تھا یا زمین یا کوئی اور قیمتی چیز ہتھیالی تھی اس لیے اس کا بدلہ دو۔
نیکیوں کا انبار رکھنے والا وہ سوداگر اپنی صفائی پیش کرے گا کہ آپ کا دعویٰ بجا ہے کہ میں نے مکرو فریب اور دھوکہ بازی سے آپ کا مال ہتھیا لیا تھا مگر دنیا کی چیز دنیا ہی میں رہ گئی ہے، اب تمہیں دینے کے لیے میرے پاس کچھ نہیں، اس لیے بدلہ دینے سے قاصر ہوں۔ فرشتے فیصلہ کریں گے کہ میدان حشر کی کرنسی دنیا سے مختلف ہے، یہاں نیکیاں چلتی ہیں، اس لیے دنیاوی مال و دولت کے مقابلے میں تم اسے نیکیوں کا ثواب دو۔ اس لیے فیصلے کے مطابق وہ مظلوم اس سوداگر کی نیکیاں لے کر چلا جائے گا۔
ایک اور مظلوم آکر دامن گیر ہوگا اور کہے گا کہ دنیا میں ایک موقع پر تم نے مجھے مارا پیٹا تھا، کوئی کہے گا تم نے مجھے گالیاں دی تھیں، کوئی کہے گا تم نے میری بے عزتی کی تھی اور مجھے ذہنی صدمہ پہنچایا تھا۔ غرض جس کو دنیا میں کسی بھی قسم کی کوئی تکلیف دی ہوگی وہ آکر اس کے قصاص کا مطالبہ کرے گا اور اسے بدلے میں نیکیاں دینی پڑیں گی۔ اس کے لیے ممکن نہیں ہوگا کہ پس و پیش کرے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کا دامن نیکیوں سے خالی ہوجائے گا اور دوسرے لوگ اس کی زندگی بھر کی نیکیاں لے کر چلے جائیں گے۔ اب وہ شخص جو تھوڑی دیر پہلے مالا مال تھا، ہاتھ ملتا رہ جائے گا۔
اس نے دنیا میں جو ظلم ڈھائے ہوںگے، ان کی وجہ سے مظلوموں کی تعداد پھر بھی کم نہ ہوگی، وہ دامن پکڑ لیں گے کہ ہمیں بھی کچھ دو۔ وہ پریشان ہوکر کہے گا، اب میرے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں بچا، مظلوم لوگ سب کچھ لے گئے ہیں۔ دنیا میں جن پر اس نے ستم کیا ہوگا وہ اس کی مجبوری پر ترس نہیں کھائیں گے اور بڑے روکھے لہجے میں کہیں گے، ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ تمہارے پاس دینے کے لیے نیکیاں ہیں یا نہیں، ہمارے گناہ لینے کی تو گنجائش ہے، چناںچہ وہ اپنے گناہ اس پر لاد کر چلے جائیں گے اور یہ آدمی جو تھوڑی دیر پہلے نیکیوں سے مالا مال، امیر کبیر اور بڑا دولت مند تھا، مفلس و قلاش رہ جائے گا۔ حضور نبی کریمؐ نے فرمایا : ''اصل مفلس وہ ہوگا جو اس روز اس حالت سے دوچار ہوگا۔''
اس وقت میدان حشر کا یہ سمان واقعی ہو ش ربا ہوگا۔ بڑے بڑے نام ور لوگوں کے چھکے چھوٹ جائیں گے، خونی رشتے بھی آنکھیں پھیر لیں گے یہاں تک کہ سگے ماں باپ بھی پہچاننے اور نیکیاں دینے سے انکار کردیں گے۔ حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں، میں نے نبی اکرمؐ سے سنا: ''میدان حشر میں ایک بیٹا اپنے ماں باپ کا مجرم ثابت ہوجائے گا، وہ دونوں کہیں گے : ہمارا حق دے، وہ کہے گا : میں آپ کا بیٹا ہوں، آپ لوگ معاف کردیں۔ وہ جواب دیں گے : معاف کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ہم تو چاہتے ہیں تو اس سے بھی بڑا مجرم ثابت ہوتا۔''
بندوں کی مایوسی، مجبوری اور خود غرضی کا یہ عالم ہوگا کہ وہ نجات پانے کے لیے ایک ایک نیکی کو ترس رہے ہوں گے، اس بے چارگی اور پریشانی کے عالم میں اللہ تعالیٰ اپنے مایوس و پریشان اور خوف زدہ بندوں پر اس طرح رحمت اور مہربانی فرمائیں گے، جو ان کے تصور میں بھی نہیں ہوگی۔ اس نوازش و عطا اور کرم و سخاوت کی انہوں نے اپنی زندگی میں کوئی مثال نہیں دیکھی ہوگی اور نہ ہی سنی ہوگی۔ ہوگا یوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے گناہ گار بندے کے ساتھ ایک سودا فرمائیں گے، جو حیرت انگیز بھی ہوگا اور عجیب و غریب بھی۔ اس سودے میں شان بندہ نوازی کا عنصر غالب ہوگا۔ اس واقعے کی تفصیل حضرت عمر فاروقؓ نے بیان فرمائی ہے۔
عجیب سودا
نبی کریمؐ اپنے پیاروں کی محفل میں رونق محفل کی حیثیت سے تشریف فرما تھے کہ اچانک مسکرائے، محفل سنجیدہ تھی، بظاہر مسکرانے کا کوئی محل نہیں تھا اس لیے سب حیران ہوئے۔ وہ جو محبوب کی ہر حرکت و ادا پر قربان ہونے کے عادی اور اس کی حقیقت تک پہنچنے کے خواہاں ہوتے تھے، اس ادائے دل رُبا پر خاموش نہ رہ سکے اور آخر پوچھ ہی لیا۔ یارسول اللہ! میں قربان، آپ ہمیشہ اسی طرح مسکراتے ہی رہیں۔ اس وقت مسکرانے کا کیا سبب ہے؟ کسی خاص تصور سے محبوبؐ کی آنکھیں اشک بار ہوگئیں۔ بعد میں سلسلہ کلام سے واضح ہوا کہ دو امتی یاد آگئے تھے، وہ دونوں ایک دوسرے سے نالاں تھے، دونوں نے رب العالمین کے حضور حاضری دی۔ ایک نے اللہ کے دربار میں دوسرے کے خلاف شکایت پیش کی: ''یا اللہ! میرے اس بھائی نے دنیا میں مجھ پر ظلم کیا تھا، میں اس سے اپنا حق وصول کرنا چاہتا ہوں یارب! میرے اس دینی بھائی سے میرا حق لے کر دے۔''
اللہ تعالیٰ فرمائے گا: '' اس کے پاس تو کوئی نیکی نہیں بچی۔'' وہ بندہ کہے گا۔ تو یہ میرے گناہوں کا بوجھ اٹھائے۔ اس شخص کی بے مروتی اور دوسرے کی مجبوری کی کیفیت بیان کرتے ہوئے حضور نبی کریمؐ کی حسین آنکھوں میں آنسو آگئے، فرمایا : ''یہ بہت بڑا دن ہوگا، لوگ چاہیں گے کہ دوسرے ان کا بوجھ اٹھالیں۔''
اللہ تعالیٰ سائل سے فرمائیں گے، نگاہیں اٹھا کر دیکھو۔ وہ جنت کے حسین و جمیل مناظر سونے کے محلات اور دیگر آسائش کی قیمتی چیزیں دیکھ کر دنگ رہ جائے گا اور پوچھے گا۔ یہ کس نبی کی ملکیت ہیں؟ اس کو بتایا جائے گا۔کہ یہ اس کی ملکیت ہیں، جو ان کی قیمت دے دے۔ وہ حسرت سے کہے گا: بھلا ان کی قیمت کون ادا کرسکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: ''اپنے بھائی کو معاف کرکے تو ان کی قیمت ادا کرسکتا ہے۔ وہ فوراً راضی ہوکر کہے گا : میں نے اس کو معاف کیا۔ اللہ پاک فرمائیں گے: ''اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑ اور اسے لے کر جنت میں چلا جا۔''
اس طرح اللہ پاک مظلوم کو جنت دے کر راضی کریں گے اور جو زیادتی کرنے والا ہے اس کا کام بھی بن جائے گا۔
اس کے بعد نبی کریمؐ نے امت کو نصیحت اور وصیت فرمائی۔ ''باہمی معاملات ٹھیک کرو، رنجشیں مٹاؤ، ایک دوسرے کو مناؤ۔ کیوںکہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے درمیان قیامت کے دن صلح کرائے گا اور ان کے شکوے دور کرے گا یہاں تک کہ جس شخص نے دنیا میں اپنے بھائی پر زیادتی کی ہوگی اور وہ بھائی اس سے ناراض ہوگا اور مطالبہ کررہا ہوگا کہ اس کے نقصان کی تلافی کی جائے تو اللہ تعالیٰ اس مظلوم کو جنت دے کر راضی کریں گے اس طرح مظلوم بھی خوش ہوجائے گا اور زیادتی کرنے والا بھی چھوٹ جائے گا۔ '' (حاکم، المستدرک، کتاب الاھوال، 4 : 620 رقم : 8718)
حیرت انگیز ضمانت
میدان حشر میں بندوں پر ایسی عنایات ربانی اور نوازشوں کا سلسلہ بہت وسیع ہوگا جنہوں نے دنیا میں دوسروں پر مظالم ڈھائے ہوں گے اور اس وقت بے یار و مددگار کسمپرسی کے عالم میں پھر رہے ہوں گے اور مظلوموں نے گریبان پکڑے ہوں گے تو اس نازک موقع پر اللہ کی خاص رحمت ہی بندے کی دست گیری فرمائے گی اور فریادیوں سے چھٹکارا دلائے گی۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں : '' میدان عرفات میں حضور نبی اکرمؐ اہل محبت کے ہجوم میں گھرے ہوئے تھے، رب تعالیٰ کی طرف سے سلام و پیام آ رہے تھے۔ اس وقت جو عنایت ربانی ہوئی اور خاص خوش خبری اور عطا سے نوازا گیا تو رحمت عالم نے اپنے غلاموں کو بھی اس بخشش و عطا اور بے پایاں عنایت کی خوشی میں شریک کرنے کے لیے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا : '' اے بلال دوستوں کو چپ کرائو''، چناںچہ حضرت بلالؓ نے حاضرین کو خاموش ہونے کا حکم دیا۔
تب اللہ کے رسولؓ نے لوگوں کو حقیقت حال اور امت پر جو خاص کرم ہوا تھا، اس سے آگاہ فرمایا : ''اے میرے غلامو! ابھی میرے پاس جبریل آئے تھے، انہوں نے پہلے رب تعالیٰ کی طرف سے سلام عطا فرمایا پھر بتایا کہ، اس وقت میدان عرفات میں جو لوگ جمع ہیں، اللہ نے سب کو بخش دیا ہے اوران پر جو حقوق واجب ہیں ان کی ادائیگی اپنے ذمہ کرم پر لے لی ہے، اور ضمانت دی ہے کہ اسے وہ خود ادا کرے گا۔
یعنی دنیا میں بندے جو ایک دوسرے کے حقوق سلب کرتے رہتے ہیں اور پھر ادائیگی حقوق کی ان کے پاس کوئی ممکنہ صورت نہیں ہوتی اور حق لینے والے گریبان پکڑتے اور تنگ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ضمانت دی ہے کہ ایسے بندوں کی ادائیگی وہ خودکرے گا اور اپنی نعمتیں اور جنتیں دے کر انہیں راضی کرے گا تاکہ وہ اپنے بھائیوں کو تنگ نہ کریں اور معاف کردیں۔ رحمت وکرم کی موسلا دھار بارش کا یہ عالم دیکھ کر حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے پوچھا : یارسول اللہ! کیا یہ فضل و کرم ہمارے ہی ساتھ خاص ہے؟ نبی اکرمؐ نے فرمایا : ''یہ تمہارے لیے اور جو قیامت تک آنے والے امتی ہیں سب کے لیے ہے۔'' (عبدالعظیم المنذری، الترغیب والترہیب، 2 : 131 رقم : 1796)
شرح و تفصیل
انسان طبعی طور پر کم زور، ضرورت مند اور حاجات و ضروریات کا اسیر ہے، جس نے اسے کسی حد تک خود غرض بنا دیا ہے، ضرورت پڑنے پر طوطا چشم بھی بن جاتا ہے اور اپنی ضرورت کو دیکھتے ہوئے ہزار خواہش کے باوجود ایثار و قربانی کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ دنیا میں تو اس کے ایثار و مروت کی بڑی بڑی اور حیرت انگیز مثالیں ملتی ہیں، مگر قیامت کے دن میدان حشر میں وہ بالکل صحیح معنوں میں طوطا چشم بن جائے گا اور اپنی نجات کے لیے آنکھیں ماتھے پر رکھ لے گا اور کسی کو ایک نیکی دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہوگا۔ یہاں تک کہ وہ لوگ جو دنیا میں کسی کے ماں باپ رہے ہوں گے، وہ بھی اپنی اولاد کو ایک نیکی دینے کے لیے آمادہ نہیں ہوں گے اور صاف کہہ دیں گے کہ وہ خود نجات کے لیے نیکیوں کے بہت زیادہ محتاج ہیں، اس لیے نیکیوں کی قربانی نہیں دے سکتے۔
فیضان رحمت
مگر حشر میں رحمت رب تعالیٰ کا فیضان پورے عروج پر ہوگا۔ حدیث پاک کی روشنی میں پتا چلتا ہے کہ رحمت و کرم کی ایسی ایسی نادر و نایاب مثالیں سامنے آئیں گی جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا۔ رب کریم اس طرح کرم کی آب شار بہائیں گے کہ دیکھنے والے دنگ رہ جائیں گے۔ ہم ان مناظر کی ایک خوب صورت و ایمان افروز جھلک پیش کرتے ہیں جو انسان کو دلاسا دینے اور ڈھارس بندھانے والی ہے۔ جنہیں سن کر گناہوں کے انبار میں ڈوبے ہوئے شخص کو امید کی کرن نظر آنے لگتی ہے کہ وہ بھی اس فیضان خاص اور ابر کرم سے محروم نہیں رہے گا، اور نبی اکرمؐ کا امتی ہونے کے ناطے وہ کچھ پالے گا جس کا اسے وہم و گمان بھی نہیں۔
دولت مند مفلس
''میدان حشر میں ایک شخص کو اس کے نیک و بد اعمال کا موازنہ کرنے کے لیے میزان پر لایا جائے گا، اس نے دنیا میں بہت نیکیاں کمائی ہوں گی، اسے اطمینان ہوگا کہ اتنی ڈھیر ساری نیکیاں اس کی نجات کے لیے کافی ہیں، وہ ان کے سہارے بہشت کے خواب ناک ماحول میں پہنچنے اور وہاں کی لازوال نعمتوں سے فیض یاب ہونے میں کام یاب ہوجائے گا۔ ابھی وہ شخص کام یابی کے نشے میں سرشار، اپنے خوب صورت تصورات اور سہانے سپنوں میں کھویا ہوا ہی ہوگا کہ ایک شخص آئے گا اور اس کا گریبان پکڑ لے گا اور دعویٰ کرے گا کہ تم میرے مجرم ہو، دنیا میں تم نے میر احق مارا تھا، مال و دولت چھینا تھا یا زمین یا کوئی اور قیمتی چیز ہتھیالی تھی اس لیے اس کا بدلہ دو۔
نیکیوں کا انبار رکھنے والا وہ سوداگر اپنی صفائی پیش کرے گا کہ آپ کا دعویٰ بجا ہے کہ میں نے مکرو فریب اور دھوکہ بازی سے آپ کا مال ہتھیا لیا تھا مگر دنیا کی چیز دنیا ہی میں رہ گئی ہے، اب تمہیں دینے کے لیے میرے پاس کچھ نہیں، اس لیے بدلہ دینے سے قاصر ہوں۔ فرشتے فیصلہ کریں گے کہ میدان حشر کی کرنسی دنیا سے مختلف ہے، یہاں نیکیاں چلتی ہیں، اس لیے دنیاوی مال و دولت کے مقابلے میں تم اسے نیکیوں کا ثواب دو۔ اس لیے فیصلے کے مطابق وہ مظلوم اس سوداگر کی نیکیاں لے کر چلا جائے گا۔
ایک اور مظلوم آکر دامن گیر ہوگا اور کہے گا کہ دنیا میں ایک موقع پر تم نے مجھے مارا پیٹا تھا، کوئی کہے گا تم نے مجھے گالیاں دی تھیں، کوئی کہے گا تم نے میری بے عزتی کی تھی اور مجھے ذہنی صدمہ پہنچایا تھا۔ غرض جس کو دنیا میں کسی بھی قسم کی کوئی تکلیف دی ہوگی وہ آکر اس کے قصاص کا مطالبہ کرے گا اور اسے بدلے میں نیکیاں دینی پڑیں گی۔ اس کے لیے ممکن نہیں ہوگا کہ پس و پیش کرے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کا دامن نیکیوں سے خالی ہوجائے گا اور دوسرے لوگ اس کی زندگی بھر کی نیکیاں لے کر چلے جائیں گے۔ اب وہ شخص جو تھوڑی دیر پہلے مالا مال تھا، ہاتھ ملتا رہ جائے گا۔
اس نے دنیا میں جو ظلم ڈھائے ہوںگے، ان کی وجہ سے مظلوموں کی تعداد پھر بھی کم نہ ہوگی، وہ دامن پکڑ لیں گے کہ ہمیں بھی کچھ دو۔ وہ پریشان ہوکر کہے گا، اب میرے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں بچا، مظلوم لوگ سب کچھ لے گئے ہیں۔ دنیا میں جن پر اس نے ستم کیا ہوگا وہ اس کی مجبوری پر ترس نہیں کھائیں گے اور بڑے روکھے لہجے میں کہیں گے، ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ تمہارے پاس دینے کے لیے نیکیاں ہیں یا نہیں، ہمارے گناہ لینے کی تو گنجائش ہے، چناںچہ وہ اپنے گناہ اس پر لاد کر چلے جائیں گے اور یہ آدمی جو تھوڑی دیر پہلے نیکیوں سے مالا مال، امیر کبیر اور بڑا دولت مند تھا، مفلس و قلاش رہ جائے گا۔ حضور نبی کریمؐ نے فرمایا : ''اصل مفلس وہ ہوگا جو اس روز اس حالت سے دوچار ہوگا۔''
اس وقت میدان حشر کا یہ سمان واقعی ہو ش ربا ہوگا۔ بڑے بڑے نام ور لوگوں کے چھکے چھوٹ جائیں گے، خونی رشتے بھی آنکھیں پھیر لیں گے یہاں تک کہ سگے ماں باپ بھی پہچاننے اور نیکیاں دینے سے انکار کردیں گے۔ حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں، میں نے نبی اکرمؐ سے سنا: ''میدان حشر میں ایک بیٹا اپنے ماں باپ کا مجرم ثابت ہوجائے گا، وہ دونوں کہیں گے : ہمارا حق دے، وہ کہے گا : میں آپ کا بیٹا ہوں، آپ لوگ معاف کردیں۔ وہ جواب دیں گے : معاف کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ہم تو چاہتے ہیں تو اس سے بھی بڑا مجرم ثابت ہوتا۔''
بندوں کی مایوسی، مجبوری اور خود غرضی کا یہ عالم ہوگا کہ وہ نجات پانے کے لیے ایک ایک نیکی کو ترس رہے ہوں گے، اس بے چارگی اور پریشانی کے عالم میں اللہ تعالیٰ اپنے مایوس و پریشان اور خوف زدہ بندوں پر اس طرح رحمت اور مہربانی فرمائیں گے، جو ان کے تصور میں بھی نہیں ہوگی۔ اس نوازش و عطا اور کرم و سخاوت کی انہوں نے اپنی زندگی میں کوئی مثال نہیں دیکھی ہوگی اور نہ ہی سنی ہوگی۔ ہوگا یوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے گناہ گار بندے کے ساتھ ایک سودا فرمائیں گے، جو حیرت انگیز بھی ہوگا اور عجیب و غریب بھی۔ اس سودے میں شان بندہ نوازی کا عنصر غالب ہوگا۔ اس واقعے کی تفصیل حضرت عمر فاروقؓ نے بیان فرمائی ہے۔
عجیب سودا
نبی کریمؐ اپنے پیاروں کی محفل میں رونق محفل کی حیثیت سے تشریف فرما تھے کہ اچانک مسکرائے، محفل سنجیدہ تھی، بظاہر مسکرانے کا کوئی محل نہیں تھا اس لیے سب حیران ہوئے۔ وہ جو محبوب کی ہر حرکت و ادا پر قربان ہونے کے عادی اور اس کی حقیقت تک پہنچنے کے خواہاں ہوتے تھے، اس ادائے دل رُبا پر خاموش نہ رہ سکے اور آخر پوچھ ہی لیا۔ یارسول اللہ! میں قربان، آپ ہمیشہ اسی طرح مسکراتے ہی رہیں۔ اس وقت مسکرانے کا کیا سبب ہے؟ کسی خاص تصور سے محبوبؐ کی آنکھیں اشک بار ہوگئیں۔ بعد میں سلسلہ کلام سے واضح ہوا کہ دو امتی یاد آگئے تھے، وہ دونوں ایک دوسرے سے نالاں تھے، دونوں نے رب العالمین کے حضور حاضری دی۔ ایک نے اللہ کے دربار میں دوسرے کے خلاف شکایت پیش کی: ''یا اللہ! میرے اس بھائی نے دنیا میں مجھ پر ظلم کیا تھا، میں اس سے اپنا حق وصول کرنا چاہتا ہوں یارب! میرے اس دینی بھائی سے میرا حق لے کر دے۔''
اللہ تعالیٰ فرمائے گا: '' اس کے پاس تو کوئی نیکی نہیں بچی۔'' وہ بندہ کہے گا۔ تو یہ میرے گناہوں کا بوجھ اٹھائے۔ اس شخص کی بے مروتی اور دوسرے کی مجبوری کی کیفیت بیان کرتے ہوئے حضور نبی کریمؐ کی حسین آنکھوں میں آنسو آگئے، فرمایا : ''یہ بہت بڑا دن ہوگا، لوگ چاہیں گے کہ دوسرے ان کا بوجھ اٹھالیں۔''
اللہ تعالیٰ سائل سے فرمائیں گے، نگاہیں اٹھا کر دیکھو۔ وہ جنت کے حسین و جمیل مناظر سونے کے محلات اور دیگر آسائش کی قیمتی چیزیں دیکھ کر دنگ رہ جائے گا اور پوچھے گا۔ یہ کس نبی کی ملکیت ہیں؟ اس کو بتایا جائے گا۔کہ یہ اس کی ملکیت ہیں، جو ان کی قیمت دے دے۔ وہ حسرت سے کہے گا: بھلا ان کی قیمت کون ادا کرسکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: ''اپنے بھائی کو معاف کرکے تو ان کی قیمت ادا کرسکتا ہے۔ وہ فوراً راضی ہوکر کہے گا : میں نے اس کو معاف کیا۔ اللہ پاک فرمائیں گے: ''اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑ اور اسے لے کر جنت میں چلا جا۔''
اس طرح اللہ پاک مظلوم کو جنت دے کر راضی کریں گے اور جو زیادتی کرنے والا ہے اس کا کام بھی بن جائے گا۔
اس کے بعد نبی کریمؐ نے امت کو نصیحت اور وصیت فرمائی۔ ''باہمی معاملات ٹھیک کرو، رنجشیں مٹاؤ، ایک دوسرے کو مناؤ۔ کیوںکہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے درمیان قیامت کے دن صلح کرائے گا اور ان کے شکوے دور کرے گا یہاں تک کہ جس شخص نے دنیا میں اپنے بھائی پر زیادتی کی ہوگی اور وہ بھائی اس سے ناراض ہوگا اور مطالبہ کررہا ہوگا کہ اس کے نقصان کی تلافی کی جائے تو اللہ تعالیٰ اس مظلوم کو جنت دے کر راضی کریں گے اس طرح مظلوم بھی خوش ہوجائے گا اور زیادتی کرنے والا بھی چھوٹ جائے گا۔ '' (حاکم، المستدرک، کتاب الاھوال، 4 : 620 رقم : 8718)
حیرت انگیز ضمانت
میدان حشر میں بندوں پر ایسی عنایات ربانی اور نوازشوں کا سلسلہ بہت وسیع ہوگا جنہوں نے دنیا میں دوسروں پر مظالم ڈھائے ہوں گے اور اس وقت بے یار و مددگار کسمپرسی کے عالم میں پھر رہے ہوں گے اور مظلوموں نے گریبان پکڑے ہوں گے تو اس نازک موقع پر اللہ کی خاص رحمت ہی بندے کی دست گیری فرمائے گی اور فریادیوں سے چھٹکارا دلائے گی۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں : '' میدان عرفات میں حضور نبی اکرمؐ اہل محبت کے ہجوم میں گھرے ہوئے تھے، رب تعالیٰ کی طرف سے سلام و پیام آ رہے تھے۔ اس وقت جو عنایت ربانی ہوئی اور خاص خوش خبری اور عطا سے نوازا گیا تو رحمت عالم نے اپنے غلاموں کو بھی اس بخشش و عطا اور بے پایاں عنایت کی خوشی میں شریک کرنے کے لیے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا : '' اے بلال دوستوں کو چپ کرائو''، چناںچہ حضرت بلالؓ نے حاضرین کو خاموش ہونے کا حکم دیا۔
تب اللہ کے رسولؓ نے لوگوں کو حقیقت حال اور امت پر جو خاص کرم ہوا تھا، اس سے آگاہ فرمایا : ''اے میرے غلامو! ابھی میرے پاس جبریل آئے تھے، انہوں نے پہلے رب تعالیٰ کی طرف سے سلام عطا فرمایا پھر بتایا کہ، اس وقت میدان عرفات میں جو لوگ جمع ہیں، اللہ نے سب کو بخش دیا ہے اوران پر جو حقوق واجب ہیں ان کی ادائیگی اپنے ذمہ کرم پر لے لی ہے، اور ضمانت دی ہے کہ اسے وہ خود ادا کرے گا۔
یعنی دنیا میں بندے جو ایک دوسرے کے حقوق سلب کرتے رہتے ہیں اور پھر ادائیگی حقوق کی ان کے پاس کوئی ممکنہ صورت نہیں ہوتی اور حق لینے والے گریبان پکڑتے اور تنگ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ضمانت دی ہے کہ ایسے بندوں کی ادائیگی وہ خودکرے گا اور اپنی نعمتیں اور جنتیں دے کر انہیں راضی کرے گا تاکہ وہ اپنے بھائیوں کو تنگ نہ کریں اور معاف کردیں۔ رحمت وکرم کی موسلا دھار بارش کا یہ عالم دیکھ کر حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے پوچھا : یارسول اللہ! کیا یہ فضل و کرم ہمارے ہی ساتھ خاص ہے؟ نبی اکرمؐ نے فرمایا : ''یہ تمہارے لیے اور جو قیامت تک آنے والے امتی ہیں سب کے لیے ہے۔'' (عبدالعظیم المنذری، الترغیب والترہیب، 2 : 131 رقم : 1796)