- پی ٹی آئی احتجاج؛ ارکان اسمبلی کی اسپیکر کی اجازت کے بغیر گرفتاری پر تحقیقات شروع
- ایس سی او اجلاس؛ اسلام آباد ایئرپورٹ کے قریب تمام ہوٹلز، کاروباری مراکز بند
- اسلام آباد 15اکتوبر احتجاج؛ وزیراعلیٰ کے پی نے اہم اجلاس طلب کرلیا
- عمران خان کی رہائی اور مقدمات کے خاتمے تک احتجاج جاری رہے گا، بیرسٹر سیف
- نوشہرہ؛ رشتے سے انکار پر نوجوان کی فائرنگ سے لڑکی جاں بحق
- پشتون جرگے پر وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کا اسمبلی کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ
- دنیا میں تنہا ہونے کا تاثر زائل، سفارتی و معاشی لحاظ سے فائدہ ہوگا!!
- کراچی؛ باپ بیٹے کو اغوا اور لوٹ مار کے بعد زخمی کرکے پھینک دیا گیا
- لاہور سے نیوزی لینڈ بھاری مقدار میں منشیات اسمگلنگ کی کوشش ناکام
- لاپتہ امریکی خاتون کی باقیات شارک کے پیٹ سے برآمد
- زیادہ درجہ حرارت حمل کیلئے نقصان دہ قرار
- دو اے آئی روبوٹس کی آپسی چھیڑ چھاڑ وائرل
- کراچی کے مخلتف علاقوں میں بوندا باندی، موسم خوشگوار
- آسٹریلیا کا پاکستان کیخلاف ون ڈے سیریز کیلیے اسکواڈ کا اعلان
- غزہ کے اسکول پر اسرائیل کا حملہ؛ خواتین اور بچوں سمیت 22 پناہ گزین شہید
- کیوں نکالا بابراعظم کو؟
- مسافر ٹرینوں کے دروازے خراب، فیملیاں غیر محفوظ، چوری کی وارداتیں عام
- روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس، ترسیلات زر کا حجم 8.749 ارب ڈالرسے متجاوز
- معاشی آزادی کے لیے حکومتی حجم کم کرنا ضروری
- عدلیہ کے رویے میں تبدیلی کے باوجود آئینی عدالت کیوں ضروری
عدلیہ کے رویے میں تبدیلی کے باوجود آئینی عدالت کیوں ضروری
اسلام آباد: مارچ 2009 کے بعد سے جوڈیشل ایکٹیوازم کا سامنا کرنیوالی پی پی پی کو آج جارح سپریم کورٹ کا سامنا نہیں، اس کے باوجود پی پی پی وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی کوششوں میں پیش پیش ہے۔
چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری اعلیٰ عدلیہ کے الزامات کی فہرست پیش کرتے رہتے ہیں،جوکہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی قیادت میں اعلیٰ عدلیہ کی بحالی کے بعد شروع ہوئی، جس میں گورننس ، قانون سازی کے معاملات میں مداخلت شامل ہیں۔ اس لئے یہ تاثر عام ہے کہ پی پی پی موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سابق چیفس کے اقدامات کا حساب موجودہ اعلیٰ عدلیہ کیساتھ چکتا کرنا چاہتی ہے۔
حالانکہ گزشتہ چند سال سے عدلیہ کی سوچ میں واضح تبدیلی آئی ہے۔ سپریم کورٹ کے اندرونی معاملات پرقانون سازی میں پارلیمنٹ کی اتھارٹی کو ججوں کی اکثریت آج تسلیم کرتی ہے، دس ججوں نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کی توثیق کی۔
اسی ججوں کی اکثریت اپنے سابق چیفس افتخار چودھری اور ثاقب نثار کے ادوار کی جوڈیشل ایکٹیوازم کا دفاع نہیں کر رہی ہے۔ اکثر وکلا ء کی نظر میں وفاقی آئینی عدالت کا قیام آزاد منش ججوں کو کنٹرول کرنے کے علاوہ کچھ نہیں، وہ حیران ہیں کہ پارلیمنٹ میں دوتہائی اکثریت کیلئے دباؤ ڈالنے پر سیاسی رہنما خاموش کیوں ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔