بلوچستان میں دہشت گردی کے افسوسناک واقعات
غیرملکی ایجنسیاں ایک عرصے سے بلوچستان کے حالات خراب کرنے میں مصروف عمل ہیں
FAISALABAD:
بلوچستان کے ضلع تربت کے علاقے گروک میں بیرون ملک بھیجنے کا جھانسہ دے کر پنجاب کے مختلف شہروں سے لائے گئے 15نوجوانوں کو گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا' نوجوانوں کو انسانی اسمگلر غیرقانونی طور پر ایران کے بارڈر پر لے جا رہے تھے کہ گروک کے پہاڑی علاقے میں مسلح افراد نے انھیں گاڑیوں سے اتار کر قتل کر دیا۔ کالعدم بلوچستان لبریشن فرنٹ نے ایک بیان میں ان افراد کی ہلاکت کی ذمے داری قبول کی ہے۔ تنظیم کے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ مارے جانے والے افراد فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کے ملازمین تھے اور ضلع کیچ میں چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے پر کام کر رہے تھے۔ ادھر بلوچستان ہی میں دہشتگردی کے ایک اور واقعہ میں ایس پی انویسٹی گیشن' ان کی اہلیہ' بیٹے اور پوتے کو گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا۔
بلوچستان میں جو دہشتگردی کے افسوسناک واقعے پیش آئے ہیں' اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ بلوچستان ایک عرصے سے دہشتگردوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے' کوئی دن نہیں گزرتا جب وہاں دہشتگردی کی کوئی نہ کوئی واردات رونما نہ ہوتی ہو۔ اب پنجاب کے مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والے 15بے گناہ نوجوانوں کو جو ایجنٹوں کے ذریعے غیرقانونی طور پر ایران کے راستے خلیجی ممالک اور یورپ جانے کی کوشش کر رہے تھے کو بس سے اتار کر پہاڑوں پر لے جا کر گولیاں مار دی گئیں۔ ایسا افسوسناک واقعہ پہلی بار نہیں ہوا اس سے پیشتر بھی متعدد واقعات میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے مزدوروں اور دیگر افراد کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا۔
مارے جانے والے نوجوانوں کا تعلق کسی تنظیم' کسی حکمران خاندان یا سیاسی تنظیم سے نہیں تھا' نہ وہ اختیارات کی دوڑ میں شریک تھے وہ تو عام گھروں کے بیروز گاری کے ستائے ہوئے نوجوان تھے جو روز گار کی تلاش میں کسی نہ کسی طرح بیرون ملک جانا چاہتے تھے' ان کی کسی سے کیا دشمنی تھی۔ یہ سب واقعات کسی سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ معلوم ہوتے ہیں جس کا مقصد صوبائیت اور نفرت کو ہوا دینا ہے۔ غیرملکی ایجنسیاں ایک عرصے سے بلوچستان کے حالات خراب کرنے میں مصروف عمل ہیں، وہ یہاں دہشتگردی کو ہوا دینے کے لیے بڑے پیمانے پر کام کر رہی ہیں۔ مٹھی بھر مقامی افراد اپنے گروہی مفادات ان غیرملکی ایجنسیوں کے آلہ کار کا کردارادا کر رہے ہیں۔ پاکستان بھارتی ایجنسی را کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد عالمی سطح پر پیش کر چکا ہے مگر اقوام متحدہ اور بڑی طاقتوں نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا' جس سے شہ پا کر بھارتی ایجنسیاں بلوچستان اور افغانستان کے راستے خیبرپختونخوا میں دہشتگردی کی کارروائیاں کروا رہی ہیں۔ افغانستان کی حکومت بھی بھارت کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔
بھارت اور دیگر عالمی قوتیں پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کو کسی نہ کسی طرح روکنے کی کوشش میں دہشتگردوں کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ سیکیورٹی اداروں نے بلوچستان میں دہشتگردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کرتے ہوئے متعدد کو گرفتار اور ان سے خوفناک اسلحہ برآمد کیا ہے مگر دہشتگردوں کا نیٹ ورک اس قدر وسیع اور منظم ہے کہ اسے ختم کرنے میں ایک عرصہ درکار ہے۔ دہشتگردوں کے نیٹ ورک کو توڑنے کے لیے مقامی سطح پر شہریوں کا تعاون حاصل کرنا ناگزیر ہے۔ اس چھپے ہوئے بے شناخت دشمن کا خاتمہ شہریوں کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ سانحہ تربت کے بعد ایف آئی اے گوجرانوالہ سرکل نے نوجوانوں کو بیرون ملک بھجوانے والے 4 ایجنٹوں کو حراست میں لے لیا۔ انسانی اسمگلنگ کا دھندا ایک عرصے سے چل رہا ہے' اس دھندے میں ملوث افراد بیروز گار نوجوانوں کو بیرون ملک جانے کا جھانسہ دے کر ان سے بڑی رقوم اینٹھ لیتے ہیں۔ اکا دکا واقعات کے سوا ان انسانی اسمگلروں کے خلاف کبھی بڑے پیمانے پر کارروائی نہیں کی گئی۔
عوامی حلقوں میں یہ بات عام ہے کہ سرکاری اداروں کے اہلکاروں نے انسانی اسمگلروں سے اپنا حصہ وصول کرکے انھیں کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ انسانی اسمگلر بیرون ملک بھجوانے کا جھانسہ دے کر نوجوانوں کو آخر کیسے غیرقانونی طور پر بارڈر پار کرا دیتے ہیں' اس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ البتہ اصل کام سانحہ تربت اور ایس پی انویسٹی گیشن کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانا ہے' بلوچستان میں کچھ گروہ علیحدگی پسندی کو ہوا دے رہے ہیں' گزشتہ دنوں لندن میں بھی ان کی کارروائیاں دیکھنے میں آئیں جس پر پاکستان نے شدید احتجاج کیا۔ بھارت 1971ء کا کھیل بلوچستان میں کھیل رہا ہے۔ اس گھناؤنے کھیل کو ناکام بنانے کے لیے جہاں سیکیورٹی ادارے اپنے فرائض جانفشانی اور لگن سے ادا کر رہے ہیں وہاں سول حکومت' علماء' اساتذہ اور دانشور حلقوں پر بھی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نظریاتی محاذ پر علیحدگی پسندوں کو ناکام بنانے کے لیے میدان عمل میں اتریں۔ نظریاتی محاذ پر بھی بھرپور کردار ادا کرنا وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔
بلوچستان کے ضلع تربت کے علاقے گروک میں بیرون ملک بھیجنے کا جھانسہ دے کر پنجاب کے مختلف شہروں سے لائے گئے 15نوجوانوں کو گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا' نوجوانوں کو انسانی اسمگلر غیرقانونی طور پر ایران کے بارڈر پر لے جا رہے تھے کہ گروک کے پہاڑی علاقے میں مسلح افراد نے انھیں گاڑیوں سے اتار کر قتل کر دیا۔ کالعدم بلوچستان لبریشن فرنٹ نے ایک بیان میں ان افراد کی ہلاکت کی ذمے داری قبول کی ہے۔ تنظیم کے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ مارے جانے والے افراد فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کے ملازمین تھے اور ضلع کیچ میں چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے پر کام کر رہے تھے۔ ادھر بلوچستان ہی میں دہشتگردی کے ایک اور واقعہ میں ایس پی انویسٹی گیشن' ان کی اہلیہ' بیٹے اور پوتے کو گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا۔
بلوچستان میں جو دہشتگردی کے افسوسناک واقعے پیش آئے ہیں' اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ بلوچستان ایک عرصے سے دہشتگردوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے' کوئی دن نہیں گزرتا جب وہاں دہشتگردی کی کوئی نہ کوئی واردات رونما نہ ہوتی ہو۔ اب پنجاب کے مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والے 15بے گناہ نوجوانوں کو جو ایجنٹوں کے ذریعے غیرقانونی طور پر ایران کے راستے خلیجی ممالک اور یورپ جانے کی کوشش کر رہے تھے کو بس سے اتار کر پہاڑوں پر لے جا کر گولیاں مار دی گئیں۔ ایسا افسوسناک واقعہ پہلی بار نہیں ہوا اس سے پیشتر بھی متعدد واقعات میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے مزدوروں اور دیگر افراد کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا۔
مارے جانے والے نوجوانوں کا تعلق کسی تنظیم' کسی حکمران خاندان یا سیاسی تنظیم سے نہیں تھا' نہ وہ اختیارات کی دوڑ میں شریک تھے وہ تو عام گھروں کے بیروز گاری کے ستائے ہوئے نوجوان تھے جو روز گار کی تلاش میں کسی نہ کسی طرح بیرون ملک جانا چاہتے تھے' ان کی کسی سے کیا دشمنی تھی۔ یہ سب واقعات کسی سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ معلوم ہوتے ہیں جس کا مقصد صوبائیت اور نفرت کو ہوا دینا ہے۔ غیرملکی ایجنسیاں ایک عرصے سے بلوچستان کے حالات خراب کرنے میں مصروف عمل ہیں، وہ یہاں دہشتگردی کو ہوا دینے کے لیے بڑے پیمانے پر کام کر رہی ہیں۔ مٹھی بھر مقامی افراد اپنے گروہی مفادات ان غیرملکی ایجنسیوں کے آلہ کار کا کردارادا کر رہے ہیں۔ پاکستان بھارتی ایجنسی را کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد عالمی سطح پر پیش کر چکا ہے مگر اقوام متحدہ اور بڑی طاقتوں نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا' جس سے شہ پا کر بھارتی ایجنسیاں بلوچستان اور افغانستان کے راستے خیبرپختونخوا میں دہشتگردی کی کارروائیاں کروا رہی ہیں۔ افغانستان کی حکومت بھی بھارت کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔
بھارت اور دیگر عالمی قوتیں پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کو کسی نہ کسی طرح روکنے کی کوشش میں دہشتگردوں کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ سیکیورٹی اداروں نے بلوچستان میں دہشتگردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کرتے ہوئے متعدد کو گرفتار اور ان سے خوفناک اسلحہ برآمد کیا ہے مگر دہشتگردوں کا نیٹ ورک اس قدر وسیع اور منظم ہے کہ اسے ختم کرنے میں ایک عرصہ درکار ہے۔ دہشتگردوں کے نیٹ ورک کو توڑنے کے لیے مقامی سطح پر شہریوں کا تعاون حاصل کرنا ناگزیر ہے۔ اس چھپے ہوئے بے شناخت دشمن کا خاتمہ شہریوں کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ سانحہ تربت کے بعد ایف آئی اے گوجرانوالہ سرکل نے نوجوانوں کو بیرون ملک بھجوانے والے 4 ایجنٹوں کو حراست میں لے لیا۔ انسانی اسمگلنگ کا دھندا ایک عرصے سے چل رہا ہے' اس دھندے میں ملوث افراد بیروز گار نوجوانوں کو بیرون ملک جانے کا جھانسہ دے کر ان سے بڑی رقوم اینٹھ لیتے ہیں۔ اکا دکا واقعات کے سوا ان انسانی اسمگلروں کے خلاف کبھی بڑے پیمانے پر کارروائی نہیں کی گئی۔
عوامی حلقوں میں یہ بات عام ہے کہ سرکاری اداروں کے اہلکاروں نے انسانی اسمگلروں سے اپنا حصہ وصول کرکے انھیں کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ انسانی اسمگلر بیرون ملک بھجوانے کا جھانسہ دے کر نوجوانوں کو آخر کیسے غیرقانونی طور پر بارڈر پار کرا دیتے ہیں' اس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ البتہ اصل کام سانحہ تربت اور ایس پی انویسٹی گیشن کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانا ہے' بلوچستان میں کچھ گروہ علیحدگی پسندی کو ہوا دے رہے ہیں' گزشتہ دنوں لندن میں بھی ان کی کارروائیاں دیکھنے میں آئیں جس پر پاکستان نے شدید احتجاج کیا۔ بھارت 1971ء کا کھیل بلوچستان میں کھیل رہا ہے۔ اس گھناؤنے کھیل کو ناکام بنانے کے لیے جہاں سیکیورٹی ادارے اپنے فرائض جانفشانی اور لگن سے ادا کر رہے ہیں وہاں سول حکومت' علماء' اساتذہ اور دانشور حلقوں پر بھی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نظریاتی محاذ پر علیحدگی پسندوں کو ناکام بنانے کے لیے میدان عمل میں اتریں۔ نظریاتی محاذ پر بھی بھرپور کردار ادا کرنا وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔