اسلام آباد ہائیکورٹ کا دھرنا ختم کرنے کیلئے آپریشن کا حکم
ضلعی انتظامیہ کا دھرنے کے قائدین کو رات دس بجے تک منتشر ہونے کا الٹی میٹم، مظاہرین کی گرفتاریاں شروع
ہائیکورٹ نے ضلعی انتظامیہ کو حکم دیا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے دھرنا ختم کرنے کی کوشش کی جائے تاہم بات چیت ناکام ہونے پر رینجرز کا آپریشن کرکے دھرنا ختم کیا جائے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیض آبادمیں دھرنا صبح 10 بجے تک ختم کرانے کا حکم دے دیا۔ دھرناختم کرانے کے لیے رینجرزاور ایف سی کی مدد لی جائے۔
فیض آباد کے اردگرد دھرنے میں جانے والے مظاہرین کی گرفتاریاں شروع ہوگئی ہیں اور متعدد افراد کو تھانے میں بند کردیا گیا ہے جب کہ رینجرز کی گاڑیاں بھی فیض آباد انٹر چینج کے قریب پہنچ گئی ہیں جب کہ راستوں کو خار دار تاریں لگا کر سیل کردیا گیا ہے ، پولیس نے ٹرانسپورٹ اڈوں میں گاڑی مالکان کو مسافروں کو بیٹھا کر جلد نکل جانے کی ہدایت کردی۔
دوسری جانب ڈی سی اسلام آباد نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ دھرنے میں 1800 سے 2 ہزار کے قریب افراد شامل ہیں۔ مظاہرین نے پتھر جمع کیے ہوئے ہیں اور ان کے پاس 10 سے 12 ہتھیار بھی ہیں۔ موسم سرما کی وجہ سے اندھیرا جلد ہوجاتا ہے جب کہ انتظامیہ کو آپریشن کے لیے 3 سے 4 گھنٹوں کا وقت درکار ہے، اندھیرے میں آپریشن سے نقصان ہو سکتا ہے۔
قبل ازیں جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے دھرنے کے خلاف کرنل انعام کی درخواست کی سماعت کی۔ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد اور ڈی آئی جی آپریشن ہائی کورٹ میں پیش ہوئے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیض آباد میں مذہبی جماعتوں کا دھرنا کل صبح 10 بجے تک ختم کرانے کا حکم دے دیا۔
عدالت نے حکم دیا کہ مذاکرات کے ذریعے کوشش کریں کہ دھرنا ختم ہو جائے، بات چیت ناکام ہونے پر رینجرز اور ایف سی کے ذریعے دھرنا دینے والوں کے خلاف آپریشن کریں۔ عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ اسلام آباد انتظامیہ ناکام ہو گئی ہے اور 10 دن میں اس نے محض تماشائی کا کردار ادا کیا ہے۔
عدالتی فیصلے کے بعد آئی جی اسلام آباد نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی سے ملاقات کی اور دھرنا ختم کرانے کا عدالتی حکم نامہ لے کر واپس روانہ ہوگئے ہیں۔ ہائی کورٹ کے حکم کے بعد فیض آباد انٹر چینج پر پولیس حرکت میں آ گئی ہے اور تعینات اہلکاروں کو الرٹ کر دیا گیا ہے۔ پولیس نے دھرنے کی جانب جانے والی گاڑیوں اور افراد کی سخت تلاشی شروع کردی ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق فوری آپریشن کی صورت میں عام شہریوں کی بڑی تعداد زد میں آ سکتی ہے، کیونکہ فیض آباد کے ہوٹل کھلے ہوئے ہیں جب کہ بس اڈوں پر سینکڑوں مسافر اور ٹرانسپورٹر موجود ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے کل مذہبی جماعتوں کو فیض آباد انٹرچینج پر گزشتہ کئی روز سے جاری دھرنا ختم کرنے کا حکم دیا تھا تاہم عدالتی حکم کے باوجود مذہبی جماعتوں کا دھرنا جاری ہے۔ فیض آباد انٹرچینج اوراطراف کی سڑکیں آج بھی ٹریفک کیلئے بند ہیں جس کے باعث شہریوں، سرکاری ملازمین، طلبہ و طالبات کو شدید سفری مشکلات کا سامنا ہے جب کہ فیض آباد اوراطراف کے علاقے میں انٹرنیٹ سروسز بھی معطل ہے۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ کا مذہبی جماعتوں کو دھرنا ختم کرنے کا حکم
جڑواں شہروں کو ملانے والے متبادل راستوں پرٹریفک کا شدید رش ہے، ٹریفک پولیس ٹریفک کورواں دواں رکھنے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ دھرنا دینے والے افراد کے رہنماؤں کا اس حوالے کہنا ہے کہ مطالبات کی منظوری تک دھرنا ختم نہیں کریں گے۔
واضح رہے کہ مذہبی جماعتوں نے فیض آباد انٹرچینج پر گزشتہ 12 روز سے دھرنا دے رکھا ہے، دھرنے کے شرکا ختم نبوت سے متعلق آئینی شقوں میں ردو بدل کرنے والوں کے خلاف کارروائی اور وزیر قانون زاہد حامد کے استعفیٰ کا مطالبہ کررہے ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیض آبادمیں دھرنا صبح 10 بجے تک ختم کرانے کا حکم دے دیا۔ دھرناختم کرانے کے لیے رینجرزاور ایف سی کی مدد لی جائے۔
فیض آباد کے اردگرد دھرنے میں جانے والے مظاہرین کی گرفتاریاں شروع ہوگئی ہیں اور متعدد افراد کو تھانے میں بند کردیا گیا ہے جب کہ رینجرز کی گاڑیاں بھی فیض آباد انٹر چینج کے قریب پہنچ گئی ہیں جب کہ راستوں کو خار دار تاریں لگا کر سیل کردیا گیا ہے ، پولیس نے ٹرانسپورٹ اڈوں میں گاڑی مالکان کو مسافروں کو بیٹھا کر جلد نکل جانے کی ہدایت کردی۔
دوسری جانب ڈی سی اسلام آباد نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ دھرنے میں 1800 سے 2 ہزار کے قریب افراد شامل ہیں۔ مظاہرین نے پتھر جمع کیے ہوئے ہیں اور ان کے پاس 10 سے 12 ہتھیار بھی ہیں۔ موسم سرما کی وجہ سے اندھیرا جلد ہوجاتا ہے جب کہ انتظامیہ کو آپریشن کے لیے 3 سے 4 گھنٹوں کا وقت درکار ہے، اندھیرے میں آپریشن سے نقصان ہو سکتا ہے۔
قبل ازیں جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے دھرنے کے خلاف کرنل انعام کی درخواست کی سماعت کی۔ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد اور ڈی آئی جی آپریشن ہائی کورٹ میں پیش ہوئے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیض آباد میں مذہبی جماعتوں کا دھرنا کل صبح 10 بجے تک ختم کرانے کا حکم دے دیا۔
عدالت نے حکم دیا کہ مذاکرات کے ذریعے کوشش کریں کہ دھرنا ختم ہو جائے، بات چیت ناکام ہونے پر رینجرز اور ایف سی کے ذریعے دھرنا دینے والوں کے خلاف آپریشن کریں۔ عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ اسلام آباد انتظامیہ ناکام ہو گئی ہے اور 10 دن میں اس نے محض تماشائی کا کردار ادا کیا ہے۔
عدالتی فیصلے کے بعد آئی جی اسلام آباد نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی سے ملاقات کی اور دھرنا ختم کرانے کا عدالتی حکم نامہ لے کر واپس روانہ ہوگئے ہیں۔ ہائی کورٹ کے حکم کے بعد فیض آباد انٹر چینج پر پولیس حرکت میں آ گئی ہے اور تعینات اہلکاروں کو الرٹ کر دیا گیا ہے۔ پولیس نے دھرنے کی جانب جانے والی گاڑیوں اور افراد کی سخت تلاشی شروع کردی ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق فوری آپریشن کی صورت میں عام شہریوں کی بڑی تعداد زد میں آ سکتی ہے، کیونکہ فیض آباد کے ہوٹل کھلے ہوئے ہیں جب کہ بس اڈوں پر سینکڑوں مسافر اور ٹرانسپورٹر موجود ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے کل مذہبی جماعتوں کو فیض آباد انٹرچینج پر گزشتہ کئی روز سے جاری دھرنا ختم کرنے کا حکم دیا تھا تاہم عدالتی حکم کے باوجود مذہبی جماعتوں کا دھرنا جاری ہے۔ فیض آباد انٹرچینج اوراطراف کی سڑکیں آج بھی ٹریفک کیلئے بند ہیں جس کے باعث شہریوں، سرکاری ملازمین، طلبہ و طالبات کو شدید سفری مشکلات کا سامنا ہے جب کہ فیض آباد اوراطراف کے علاقے میں انٹرنیٹ سروسز بھی معطل ہے۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ کا مذہبی جماعتوں کو دھرنا ختم کرنے کا حکم
جڑواں شہروں کو ملانے والے متبادل راستوں پرٹریفک کا شدید رش ہے، ٹریفک پولیس ٹریفک کورواں دواں رکھنے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ دھرنا دینے والے افراد کے رہنماؤں کا اس حوالے کہنا ہے کہ مطالبات کی منظوری تک دھرنا ختم نہیں کریں گے۔
واضح رہے کہ مذہبی جماعتوں نے فیض آباد انٹرچینج پر گزشتہ 12 روز سے دھرنا دے رکھا ہے، دھرنے کے شرکا ختم نبوت سے متعلق آئینی شقوں میں ردو بدل کرنے والوں کے خلاف کارروائی اور وزیر قانون زاہد حامد کے استعفیٰ کا مطالبہ کررہے ہیں۔