نواز شریف وزیراعظم بن بھی گئے تو…
آصف علی زرداری کو اس ملک کی اکثریت نے کبھی سچ مچ کا سیاستدان نہیں مانا تھا۔ ہمیشہ بے نظیر بھٹو کا خاوند ہی سمجھا۔
لشکری رئیسانی کو ان کے ہمراہ آئے 22 پرندوں سمیت جپھیاں ڈال کر اپنی جماعت میں خوش آمدید کہتے ہوئے نواز شریف نے ظاہر کر دیا کہ سندھ کی طرح وہ بلوچستان کی نئی حقیقتوں کو بھی جو گزشتہ دس سال میں سیاسی حوالے سے بہت اہم ہو گئی ہیں، ہرگز سمجھ نہیں پائے ہیں۔ مجھے ان کے اس ملک کا ایک بار پھر وزیر اعظم بننے کی خواہش پر کوئی اعتراض نہیں۔ جنرل جیلانی کے سائے میں پروان چڑھتے ہوئے انھوں نے 1993ء میں طرزِ کہن کی ایک بہت بڑی علامت غلام اسحاق خان کی مزاحمت کرتے ہوئے ایک ایسا سیاستدان بننا چاہا جو اپنے دماغ سے سوچتا اور ریاست کے دوسرے اداروں کو منتخب حکومت کی بنائی گئی پالیسیوں پر عمل کرتے دیکھنا چاہتا ہے۔
دو تہائی اکثریت کے ساتھ 1997ء میں وزیر اعظم ہائوس لوٹ کر انھوں نے یہی کرنا چاہا تھا۔ فاروق لغاری اور سجاد علی شاہ ان کی راہ روکنے کی کوششوں میں فارغ ہوئے۔ بھارت کے جواب میں پاکستان کو بھی ایک اعلانیہ ایٹمی قوت بنانے کے بعد ان کی اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی سے ملاقاتیں بہت ضروری تھیں۔ جنرل مشرف اور اس کے سازشی جانبازوں نے اس سارے عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے کارگل کا جو ڈرامہ رچایا، وہ ہر صورت قابلِ مذمت ہے۔ نواز شریف کی بدقسمتی کہ وہ اپنے خواب پاکستان کے عوام تو کیا اپنی ہی جماعت کے بہت سارے لوگوں کو بتا کر اپنے ساتھ نہ کر پائے۔ مشرف نے ان کی حکومت اُلٹا دی اور انھیں کئی برس تک سعودی عرب رہنا پڑا۔
ایک بڑے ہی طویل سفر اور اس کے ڈرامائی اُتار چڑھائو سے گزرے ہوئے نواز شریف کو میں عام سیاستدان کی طرح نہیں دیکھنا چاہتا جس کا مقصد صرف اقتدار میں آنا اور پھر اسے بچائے رکھنا ہے۔ آصف علی زرداری کو اس ملک کی اکثریت نے کبھی سچ مچ کا سیاستدان نہیں مانا تھا۔ ہمیشہ بے نظیر بھٹو کا خاوند ہی سمجھا۔ مگر اسی آصف علی زرداری نے محترمہ کی شہادت کے باوجود قومی اسمبلی میں بھاری اکثریت کے نہ ہوتے ہوئے بھی اپنا وزیر اعظم بنوایا۔ مشرف سے استعفیٰ لیا۔ سینیٹ میں اپنی جماعت کو عددی اعتبار سے وہاں کی سب سے بڑی جماعت بنوایا اور عدلیہ اور میڈیا کے ساتھ تمام تر پھڈوں کے باوجود پانچ سال گزار لیے۔ ہم ''ایک زرداری سب پر بھاری'' سنتے اور دیکھتے رہے۔ لیکن اب پانچ سال بعد سر پکڑے بیٹھیں ہیں۔گلیوںاور بازاروں میں کسی جگہ چلے جائیے، خلقِ خدا جمہوری نظام پر تھوتھو کرتی ،کسی وردی والے مسیحا کی منتظر نظر آئے گی۔
نواز شریف صاحب کے پاس پورے پانچ سال تھے جن میں اقتدار کے حصول کے لیے ضروری سمجھی جانے والی چالاکیوں سے بالا تر ہوکر وہ پاکستان کے لیے کوئی دور رس پالیسیاں بنا کر نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو اپنا ہم نوا بنا سکتے تھے۔ انھوں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ ان کے بھائی شہباز شریف نے اپنے چہیتے افسران کے ایک گروہ کے ذریعے یہ تاثر قائم کیا اور بڑی ہوشیاری سے پھیلایا کہ پاکستان کے دوسرے صوبوں کی نسبت پنجاب میں حکومتی امور بہتر طریقے سے نمٹائے جاتے ہیں اور وہاں خلقِ خدا کی بہتری کے لیے کچھ منصوبے بھی بنائے جاتے ہیں۔
اس تاثر سے یقیناً چھوٹے صوبوں خاص کر ان کے شہروں میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے لیے ستائش کے جذبات پیدا ہوئے۔ نواز شریف نے ان جذبات کا ٹھوس منطقی انداز میں جائزہ لیتے ہوئے کوئی سیاسی راستہ بنانے کی کوشش نہیں کی۔ پشاور میں ان کی جماعت کے پاس کوئی روشن نیا چہرہ نہیں۔ مردان میں وہ اکثر سیاسی جماعتیں بدلنے والے خواجہ ہوتی کو اپنے ساتھ ملا بیٹھے ہیں۔ مالا کنڈ میں اب ان کے ساتھی جنرل مشرف کے ''پستول بدل'' بھائی امیر مقام ہیں اور اب مانسہرہ سے گوجر برادری کے تا حیات سردار یوسف بھی ان کے ساتھ آ گئے ہیں۔
ہری پور سے گوہر ایوب تو پہلے ہی آ چکے تھے۔ نیا کچھ بھی نہیں۔ سندھ میں کہانی لیاقت جتوئی سے چلتے ہوئے ممتاز بھٹو تک پہنچ گئی ہے۔ نواز شریف والوں کی سوچ بس اتنی ہے کہ آیندہ انتخابات میں اٹک سے رحیم یار خان تک قومی اسمبلی کی جتنی بھی نشستیں ہیں، وہ ساری کی ساری تقریباََ جیب میں ہیں۔ اب ضرورت صرف اتنی ہے کہ ''برکت کے طور پر'' تین چار بندے نون کی ٹکٹ پر اندرون سندھ سے بھی منتخب ہو جائیں تا کہ نواز شریف ''صرف پنجاب کے وزیر اعظم'' نظر نہ آئیں۔ لشکری رئیسانی کو شامل کرتے ہوئے اسی سوچ پر تکیہ نظر آتا ہے۔
پتہ نہیں نواز شریف کو سمجھ کیوں نہیں آ رہی کہ بلوچستان کے ساحلی شہر اور ان کے ساتھ چلتے ہوئے کوئٹہ تک پہنچ جانے والی وہ پٹی جہاں صرف بلوچی زبان بولنے والے رہتے ہیں، آج کل ایک عذاب سے گزر رہی ہے۔ وہاں رہنے والے نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد پاکستان کی ریاست سے مکمل طور پر ناراض ہے۔ ان کی ناراضی کا تدارک کرنے کے بجائے ہماری ریاست نے ان نوجوانوں کو اپنی پوری قوت کے ساتھ کچلنے کی کوشش کی۔ یہ کوشش کرتے ہوئے ''پاکستان کے ایسے وفاداروں'' کی حوصلہ افزائی اور پشت پناہی بھی کی گئی جو اب اپنے اپنے علاقوں میں لارڈزبنے بیٹھے ہیں۔ لشکری رئیسانی انھی میں شمار ہوتے ہیں۔
انھوں نے آصف علی زرداری کو بلوچستان کو اپنے بھائی نواب اسلم رئیسانی کے حوالے کرنے پر مجبور کیا۔ نواب صاحب نے جو کچھ کیا، وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ لشکری صاحب ان کے ہوتے ہوئے خاموش رہے۔ رِندوں کے ساتھ قبائلی جھگڑے سے ان کی زمینوں کو جنرل مشرف کے دور میں جو نقصانات پہنچے تھے جب ان کا زرِ تلافی سرکاری خزانے سے ان تک پہنچ گیا تو پیپلز پارٹی سے استعفیٰ دے کر گھر جا بیٹھے۔ کافی عرصہ مولانا فضل الرحمن کی جماعت میں خاموشی سے اپنے لیے جگہ ڈھونڈتے رہے۔ مولانا کا اس صوبے میں اتنا زور نہیں چلتا۔ اسی لیے اب رائے ونڈ آ کر نواز شریف صاحب سے مل گئے ہیں۔
طلال بگتی وہاں بہت سالوں سے جاتے رہتے ہیں۔ سردار زہری تو نواز شریف کے ساتھ بہت عرصے سے ہیں اور دکھانے کو نواب خیر بخش مری کا ایک بیٹا بھی ان کے ساتھ ہے۔ مگر یہ سارے وہ لوگ ہیں جنھیں بلوچستان کے سیاسی طور پر بالغ افراد ہمیشہ ''پنجاب کے تابعدار'' سمجھتے رہے ہیں۔ نواز شریف کو بلوچستان میں ''تابعدار'' نہیں سوچنے سمجھنے والے ہم سفر درگار تھے۔ وہ انھیں ڈھونڈنے میں ناکام رہے۔ آیندہ وزیر اعظم بن گئے تو پھر کوئی رئیسانی ہی بلوچستان میں کامیڈی تھیٹر نظر آنے والی حکومت چلائے گا اور ہم Missing Persons کے تذکرے سنتے رہیں گے۔
دو تہائی اکثریت کے ساتھ 1997ء میں وزیر اعظم ہائوس لوٹ کر انھوں نے یہی کرنا چاہا تھا۔ فاروق لغاری اور سجاد علی شاہ ان کی راہ روکنے کی کوششوں میں فارغ ہوئے۔ بھارت کے جواب میں پاکستان کو بھی ایک اعلانیہ ایٹمی قوت بنانے کے بعد ان کی اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی سے ملاقاتیں بہت ضروری تھیں۔ جنرل مشرف اور اس کے سازشی جانبازوں نے اس سارے عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے کارگل کا جو ڈرامہ رچایا، وہ ہر صورت قابلِ مذمت ہے۔ نواز شریف کی بدقسمتی کہ وہ اپنے خواب پاکستان کے عوام تو کیا اپنی ہی جماعت کے بہت سارے لوگوں کو بتا کر اپنے ساتھ نہ کر پائے۔ مشرف نے ان کی حکومت اُلٹا دی اور انھیں کئی برس تک سعودی عرب رہنا پڑا۔
ایک بڑے ہی طویل سفر اور اس کے ڈرامائی اُتار چڑھائو سے گزرے ہوئے نواز شریف کو میں عام سیاستدان کی طرح نہیں دیکھنا چاہتا جس کا مقصد صرف اقتدار میں آنا اور پھر اسے بچائے رکھنا ہے۔ آصف علی زرداری کو اس ملک کی اکثریت نے کبھی سچ مچ کا سیاستدان نہیں مانا تھا۔ ہمیشہ بے نظیر بھٹو کا خاوند ہی سمجھا۔ مگر اسی آصف علی زرداری نے محترمہ کی شہادت کے باوجود قومی اسمبلی میں بھاری اکثریت کے نہ ہوتے ہوئے بھی اپنا وزیر اعظم بنوایا۔ مشرف سے استعفیٰ لیا۔ سینیٹ میں اپنی جماعت کو عددی اعتبار سے وہاں کی سب سے بڑی جماعت بنوایا اور عدلیہ اور میڈیا کے ساتھ تمام تر پھڈوں کے باوجود پانچ سال گزار لیے۔ ہم ''ایک زرداری سب پر بھاری'' سنتے اور دیکھتے رہے۔ لیکن اب پانچ سال بعد سر پکڑے بیٹھیں ہیں۔گلیوںاور بازاروں میں کسی جگہ چلے جائیے، خلقِ خدا جمہوری نظام پر تھوتھو کرتی ،کسی وردی والے مسیحا کی منتظر نظر آئے گی۔
نواز شریف صاحب کے پاس پورے پانچ سال تھے جن میں اقتدار کے حصول کے لیے ضروری سمجھی جانے والی چالاکیوں سے بالا تر ہوکر وہ پاکستان کے لیے کوئی دور رس پالیسیاں بنا کر نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو اپنا ہم نوا بنا سکتے تھے۔ انھوں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ ان کے بھائی شہباز شریف نے اپنے چہیتے افسران کے ایک گروہ کے ذریعے یہ تاثر قائم کیا اور بڑی ہوشیاری سے پھیلایا کہ پاکستان کے دوسرے صوبوں کی نسبت پنجاب میں حکومتی امور بہتر طریقے سے نمٹائے جاتے ہیں اور وہاں خلقِ خدا کی بہتری کے لیے کچھ منصوبے بھی بنائے جاتے ہیں۔
اس تاثر سے یقیناً چھوٹے صوبوں خاص کر ان کے شہروں میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے لیے ستائش کے جذبات پیدا ہوئے۔ نواز شریف نے ان جذبات کا ٹھوس منطقی انداز میں جائزہ لیتے ہوئے کوئی سیاسی راستہ بنانے کی کوشش نہیں کی۔ پشاور میں ان کی جماعت کے پاس کوئی روشن نیا چہرہ نہیں۔ مردان میں وہ اکثر سیاسی جماعتیں بدلنے والے خواجہ ہوتی کو اپنے ساتھ ملا بیٹھے ہیں۔ مالا کنڈ میں اب ان کے ساتھی جنرل مشرف کے ''پستول بدل'' بھائی امیر مقام ہیں اور اب مانسہرہ سے گوجر برادری کے تا حیات سردار یوسف بھی ان کے ساتھ آ گئے ہیں۔
ہری پور سے گوہر ایوب تو پہلے ہی آ چکے تھے۔ نیا کچھ بھی نہیں۔ سندھ میں کہانی لیاقت جتوئی سے چلتے ہوئے ممتاز بھٹو تک پہنچ گئی ہے۔ نواز شریف والوں کی سوچ بس اتنی ہے کہ آیندہ انتخابات میں اٹک سے رحیم یار خان تک قومی اسمبلی کی جتنی بھی نشستیں ہیں، وہ ساری کی ساری تقریباََ جیب میں ہیں۔ اب ضرورت صرف اتنی ہے کہ ''برکت کے طور پر'' تین چار بندے نون کی ٹکٹ پر اندرون سندھ سے بھی منتخب ہو جائیں تا کہ نواز شریف ''صرف پنجاب کے وزیر اعظم'' نظر نہ آئیں۔ لشکری رئیسانی کو شامل کرتے ہوئے اسی سوچ پر تکیہ نظر آتا ہے۔
پتہ نہیں نواز شریف کو سمجھ کیوں نہیں آ رہی کہ بلوچستان کے ساحلی شہر اور ان کے ساتھ چلتے ہوئے کوئٹہ تک پہنچ جانے والی وہ پٹی جہاں صرف بلوچی زبان بولنے والے رہتے ہیں، آج کل ایک عذاب سے گزر رہی ہے۔ وہاں رہنے والے نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد پاکستان کی ریاست سے مکمل طور پر ناراض ہے۔ ان کی ناراضی کا تدارک کرنے کے بجائے ہماری ریاست نے ان نوجوانوں کو اپنی پوری قوت کے ساتھ کچلنے کی کوشش کی۔ یہ کوشش کرتے ہوئے ''پاکستان کے ایسے وفاداروں'' کی حوصلہ افزائی اور پشت پناہی بھی کی گئی جو اب اپنے اپنے علاقوں میں لارڈزبنے بیٹھے ہیں۔ لشکری رئیسانی انھی میں شمار ہوتے ہیں۔
انھوں نے آصف علی زرداری کو بلوچستان کو اپنے بھائی نواب اسلم رئیسانی کے حوالے کرنے پر مجبور کیا۔ نواب صاحب نے جو کچھ کیا، وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ لشکری صاحب ان کے ہوتے ہوئے خاموش رہے۔ رِندوں کے ساتھ قبائلی جھگڑے سے ان کی زمینوں کو جنرل مشرف کے دور میں جو نقصانات پہنچے تھے جب ان کا زرِ تلافی سرکاری خزانے سے ان تک پہنچ گیا تو پیپلز پارٹی سے استعفیٰ دے کر گھر جا بیٹھے۔ کافی عرصہ مولانا فضل الرحمن کی جماعت میں خاموشی سے اپنے لیے جگہ ڈھونڈتے رہے۔ مولانا کا اس صوبے میں اتنا زور نہیں چلتا۔ اسی لیے اب رائے ونڈ آ کر نواز شریف صاحب سے مل گئے ہیں۔
طلال بگتی وہاں بہت سالوں سے جاتے رہتے ہیں۔ سردار زہری تو نواز شریف کے ساتھ بہت عرصے سے ہیں اور دکھانے کو نواب خیر بخش مری کا ایک بیٹا بھی ان کے ساتھ ہے۔ مگر یہ سارے وہ لوگ ہیں جنھیں بلوچستان کے سیاسی طور پر بالغ افراد ہمیشہ ''پنجاب کے تابعدار'' سمجھتے رہے ہیں۔ نواز شریف کو بلوچستان میں ''تابعدار'' نہیں سوچنے سمجھنے والے ہم سفر درگار تھے۔ وہ انھیں ڈھونڈنے میں ناکام رہے۔ آیندہ وزیر اعظم بن گئے تو پھر کوئی رئیسانی ہی بلوچستان میں کامیڈی تھیٹر نظر آنے والی حکومت چلائے گا اور ہم Missing Persons کے تذکرے سنتے رہیں گے۔