کیا پنجاب میں اسموگ ایکشن پلان کے نتائج سامنے آسکیں گے؟

آصف محمود  جمعـء 18 اکتوبر 2024
فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

 لاہور: پنجاب حکومت نے فضائی آلودگی میں کمی اور اسموگ پر قابو پانے کے لیے اسموگ ایکشن پلان جاری کیا ہے جس کے تحت ادارہ تحفظ ماحولیات، محکمہ ٹرانسپورٹ، پی ایچ اے، زراعت، اسکول ایجوکیشن اور ٹریفک پولیس سمیت دیگر ادارے عمل درآمد کے لیے کوشاں ہیں۔

پاکستان کے بعض شہروں خاص طور پر لاہور کو بدترین فضائی آلودگی اور اسموگ کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ہر سال سیکڑوں اموات ہوتی ہیں۔ ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ ایکشن پلان کے زیادہ مؤثر نتائج آئندہ سال ہی سامنے آسکیں گے۔

امیشن انونٹری آف لاہور کے مطابق سال 2019 سے اگست 2024 کے دوران 2070 دنوں میں سے صرف 28 دن ایئر کوالٹی انڈکس صفر سے 15 تک ریکارڈ کیا گیا جبکہ باقی ایام میں سے 215 دن ایئر کوالٹی انڈکس 15 سے 35 یعنی تسلی بخش، 564 دن 35 سے 70 یعنی معتدل، 543 دن 70 سے 140 کے درمیان یعنی حساس افراد کے لیے مضر صحت، 282 دن 140 سے 250 یعنی مضر صحت، 134 دن 250 سے 350 کے درمیان انتہائی مضر صحت اور 27 دن خطرناک ریکارڈ کیے گئے۔

پنجاب سیکٹورل امیشن انونٹری کے مطابق فضائی آلودگی میں ٹرانسپورٹ سے پیدا ہونے والے امیشن 39 فیصد، انڈسٹری 24 فیصد، انرجی 16 فیصد، زراعت 11 فیصد، غیر روایتی صنعتیں 9 فیصد اور ایک فیصد امیشن دیگر عوام سے پیدا ہوتا ہے۔

اسموگ ایکشن پلان کے تحت ادارہ تحفظ ماحولیات، ٹرانسپورٹ، پی ایچ اے، اسکول ایجوکیشن، زراعت، انڈسٹری، ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ اور لوکل گورنمنٹ و کمیونٹی ڈویلپمنٹ کو فضائی آلودگی میں کمی اور اسموگ کے تدارک کے لیے اقدامات اٹھانے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔

ادارہ برائے تحفظ ماحولیات پنجاب کے سیکریٹری راجہ جہانگیر انور نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ اسموگ ایکشن پلان میں محکمہ ماحولیات کا مرکزی کردار ہے، ہم نے باقاعدہ کنٹرول روم قائم کیا ہے جہاں تمام متعلقہ محکموں سے کوآرڈنیشن اور ایکشن پلان پر عمل درآمد کو مانیٹر کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کو جرمانے اور انہیں بند کیا جا رہا ہے، اس کے علاوہ پہلی بار گاڑیوں کی فٹنس کو چیک کیا جا رہا ہے۔ آلودگی پیدا کرنے والی فیکٹریوں کے خلاف کارروائی کے ساتھ وہاں ایمینشن کنٹرول سسٹم انسٹال کیا جا رہا ہے جبکہ اس کو لائیو مانیٹر بھی کیا جا سکے گا۔ غیر روایتی صنعتوں خاص طور پر اینٹوں کے بھٹوں، ٹائر اور کچرا جلانے والے یونٹس کو سیل کیا گیا ہے۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سرکاری ملازمین کے لیے کارپولنگ سسٹم اپنایا جائے گا، اسکولوں اور کالجوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ پچاس فیصد طلبہ کے لیے بسوں کا انتظام کریں، ااموگ سیزن کے دوران ہفتے میں دن آن لائن کلاسیں ہوں گی۔ اسی طرح فصلوں کی باقیات جلانے پر مکمل پابندی ہوگی اور کسانوں کو فصلوں کی کٹائی، بوائی کے لیے جدید مشینری دی جا رہی ہے۔ دھواں چھوڑنے والی سرکاری گاڑیوں کے استعمال پر فوری پابندی ہوگی اور ان کی مرمت کروائی جائے گی، بتدریج الیکٹرک بسوں کو فروغ دیا جائے گا۔

راجہ جہانگیر انور نے بتایا کہ شہر میں کوڑے کو آگ لگانے اور تعمیرات کے دوران آلودگی پیدا کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہوگی۔ توانائی کے شعبے میں بھی تبدیلی لائی جائے گی سولر، ونڈ اور بائیو پلانٹ سے توانائی حاصل کی جائے گی۔

اسموگ ایکشن پلان پر عمل درآمد کے لیے 6039 ملین روپے کے فنڈز مختص کیے گئے ہیں جس کے تحت پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کے لیے 20 ملین، ٹرانسپورٹ کے لیے 769 ملین، ٹیپا /کمشنر آفس کے لیے 1391 ملین، انرجی ڈیپارٹمنٹ کے لیے 1114 ملین، محکمہ صحت کے لیے 175 ملین، پی ایچ اے کے لیے 120 ملین، والڈ سٹی اتھارٹی کے لیے 7 ملین، ادارہ تحفظ ماحولیات کے لیے 1645 ملین، اسکول ایجوکیشن کے لیے 748 ملین اور لوکل گورنمنٹ کے لیے 50 ملین روپے شامل ہیں۔

سابق ڈائریکٹر ادارہ تحفظ ماحولیات نسیم الرحمٰن کا کہنا ہے کہ اسموگ ایکشن پلان مرتب کرنا اس بات کا عکاس ہے کہ حکومت فضائی آلودگی میں کمی اور اسموگ کے تدارک کے لیے سنجیدہ ہے تاہم اسموگ ایکشن پلان پر عمل درآمد تاخیر سے ہو رہا ہے جس کی وجہ سے اس سال تو شاید متوقع نتائج سامنے نہ آسکیں تاہم اگر ایکشن پلان پر مؤثر طریقے سے عمل کیا جاتا ہے تو آئندہ برس واضع اور مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔

سینیئر ماحولیاتی ماہر ایشین کنسلٹنگ انجینئرز علیم بٹ کا کہنا ہے کہ حکومت نے جو اہداف مختلف محکموں کو دیے ہیں اکثر محکموں کے سالانہ ترقیاتی پروگراموں میں انہیں وہ پراجیکٹ نظر نہیں آئے ہیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ مختلف محکموں میں باہمی کوآرڈنیشن، مانیٹرنک اور پلان پر عمل درآمد کے لیے ٹاسک فورس تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔

پاکستان ایئر کوالٹی انیشیٹو کے شعبہ کمیونیکشن کی سربراہ مریم شاہ کا کہنا ہے کہ حکومت جو اقدامات اٹھا رہی ہے ان میں تسلسل کی ضرورت ہے اور اسی صورت میں آئندہ چند برسوں میں بہتر نتائج سامنے آسکیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سب سے زیادہ امیشن گاڑیوں سے پیدا ہوتا ہے اس لیے فیول کوالٹی کو بہتر بنانے پر توجہ دینا ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔