- سندھ اسمبلی کی پی اے سی کا اجلاس، انٹر اور میٹرک بورڈ کے آڈٹ آفیسرز معطل
- ایران کو اس کے تصور سے زیادہ سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے، اسرائیل
- ہمیں صرف مولانا فضل الرحمان کے ووٹوں کی نہیں، خود مولانا کی بھی ضرورت ہے، سینیٹر عرفان صدیقی
- خیبرپختونخوا کے اساتذہ کا وزیراعلیٰ کے خلاف اڈیالہ جیل کے قریب دھرنے کا اعلان
- خون کے نمونے لینے کا وقت ڈیمنشیا کی تشخیص کے نتائج کو متاثر کر سکتا ہے، تحقیق
- مصنوعی ذہانت سے چلنے والے طیارے کا منصوبہ پیش
- کل ڈی چوک آنے کی بات کرنے والا ہتھے چڑھ گیا تو کوئی نرمی نہیں برتیں گے، وزیر داخلہ
- کینیڈین لائبریری کو 40 سال بعد کتابیں واپس مل گئیں
- امریکا کا نیا صدر کون ہوگا؟ رائٹرز کے سروے نے نیا رجحان بتادیا
- بلاول کا وفاق پر سیلاب امداد کے غلط استعمال کا الزام؛ امریکا نے نوٹس لے لیا
- صارم برنی کی درخواست ضمانت پر ایف آئی اے کو جواب جمع کرانے کےلیے مہلت
- سپریم کورٹ نے 63 اے کے فیصلے سے آئینی ترمیم کی راہ ہموار کردی، سلمان اکرم راجہ
- کے پی کے وسائل کو پنجاب پر حملے کے بجائے عوام پر خرچ کرنا چاہیے، مریم نواز
- امریکا؛ نائب صدر کے امیدواروں کے درمیان مباحثہ کیسا رہا ؟
- 63 اے کا فیصلہ قبول کرتے ہیں مگر میچ فکسنگ نہیں ہونی چاہے، فضل الرحمان
- 63 اے فیصلے سے پنجاب حکومت گرائی گئی تھی، حمزہ شہباز کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کا خیرمقدم
- حکومت نے پروویڈنٹ فنڈ کیلئے منافع کی شرح میں کمی کردی
- چیف الیکشن کمشنر کیخلاف درخواست بلیک میلنگ کیلیے دائر کی گئی، الیکشن کمیشن
- حکومت نے دیت کی رقم میں 13لاکھ 46ہزار روپے کا اضافہ کر دیا
- بلاول کا جماعت اسلامی کے غزہ ملین مارچ کی حمایت کا اعلان
اظہار رائے اور آزادی کا یہ مطلب نہیں سب بلاک کردیں؟ اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد: چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسلام آباد کیلیے پاس کیے گئے پرُامن احتجاج بل کے خلاف درخواست پر کہا ہے کہ آزادی اظہار رائے اور آزادی کا کیا یہ مطلب ہے کہ سب بلاک کردیں؟ کیا ہمارا اختیار ہے کہ ہم شاہراہِ دستور کے سامنے احتجاج کریں؟
ایکسپریس نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں دارالحکومت میں نئے قانون پُرامن احتجاج بل کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس عامر فاروق اور وکیل انتظار حسین پنجوتھہ کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ وکیل درخواست گزار سمیت کھوسہ عدالت میں پیش ہوئے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے درخواست کو پہلے سے زیر سماعت کیس کے ساتھ یکجا کردیا اور کہا کہ اسی نوعیت کی درخواست پہلے بھی آئی ہے اس کے ساتھ یکجا کریں گے۔
درخواست گزار وکیل نے کہا کہ پُرامن احتجاج خلافِ قانون ہے، اسلام آباد میں لوگوں کے جمع ہونے اور احتجاج کے خلاف قانون پاس کیا ہے ہم نے اسے چیلنج کیا ہے۔
چیف جسٹس ہائی کورٹ عامر فاروق نے کہا کہ آپ ایک بات بتائیں ایک دم پچاس لوگ شاہراہِ دستور پر آجائیں تو کیا ہوگا؟ اسی کمرہ عدالت میں پچاس لوگ ہیں یہ سارے اچانک وہاں باہر جا کر کھڑے ہو جائیں کیا یہ بہتر ہوگا؟ آزادی اظہار رائے اور آزادی کا کیا مطلب ہے سب بلاک کردیں؟ کیا ہمارا اختیار ہے کہ ہم شاہراہِ دستور کے سامنے احتجاج کریں؟
انہوں نے کہا کہ اگر ہم سڑک پر کھڑے ہوجاتے ہیں تو ہم دوسرے کے آنے جانے کی آزادی کو نقصان پہنچائیں گے، آپ نے قانون میں تضاد کو چیلنج کیا ہے، میرے پاس نہ نہ کرتے ہوئے 10 درخواستیں پڑی ہوئی ہیں ہر روز ریڈ زون بند کر دیا جاتا ہے، کل وکلاء میرے پاس آئے تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے، میں نے ڈی سی کو بھی بلا کر کہا تھا اگر ریڈ زون ہے تو پھر اسے ریڈ زون ہی رہنا چاہیے۔
وکیل نے کہا کہ اس قانون کے مطابق احتجاج کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ دنیا کے کسی مہذب ملک میں ایسا نہیں ہوتا۔ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ وائٹ ہاؤس کے سامنے لوگ اکھٹے ہوتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا وہاں لوگ بغیر اجازت کے جمع ہوتے ہیں اور احتجاج کرتے ہیں؟ وکیل نے کہا یہ قانون آئین کے آرٹیکل 15 اور 19 کے خلاف ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ سمجھتے ہیں آزادی اظہار کی آڑ میں کسی کو گالی دے دیں؟ دیگر درخواستیں بھی ہیں اس درخواست کو بھی ان کے ساتھ منسلک کرکے سن لیں گے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔