میری بیگم کے ساتھ یہ ہوا تو خیال آیا

کبھی تو ہوگا کہ ہم مردوں کی موجودگی اور ہماری نظروں سے خواتین خود کو کمفرٹیبل محسوس کریں گی


میاں جمشید February 03, 2019
کبھی تو ہوگا کہ ہم مردوں کی موجودگی اور ہماری نظروں سے خواتین خود کو کمفرٹیبل محسوس کریں گی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

HYDERABAD: میری بیگم کا ایک ٹریننگ سیشن اسی اسکول میں ہونا تھا جہاں سے میں نے اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی۔ سو خوشی خوشی انہیں وہاں چھوڑنے گیا کہ چلو ذرا گزرے تعلیمی دور کی یادیں تازہ ہوجائیں گی۔ کچھ دیر بعد ہی بیگم صاحبہ نے گیٹ کے اندر کی جانب بیٹھے سیکیورٹی والوں سے انٹری وغیرہ کروا کر ہاتھ سے ''اوکے'' کا اشارہ کرتے مجھے واپس جانے کا کہا۔ میں اس تمام دورانیے میں مشاہدہ کررہا تھا کہ انہی سیکیورٹی والوں کے پاس جو بڑی عمر کے اساتذہ کا ٹولہ کھڑا دھوپ سینک رہا تھا، اس کی نظریں میری بیگم کی انٹری کے پروسیس اور اس کے ہال تک جانے کی چال پر مسلسل جمی رہیں۔ ان ہی میں میرے ایک عربی کے ٹیچر بھی شامل تھے جو اب بزرگی کے قریب ہی تھے۔ تبھی ذہن میں خیال آیا کہ کیا ان سب کا ایسا کرنا فطری ہوتا ہے؟ ایسے خواتین پر مسلسل نظریں جمائے رکھنا، دور تک دیکھتے رہنا کیا عام سی بات ہوتی؟ کیا خواتین ان سب کو لائٹ لیتیں ہیں؟ کیا یہ سب روٹین کی باتیں ہیں؟ کوئی فرق نہیں پڑتا، کہ صرف دیکھا ہی تو جاتا ہے؟

ایسی بات نہیں کہ میری وائف ساتھ ایسا ہوا تو ہی مجھےخیال آرہا ہے۔ ہاں! ویسے یہ بھی ہے کہ جب اپنی ماں، بیوی، بہن یا بیٹی ساتھ ایسا ہو تب زیادہ محسوس ہوتا۔ مگر سچ کہوں تو کوئی کم عمر نوجوان گھورے یا دور تک اپنی نظریں جما کر دیکھتا رہے تو سمجھ آتی ہے کہ اس کی عمر ایسی، تربیت کی کمی وغیرہ۔ مگر جب کوئی بڑی عمر کا مرد، بال بچوں والا ایسا کرے تو بندہ کس کو قصور وار ٹھہرائے۔ خاص کر جب کوئی استاد ہو یا کسی بھی ادارے میں سینئر پوزیشن کا حامل فرد ایسی غیر اخلاقی عادتوں سے چھٹکارا حاصل نہ کرسکے تو اس کا کیا حل ہے؟ ''چھوڑیں جی بس وہ ہیں ہی ایسے، آپ پروا نہیں کرو، ان کو دیکھنے دو'' وغیرہ جیسی باتیں ان کےلیے کہہ کر اپنے کام میں لگ جانا کافی ہے کیا؟ چلیے اگر جس سے شکایت کی جانی ہو وہ صاحب بھی ایسے ہی نکل آئیں، تو پھر بندہ کس سے فریاد کرے؟

میں ہمیشہ ان تمام خواتین کو واقعی داد دیتا ہوں جو عمر کا لحاظ کرتے ہوئے ایسا سب سہہ جاتی ہیں۔ مگر یہ بھی المیہ ہے کہ مردوں کے اس معاشرے میں جو بول بھی پڑے، اور پھر سنوائی ہو بھی جائے تو وہ عورت بعد میں زیادہ مرکز نگاہ بن جاتی ہے: ''اچھا! یہ ہیں وہ جنہوں نے بڑی ہمت کی تھی، ایسی دکھتی ہیں،'' اور پتا نہیں کیا کیا۔ انہی باتوں کے بتنگڑ بننے کی وجہ سے چپ سادھ لی جاتی ہے۔ جملے بازی کو چھوڑیئے صاحب، صرف مردانہ جنسی نظروں والی نگاہ میں خواتین کا دفاتر میں کام کرنا، چلنا پھرنا، پبلک ڈیلنگ وغیرہ یا بازار، دکان یا پبلک ٹرانسپورٹ پر یہ سب سہنا واقعی میں اتنا آسان نہیں جتنا ایسے میرا یہاں ایک مضمون میں لکھ دینا۔

مجھے جو ابھی تک عجیب یا برا لگتا ہے، وہ یہ ہے کہ چلو کوئی عام رکشہ ڈرائیور ہو، کوئی دکان والا، یا کوئی آتا جاتا غیر ایسی نگاہوں سے دیکھے تو چل جاتا کہ ابھی تعلیم و تربیت کی بہت کمی ہے۔ مگر کوئی اپنا جاننے والا، کوئی دوست، استاد یا کولیگ ایسا سب کرے تو کیوں کرے بھئی؟ یہ کیسا تجسس ہے؟ اور کیوں ہے؟ کہ اچھا دیکھوں تو سہی اس کی وائف کیسی ہے؟ بہن کیسی کی دکھتی ہے؟ کتنی ماڈرن ہے؟ مطلب کہ، کیا یہ سب نارمل ہوتا ہے؟ فطری ہوتا ہے؟ کیا ہم اس پر قابو نہیں کرسکتے؟

اچھا خیر چھوڑیئے، اب بہت لمبی بات ہوگی۔ کبھی تو سمجھ میں آ ہی جائے گا۔ کبھی تو ہم مرد خود کو بدل ہی لیں گے، کبھی تو ہوگا کہ ہم مردوں کی موجودگی اور ہماری نظروں سے خواتین خود کو کمفرٹیبل محسوس کریں گی۔ کبھی تو کوئی حل نکلے گا۔

آپ کو ملے تو مجھے بھی بتائیے گا، ابھی میں ذرا اپنے ادارے میں اپنے دوست کے بچے کا ایڈمیشن کرلوں۔ اس کی کال آئی تھی کہ خود مصروف ہوں تو تمہاری بھابی آرہی ہیں؛ اور لگتا ہے باہر استقبالیہ پر وہی موجود ہیں۔ آج میں دیکھوں تو سہی کہ بھابی لگتی کیسی کی ہیں؟ کیونکہ ''سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں۔''

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں