خواتین کے حقوق اور مزدور کا استحصال…
تاریخ کا جائزہ لیں تو خواتین کے سماجی و ثقافتی کردار کی تاریخ ٹکڑوں کی صورت بہت محدود سطح پر ملتی ہے
نوع انسانی کے آغاز سفر میں صنفی (Gender) بنیادوں پر قا ئم دو طبقات تھے، جو اپنے ارتقائی سفر میں ایک دوسرے کی موافقت اور مخالفت میں چلتے ہوئے اپنے اپنے حقوق کے لیے نبرد آزما ہوتے رہے ہیں۔ تاریخ کے دھندلے اوراق میں عورت ایک آزاد انسان کی حیثیت سے بحیثیت فرد گھر سے باہر مردوں کے شانہ بشانہ سماجی سرگرمیوں میں اہم کردار ادا کرتی دکھائی دیتی ہے۔
اگرچہ اس عہد میں انسانی شعور کا افق اتنا بلند نہیں تھا اور نہ ہی خیالات استحصال کا ذریعہ بننے والی غالب طبقات کی اخلاقیات اور تہذیبی قوتوں سے جڑے تھے۔ اس وقت کا معاشرہ آج کے استحصالی اور غلام اذہان پر مبنی افراد کی نسبت ایک آزاد اور باوقار انسانی زندگی کی عکاسی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ جیسے جیسے ارتقائی مراحل میں پیداواری طریقے اور ذریعے بدلے ویسے ویسے سماج کی نئی ہیئت بنتی اور بدلتی گئی۔ آج کا سماج دو کی نسبت کئی طبقات پر مشتمل، بٹا ہوا سماج ہے ۔
جہاں سرمایہ دار اور مزدور، عالم اور جاہل، مذہبی اور غیر مذہبی کی آویزش کے ساتھ ساتھ مرد اور عورت کی آویزش بہت شدت سے برقرار ہے، خصوصاً جو معاشرے صنعتی ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں ان میں یہ آویزش زیادہ شدت اختیار کرتی چلی جارہی ہے۔ یہ سوال ابھی تک حل نہیں ہوسکا کہ آخر سارے فرائض عورت ہی کی ذمے داری کیوں ہیں؟ اور سارے حقوق مرد ہی کے حصے میں کیوں آئے؟ عورت کو مرد سے کم تر کیوں سمجھا جاتا رہا ہے؟ اس کے جواب میں بڑے بڑے فلسفیوں نے بھی تجریدی بنیادوں پر اپنے فیصلے صادر کیے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ انسانی حیات کی تاریخ کا غالب حصہ مرد لکھنے والوں کی تحاریر پر مبنی ہے، علم البشریات نے خواتین کی سماجی حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے ان کے ثقافتی، سماجی اور معاشرتی کردار کو قلمبند کرنا ضروری نہیں سمجھا۔
یہی وجہ ہے کہ جب ہم انسانی تاریخ کا جائزہ لیں تو خواتین کے سماجی و ثقافتی کردار کی تاریخ ٹکڑوں کی صورت بہت محدود سطح پر ملتی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ خواتین میں تو دلچسپی ہر دور میں برقرار رہی مگر ان کے سماجی کردار کی تاریخ میں دلچسپی لینا مردوں نے ضروری نہیں سمجھا، جس کے نتیجے میں ادب ہو کہ ثقافت، سیاست ہو کہ طرز معاشرت، عورت تاریخی ڈسکورس میں بہت کم دکھائی دیتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمیں خواتین کے حوالے سے بہت کم ایسا علمی مواد ملتا ہے جو خواتین کی سماجی تاریخ کو تھیوری کی ساخت میں ان کے سماجی و ثقافتی نقطہ نظر کو واضح کر سکے۔
اس حوالے سے علم البشریات اس وقت تک نامکمل اور محدود رہا جب تک اس نے مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی سماجی زندگی کو اپنا موضوع نہیں بنایا۔ اس میں بھی خواتین لکھنے والیوں کا فاعلانہ کردار اہم ہے جنھوں نے اپنی تاریخ خود بنانا شروع کی اورخود کو بحیثیت فرد استحکام بخشنے کے لیے عملی اقدامات کیے۔
خواتین کو بحیثیت فرد تسلیم کرنے میں آج بھی بہت سے سماج تیار نہیں اور نہ ہی ان کو اس بات میں دلچسپی ہے کہ عورت جب ''حقوق'' کا نعرہ لگاتی ہے تو اس سے اُس کی کیا مراد ہے؟ تحریک نسواں معاشرے کا ارتقائی دور سمجھا جاتا ہے، اس کا آغاز مغرب میں خواتین نے مرد کے مساوی قانونی، معاشی اور سماجی حقوق کے حصول کے لیے کیا۔ خواتین کی اس جدوجہد کو Suffragettes کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے جو انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے آغاز میں خصوصاً ووٹ کا حق استعمال کرنے کے حصول کے لیے کی گئی جس کے نتیجے میں برطانوی خواتین کو پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد 1918 میں ووٹ کا حق دیا گیا اور پارلیمان کے انتخاب میں نمایندگی ملی۔
ان سب تبدیلیوں کے باوجود خواتین بیسویں صدی کے وسط تک ملازمتوں کے شعبے میں برابری کی سطح پر آنے میں کامیاب نہیں ہوسکی تھیں، مثلاً یہ عام سی بات تھی کہ اگر کوئی عورت شادی کرتی یا حاملہ ہوتی تو اس کو ملازمت سے برطرف کردیا جاتا تھا، یہاں بھی سرمایہ دار اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے رہے ہیں۔ تحریک نسواں میں مختلف طبقہ ہائے فکر کے مختلف تقاضے ہیں مگر سب کی بنیادی فکر ایک ہی ہے یعنی عورت کو مرد کے استحصال سے نکالا جائے اور اس کو مرد ہی کی طرح سماج میں انسانی درجے پر فائز کیا جائے۔ بظاہر خواتین کو آج تک ملنے والی معاشرتی آزادی لگتا ہے کہ ان کی جدوجہد کا ہی نتیجہ ہے، مگر درحقیقت اس میں سرمایہ داری نظام کی ضرورت اور منصوبہ سازی کا اہم کردار تھا۔
استحصالی طبقات کی خیالیات میں یہ سوال بھی بحث طلب ہے کہ مغرب میں عورت نے ''آزاد'' ہو کر اپنے ''حقوق'' حاصل کرنے کے بعد سماج کو کون سی نہج پر استوار کیا ہے؟ آج مغرب والے سماج کے اصل تضادات، جو سرمایہ داری کی دین ہیں، کا حل تلاش کرنے کے بجائے سماج کا ٹکڑوں میں بٹ کر بکھر جانے کا ذمے دار عورت کی آزادی کو ٹھہرا رہے ہیں۔ لہٰذا ہمیں دیکھنا ہے کہ مشرق میں نسائیت کہاں کھڑی ہے اور اس جدوجہد کی وہاں کتنی ضرورت ہے؟ یہ جاننے کے لیے ہمیں اپنے تناظر کو مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے، مغربی معاشروں کی حالت سے کچھ سبق لیتے ہوئے ہمیں اپنی اخلاقی اقدار میں مناسب ترامیم کی کوشش کرنی چاہیے اور انتہائی شدت پسندی سے گریز کرتے ہوئے ہم آہنگی کی فضا کو پروان چڑھانا چاہیے۔
ہمارے ہاں خواتین کے حقوق کی مخالفت کرتے ہوئے اس تحریک کو عورت کی منفی آزادی کا نام دے دیا جاتا ہے، اس میں ان خواتین کا بھی کردار شامل ہے جو بین الاقوامی حقوق کی تنظیموںکے زیر اثر 'آزادی' کا راگ الاپنے لگتی ہیں یہ جانے بغیر کہ آزادی کی حقیقی صورت اور ضرورت کون سی ہے۔ جس طرح ہر سماج کی اپنی الگ ساخت اور شناخت ہوتی ہے اسی طرح اُس کے الگ مسائل اور وسائل بھی ہوتے ہیں۔ اپنی منفرد ثقافت اور سیاست ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ ایک ہی سماج کے اندر مختلف طبقات ہوتے ہیں اور ہر طبقے کا اپنا اپنا طریقہ زندگی ہوتا ہے۔ امیر کی ثقافت الگ ہوتی ہے اور غریب کی ثقافت الگ ہوتی ہے کیونکہ سرمایہ ہر طبقے کو اپنے مطابق قوت خرید دیتا ہے۔
خصوصاً پاکستان میں اس کی مثال بہت واضح اور جابجا ملتی ہے، اسی طرح امیر خواتین کے مسائل الگ ہیں اور غریب خواتین کے مسائل نہ صرف الگ بلکہ بدترین استحصال پر مبنی ہیں۔ ہمارا سماجی و معاشی نظام نہ صرف خواتین کو بدترین استحصال کا نشانہ بناتا ہے بلکہ ہمارے مرد بھی اس کا شکار ہیں۔ تحریک نسواں کا مقصد مغرب میں خواتین کو مرد کے استحصال سے نجات دلانا تھا، جب کہ ہمیں ابھی اپنے سماج میں 'آزادی' سے زیادہ بنیادی انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کی ضرورت ہے۔ عورت ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ صرف عورت مرد کے ظلم کا شکار ہے۔
سرمائے کی چھائوں تلے پنپنے والے سماج اور ثقافت میں آج کا مرد بھی ظلم کا شکار ہورہا ہے اور یہ مزدور ہے جس کے مقابل سرمایہ داروں نے ان کی اپنی ہی خواتین کو منڈی میں کم تنخواہ کے عوض لا کر کھڑا کردیا ہے جس کے نتیجے میں مزدور کی طاقت تقسیم ہوگئی ہے۔ وہ مزدور جو اپنے استحصال کے خلاف، اپنے جائز مطالبات کے پورا نہ ہونے کے خلاف ہڑتال کی صورت احتجاج کرتا تھا آج اس کی جگہ خواتین مزدوروں نے لے لی ہے جو کم پیسوں پر دستیاب ہیں، اس صورت میں سرمایہ دار کو اپنی فیکٹری یا کاروبار کے بند ہونے کا کوئی اندیشہ نہیں رہا، اب وہ کھل کر پسے ہوئے طبقات کا استحصال باآسانی کررہا ہے۔ خواتین بحیثیت فرد اپنے جینے کے لیے اپنے حقوق کی جنگ لڑتے ہوئے اس بات کا خیال رکھیں کہ وہ اپنے ہی مزدور بھائیوں اور شوہروں کے خلاف نادانستگی میں سرمایہ دار کا آلہ کار نہ بنیں، بلکہ پوری دنیا کے غریب لوگوں کو استحصالی قوتوں سے نجات دلانے کے لیے مجموعی جدوجہد کریں۔
اگرچہ اس عہد میں انسانی شعور کا افق اتنا بلند نہیں تھا اور نہ ہی خیالات استحصال کا ذریعہ بننے والی غالب طبقات کی اخلاقیات اور تہذیبی قوتوں سے جڑے تھے۔ اس وقت کا معاشرہ آج کے استحصالی اور غلام اذہان پر مبنی افراد کی نسبت ایک آزاد اور باوقار انسانی زندگی کی عکاسی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ جیسے جیسے ارتقائی مراحل میں پیداواری طریقے اور ذریعے بدلے ویسے ویسے سماج کی نئی ہیئت بنتی اور بدلتی گئی۔ آج کا سماج دو کی نسبت کئی طبقات پر مشتمل، بٹا ہوا سماج ہے ۔
جہاں سرمایہ دار اور مزدور، عالم اور جاہل، مذہبی اور غیر مذہبی کی آویزش کے ساتھ ساتھ مرد اور عورت کی آویزش بہت شدت سے برقرار ہے، خصوصاً جو معاشرے صنعتی ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں ان میں یہ آویزش زیادہ شدت اختیار کرتی چلی جارہی ہے۔ یہ سوال ابھی تک حل نہیں ہوسکا کہ آخر سارے فرائض عورت ہی کی ذمے داری کیوں ہیں؟ اور سارے حقوق مرد ہی کے حصے میں کیوں آئے؟ عورت کو مرد سے کم تر کیوں سمجھا جاتا رہا ہے؟ اس کے جواب میں بڑے بڑے فلسفیوں نے بھی تجریدی بنیادوں پر اپنے فیصلے صادر کیے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ انسانی حیات کی تاریخ کا غالب حصہ مرد لکھنے والوں کی تحاریر پر مبنی ہے، علم البشریات نے خواتین کی سماجی حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے ان کے ثقافتی، سماجی اور معاشرتی کردار کو قلمبند کرنا ضروری نہیں سمجھا۔
یہی وجہ ہے کہ جب ہم انسانی تاریخ کا جائزہ لیں تو خواتین کے سماجی و ثقافتی کردار کی تاریخ ٹکڑوں کی صورت بہت محدود سطح پر ملتی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ خواتین میں تو دلچسپی ہر دور میں برقرار رہی مگر ان کے سماجی کردار کی تاریخ میں دلچسپی لینا مردوں نے ضروری نہیں سمجھا، جس کے نتیجے میں ادب ہو کہ ثقافت، سیاست ہو کہ طرز معاشرت، عورت تاریخی ڈسکورس میں بہت کم دکھائی دیتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمیں خواتین کے حوالے سے بہت کم ایسا علمی مواد ملتا ہے جو خواتین کی سماجی تاریخ کو تھیوری کی ساخت میں ان کے سماجی و ثقافتی نقطہ نظر کو واضح کر سکے۔
اس حوالے سے علم البشریات اس وقت تک نامکمل اور محدود رہا جب تک اس نے مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی سماجی زندگی کو اپنا موضوع نہیں بنایا۔ اس میں بھی خواتین لکھنے والیوں کا فاعلانہ کردار اہم ہے جنھوں نے اپنی تاریخ خود بنانا شروع کی اورخود کو بحیثیت فرد استحکام بخشنے کے لیے عملی اقدامات کیے۔
خواتین کو بحیثیت فرد تسلیم کرنے میں آج بھی بہت سے سماج تیار نہیں اور نہ ہی ان کو اس بات میں دلچسپی ہے کہ عورت جب ''حقوق'' کا نعرہ لگاتی ہے تو اس سے اُس کی کیا مراد ہے؟ تحریک نسواں معاشرے کا ارتقائی دور سمجھا جاتا ہے، اس کا آغاز مغرب میں خواتین نے مرد کے مساوی قانونی، معاشی اور سماجی حقوق کے حصول کے لیے کیا۔ خواتین کی اس جدوجہد کو Suffragettes کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے جو انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے آغاز میں خصوصاً ووٹ کا حق استعمال کرنے کے حصول کے لیے کی گئی جس کے نتیجے میں برطانوی خواتین کو پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد 1918 میں ووٹ کا حق دیا گیا اور پارلیمان کے انتخاب میں نمایندگی ملی۔
ان سب تبدیلیوں کے باوجود خواتین بیسویں صدی کے وسط تک ملازمتوں کے شعبے میں برابری کی سطح پر آنے میں کامیاب نہیں ہوسکی تھیں، مثلاً یہ عام سی بات تھی کہ اگر کوئی عورت شادی کرتی یا حاملہ ہوتی تو اس کو ملازمت سے برطرف کردیا جاتا تھا، یہاں بھی سرمایہ دار اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے رہے ہیں۔ تحریک نسواں میں مختلف طبقہ ہائے فکر کے مختلف تقاضے ہیں مگر سب کی بنیادی فکر ایک ہی ہے یعنی عورت کو مرد کے استحصال سے نکالا جائے اور اس کو مرد ہی کی طرح سماج میں انسانی درجے پر فائز کیا جائے۔ بظاہر خواتین کو آج تک ملنے والی معاشرتی آزادی لگتا ہے کہ ان کی جدوجہد کا ہی نتیجہ ہے، مگر درحقیقت اس میں سرمایہ داری نظام کی ضرورت اور منصوبہ سازی کا اہم کردار تھا۔
استحصالی طبقات کی خیالیات میں یہ سوال بھی بحث طلب ہے کہ مغرب میں عورت نے ''آزاد'' ہو کر اپنے ''حقوق'' حاصل کرنے کے بعد سماج کو کون سی نہج پر استوار کیا ہے؟ آج مغرب والے سماج کے اصل تضادات، جو سرمایہ داری کی دین ہیں، کا حل تلاش کرنے کے بجائے سماج کا ٹکڑوں میں بٹ کر بکھر جانے کا ذمے دار عورت کی آزادی کو ٹھہرا رہے ہیں۔ لہٰذا ہمیں دیکھنا ہے کہ مشرق میں نسائیت کہاں کھڑی ہے اور اس جدوجہد کی وہاں کتنی ضرورت ہے؟ یہ جاننے کے لیے ہمیں اپنے تناظر کو مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے، مغربی معاشروں کی حالت سے کچھ سبق لیتے ہوئے ہمیں اپنی اخلاقی اقدار میں مناسب ترامیم کی کوشش کرنی چاہیے اور انتہائی شدت پسندی سے گریز کرتے ہوئے ہم آہنگی کی فضا کو پروان چڑھانا چاہیے۔
ہمارے ہاں خواتین کے حقوق کی مخالفت کرتے ہوئے اس تحریک کو عورت کی منفی آزادی کا نام دے دیا جاتا ہے، اس میں ان خواتین کا بھی کردار شامل ہے جو بین الاقوامی حقوق کی تنظیموںکے زیر اثر 'آزادی' کا راگ الاپنے لگتی ہیں یہ جانے بغیر کہ آزادی کی حقیقی صورت اور ضرورت کون سی ہے۔ جس طرح ہر سماج کی اپنی الگ ساخت اور شناخت ہوتی ہے اسی طرح اُس کے الگ مسائل اور وسائل بھی ہوتے ہیں۔ اپنی منفرد ثقافت اور سیاست ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ ایک ہی سماج کے اندر مختلف طبقات ہوتے ہیں اور ہر طبقے کا اپنا اپنا طریقہ زندگی ہوتا ہے۔ امیر کی ثقافت الگ ہوتی ہے اور غریب کی ثقافت الگ ہوتی ہے کیونکہ سرمایہ ہر طبقے کو اپنے مطابق قوت خرید دیتا ہے۔
خصوصاً پاکستان میں اس کی مثال بہت واضح اور جابجا ملتی ہے، اسی طرح امیر خواتین کے مسائل الگ ہیں اور غریب خواتین کے مسائل نہ صرف الگ بلکہ بدترین استحصال پر مبنی ہیں۔ ہمارا سماجی و معاشی نظام نہ صرف خواتین کو بدترین استحصال کا نشانہ بناتا ہے بلکہ ہمارے مرد بھی اس کا شکار ہیں۔ تحریک نسواں کا مقصد مغرب میں خواتین کو مرد کے استحصال سے نجات دلانا تھا، جب کہ ہمیں ابھی اپنے سماج میں 'آزادی' سے زیادہ بنیادی انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کی ضرورت ہے۔ عورت ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ صرف عورت مرد کے ظلم کا شکار ہے۔
سرمائے کی چھائوں تلے پنپنے والے سماج اور ثقافت میں آج کا مرد بھی ظلم کا شکار ہورہا ہے اور یہ مزدور ہے جس کے مقابل سرمایہ داروں نے ان کی اپنی ہی خواتین کو منڈی میں کم تنخواہ کے عوض لا کر کھڑا کردیا ہے جس کے نتیجے میں مزدور کی طاقت تقسیم ہوگئی ہے۔ وہ مزدور جو اپنے استحصال کے خلاف، اپنے جائز مطالبات کے پورا نہ ہونے کے خلاف ہڑتال کی صورت احتجاج کرتا تھا آج اس کی جگہ خواتین مزدوروں نے لے لی ہے جو کم پیسوں پر دستیاب ہیں، اس صورت میں سرمایہ دار کو اپنی فیکٹری یا کاروبار کے بند ہونے کا کوئی اندیشہ نہیں رہا، اب وہ کھل کر پسے ہوئے طبقات کا استحصال باآسانی کررہا ہے۔ خواتین بحیثیت فرد اپنے جینے کے لیے اپنے حقوق کی جنگ لڑتے ہوئے اس بات کا خیال رکھیں کہ وہ اپنے ہی مزدور بھائیوں اور شوہروں کے خلاف نادانستگی میں سرمایہ دار کا آلہ کار نہ بنیں، بلکہ پوری دنیا کے غریب لوگوں کو استحصالی قوتوں سے نجات دلانے کے لیے مجموعی جدوجہد کریں۔