بابائے براہوئی نورمحمد پروانہ کی ادبی خدمات پر ایک روزہ سیمینار

براہوئی کے فروغ اور ترقی کےلیے نور محمد پروانہ مرحوم کی گراں قدر خدمات کے باعث انہیں بابائے براہوئی کا لقب دیا گیا


شاد پندرانی January 16, 2019
براہوئی کے فروغ اور ترقی کےلیے نور محمد پروانہ مرحوم کی گراں قدر خدمات کے باعث انہیں بابائے براہوئی کا لقب دیا گیا۔ (فوٹو: فائل)

KARACHI: اس حقیقت سے کوئی بھی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ یہ اس دنیا میں موجود ہر شخص کو موت کی وادی میں اتار کر ہی چھوڑتی ہے مگر اس دنیا میں کچھ محترم شخصیات ایسی بھی ہوتی ہیں جنہیں موت اپنی آغوش میں لینے کے باوجود بھی ان کا نام رہتی دنیا تک آسمان علم و ادب پر ایک درخشاں ستارے کی مانند روشن رہتے ہیں۔

اوستا محمد بلوچستان کا تیسرا اور زراعت کا سب سے بڑا شہر ہونے کے علاوہ علمی، ادبی اور تاریخی اعتبارسے بھی بہت اہمیت کا حامل رہا ہے اس شہرمیں بہت سے سیاسی، سماجی، علمی اور ادبی شخصیات کی عمدہ فکر نے اس شہر کا نام پورے پاکستان میں روشن کردیا۔ ان میں ایک نام براہوئی زبان و ادب کو زندہ جاوید کرنے والے، بابائے براہوئی نور محمد پروانہ کا بھی ہے۔

بابائے براہوئی نور محمد پروانہ کی سوویں سالگرہ کے موقعے پر انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کےلیے 24 دسمبر 2018 کو اوستا محمد پریس کلب کے کانفرنس ہال میں ایک روزہ سیمینار بعنوان ''صد سالہ تقریب بابائے براہوئی نورمحمد پروانہ'' منعقد ہوا۔ اس سیمینار میں سندھ و بلوچستان کے نامور مفکرین اور دانشوروں کی بڑی تعداد نے شرکت کرکے بابائے براہوئی نور محمد پروانہ کو بھرپور انداز میں خراج عقیدت پیش کیا۔

سیمینار کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا گیا۔ صدارت معروف ادیب اور کئی کتابوں کے مصنف، براہوئی اکیڈمی پاکستان کے مرکزی جنرل سیکریٹری اور ماہر تعلیم، پروفیسر سوسن براہوئی نے کی۔ مہمان خاص اوستا محمد کی معروف و معتبر ادبی شخصیت سردار محمد جان پندرانی کے علاوہ اعزازی مہمانوں میں براہوئی ادبی سوسائٹی کوئٹہ کے چیئرمین عبدالقیوم بیدار، ریڈیو پاکستان خضدار کے اسٹیشن ڈائریکٹر سلطان احمد شاہوانی، سندھی اور براہوئی زبان کے نامور اسکالر اور ماہر لسانیات و مصنف ڈاکٹر نذیر شاکر براہوئی اور سماجی راہنما سکندر براہوئی تھے شامل۔



براہوئی اکیڈمی اوستا محمد (برانچ) کے صدر علی گل پندرانی نے سیمینار میں شرکت کرنے والے تمام قلمکاروں کو خوش آمدید کہتے ہوئے ان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔

سیمینار میں بابائے براہوئی نور محمد پروانہ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے پروفیسر انجم براہوئی، ہفت روزہ ایلم کے چیف ایڈیٹر محمد عظیم ذاکر براہوئی، منظور احمد پندرانی، ملک ریاض بلوچ، پروفیسر حفیظ سرپرہ، میرعلی شیر ناز براہوئی، مولانا محمد صدیق اور حاجی عبدالحیات منصور نے اپنے اپنے خطابات میں کہا کہ بابائے براہوئی نور محمد پروانہ ایک ہمہ جہت شخصیت اور ایک عظیم مفکر تھے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی براہوئی زبان و ادب کےلیے وقف کردی تھی۔ انہوں نے اپنے قلم کے ذریعے براہوئی زبان و ادب کو پوری دنیا میں روشناس کروایا۔ مقررین نے کہا کہ بابائے براہوئی نور محمد پروانہ کا براہوئی صحافت کو پروان چڑھانے میں بھی اہم کردار رہا ہے۔ ان کی سچی لگن اور محنت کی وجہ سے ہفت روزہ ایلم کے علاوہ آج پورے بلوچستان سے براہوئی زبان میں کئی اخبارات و جرائد شائع ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹر نذیر شاکر براہوئی، سکندر براہوئی و دیگر مقالہ نگاروں نے بھی سیمینار میں اپنے اپنے مقالات میں بابائے براہوئی کی علمی، ادبی اور صحافتی زندگی پر پُرمغز انداز سے روشنی ڈالی۔

اس سیمینار میں بابائے براہوئی نور محمد پروانہ کے فن و شخصیت پر شائع ہونے والی کتابوں کے مصنفین کو براہوئی اکیڈمی پاکستان کی جانب سے ایوارڈز سے نوازا گیا جن میں ''پروانہ پائک'' عبدالقیوم بیدار، ''برمش'' زاہد براہوئی، ''بابائے براہوئی وایلم'' حاجی عبدالحیات منصور، ''توت ئنا سیخا'' میر علی شیر ناز براہوئی، ''خطبات پروانہ'' گلزار آثم براہوئی، ''بابائے براہوئی واونا پروانہ غاک'' میر علی شیر ناز براہوئی، ماہنامہ ''استار''، ماہنامہ ''مہر'' اور ہفت روزہ ''ایلم'' شامل تھے۔



صدر مجلس پروفیسر سوسن براہوئی نے بابائے براہوئی کی ادبی زندگی پر روشن ڈالتے ہوئے کہا کہ بابائے براہوئی نور محمد پروانہ کا شمار پاکستان کے اعلی دانشوروں اور مفکرین میں ہوتا ہے۔ ان کی دانشورانہ سوچ و فکر نے براہوئی زبان و ادب کو ترقی یافتہ زبانوں کے ساتھ لاکر کھڑا کردیا۔ انہوں نے کہا کہ بابائے براہوئی نور محمد پروانہ علم و ادب کے گہرے سمندر کی حیثیت رکھنے والے بہترین انسان تھے، ان جیسے عظیم لوگ بہت کم پیدا ہوتے ہیں۔

مہمان خاص سردار محمد جان پندرانی نے کہا کہ جناب نور محمد پروانہ، براہوئی زبان و ادب کےلیے عظیم سرمایہ، محقق، دانشور اور اعلی پائے کے صحافی بھی تھے۔ ان کی پوری زندگی کھلی کتاب کی مانند تھی۔ ان کی فکری خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

سیمینار کی پہلی نشست کے اختتام پر براہوئی اکیڈمی استا محمد، ڈیرہ مراد جمالی اور مستونگ (برانچ) کے عہدیداروں کو شیلڈز سے نوازا گیا۔

ظہرکی نماز اور کھانے کے وقفے کے بعد دوسری نشست، محفل مشاعرہ، تین بجے شروع ہوئی جس میں سندھ و بلوچستان کے شعرائے کرام نے اپنا اپنا کلام پیش کرکے خوب داد سمیٹی۔ اس نشست کی میزبانی کے فرائض نوجوان شاعر رحیم صیاد نے ادا کیے۔ صدارت بزرگ شاعر عبدالکریم عابد نے کی۔ مہمانوں میں حاجی عبدالحیات منصور، گل میر گل، شہزادہ قاسم، بشیر احمد شاد، مراد صابر، عطاء انجم اور رفیق شامل تھے۔ دیگر شعراء میں وحید تبسم، ملک ریاض بلوچ، شجاعت سحر جمالی، صاحب خان جمالی، نور پرکانی، بدل ناز، محبت زہیر اور ذاکر زیب شامل تھے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔