رحمت کی گھٹائیں پھیل گئیں
حضور ﷺ کی کامل زندگی کا ایک حصہ آپ ﷺ کا سماجی ربط ہے۔
رحمت کی گھٹائیں پھیل گئیں افلاک کے گنبد پر
حدت کی تجلی کوند گئی آفاق کے سینا زاروں میں
گر ارض و سماں کی محفل میں لولاک لما کا شور نہ ہو
یہ رنگ نہ ہو گلزاروں میں یہ نور نہ سیاروں میں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہمیں دنیا میں ہر ایک کے ساتھ اتحادویگانگت کا مظاہرہ کرنا ہے اور دین کی دعوت ان تک پہنچانی ہے اور اپنے مزاج میں ایک اعتدال رکھنا ہے۔آپ ﷺ عوامی حلقوں سے پوری طرح مربوط تھے، جماعت اور معاشرے سے شخصی اور نجی تعلق رکھتے تھے۔ علیحدگی پسندی، کبر یا یبوست کا شائبہ تک نہ تھا۔ در حقیقت آپﷺ نے جس نظام اخوت کی تاسیس فرمائی تھی یہ اس کا اہم تقاضا تھا کہ لوگ بام دگر مربوط رہیں۔ ایک دوسرے کے کام آئیں اورایک دوسرے کے حقوق پہچانیں۔
حضور ﷺ کی کامل زندگی کا ایک حصہ آپ ﷺ کا سماجی ربط ہے کہ آپ ﷺ ہر ایک کے ساتھ کس انداز سے پیش آتے اپنے، بیگانے، ہر ایک کا درد ﷺ کے دل میں ہوتا، ہر ایک کے لیے خیرکی تمنا لیے ہوتے، گھر سے نکلتے تو سلام میں ہمیشہ پہل کرتے اور فرماتے کہ سلام میں پہل کرنیوالا کبر سے محفوظ ہوتا ہے۔
بچوں کے ساتھ گفتگو فرماتے اور انھیں سلام کہتے۔ بچوں سے پیار بھی کرتے، بازارکو ناپسندیدہ جگہ سمجھتے، لیکن وہاں جاتے تو ہر ایک کو سلام کرتے۔ انتہائی خوش مزاج تھے اور متبسم رہتے۔ مسکراتے چہرے سے ملتے اور اسے نیکی اور شائستگی قرار دیا۔ صحابہؓ کی محفل میں بیٹھتے تو عام آدمی کوئی فرق محسوس نہیں کرتا تھا ۔ نماز صبح کے بعد خصوصی مجلس ہوتی تھی۔ اس میں قصے بھی ہوتے اور ہنسی بھی۔ بیماروں کی عیادت کا اہتمام کرتے۔ حدیث کی کتابوں میں آپ ﷺ کا وہ مشہور جملہ موجود ہے جو آپ ﷺ اکثر فرمایا کرتے تھے، وہ جملہ یہ ہے: ''لاباس طھور ان شاء اللہ'' مزاج بھی فرماتے۔ حضرت انسؓ کو ''یاذوالاذنین'' کہہ کر پکارتے۔ اشعار بھی سنے، انھیں پسند بھی فرمایا لبید کے درج ذیل ایک مصرع کو اصدق لکلمہ کہا۔
و کل نعیم لا محالۃ زائل
الا کل شئی ما خلا اللہ باطل
رشتے داروں سے حسن سلوک اور ہمسایوں کا خیال آپ ﷺ کی تعلیمات کا اہم حصہ ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:''جس کو یہ پسند ہو کہ اس کے رزق میں وسعت اور اس کی عمر میں برکت ہو اسے صلہ رحمی کرنی چاہیے''
''انسؓ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا اس خدا کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے بندہ مؤمن ہوتا جب تک وہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی کچھ پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتاہے''۔ ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا '' وہ شخص مومن نہیں، سوال کرنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا جس کی شرارتوں سے اس کا ہمسایہ محفوظ نہیں''
''جابر سمرہؓ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ والد نے اپنے بیٹے کو اچھے ادب سے بہتر عطیہ نہیں دیا۔''
اسی طرح آنجناب ﷺ کو غیبت، فحش گوئی، عیب چینی، حسد، بغض اور لوگوں کے درمیان عداوت پیدا کرنے سے شدید نفرت تھی۔ عبداللہ بن ابی کے سلسلہ میں مروت کا جو طریقہ آپ ﷺ نے اختیار فرمایا تھا وہ ایک مستقل نمونہ ہے۔ سماجی زندگی میں دو چیزیں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ ایک ایفائے عہد حسن سلوک دوسرے عفو و درگزر۔ حضورﷺ کی زندگی میں یہ دونوں خصوصیات بہت ابھری ہوئی ہیں۔
حمزہؓ کے قاتل وحشی اور ابو سفیان کی بیوی والوں کو ''لا تثریب علیکم الیوم'' فرمانا معاشرتی اور سیاسی زندگی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی طرح کے بے شمار واقعات ہیں جو آنجناب ﷺ کی زندگی کے اس پہلوکی تصویر کشی کرتے ہیں۔ ہمارے لیے حضور ﷺ کی سیرت میں فکر و عمل کے بے مثال نمونے ہیں۔ بالخصوص بین المذاہب، عالمی اتحاد و یگانگت وہم آہنگی کے حوالے سے اسلامی نقطہ نظر سے تمام اخلاق کی بنیاد رضائے الٰہی کا حصول ہے اس لیے خلق خدا کے لیے ہمدردی و خیر خواہی تمام اعمال کی محرک ہے۔تمام عالم ایک کنبہ کی مانند ہے۔
حضور ﷺ کا ارشاد ہے:''تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور اللہ کے نزدیک محبوب وہ ہے کہ کنبہ کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔''خلق خدا کے لیے محبت و شفقت ہر مومن سے مطلوب ہے۔ حضور اکرم ﷺ سے مروی احادیث میں لوگوں کے ساتھ نرم روی کو خصوصی اہمیت دی گئی۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' اللہ تعالیٰ تمام معاملات میں نرمی کو پسند کرتا ہے''
نفع بخشی و فیض رسانی اولین خلق ہے جس کے لیے حضور ﷺ نے توجہ دلائی، آپ نے فرمایا ''لوگوں میں سے بہتر وہ ہے جو انسانوں کو نفع پہنچاتا ہے۔''
یہ نفع بخش بغیر کسی ذاتی غرض و مصلحت کے ہے۔ رشتے داروں، عام ضرورت مندوں، عام انسانوں حتیٰ کہ جانوروں سے حسن سلوک پسندیدہ رویہ ہے۔ بد سلوکی اور ضرر رسانی ناپسندیدہ رویہ ہے۔ آنحضور ﷺ سے مروی ہے:''اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت کے دن رتبے کے لحاظ سے بد ترین انسان وہ ہوگا جس کے شرکے ڈر سے لوگ اسے چھوڑ دیں۔''
ابو موسیٰ اشعری روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ہر مسلمان پر صدقہ ہے۔ لوگوں نے کہاکہ اگر وہ نہیں کرسکتا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے ہاتھوں کی محنت کرنی چاہیے۔ اپنے آپ کو بھی فائدہ پہنچائے اور صدقہ بھی کرے۔ انھوں نے کہاکہ اگر وہ نہ کرسکے یا نہ کرے؟تو آپ ﷺ نے فرمایا: وہ صاحب حاجت کی اعانت کرے۔ کہا گیا اگر وہ نہ کرے؟آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ بھلائی یا معروف کا حکم دے۔ حاضرین نے کہاکہ اگر وہ نہ کرے تو؟ آپ ﷺ نے فرمایا وہ برائی کرنے سے رک جائے یہی اس کا صدقہ ہے۔
ہمدردی و خیر خواہی کا یہ بنیادی اخلاقی اصول صرف انسانوں تک محدود نہیں یہ جانوروں اور ماحول تک پر محیط ہے۔ ایک مومن جانوروں کے ساتھ بھی نرم رویہ اختیار کرتا ہے اور درختوں اور سبزہ زمین اور فضا کو بھی محفوظ کرتا ہے۔ امام بخاریؒ نے اپنی صحیح میں ایک باب باندھا ہے جس کا عنوان ''رحمۃ النسان بالبھائم'' یعنی انسانوں اور جانوروں کے ساتھ مہربانی کا سلوک، اس باب میں انھوں نے مختلف احادیث درج کی ہیں۔ ہم صرف دو نقل کررہے ہیں جن سے واضح ہوگا کہ آپ ﷺ کے نزدیک تمام مخلوق سے حسن تعلق کتنا اہم ہے ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا ''ایک شخص راستے میں جارہاتھا کہ اس پر پیاس کا غلبہ ہوا اسے کنواں معلوم ہوا تووہ اس میں اترا اور پانی پیا، پھر وہ نکلا تو اسے ایک کتا نظر آیا جو پیاس سے ہانپ رہا تھا اور مٹی کھا رہا تھا اس شخص نے کہا اسے بھی پیاس لگی ہے جس طرح مجھے لگی تھی۔ پھر وہ کنویں میں اترا اور اپنا موزہ پانی سے بھرا اور منہ میں اٹھایا اور کتے کو پلایا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا عمل قبول کیا اور اسے بخش دیا۔ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ ﷺ حیوانوں کی خدمت میں بھی اجر ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا ہر زندگی والے کی خدمت میں اجر ہے۔''
''کوئی مسلمان جب کوئی درخت یا پودا لگاتا ہے اور اس سے کوئی انسان یا چوپایا کھاتا ہے تو یہ اس کی جانب سے صدقہ ہوگا۔''
ایک مومن اپنے ماحول کے لیے رحمت ۔ وہ انسانوں اور حیوانوں کے لیے نفع بخش ہے اس سے ماحول کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا اور یہ سب کچھ محض اللہ کے لیے بغیر کسی ذاتی غرض کے ہوتا ہے ۔ مومن اپنے حسن خلق اور ہمدردانہ رویے کی وجہ سے معاشرت اور ماحول کے لیے سرتا پا رحمت ہوتا ہے اور اس کا رویہ رحمت، محبت اور خیر خواہی کا ہوتا ہے۔
اب ہماری یہ ذمے داری ہے کہ ہم محبت، رحمت اور خیر خواہی کا جذبہ عالمی سطح تک پھیلائیں اور بین الاقوامی و بین المذاہب ، عالمی اتحاد، یگانگت وہم آہنگی کے لیے اسوۂ حسنہ کی روشنی میں عملی کردار ادا کریں۔
محبت کے یوں جس نے دریا بہائے،
دل ان کا بھی چھینا جو سر لینے آئے
یہ بندہ نوازی کے جوہر دکھائے
کہ جو کھائے اور جواہر لٹائے
خوشی اپنے غیروں کے غم میں بھلادی
دیا درد جس نے اسے بھی دوا دی
حدت کی تجلی کوند گئی آفاق کے سینا زاروں میں
گر ارض و سماں کی محفل میں لولاک لما کا شور نہ ہو
یہ رنگ نہ ہو گلزاروں میں یہ نور نہ سیاروں میں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہمیں دنیا میں ہر ایک کے ساتھ اتحادویگانگت کا مظاہرہ کرنا ہے اور دین کی دعوت ان تک پہنچانی ہے اور اپنے مزاج میں ایک اعتدال رکھنا ہے۔آپ ﷺ عوامی حلقوں سے پوری طرح مربوط تھے، جماعت اور معاشرے سے شخصی اور نجی تعلق رکھتے تھے۔ علیحدگی پسندی، کبر یا یبوست کا شائبہ تک نہ تھا۔ در حقیقت آپﷺ نے جس نظام اخوت کی تاسیس فرمائی تھی یہ اس کا اہم تقاضا تھا کہ لوگ بام دگر مربوط رہیں۔ ایک دوسرے کے کام آئیں اورایک دوسرے کے حقوق پہچانیں۔
حضور ﷺ کی کامل زندگی کا ایک حصہ آپ ﷺ کا سماجی ربط ہے کہ آپ ﷺ ہر ایک کے ساتھ کس انداز سے پیش آتے اپنے، بیگانے، ہر ایک کا درد ﷺ کے دل میں ہوتا، ہر ایک کے لیے خیرکی تمنا لیے ہوتے، گھر سے نکلتے تو سلام میں ہمیشہ پہل کرتے اور فرماتے کہ سلام میں پہل کرنیوالا کبر سے محفوظ ہوتا ہے۔
بچوں کے ساتھ گفتگو فرماتے اور انھیں سلام کہتے۔ بچوں سے پیار بھی کرتے، بازارکو ناپسندیدہ جگہ سمجھتے، لیکن وہاں جاتے تو ہر ایک کو سلام کرتے۔ انتہائی خوش مزاج تھے اور متبسم رہتے۔ مسکراتے چہرے سے ملتے اور اسے نیکی اور شائستگی قرار دیا۔ صحابہؓ کی محفل میں بیٹھتے تو عام آدمی کوئی فرق محسوس نہیں کرتا تھا ۔ نماز صبح کے بعد خصوصی مجلس ہوتی تھی۔ اس میں قصے بھی ہوتے اور ہنسی بھی۔ بیماروں کی عیادت کا اہتمام کرتے۔ حدیث کی کتابوں میں آپ ﷺ کا وہ مشہور جملہ موجود ہے جو آپ ﷺ اکثر فرمایا کرتے تھے، وہ جملہ یہ ہے: ''لاباس طھور ان شاء اللہ'' مزاج بھی فرماتے۔ حضرت انسؓ کو ''یاذوالاذنین'' کہہ کر پکارتے۔ اشعار بھی سنے، انھیں پسند بھی فرمایا لبید کے درج ذیل ایک مصرع کو اصدق لکلمہ کہا۔
و کل نعیم لا محالۃ زائل
الا کل شئی ما خلا اللہ باطل
رشتے داروں سے حسن سلوک اور ہمسایوں کا خیال آپ ﷺ کی تعلیمات کا اہم حصہ ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:''جس کو یہ پسند ہو کہ اس کے رزق میں وسعت اور اس کی عمر میں برکت ہو اسے صلہ رحمی کرنی چاہیے''
''انسؓ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا اس خدا کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے بندہ مؤمن ہوتا جب تک وہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی کچھ پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتاہے''۔ ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا '' وہ شخص مومن نہیں، سوال کرنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا جس کی شرارتوں سے اس کا ہمسایہ محفوظ نہیں''
''جابر سمرہؓ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ والد نے اپنے بیٹے کو اچھے ادب سے بہتر عطیہ نہیں دیا۔''
اسی طرح آنجناب ﷺ کو غیبت، فحش گوئی، عیب چینی، حسد، بغض اور لوگوں کے درمیان عداوت پیدا کرنے سے شدید نفرت تھی۔ عبداللہ بن ابی کے سلسلہ میں مروت کا جو طریقہ آپ ﷺ نے اختیار فرمایا تھا وہ ایک مستقل نمونہ ہے۔ سماجی زندگی میں دو چیزیں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ ایک ایفائے عہد حسن سلوک دوسرے عفو و درگزر۔ حضورﷺ کی زندگی میں یہ دونوں خصوصیات بہت ابھری ہوئی ہیں۔
حمزہؓ کے قاتل وحشی اور ابو سفیان کی بیوی والوں کو ''لا تثریب علیکم الیوم'' فرمانا معاشرتی اور سیاسی زندگی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی طرح کے بے شمار واقعات ہیں جو آنجناب ﷺ کی زندگی کے اس پہلوکی تصویر کشی کرتے ہیں۔ ہمارے لیے حضور ﷺ کی سیرت میں فکر و عمل کے بے مثال نمونے ہیں۔ بالخصوص بین المذاہب، عالمی اتحاد و یگانگت وہم آہنگی کے حوالے سے اسلامی نقطہ نظر سے تمام اخلاق کی بنیاد رضائے الٰہی کا حصول ہے اس لیے خلق خدا کے لیے ہمدردی و خیر خواہی تمام اعمال کی محرک ہے۔تمام عالم ایک کنبہ کی مانند ہے۔
حضور ﷺ کا ارشاد ہے:''تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور اللہ کے نزدیک محبوب وہ ہے کہ کنبہ کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔''خلق خدا کے لیے محبت و شفقت ہر مومن سے مطلوب ہے۔ حضور اکرم ﷺ سے مروی احادیث میں لوگوں کے ساتھ نرم روی کو خصوصی اہمیت دی گئی۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' اللہ تعالیٰ تمام معاملات میں نرمی کو پسند کرتا ہے''
نفع بخشی و فیض رسانی اولین خلق ہے جس کے لیے حضور ﷺ نے توجہ دلائی، آپ نے فرمایا ''لوگوں میں سے بہتر وہ ہے جو انسانوں کو نفع پہنچاتا ہے۔''
یہ نفع بخش بغیر کسی ذاتی غرض و مصلحت کے ہے۔ رشتے داروں، عام ضرورت مندوں، عام انسانوں حتیٰ کہ جانوروں سے حسن سلوک پسندیدہ رویہ ہے۔ بد سلوکی اور ضرر رسانی ناپسندیدہ رویہ ہے۔ آنحضور ﷺ سے مروی ہے:''اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت کے دن رتبے کے لحاظ سے بد ترین انسان وہ ہوگا جس کے شرکے ڈر سے لوگ اسے چھوڑ دیں۔''
ابو موسیٰ اشعری روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ہر مسلمان پر صدقہ ہے۔ لوگوں نے کہاکہ اگر وہ نہیں کرسکتا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے ہاتھوں کی محنت کرنی چاہیے۔ اپنے آپ کو بھی فائدہ پہنچائے اور صدقہ بھی کرے۔ انھوں نے کہاکہ اگر وہ نہ کرسکے یا نہ کرے؟تو آپ ﷺ نے فرمایا: وہ صاحب حاجت کی اعانت کرے۔ کہا گیا اگر وہ نہ کرے؟آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ بھلائی یا معروف کا حکم دے۔ حاضرین نے کہاکہ اگر وہ نہ کرے تو؟ آپ ﷺ نے فرمایا وہ برائی کرنے سے رک جائے یہی اس کا صدقہ ہے۔
ہمدردی و خیر خواہی کا یہ بنیادی اخلاقی اصول صرف انسانوں تک محدود نہیں یہ جانوروں اور ماحول تک پر محیط ہے۔ ایک مومن جانوروں کے ساتھ بھی نرم رویہ اختیار کرتا ہے اور درختوں اور سبزہ زمین اور فضا کو بھی محفوظ کرتا ہے۔ امام بخاریؒ نے اپنی صحیح میں ایک باب باندھا ہے جس کا عنوان ''رحمۃ النسان بالبھائم'' یعنی انسانوں اور جانوروں کے ساتھ مہربانی کا سلوک، اس باب میں انھوں نے مختلف احادیث درج کی ہیں۔ ہم صرف دو نقل کررہے ہیں جن سے واضح ہوگا کہ آپ ﷺ کے نزدیک تمام مخلوق سے حسن تعلق کتنا اہم ہے ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا ''ایک شخص راستے میں جارہاتھا کہ اس پر پیاس کا غلبہ ہوا اسے کنواں معلوم ہوا تووہ اس میں اترا اور پانی پیا، پھر وہ نکلا تو اسے ایک کتا نظر آیا جو پیاس سے ہانپ رہا تھا اور مٹی کھا رہا تھا اس شخص نے کہا اسے بھی پیاس لگی ہے جس طرح مجھے لگی تھی۔ پھر وہ کنویں میں اترا اور اپنا موزہ پانی سے بھرا اور منہ میں اٹھایا اور کتے کو پلایا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا عمل قبول کیا اور اسے بخش دیا۔ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ ﷺ حیوانوں کی خدمت میں بھی اجر ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا ہر زندگی والے کی خدمت میں اجر ہے۔''
''کوئی مسلمان جب کوئی درخت یا پودا لگاتا ہے اور اس سے کوئی انسان یا چوپایا کھاتا ہے تو یہ اس کی جانب سے صدقہ ہوگا۔''
ایک مومن اپنے ماحول کے لیے رحمت ۔ وہ انسانوں اور حیوانوں کے لیے نفع بخش ہے اس سے ماحول کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا اور یہ سب کچھ محض اللہ کے لیے بغیر کسی ذاتی غرض کے ہوتا ہے ۔ مومن اپنے حسن خلق اور ہمدردانہ رویے کی وجہ سے معاشرت اور ماحول کے لیے سرتا پا رحمت ہوتا ہے اور اس کا رویہ رحمت، محبت اور خیر خواہی کا ہوتا ہے۔
اب ہماری یہ ذمے داری ہے کہ ہم محبت، رحمت اور خیر خواہی کا جذبہ عالمی سطح تک پھیلائیں اور بین الاقوامی و بین المذاہب ، عالمی اتحاد، یگانگت وہم آہنگی کے لیے اسوۂ حسنہ کی روشنی میں عملی کردار ادا کریں۔
محبت کے یوں جس نے دریا بہائے،
دل ان کا بھی چھینا جو سر لینے آئے
یہ بندہ نوازی کے جوہر دکھائے
کہ جو کھائے اور جواہر لٹائے
خوشی اپنے غیروں کے غم میں بھلادی
دیا درد جس نے اسے بھی دوا دی