سیکولرازم کی مخالفت کیوں
سیکولرازم کو انسان دوستی کا خوشنما نام دے کر پیش کیا جاتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ سیکولرازم ایک لادینی نظریہ ہے۔
گزشتہ ماہ میرا ایک کالم باعنوان ''سیکولر ازم اور مذہبی استدلال'' شایع ہوا۔ کالم کی اشاعت کے بعد ہمارے ایک بہت عزیز اور دیرینہ دوست عبداللطیف انصاری جن کا تعلق ایک دینی سیاسی جماعت سے ہے ان کی جانب سے ایک پر شکوہ ٹیلیفون کال موصول ہوئی۔ انھوں نے میری تحریر پر اپنی سخت ناپسندیدگی اور ناراضگی کا اظہار کیا۔
انھیں شکایت تھی کہ تحریر میں سیاست میں مذہب کی شمولیت کے اعتراضات کے حوالے سے سیکولر عناصر کے نقطہ نظر کو بھرپور انداز میں پیش کیا گیا لیکن دینی سیاسی جماعتیں اس ضمن میں اپنا کیا موقف رکھتی ہیں اس پر آپ نے ایک جملہ بھی لکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ آپ کا یہ طرز عمل نہ صرف عدل و انصاف کے منافی بلکہ سراسر علمی بد دیانتی ہے۔ انصاری صاحب کی اس بات کے جواب میں میرا کہنا یہ تھا کہ میں سیاست میں دینی سیاسی جماعتوں کی شمولیت کے حوالے سے اپنے متعدد کالموں میں ان کا موقف عمومی طور پر پیش کر چکا ہوں اس لیے میں نے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
مگر میرے ان دوست کا اصرار تھا کہ مجھے اس بات کو تفصیل سے پیش کیا جانا چاہیے تھا کہ دینی سیاسی جماعتیں سیکولرازم کی مخالفت کیوں کرتی ہیں۔ اپنے دوست کی اس شکایت کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی گزشتہ کالموں کے تناظر میں دینی سیاسی جماعتوں کے موقف کو تحریر میں لارہاہوں۔
دینی سیاسی جماعتوں کے نزدیک شیطان نے ہر دور میں ایسی نت نئی تراکیب اور اصطلاحات واضح کی ہیں جو بظاہر نہایت پرکشش اور دلفریب نظر آتی ہیں لیکن یہ انسانی ہلاکت اور تباہی کے مہلک ترین حربے ثابت ہوئی ہیں۔ مثلاً بے راہ روی، عریانی اور فحاشی کا نام آرٹ رکھ دیا جانا، منافقت، دھوکا دہی، مکاری، فریب کو ڈپلومیسی کے نام دینا اس کی مثالیں ہیں اسی طرح انسانی خیالات، افکار کو بے لگام کرکے اس کو اخلاق سے بیگانہ اورگمراہ کرنے کے عمل کو آزادی فکر کا نام دیا گیا ہے۔ ہر وہ چیز جو پہلے سے چلی آرہی ہو وہ اپنی اندر افادیت کے چاہے کتنے ہی پہلو رکھتی ہو اسے رد کردینا، آزاد خیالی اور روشن خیالی قرار پایا۔ معاشی استحصال کا نام کیپیٹل ازم رکھ دیا گیا۔ ہر ایک کو امیر نہیں بنایا جاسکتا۔
اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ سب کو پکڑ کر زبردستی غریب کردیا جائے اس طرز عمل کو سوشلزم کا نام دے دیا گیا۔ آپ آگے جانا چاہتے ہیں کوئی آپ کی راہ میں حائل ہے تو آپ اس کی گردن پر اپنا پاؤں رکھ کر آگے جاسکتے ہیں اس بے اصولی، جبر اور نا انصافی کا نام قومی مفاد رکھ دیا گیا۔ (اس وقت دنیا میں قومی مفادات کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ) انسان میں ہوس زر اور دولت کا بچاری بناکر اس کو بے سکونی کے جہنم میں دھکیلنے کے عمل کو ترقی اور جدیدیت کا نام دے دیا گیا۔
جمہوریت کو اکثریت کی حکمرانی کا نام دے کر اقلیتی گروہ کو عوام الناس پر مسلط کردیا ۔ اسی طرح سیکولر ازم ہے جسے انسان دوستی کا خوشنما نام دے کر پیش کیا جاتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ سیکولر ازم ایک لادینی نظریہ ہے۔جو الہامی ہدایات کا حریف رہا ہے اس کا مزاج کچھ اس طرح کا ہے کہ اس کے تحت جو تعلیم دی جاتی ہے۔ اس سے انسان کا ذہن کچھ اس طرح کا بن جاتا ہے کہ اس تعلیم کے بعد دہریت نہیں تو آدمی دین کی طرف سے بے عملی کا شکار ضرور ہوجاتا ہے۔
اس نظام میں قانون کو اس کے روحانی اور اخلاقی پس منظر سے کاٹ دیا جاتا ہے، جس سے انسان میں خود احتسابی کا عمل ختم ہوجاتا ہے نتیجے میں معاشرے کا ہر فرد نفسانی خواہشات کا غلام بن جاتا ہے جس سے معاشرہ روحانی اور اخلاقی طور پر بانجھ ہوجاتا ہے ، جو لوگ دینی سیاسی جماعتوں کی سیاست میں شمولیت کے خلاف ہیں در اصل وہ ریاست کو مذہب کی روک ٹوک سے آزاد کرکے اپنا کھیل کھل کر کھیلنا چاہتے ہیں تاکہ معاشرے سے اخلاقی اقدار کا خاتمہ کیا جاسکے۔دینی سیاسی جماعتوں کے نزدیک انسان کے بنائے ہوئے قوانین کسی فرد یا گروہ کے مفادات کے تابع ہوتے ہیں جو اس کے نفسانی خواہشات کی تکمیل کرتے ہیں۔
اس لیے رب تعالیٰ کی طرف سے حکم دیا گیا ہے کہ اﷲ کی زمین پر اﷲ کا قانون نافذ ہونا چاہیے۔ انسان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے بنائے ہوئے قوانین کو اﷲ کی زمین پر نافذ کرے۔ حضورؐکی حیات مبارکہ کا مطالعہ کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں دعوت تبلیغ ہے وہاں جلا وطنی (ہجرت) سماجی بائیکاٹ (شعب ابی طالب کی گھاٹی کا واقعہ) بھی، جنگ بدر بھی ہے اور جنگ اُحد بھی اور مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کا قیام بھی یہ ہے، حضورؐ کی سیاسی زندگی ایک کامل مسلمان کی، آپ کی زندگی کے ان پہلوؤںکو نظر انداز نہیں کرسکتا یہی وجہ ہے کہ دینی سیاسی جماعتیں پاکستان میں اسلامی حکومت کے قیام کے لیے کوشاں ہیں۔
جب بھی پاکستان میں اسلامی نظام حکومت کے قیام کی بات کی جاتی ہے تو سیکولر عناصر کی جانب سے علما کے آپس کے اختلافات کو خواہ مخواہ ہوا بناکر پیش کیا جاتا ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ریاست میں مذہب کی مداخلت کے نتیجے میں فرقہ پرستی کو فروغ حاصل ہوگا، جب کہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ ایران کا اسلامی انقلاب اور افغانستان میں طالبان کا دور حکومت امن امان کے حوالے سے ایک مثالی دور رہا ہے۔ البتہ اقلیتوں کو جو مذہبی اعتبار سے ہوں یا مسلکی اعتبار سے انھیں کچھ جزوی شکایت ضرور رہی ہیں۔ ایسی شکایات سیکولر معاشرے میں بھی دیکھنے میں آتی ہیں۔علما کی جانب سے ایوب خان کے نافذ کردہ عائلی قوانین کے خاتمے کے لیے کی جانے والی جد وجہد کو بعض عناصر کی جانب سے تنقید اور مذاق کا نشانہ بنایا بالخصوص مرد کی دوسری شادی کے مسئلے کو خوب ہوا دی جاتی ہے۔
یہ عناصر یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ایسے مسائل خود سیکولر معاشرے میں بھی زیر بحث رہے ہیں۔ ہم جنس پرستوں کی باہم شادی کا قانون سیکولر معاشرے میں کافی عرصہ زیر بحث رہا ہے لبرل اور سیکولر عناصر کی جانب سے اس معاملے پر خاموشی فہم سے بالاتر ہے۔
بعض عناصر دینی سیاسی جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں وہ عناصر یہ بھول جاتے ہیں کہ دعوت و تبلیغ کے نتیجے میں ایک فرد کو دوسرے فرد کی غربت کے خاتمے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے لیکن جو نظام غربت کو غریب تر بنا رہا ہے اس کی اصلاح کے بغیر ممکن نہیں۔ دینی سیاسی جماعتوں کے نزدیک مغرب کا سیاسی نظام مغربی ذہن کی پیداوار ہے۔ مغرب ایک مادہ پرست معاشرہ ہے مغربی ذہن میں مادیت پرستی کو اولین حیثیت حاصل ہے ہم رواج کو نظر انداز کرکے مادیت پر اپنی فکر کو استوار نہیں کرسکتے یعنی مسلمان دین کے بغیر کسی فلسفہ زندگی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں چاہے وہ نظام سیاست کیوں نہ ہو۔ میری ذاتی رائے میں سیکولر اور دینی سیاسی قوتوں کے مابین کشمکش اور فکر ٹکراؤ نے قوم کو فکری انتشار میں مبتلا کردیا ہے بقول شاعر:
ایماں مجھے روکے ہے توکھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے
اس کیفیت اور ذہنی الجھاؤ سے نجات کا ایک ہی راستہ ہے با حیثیت مجموعی ایک قوم ہمیں اپنی ایک سمت متعین کرلینی چاہیے ایسی صورت میں بھی فکری انتشار سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔
انھیں شکایت تھی کہ تحریر میں سیاست میں مذہب کی شمولیت کے اعتراضات کے حوالے سے سیکولر عناصر کے نقطہ نظر کو بھرپور انداز میں پیش کیا گیا لیکن دینی سیاسی جماعتیں اس ضمن میں اپنا کیا موقف رکھتی ہیں اس پر آپ نے ایک جملہ بھی لکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ آپ کا یہ طرز عمل نہ صرف عدل و انصاف کے منافی بلکہ سراسر علمی بد دیانتی ہے۔ انصاری صاحب کی اس بات کے جواب میں میرا کہنا یہ تھا کہ میں سیاست میں دینی سیاسی جماعتوں کی شمولیت کے حوالے سے اپنے متعدد کالموں میں ان کا موقف عمومی طور پر پیش کر چکا ہوں اس لیے میں نے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
مگر میرے ان دوست کا اصرار تھا کہ مجھے اس بات کو تفصیل سے پیش کیا جانا چاہیے تھا کہ دینی سیاسی جماعتیں سیکولرازم کی مخالفت کیوں کرتی ہیں۔ اپنے دوست کی اس شکایت کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی گزشتہ کالموں کے تناظر میں دینی سیاسی جماعتوں کے موقف کو تحریر میں لارہاہوں۔
دینی سیاسی جماعتوں کے نزدیک شیطان نے ہر دور میں ایسی نت نئی تراکیب اور اصطلاحات واضح کی ہیں جو بظاہر نہایت پرکشش اور دلفریب نظر آتی ہیں لیکن یہ انسانی ہلاکت اور تباہی کے مہلک ترین حربے ثابت ہوئی ہیں۔ مثلاً بے راہ روی، عریانی اور فحاشی کا نام آرٹ رکھ دیا جانا، منافقت، دھوکا دہی، مکاری، فریب کو ڈپلومیسی کے نام دینا اس کی مثالیں ہیں اسی طرح انسانی خیالات، افکار کو بے لگام کرکے اس کو اخلاق سے بیگانہ اورگمراہ کرنے کے عمل کو آزادی فکر کا نام دیا گیا ہے۔ ہر وہ چیز جو پہلے سے چلی آرہی ہو وہ اپنی اندر افادیت کے چاہے کتنے ہی پہلو رکھتی ہو اسے رد کردینا، آزاد خیالی اور روشن خیالی قرار پایا۔ معاشی استحصال کا نام کیپیٹل ازم رکھ دیا گیا۔ ہر ایک کو امیر نہیں بنایا جاسکتا۔
اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ سب کو پکڑ کر زبردستی غریب کردیا جائے اس طرز عمل کو سوشلزم کا نام دے دیا گیا۔ آپ آگے جانا چاہتے ہیں کوئی آپ کی راہ میں حائل ہے تو آپ اس کی گردن پر اپنا پاؤں رکھ کر آگے جاسکتے ہیں اس بے اصولی، جبر اور نا انصافی کا نام قومی مفاد رکھ دیا گیا۔ (اس وقت دنیا میں قومی مفادات کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ) انسان میں ہوس زر اور دولت کا بچاری بناکر اس کو بے سکونی کے جہنم میں دھکیلنے کے عمل کو ترقی اور جدیدیت کا نام دے دیا گیا۔
جمہوریت کو اکثریت کی حکمرانی کا نام دے کر اقلیتی گروہ کو عوام الناس پر مسلط کردیا ۔ اسی طرح سیکولر ازم ہے جسے انسان دوستی کا خوشنما نام دے کر پیش کیا جاتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ سیکولر ازم ایک لادینی نظریہ ہے۔جو الہامی ہدایات کا حریف رہا ہے اس کا مزاج کچھ اس طرح کا ہے کہ اس کے تحت جو تعلیم دی جاتی ہے۔ اس سے انسان کا ذہن کچھ اس طرح کا بن جاتا ہے کہ اس تعلیم کے بعد دہریت نہیں تو آدمی دین کی طرف سے بے عملی کا شکار ضرور ہوجاتا ہے۔
اس نظام میں قانون کو اس کے روحانی اور اخلاقی پس منظر سے کاٹ دیا جاتا ہے، جس سے انسان میں خود احتسابی کا عمل ختم ہوجاتا ہے نتیجے میں معاشرے کا ہر فرد نفسانی خواہشات کا غلام بن جاتا ہے جس سے معاشرہ روحانی اور اخلاقی طور پر بانجھ ہوجاتا ہے ، جو لوگ دینی سیاسی جماعتوں کی سیاست میں شمولیت کے خلاف ہیں در اصل وہ ریاست کو مذہب کی روک ٹوک سے آزاد کرکے اپنا کھیل کھل کر کھیلنا چاہتے ہیں تاکہ معاشرے سے اخلاقی اقدار کا خاتمہ کیا جاسکے۔دینی سیاسی جماعتوں کے نزدیک انسان کے بنائے ہوئے قوانین کسی فرد یا گروہ کے مفادات کے تابع ہوتے ہیں جو اس کے نفسانی خواہشات کی تکمیل کرتے ہیں۔
اس لیے رب تعالیٰ کی طرف سے حکم دیا گیا ہے کہ اﷲ کی زمین پر اﷲ کا قانون نافذ ہونا چاہیے۔ انسان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے بنائے ہوئے قوانین کو اﷲ کی زمین پر نافذ کرے۔ حضورؐکی حیات مبارکہ کا مطالعہ کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں دعوت تبلیغ ہے وہاں جلا وطنی (ہجرت) سماجی بائیکاٹ (شعب ابی طالب کی گھاٹی کا واقعہ) بھی، جنگ بدر بھی ہے اور جنگ اُحد بھی اور مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کا قیام بھی یہ ہے، حضورؐ کی سیاسی زندگی ایک کامل مسلمان کی، آپ کی زندگی کے ان پہلوؤںکو نظر انداز نہیں کرسکتا یہی وجہ ہے کہ دینی سیاسی جماعتیں پاکستان میں اسلامی حکومت کے قیام کے لیے کوشاں ہیں۔
جب بھی پاکستان میں اسلامی نظام حکومت کے قیام کی بات کی جاتی ہے تو سیکولر عناصر کی جانب سے علما کے آپس کے اختلافات کو خواہ مخواہ ہوا بناکر پیش کیا جاتا ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ریاست میں مذہب کی مداخلت کے نتیجے میں فرقہ پرستی کو فروغ حاصل ہوگا، جب کہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ ایران کا اسلامی انقلاب اور افغانستان میں طالبان کا دور حکومت امن امان کے حوالے سے ایک مثالی دور رہا ہے۔ البتہ اقلیتوں کو جو مذہبی اعتبار سے ہوں یا مسلکی اعتبار سے انھیں کچھ جزوی شکایت ضرور رہی ہیں۔ ایسی شکایات سیکولر معاشرے میں بھی دیکھنے میں آتی ہیں۔علما کی جانب سے ایوب خان کے نافذ کردہ عائلی قوانین کے خاتمے کے لیے کی جانے والی جد وجہد کو بعض عناصر کی جانب سے تنقید اور مذاق کا نشانہ بنایا بالخصوص مرد کی دوسری شادی کے مسئلے کو خوب ہوا دی جاتی ہے۔
یہ عناصر یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ایسے مسائل خود سیکولر معاشرے میں بھی زیر بحث رہے ہیں۔ ہم جنس پرستوں کی باہم شادی کا قانون سیکولر معاشرے میں کافی عرصہ زیر بحث رہا ہے لبرل اور سیکولر عناصر کی جانب سے اس معاملے پر خاموشی فہم سے بالاتر ہے۔
بعض عناصر دینی سیاسی جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں وہ عناصر یہ بھول جاتے ہیں کہ دعوت و تبلیغ کے نتیجے میں ایک فرد کو دوسرے فرد کی غربت کے خاتمے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے لیکن جو نظام غربت کو غریب تر بنا رہا ہے اس کی اصلاح کے بغیر ممکن نہیں۔ دینی سیاسی جماعتوں کے نزدیک مغرب کا سیاسی نظام مغربی ذہن کی پیداوار ہے۔ مغرب ایک مادہ پرست معاشرہ ہے مغربی ذہن میں مادیت پرستی کو اولین حیثیت حاصل ہے ہم رواج کو نظر انداز کرکے مادیت پر اپنی فکر کو استوار نہیں کرسکتے یعنی مسلمان دین کے بغیر کسی فلسفہ زندگی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں چاہے وہ نظام سیاست کیوں نہ ہو۔ میری ذاتی رائے میں سیکولر اور دینی سیاسی قوتوں کے مابین کشمکش اور فکر ٹکراؤ نے قوم کو فکری انتشار میں مبتلا کردیا ہے بقول شاعر:
ایماں مجھے روکے ہے توکھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے
اس کیفیت اور ذہنی الجھاؤ سے نجات کا ایک ہی راستہ ہے با حیثیت مجموعی ایک قوم ہمیں اپنی ایک سمت متعین کرلینی چاہیے ایسی صورت میں بھی فکری انتشار سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔