مودی کے بھارت میں مسلمانوں کا معاشی استحصال: خوف اور نفرت کا نیا دور

ویب ڈیسک  منگل 15 اکتوبر 2024
نئی پالیسی میں ریستورانوں پر یہ لازمی قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے تمام ملازمین کے نام عوامی طور پر ظاہر کریں۔

نئی پالیسی میں ریستورانوں پر یہ لازمی قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے تمام ملازمین کے نام عوامی طور پر ظاہر کریں۔

نئی دہلی: مودی سرکار کے تیسری بار اقتدار میں آنے کے بعد اقلیتوں کو اکثریتی ہندو تنظیموں کے ہاتھوں دھمکی، ہراساں کیے جانے اور تشدد کے بڑھتے واقعات کا سامنا روز کا معمول بن گیا۔

حال ہی میں صحت اور حفاظت کے قواعد یقینی بنانے کی آڑ میں مسلم مخالف پالیسی اتر پردیش اور ہماچل پردیش میں متعارف کرائی گئی ہے۔

اس مسلم مخالف امتیازی پالیسی میں ریستورانوں پر یہ لازمی قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے تمام ملازمین کے نام عوامی طور پر ظاہر کریں۔

یہ پالیسی پہلےہندتوا کے پرچاری اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے متعارف کرائی تھی جو کہ بعد میں ہماچل پردیش میں بھی لاگو ہوچکا ہے۔

مقامی لوگوں اور کارکنوں کا دعویٰ ہے کہ نئے قوانین دراصل مسلمان کارکنوں اور اداروں پر تعصب اور نفرت کی آڑ میں سازش کے تحت حملہ ہیں۔

مسلم کاروباری مالکان کو تشویش ہے کہ یہ پالیسی سخت گیر ہندو گروپوں جیسے بجرنگ دل کی جانب سےٹارگٹڈ حملوں یا اقتصادی بائیکاٹ کا دروازہ کھولے گی، جس سے ان کے کاروبار کو شدید مندی کا خطرہ ہے۔

ہندوستان میں پچھلے پانچ سالوں میں مسلمان دوکانداروں کے خلاف واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ گزشتہ مہینے بجرنگ دل کے ایک ریاستی رہنما کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی ہے۔

ویڈیو میں بجرنگ دل کا رہنما، حاضرین سے یہ عہد کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ کسی مسلمان دکاندار سے سامان نہیں خریدیں گے۔

نیا لاگو کردہ قانون بی جے پی کی جانب سے مسلم مخالف ایجنڈے کا حصہ ہے، جو معاشرے میں خوف اور تقسیم پھیلانے کی کوشش کر رہی ہے۔

اتر پردیش کے کاروباری مالکان نے بتایا کہ نئے قوانین کے نتیجے میں انہوں نے مسلم عملے کو برطرف کر دیا ہے، کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ وہ ہندوتوا کے حامیوں کا آسان نشانہ بن جائیں گے۔

دیگر مسلم زیرِ کنٹرول کاروباروں نے انکشاف کیا کہ انہیں اس ظالمانہ پالیسی کے باعث شدید ہراساں کیا جا رہا ہے، اور بعض تو اپنا کاروبار بند کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔

اتر پردیش کے شہر مظفر نگر میں ایک ریسٹورنٹ کےمسلمان مالک، رفیق نے کہا؛ “مجھے اپنے مسلمان عملے کو برطرف کرنا پڑا کیونکہ اس حکم کے بعد میں ان کی حفاظت کے لیے بے حد فکر مند تھا”

رفیق نے کہا کہ “یہ امتیازی پالیسی ایک خطرناک سازش ہے جو مسلمانوں کو اقتصادی طور پر مفلوج کرنے اور نفرت کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوشش کر رہی ہے! ”

ادریس احمد جو سات سال تک ایک ہندو ریستوران میں باورچی کے طور پر کام کرتے تھے ، کو نوکری سے برطرف کردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ “میں اپنے خاندان کی کفالت کے لیے یہ نوکری کرتا تھا اورمیں نے محض اپنے مذہب کی وجہ سے یہ نوکری کھو دی”۔

ادریس احمد نے کہا کہ آخر کب تک مودی سرکار مسلمانوں کو امتیازی پالیسیوں کا شکار بناتی رہے گی؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔