ایک اور کربلا…

بلاشبہ پاکستان کا وجود میں آنا اور ہندوستان کا تقسیم ہونا دو قومی نظریے کی کرامات ہیں

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

لاہور:
میںنے اپنے ایک پچھلے کالم میں اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ اگر بااختیار طاقتیں دہشت گردی کی روک تھام کی کوئی ٹھوس منصوبہ بندی اور اس پر عملدرآمد نہیں کریں گی تو ملک کی ہر روڈ علمدار اور کیرانی روڈ بن جائے گی اور وہی ہوا 3 مارچ کی شام اصفہانی روڈ کیرانی اور علمدار روڈ بن گئی۔

اس دہشت گردانہ کارروائی نے پورے شہر کو سوگ میں مبتلا کردیا۔ کراچی ایک عرصے سے دہشتگردی کا شکار ہے' ہر روز 12-10 انسان مارے جارہے ہیں، لیکن اصفہانی روڈ پر ہونے والی دہشت گردی سے شمالی وزیرستان، خیبر پختونخوا اور کوئٹہ میں ہونے والی اس دہشت گردی کا آغاز ہوگیا ہے جو کشتے کے شیشے لگاکر ماضی کی رخشندہ روایات کو اس فرق کے ساتھ زندہ کردیتی ہے کہ ماضی میں عموماً کفار کے کشتے کے شیشے لگتے تھے اب خود مسلمانوں کے کشتے کے شیشے لگ رہے ہیں۔

حیرت ہی نہیں شرم کی بات ہے کہ انسانی خون کی ان بہتی ندیوں پر بھی سیاست کی جارہی ہے ۔ ہر سیاسی پارٹی دوسری اور ہر سیاسی رہنما اپنے مخالف سیاسی رہنما پر الزام لگا رہا ہے کہ اس صورت حال کا وہی ذمے دار ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی کے اس بے لگام پھیلاؤ کی ذمے داری حکومت وقت پر آتی ہے لیکن چونکہ اس بلائے بے درماں کا آغاز موجودہ حکومت کے اقتدار سنبھالنے سے بہت پہلے ہوچکا تھا لہٰذا س کے پھیلاؤ کی ذمے داری صرف موجودہ حکومت ہی پر عائد نہیں ہوتی بلکہ ماضی کی حکومت اور سارے سیاستدان اس عفریت کے پنپنے پھیلنے پھولنے کے اس لیے ذمے دار ہیں کہ یہ کسی ایک سیاسی یا مذہبی جماعت کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے ملک پوری قوم کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ اور اس کا مقابلہ کرنے اسے شکست دینے کی ذمے داری بھی ساری سیاسی اور غیر سیاسی طاقتوں کی مشترکہ ذمے داری ہے۔

دہشت گردی کی اس یلغار کو روکنے سے پہلے اس کی جڑیں تلاش کرنا اس لیے ضروری ہے کہ اس کے آغاز کو سمجھے بغیر ہم اس کو اس کے انجام تک نہیں پہنچاسکتے۔ بلاشبہ پاکستان کا وجود میں آنا اور ہندوستان کا تقسیم ہونا دو قومی نظریے کی کرامات ہیں، لیکن منطقی طور پر دو قومی نظریہ 14 اگست 1947 کو پاکستان کے وجود میں آتے ہی ختم ہوگیا تھا کیونکہ اس نظریے کے نتیجے میں ایک نیا ملک وجود میں آگیا تھا۔ اس کے بعد ہماری قومی قیادت کی یہ ذمے داری تھی کہ اس نئے ملک کے مستقبل کا تعین کرتی اور بانی پاکستان نے اس ملک کے مستقبل کے حوالے سے فکری گائیڈ لائن بھی فراہم کردی تھی۔

لیکن اس ملک کی ان طاقتوں نے جو دو قومی نظریے کو ہی اس ملک کا مستقبل سمجھ رہی تھیں بانی پاکستان کی گائیڈ لائن کو نظرانداز کرکے اسے اس بیکراں صحرا میں دھکیل دیا جس کی نہ کوئی منزل تھی، نہ کوئی راستہ، ایک نظریاتی دھند تھی جو اندھوں اور آنکھوں والوں سب کی آنکھوں میں جھونکی جاتی رہی۔ اور اس دھند کو اور گہرا کرنے کے لیے قرار داد مقاصد کو آئین کا حصہ بنادیا گیا اور بدقسمتی یہ ہے کہ اس ملک کی سیاسی اور غیر سیاسی قوتیں اپنے سیاسی مقاصد اور سیاسی عدم بصیرت کی وجہ سے ان نقصانات کا اندازہ نہیں کرپائیں، جو آج مذہبی انتہا پسندی اور بے لگام دہشت گردی کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔

دنیا میں 57 مسلم ملک ہیں لیکن سوائے دو تین ملکوں کے کسی ملک نے بھی اپنے ملک کو نظریاتی ملک کا نام نہیں دیا کیونکہ ان کے سامنے اپنے ملک اور عوام کا مستقبل تھا، جسے نظریاتی سرحدوں میں محصور کیا جاتا تو دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں شامل ہونے کی جدوجہد متاثر ہوجاتی اور یہ ملک بھی نظریاتی دھند میں اسی طرح ڈوب جاتے جس طرح پاکستان ڈوب رہا ہے۔ پاکستان الحمدﷲ مسلمانوں کا ملک ہے، یہاں مسلمانوں کے مذہب کو کوئی خطرہ نہیں ، ہر مسلمان کو اپنے مذہبی فرائض ادا کرنے کی مکمل آزادی ہے۔


پھر وہ کون سا خوف، کون سی ضرورت ہے جو ہمیں اب بھی دو قومی نظریے کے تکمیل شدہ سفر کی طرف دھکیل رہی ہے؟ پاکستان کے قیام کے بعد تو ہمارا واحد مقصد اس پسماندہ ملک کو ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا کرنا، اس ملک کے عوام کی زندگیوں کو غربت جہالت سے نکالنا ہونا چاہیے تھا لیکن ہم اس مقصد کے حصول کے بجائے اس دھندلے راستے کے مسافر بن گئے جس نے ہمیں ترقی اور خوشحالی کی منزل کی طرف بڑھنے کے بجائے دہشت گردی تقسیم در تقسیم زبانوں، قومیتوں،فقہوں، فرقوں کی اس دلدل میں دھکیل دیا جس سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔

ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم 65 سال بعد بھی اپنے قومی اہداف طے نہیں کرسکے اور اسی نااہلی یا بددیانتی کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ قبائلی معاشرت صنعتی معاشرت پر حاوی ہونے کی وحشیانہ کوشش کر رہی ہے۔ فاٹا سے نکل کر کوئٹہ کراچی تک پہنچ رہی ہے۔ آج دنیا کی ہر قوم ترقی اور خوشحالی کے راستوں پر پیش قدمی کرتی نظر آرہی ہے۔ دنیا میں ہمارے علاوہ کئی مذاہب کئی قومیں موجود ہیں لیکن کسی قوم کسی ملک نے اپنے ملک اپنی ریاست کے نام کے آگے، عیسائی، یہودی، ہندو، بدھ مت کی اضافتیں نہیں لگائیں کیونکہ نہ وہ کسی احساس کمتری کا شکار ہیں نہ کسی احساس برتری کا۔

مغرب کے ترقی یافتہ ملک ہوں یا مشرق کے پسماندہ ملک یا 57 مسلم ملک ان سب کے سامنے ایک ہی ایک نکاتی ایجنڈہ ہے ''ترقی اور ترقی'' اسی ایجنڈے کا نتیجہ ہے کہ آج دنیا زندگی کے ہر شعبے میں انقلاب ترقی، دریافت اور انکشافات کی تاریخ رقم کر رہی ہے لیکن ہم۔۔۔۔۔ اینٹوں کے بلاکوں کو بموں میں تبدیل کرنے، بارودی گاڑیاں عمارتوں سے ٹکرانے، بچوں کے پیٹوں پر بارودی جیکٹیں باندھنے، موبائل فونوں کو دہشت گردی میں استعمال کرنے، موٹرسائیکلوں پر بم باندھنے اور موٹر سائیکلوں کو ٹارگٹ کلنگ میں استعمال کرنے کی ٹیکنالوجی پر عبور حاصل کر رہے ہیں۔

ہمارے وزیر داخلہ اپنے شعبے میں اتنی مہارت رکھتے ہیں اور ان کی معلومات اتنی مستند ہوتی ہیں کہ وہ جس خطرے کی پیش گوئی کرتے ہیں وہ سو فیصد بلکہ سو فیصد سے زیادہ درست ثابت ہوتی ہے، لیکن بے چارے احمق عوام یہ سوال کرتے رہ جاتے ہیں کہ اگر وزیر داخلہ کو کسی ممکنہ دہشت گردی کا علم ہے اور ہماری باخبر ایجنسیاں انھیں یہ معلومات فراہم کرتی ہیں تو وقت سے پہلے انھیں روکا کیوں نہیں جاتا؟ اس قسم کے سوال احمقانہ ہی لگتے ہیں، لیکن ان احمقانہ سوالوں کو ذہن میں آنے سے روکا نہیں جاسکتا۔

کراچی میں رہنے والے وہ تمام لوگ جو پرامن زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور بلاخوف و خطر اپنے روزگار اور کاروبار میں مصروف رہنا چاہتے ہیں خواہ وہ سندھی ہوں، مہاجر، پٹھان ہوں، پنجابی ہوں یا بلوچ اہل تشیع ہوں یا اہل سنت، انھیں اپنی فرقہ وارانہ اور لسانی کھولیوں سے نکل کر متحد ہونا پڑے گا اور پاکستانی اور مسلمان بن کر اس عفریت کا مقابلہ گلیوں، محلوں، سڑکوں، بازاروں میں کرنا پڑے گا۔ اہل سیاست کو انتخابات اور جمہوریت میناروں پر کھڑے رہنے دیں، اگر آپ ایک مرکز پر آگئے تو یہ سارے محترم اپنے تخلیق کردہ میناروں سے اتر کر آپ کے پیچھے بھاگتے نظر آئیں گے۔

زندگی کی روایت یہی ہے کہ وہ موت کو جلد یا بدیر بھول جاتی ہے۔ لیکن جن کے پیارے ان سے بچھڑ جاتے ہیں ان کے دکھ تو ان کی زندگی کے ساتھ رہتے ہیں۔ حکمران عوام کو مرنے سے نہیں بچاسکتے تو اتنا ضرور کرسکتے ہیں کہ مرنے والوں کے پسماندگان کو 15-10 لاکھ معاوضے پر ٹرخانے کے بجائے انھیں زندگی کی وہ سہولتیں وہ تحفظات فراہم کر یں جو دہشت گرد ان سے چھین لیتے ہیں، اسی حوالے سے اصفہانی روڈ کے سوگواروں کو رہائشیں اور ملازمتوں کی فراہمی حکومت کا بنیادی فرض اور ذمے داری ہے۔
Load Next Story