بائیں بازو کی عوام تک رسائی

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بایاں بازو کئی دھڑوں میں بٹا ہوا ہے لیکن یہ تقسیم نظریاتی ہے نہ اصولی۔


Zaheer Akhter Bedari December 18, 2017
[email protected]

FAISALABAD: پاکستان کی سیاست میں بایاں بازو قیام پاکستان کے بعد لگ بھگ دو عشروں تک نہ صرف فعال رہا بلکہ ایک اہم سیاسی طاقت بنا رہا۔

اس دور میں بائیں بازو کی سیاست نیشنل عوامی پارٹی کے حوالے سے متعارف تھی اور نیشنل عوامی پارٹی میں مولانا بھاشانی، ولی خان، غوث بخش بزنجو، سردار عطااللہ مینگل، سی آر اسلم جیسی بھاری بھر کم شخصیت فعال تھیں، نیشنل عوامی پارٹی میں طلبا تنظیمیں ٹریڈ یونینز، وکلا برادری، ڈاکٹروں کی تنظیمیں، ہاریوں اور کسانوں کی تنظیمیں فعال کردار ادا کرتی تھیں، یہی وجہ تھی کہ ان دو ابتدائی عشروں میں بایاں بازو فعال بھی تھا اور طاقتور بھی، لیکن نیپ میں اختلافات کا آغاز بائیں بازو میں کمزوری اور نظریاتی اختلافات انتشار کا سبب بن گئے۔

روس اور چین کے درمیان نظریاتی اختلافات نے پوری دنیا میں بائیں بازو کو تتر بتر کرکے رکھ دیا اور ان ملکوں کے نظریاتی اختلافات کا ساری دنیا تک پھیلاؤ اس لیے غیر منطقی تھا کہ دنیا کے دوسرے ملکوں خصوصاً نو آزاد، پسماندہ ملکوں کے مسائل مختلف تھے اور بدقسمتی یہ تھی کہ علاقائی اور قومی مسائل کو پس پشت ڈال کر انتہاپسندی اور ترمیم پسندی کے جھگڑوں میں ترقی پذیر ملکوں کو اس بری طرح الجھادیا گیا کہ بایاں بازو عملاً عضو معطل بن کر رہ گیا۔

اس انتشار کی دوسری بڑی وجہ مرکزی قیادت کا فقدان تھا۔ پاکستان میں بھی انتشار کی ایک بڑی وجہ مرکزی قیادت کا فقدان ہی رہی۔ حسن ناصر کی شہادت بھی بائیں بازو کی پھوٹ کا ذریعہ بن گئی۔ پاکستان جب تک متحد تھا بایاں بازو بھی متحد اور طاقتور تھا۔ دونوں حصوں کی قیادت نہ صرف ایک دوسرے سے رابطے میں رہتی تھی بلکہ مختلف فرنٹس پر مغربی اور مشرقی پاکستان کی تنظیموں کے درمیان اتحاد بھی تھا۔ دونوں حصوں کے رہنما ایک دوسرے کے شہروں میں آتے جاتے رہتے تھے۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایوب خان کے دور میں جب ہم مزدور محاذ پر متحدہ مزدور فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے مزدوروں کو منظم اور فعال کررہے تھے تو مشرقی پاکستان میں مزدوروں کے پلیٹ فارم پر کام کرنے والے دوست مغربی پاکستان کی مزدور تنظیموں سے رابطے میں رہتے تھے۔ متحدہ مزدور فیڈریشن سے بھی مشرقی پاکستان کی سرامک فیڈریشن کا رابطہ تھا۔ 1968 میں جب ایوب خان کے خلاف تحریک چلی تو متحدہ مزدور فیڈریشن نے سائٹ سے ایک مزدور ریلی کا اہتمام کیا جس میں پچاس ہزار کے لگ بھگ مزدور شامل تھے، اس ریلی نے ایوب حکومت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔

ایوب حکومت کے مظالم اور جبر سے تنگ آئے ہوئے مزدور متحد ہورہے تھے، ان کے اتحاد اور ہڑتالوں سے گھبراکر یحییٰ خان کے دور میں غیر سولعدالتوں سے مزدوروں اور طالب علموں کو لمبی لمبی سزائیں دی جانے لگیں، اس جبر کا شکار ہونے والوں میں ہم بھی شامل تھے اور جیل کے شب و روز سے واقفیت کا ہمیں موقع ملا تھا۔

1968 ہی میں مولانا بھاشانی کراچی آئے، نیپ کے رہنما اور بھاشانی کے قریبی ساتھی مسیح الرحمن کے مکان پر بھاشانی سے ایک ملاقات کے دوران مولانا نے خواہش ظاہر کی لانڈھی میں مزدوروں کا ایک جلسہ کیا جائے اور 24 گھنٹے کے نوٹس پر ہم نے لانڈھی میں ایک بہت بڑے جلسے کا اہتمام کیا، جس میں لگ بھگ 50 ہزار مزدور شامل ہوئے۔ مولانا بھاشانی اس جلسے سے بہت خوش ہوئے۔ مولانا اس دور میں طبقاتی حوالے سے بہت جذباتی تقریریں کررہے تھے اور مزدوروں میں مولانا کی تقریروں سے بہت جوش پیدا ہوجاتا تھا، لانڈھی کے اس جلسے میں جون ایلیا اور سعید صدیقی جیسے معروف شعرا بھی شامل تھے۔

1970 پاکستان کا ایک ہنگامہ خیز سال تھا۔ مجیب الرحمن کے 6 نکات نے ملک میں ہلچل مچادی تھی۔ 1970 میں مغربی پاکستان سے نیپ کا ایک وفد مشرقی پاکستان گیا جس میں ہم بھی شامل تھے۔ ہمیں ڈھاکا کے مشہور ہوٹل شاہ باگ میں ٹھہرایا گیا۔

مجیب الرحمن سے ملاقات کا اہتمام عابد زبیری نے کیا لیکن حکومتی سنجیدگی کی وجہ سے یہ ملاقات نہ ہوسکی، البتہ نیپ کے زیر اہتمام پلٹن میدان میں ایک بڑے جلسے کا اہتمام کیا گیا، اس جلسے میں طلبا و طالبات کی ایک بہت بڑی تعداد شامل تھی، دو گھنٹے کی تیز بارش کے باوجود جلسہ جاری رہا، ہمیں مولانا نے خصوصی طور پر اسٹیج پر جگہ دی۔ ان واقعات کا ذکر ہم نے اس لیے کیا کہ بائیں بازو کے درمیان اعتماد کی فضا کا اندازہ ہوسکے۔

پاکستان میں بایاں بازو جب انتشار کا شکار ہے، اس کی اگرچہ بہت ساری وجوہات ہیں لیکن ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں کام کرنے والی پارٹیاں اب تک انڈر گراؤنڈ سیاست سے باہر نہ رہ سکیں اور 1917 اور 1949 کے انقلابات کے تناظر میں ہی سیاست کررہی ہیں۔ اس نظریاتی سیاست پر اعتراض نہیں لیکن ہم اس حقیقت کو نظر انداز کررہے ہیں کہ اب حالات بہت بدل چکے ہیں۔

ترقی پسند پارٹیوں کے منشور کو پاکستان کی سیاسی جماعتوں ہی نے نہیں بلکہ مذہبی جماعتوں نے بھی اپنالیا ہے۔ یہ جماعتیں اب مزدوروں، کسانوں کی باتیں بھی کررہی ہیں اور انقلاب کے نعرے بھی لگارہی ہیں۔ یہ تبدیلی بائیں بازو کی کاوشوں کا ثمر ہے۔

اس حقیقت کے پیش نظر ضرورت اس بات کی ہے کہ بچا کچھا بایاں بازو ایک ماس فرنٹ پر متحرک ہو اور اپنے غیر منطقی اختلافات کو پس پشت ڈال کر نیشنل عوامی پارٹی جیسی ایک پارٹی بناکر عوامی سیاست کا راستہ اختیار کرے۔ اگر ایسا کیا جاتا ہے تو نہ صرف عوام تک رسائی کا راستہ مل جاتا ہے بلکہ پاکستان کی سیاست میں بورژوا سیاسی جماعتوں کی لوٹ مار اور احتساب کی وجہ سے جو خلا پیدا ہوگیا ہے اسے بائیں بازو کی سیاست ہی پورے کرسکتی ہے۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بایاں بازو کئی دھڑوں میں بٹا ہوا ہے لیکن یہ تقسیم نظریاتی ہے نہ اصولی، اس تقسیم اور دھڑے بندیوں کی وجہ قائدین کے ذاتی اور جماعتی مفادات ہیں، اگر بائیں بازو کے کارکن اب بھی اپنے نظریات سے مخلص ہیں تو ہر قیمت پر ان دھڑے بندیوں اور انڈرگراؤنڈ سیاست سے باہر آنا پڑے گا، بائیں بازو کے انقلابی دوستوں کو یہ حقیقت ماننا پڑے گا کہ عوام نہ بائیں بازو کے رہنماؤں سے واقف ہیں نہ جماعتوں سے، اگر ایک جماعت میں شامل ہوکر عوامی سیاست شروع کی جائے تو بایاں بازو اور اس کا منشور عوام سے متعارف ہوسکتا ہے بلکہ وہ اس خلا کو بھی پورا کرسکتا ہے جو کرپٹ سیاست کی وجہ سے پیدا ہوگیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔