- صارم برنی کی درخواست ضمانت پر ایف آئی اے کو جواب جمع کرانے کےلیے مہلت
- سپریم کورٹ نے 63 اے کے فیصلے سے آئینی ترمیم کی راہ ہموار کردی، سلمان اکرم راجہ
- کے پی کے وسائل کو پنجاب پر حملے کے بجائے عوام پر خرچ کرنا چاہیے، مریم نواز
- امریکا؛ نائب صدر کے امیدواروں کے درمیان مباحثہ کیسا رہا ؟
- 63 اے کا فیصلہ قبول کرتے ہیں مگر میچ فکسنگ نہیں ہونی چاہے، فضل الرحمان
- 63 اے فیصلے سے پنجاب حکومت گرائی گئی تھی، حمزہ شہباز کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کا خیرمقدم
- حکومت نے پروویڈنٹ فنڈ کیلئے منافع کی شرح میں کمی کردی
- چیف الیکشن کمشنر کیخلاف درخواست بلیک میلنگ کیلیے دائر کی گئی، الیکشن کمیشن
- حکومت نے دیت کی رقم میں 13لاکھ 46ہزار روپے کا اضافہ کر دیا
- بلاول کا جماعت اسلامی کے غزہ ملین مارچ کی حمایت کا اعلان
- کے الیکٹرک کی کپیسٹی اتنی نہیں تھی جتنا ان کو دیدیا گیا، پاور ڈویژن کی قائمہ کمیٹی کو بریفنگ
- اظہار رائے اور آزادی کا یہ مطلب نہیں سب بلاک کردیں؟ اسلام آباد ہائیکورٹ
- اگر کے الیکٹرک کا لائسنس منسوخ کر دیا جائے تو ملک میں انارکی ہوگی، نیپرا
- اسرائیل کے فضائی حملے میں غزہ حکومت کے سربراہ اور 2 وزرا شہید
- چیف جسٹس ارکان کی خرید و فروخت کا ماحول پیدا کررہے ہیں، عارف علوی
- ڈاکٹر ذاکر نائیک اسلام آباد میں تقریب کے دوران اسٹیج چھوڑ کر چلے گئے
- لاپتا افراد کی بازیابی کی درخواست؛ ملک بھرکےحراستی مراکز سے رپورٹ طلب
- اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کیخلاف درخواست خارج کر دی
- پی ٹی آئی رہنماؤں کی درخواست ضمانت خارج؛ عدالت سے فرار
- کپاس کی پیداوار میں کمی کے باعث جننگ اور صنعتی شعبے کیلیے نئے بحران کا خدشہ
اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کیخلاف درخواست خارج کر دی
اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی تعیناتی کے خلاف دائر درخواست خارج کر دی۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کر دی۔ عدالت نے آج صبح دلائل سننے کے بعد درخواست قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
قبل ازیں، چیف جسٹس عامر فاروق نے درخواست گزار اکرم باری کی درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار اکرم باری اپنے وکیل کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے۔
وکیل درخواست گزار نے دلائل میں کہا کہ سکندر سلطان راجہ جب تعینات ہوئے تب حاضر سروس بیوروکریٹ تھے اور سپریم کورٹ فیصلے کے مطابق سینیئر سول سرونٹ کو تعینات نہیں کیا جا سکتا، گریڈ 22 کے ریٹائرڈ افسران کو تعینات کیا جا سکتا ہے، سپریم کورٹ کا موجودہ یا سابق جج بھی تعینات ہو سکتا تھا۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ پھر ترمیم کر دی گئی، 2016 میں ترمیم ہوئی اور اس کے بعد ریٹائرڈ افسر تعینات ہوا، وہ اس لیے کہ ریٹائرڈ افسر کسی کے ماتحت نہیں ہوتا، چیف الیکشن کمشنر حاضر سروس ملازم ہیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ اس میں کچھ لگایا آپ نے کیا، آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ ایسا ہی ہوا؟ وکیل درخواستگزار نے بتایا کہ یہ ان کی ویب سائٹ پر ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مجھے مطمئن کریں اور کچھ ثابت کریں، سیٹی کی آواز آئے گی تو میں آگے بھی اطلاع دوں گا نا۔ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ مجھے وقت دے دیں، میں بریف کر دوں گا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل بغیر نوٹس روسٹرم پر آئے اور کہا کہ میرے پاس چیف الیکشن کمشنر بننے سے قبل ریٹائرمنٹ کا نوٹیفکیشن ہے۔
چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو بلایا ہی نہیں اور نہ نوٹس ہوئے ابھی، لگتا ہے آپ کو بہت جلدی ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ 24 جنوری 2020 کو چیف الیکشن کمشنر بنایا گیا جبکہ وہ نومبر 2019 ریٹائرڈ ہو چکے تھے۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ یہ دیکھ لیں وہ تو ریٹائرڈ ہو چکے تھے، اوکے شکریہ، اس کو دیکھ لیتے ہیں۔
واضح رہے کہ درخواست گزار اکمل خان باری نے سردار لطیف کھوسہ کے ذریعے درخواست دائر کی تھی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔