الزام نہ دیجیے، ذمے داری لیجیے

محمد احتشام الحق  پير 30 ستمبر 2024
دوسروں پر الزام تراشی کے بجائے اپنی غلطیوں کا خود اعتراف کیجئے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

دوسروں پر الزام تراشی کے بجائے اپنی غلطیوں کا خود اعتراف کیجئے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ایک ہوتا ہے زندگی جینا اور ایک ہوتا ہے زندگی کاٹنا؛ دونوں میں بہت فرق ہے۔ زندگی جیتا وہ ہے جس نے زندگی میں اپنے فیصلے خود کیے ہوتے ہیں، وہ اپنی زندگی کا خود ذمہ دار ہوتا ہے… اور زندگی کاٹتے وہ ہیں جو دوسروں کے فیصلوں پر چلتے ہیں، وہ اپنی زندگی کے ذمہ دار خود نہیں ہوتے بلکہ وہ دوسروں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ وہ اپنی زندگی سے خوش نہیں ہوتے۔

زندگی میں کم از کم دو فیصلے خود کیجیے: ایک اپنے کیریئر کا اور دوسرا ریلیشن شپ کا، کیونکہ زندگی جینے میں زیادہ کردار انہی دو فیصلوں کا ہوتا ہے۔

پہلے آتے ہیں کیریئر کی طرف۔ کیا آپ نے کبھی سوچا کہ مجھے زندگی میں کرنا کیا ہے؟ میرا مقصد کیا ہے؟ آپ کی پوری زندگی کا انحصار اس فیصلے پر ہوتا ہے کہ ہمیں زندگی میں کہاں جانا ہے، ہمیں کیا کرنا ہے؟ اور دنیا میں 90 فیصد لوگ زیادہ کچھ نہیں کرپاتے… اس لیے کیونکہ وہ فیصلہ ہی نہیں کر پاتے کہ مجھے کرنا کیا ہے۔ وہ یہ فیصلہ اس لیے بھی نہیں کرپاتے کیونکہ وہ اپنے فیصلے کے نتائج کی ذمہ داری اٹھانے سے بچنا چاہتے ہیں۔ ہمیں ذہنی طور پر بہت ہمت و حوصلہ درکار ہوتا ہے کہ ایسا کوئی فیصلہ کرسکیں یا اپنا متعلقہ گول (ہدف) سیٹ کرسکیں۔

ہمت و حوصلہ بھی ایسا کہ ہم اپنا ہدف حاصل کرنے کےلیے کسی بھی حد تک جاسکیں، دس بار گرنے کے بعد بھی بار بار اٹھتے رہیں لیکن اپنا حوصلہ پست ہونے نہ دیں۔ ایسا ہدف مقرر کرنے کےلیے ہمیں بہت بڑے اور کڑے فیصلوں کی ضرورت ہوتی ہے اور بعض اوقات اپنے گھر والوں کے متضاد بھی چلنا پڑتا ہے کہ وہ کچھ اور کروانا چاہ رہے ہوتے ہیں لیکن ہمارے پیش نظر کچھ اور ہوتا ہے۔ ایسے میں درد تو سہنا پڑے گا؛ اور خود کو اس آزمائش کےلیے تیار رکھنا پڑے گا۔

غور طلب بات یہ ہے کہ جو انسان اپنی زندگی کا فیصلہ خود نہیں کرسکتا، وہ اور کیا کرے گا؟ جو اپنی ذمہ داری نہیں اٹھائے گا، وہ دوسروں کی ذمہ داری کیا خاک اٹھا پائے گا۔ تو دوستو! پہلے اپنی زندگی کے خود ذمہ دار تو بنو۔ ہوتا یہ ہے کہ ہم اپنے ناکام ہونے کی ذمہ داری اٹھا کر دوسروں پر ڈال دیتے ہیں کیوں کہ اس کےلیے ہمیں خود سے کچھ نہیں کرنا ہوتا۔ جب ہم شروع ہی سے دوسروں کے فیصلوں پر جی رہے ہوتے ہیں تو اپنی ناکامی کا الزام بھی تو دوسروں پر ہی ڈالیں گے ناں!

زندگی ایک بار ہی ملتی ہے، آپ کو بھی اور مجھے بھی۔ اور اگر آپ اسی کے ذمہ دار نہیں بن رہے تو کیا خاک جی رہے ہیں۔ آپ اگر خود ذمہ داری قبول کرتے ہیں تو آپ کو بخوبی احساس ہو گا کہ میں اپنی ہی وجہ سے ناکام ہوا ہوں؛ اور یہ احساس اگلی بار آپ کو زیادہ جوش، زیادہ ولولے اور زیادہ توانائیوں کے ساتھ کام کرنے پر مجبور کرے گا کیونکہ اپنی نظروں میں اپنی ناکامی کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے… اور یہ سوچ آپ کو قدم بہ قدم آگے بڑھاتی چلی جائے گی، چاہے کامیابی ملے یا نہ ملے۔

ہر ماں باپ چاہتے ہیں کہ ہمارا بچہ خود اپنے پیروں پر کھڑا ہو۔ لیکن وہ اپنے پیروں پر کیسے کھڑا ہوگا اگر آپ اسے کوئی فیصلہ کرنے ہی نہیں دے رہے؛ ہر معاملے میں اپنی پسند اور ناپسند اپنے بچے پر مسلط کیے جارہے ہیں۔ کیا بحیثیت والدین آپ نے کبھی اس بارے میں سوچا ہے؟

ماں باپ پر ذمہ داری ہوتی ہے کہ ان کی اولاد اپنے اچھے برے میں تمیز کرنے کے قابل ہوجائے۔ لیکن کیا آپ نے کبھی اسے یہ موقعہ دیا کہ وہ اپنے طور پر کسی چیز کے اچھے یا برے ہونے کا، صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کرسکے؟ اگر ایسا ہے تو بہت اچھی بات ہے لیکن اگر ایسا نہیں، اور آپ اپنی اولاد کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ آپ کے طے کردہ صحیح کو صحیح، غلط کو غلط، اچھے کو اچھا اور برے کو برا تسلیم کرلے، تو ایسی اولاد ساری زندگی اپنا کوئی بھی فیصلہ خود سے نہیں کر پائے گی۔ اس میں اعتماد نام کی کوئی چیز نہیں ہوگی… وہ زندگی جینے کے بجائے ’’کاٹنے‘‘ پر مجبور ہوگی، کسی قیدی کی طرح۔

آپ کا بچہ زندگی میں اپنی ذمے داری خود نہیں اٹھائے گا، بلکہ وہ دوسروں کو الزام دے گا کہ وہ آگے نہیں بڑھ پایا۔

ہم اپنے بچوں کو خود پر یقین کرنا ہی نہیں سکھاتے، ہم ان کے سارے فیصلے خود کرکے انہیں یہی سبق دیتے ہیں کہ تم خود سے کچھ نہیں کرسکتے۔ تو پھر بچوں کی نشوونما کیسے ہوگی؟

اگر ہم اپنی نئی نسل کو درست سمت میں، پراعتماد بناتے ہوئے پروان چڑھانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اپنی سوچ بدلنا ہوگی۔ ورنہ شاید ترقی کی جگہ تنزلی کا سفر ہمیشہ جاری رہے گا۔ کیا آپ اپنی اولاد کےلیے یہ گوارا کر سکیں گے کہ وہ آنے والے وقت میں کسی سے کم تر ہو؟ وہ اپنی زندگی جینے کے بجائے کاٹنے پر مجبور ہو… کسی سزا کی طرح۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔