- چار خواتین کا قتل؛ ویڈیوز بنانے کی وجہ سے گھر والوں کو مارا، بیٹے کا بیان
- لاہور میں داماد نے ساس اور سسر کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا
- سری لنکا کے اسپتال میں بھارتی فوج کے بدترین قتلِ عام کو 37 برس مکمل
- ہمارے ارکان کو دھمکایا گیا آئینی ترامیم کو عدالت میں چیلنج کرینگے، پی ٹی آئی وکیل حامد خان
- اسرائیلی حملے کا خدشہ؛ حزب اللہ کے عبوری سربراہ ایران منتقل
- چیف جسٹس پاکستان کی تعیناتی؛ پارلیمانی کمیٹی کیلیے ارکان کے نام مانگ لیے گئے
- وزیراعلیٰ سندھ کی ارجنٹائن کے فٹبال کھلاڑیوں کو لیاری آنے کی دعوت
- لاہور ہائیکورٹ نے عمران کیخلاف غداری سے متعلق درخواست نمٹا دی
- 26 ویں آئینی ترمیم منصفانہ نمائندگی کی جانب اہم پیش رفت ہے، وزیراعلی بلوچستان
- اردو یونیورسٹی؛ تنخواہوں میں عدم اضافے پر حالات انتظامیہ کے قابو سے باہر
- کے پی میں سیکیوٹی صورتحال؛ پشاور ہائیکورٹ کے حکومت سے چھ سوال
- کراچی کی جیل سے اغوا و زیادتی کا ملزم فرار
- سونے کی عالمی و مقامی قیمتیں تاریخ کی نئی بلند ترین سطح پر
- مؤکل خاتون اپنے ہی وکیل کے ہاتھوں مبینہ زیادتی کا شکار
- پاکستان کا کلائمیٹ فنانسنگ کیلئے آئی ایم ایف سے دوبارہ درخواست کرنے کا فیصلہ
- مریخ پر ہونے والا سورج گرہن کیسا دِکھتا ہے؟
- چیف جسٹس اور پی ٹی آئی وکیل حامد خان کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ
- بشریٰ بی بی کی بیٹیوں کا والدہ سے ملاقات کیلیے عدالت سے رجوع
- عمران خان کی ذاتی معالج سے معائنے کیلیے درخواست دائر
- اژدھے کے ساتھ کھیلنے والی بچی سوشل میڈیا پر وائرل
ٹیکس دہنگان کے گرد پھندا مزید تنگ کرنے کی تیاری
اسلام آباد: آئی ایم ایف کے ساتھ مسائل کو خوش اسلوبی کے ساتھ حل کرنے کا اعلان کرنے والی حکومت نے تاجروں کے خلاف پسپائی اختیار کرنے کے بعد موجودہ ٹیکس دہندگان کی گردنوں کے گرد پھندا مزید تنگ کرنے کے لیے تیاری کرلی۔
حکومت نے انکم ٹیکس ریٹرن کے موجودہ فائلرز کے لیے اثاثے خریدنے سے حق سے انکار کرنے کے لیے قانونی ترامیم تیار کرلی ہیں۔ یہ اس صورت میں ہوگا کہ اگر ان کا اعلان کردہ نقد بیلنس اور آمدنی نئے اثاثوں کی لاگت سے کم ہوگی۔
تجزیہ کے بعد معلوم ہوا کہ 60 لاکھ انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرنے والوں میں سے بمشکل 45 ہزار پاکستانی 10 ملین روپے سے زائد کی سالانہ آمدنی ظاہر کر رہے تھے۔ ٹیکس حکام نے کہا ہے کہ حکومت کا خیال ہے کہ موجودہ تقریباً 60 لاکھ فائلرز میں سے زیادہ تر نے ایف بی آر کے پاس جمع کرائے گئے سالانہ گوشواروں میں اپنے اثاثوں اور آمدنیوں کو کم ظاہر کیا ہے۔
یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ ان لوگوں اور فرموں کو جو پہلے ہی ٹیکس نیٹ میں ہیں کو مزید ریونیو کے لیے ٹارگٹ کیا جائے گا۔ اس کے لیے یا تو صدارتی آرڈیننس جاری کر کے یا قومی اسمبلی میں بل پیش کیا جائے گا۔ حکومت کا نان فائلرز کی جانب سے اثاثوں کی خریداری پر زیادہ ٹیکس وصول کرنے کا فیصلہ ٹیکس کی تنگ بنیاد اور فائلرز کی جانب سے کم ٹیکس دینے کی وجہ سے ہے۔
فائلرز کو بینکوں سے اپنا کیش بیلنس نکالنے سے بھی اس صورت میں روکا جا سکتا اگر ان کی مجموعی نقد رقم ان کے ٹیکس گوشواروں میں دکھائی گئی رقم سے کم ہوگی۔ حکومتی ذرائع کے مطابق ایف بی آر نے ان نئے سخت قانونی اقدامات کو یکم اکتوبر سے نافذ کرنے کی تجویز دی ہے۔ سرکاری حکام کا کہنا تھا کہ ایف بی آر موجودہ ٹیکس دہندگان کی معلومات تک سرکاری محکموں اور کمرشل بینکوں تک رسائی دے گا تاکہ وہ ان اثاثوں کی خریداری کے حق سے انکار کر سکیں۔
پاکستان کے صنعت کاروں نے پہلے ہی بیرون ملک اپنے کاروبار شروع کر دیے ہیں اور لوگ بھاری ٹیکسوں سے دور رہنے کے راستے تلاش کر رہے ہیں۔ اس صورت حال نے تنخواہ دار اور کاروباری افراد کی کمر توڑ دی ہے۔ تنخواہ دار افراد اپنی مجموعی تنخواہ کا 39فیصد تک ٹیکس ادا کرتے ہیں اور کاروباری افراد کے لیے یہ تناسب ان کی خالص آمدنی کا تقریباً 50 فیصد تک ہے۔
ایف بی آر ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت انکم ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے والوں کو میوچل فنڈز اور سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کے حق سے انکار کرنے کی تجویز بھی دے رہی ہے۔ ایک اور تجویز کے مطابق نان فائلرز کو جائیداد خریدنے کے حق سے بھی محروم کیا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ آیا حکومت مضبوط لابیوں کے دباؤ کے باعث اس سفارش پر عمل درآمد کرنے کی متحمل ہو سکتی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ پہلے مرحلے میں تقریباً 20 لاکھ وفاقی، صوبائی اور سرکاری اداروں کے ملازمین کے انکم ٹیکس گوشوارے پہلے سے جمع کیے جائیں گے جس کا مقصد انہیں اپنے واجب الادا ٹیکس ادا کرنے کی ترغیب دینا ہے۔ ایف بی آر ان کاروباری افراد کا پیچھا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جو پہلے سے فائلرز ہیں لیکن مفروضے کے مطابق وہ واجب الادا ٹیکس ادا نہیں کر رہے ہیں۔
فائلر کاروباری افراد کی تعداد 3.7 ملین ہے اور ان میں سے 2.4 ملین نے گزشتہ سال انکم ٹیکس ادا نہیں کیا۔ صرف 20ہزار نے سالانہ آمدنی 10 ملین روپے سے زیادہ ظاہر کی ۔ دیگر 9 لاکھ 21ہزار نے سالانہ آمدنی 10 ملین روپے سے کم ظاہر کی۔ ایف بی آر حکام کے مطابق 20 لاکھ تنخواہ دار طبقے کے فائلرز میں سے تقریباً 6 لاکھ 30ہزار سالانہ 6 لاکھ آمدنی کی حد سے نیچے تھے ۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔