اسرائیل کی ہٹ دھرمی

اسرائیل میں انتخابات کے بعد کسی وقت امریکا امن منصوبے کا اعلان کرے گا


Editorial April 08, 2019
اسرائیل میں انتخابات کے بعد کسی وقت امریکا امن منصوبے کا اعلان کرے گا۔ فوٹو : فائل

اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نتن یاہو نے کہا ہے کہ انھوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو صاف صاف بتا دیا ہے کہ مستقبل کے لیے اسرائیل اور فلسطین کے مابین جو امن منصوبہ تیار کیا جا رہا ہے، اس منصوبے میں خواہ کچھ بھی شرائط ہوں، لیکن اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں میں جو یہودی بستیاں قائم کی ہیں، ان میں سے کوئی ایک بھی کم نہیں کی جائے گی اور نہ ہی کسی اسرائیلی نوآبادی میں سے کسی ایک فرد کو بھی کم کیا جائے گا۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق اسرائیل کے ایک ٹی وی چینل کے ساتھ اپنے انٹرویو میں نتن یاہو نے کہا کہ اگر امن منصوبے کی خاطر مقبوضہ مغربی کنارے سے کوئی ایک اسرائیلی نو آبادی بھی ختم کرنے کی تجویز آئی تو اسے بھی قبول نہیں کیا جائے گا۔ اسرائیلی وزیراعظم کا یہ انٹرویو جمعہ کے دن براڈ کاسٹ کیا گیا۔

اسرائیل میں انتخابات کے بعد کسی وقت امریکا امن منصوبے کا اعلان کرے گا۔ واضح رہے اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو اپنی پانچویں ٹرم کے لیے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا اسرائیل کو پتہ ہے کہ امریکی امن منصوبے کے مندرجات کیا ہیں، نتن یاہو نے کہا وہ جانتے ہیں کہ اس منصوبے کے اندر کیا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے مزید کہا کہ دریائے اردن کے مغربی کنارے کے تمام علاقے پر اسرائیل اپنا مکمل قبضہ چاہتا ہے اور امریکی امن منصوبے کے لیے اسرائیل کی طرف سے یہی ایک شرط ہے جس سے اسرائیل پیچھے ہٹنے کو ہرگز تیار نہیں ہے۔ نتن یاہو نے کہا کہ ہم نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو صاف صاف بتا دیا ہے کہ اسرائیل اپنی نوآبادیوں میں کسی قسم کی تخفیف قبول نہیں کرے گا۔ کوئی ایک آبادی بھی کم نہیں کی جائے گی اور نہ کسی اسرائیلی آبادی کے کسی ایک شخص کو بھی کم کیا جائے گا تاہم اس کے ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ انھیں اس بارے میں شک ہے کہ ایسی کوئی تجویز امریکا کی طرف سے اسرائیل کو پیش کی جائے گی۔

نتن یاہو نے مزید کہا کہ اگر اس قسم کی کوئی تجویز امریکا کی طرف سے اسرائیل کو پیش کی گئی تو اسرائیل امن مذاکرات کی میز سے اٹھ کر باہر نکل جائے گا۔ واضح رہے اسرائیل نے 1967ء کی چھ روزہ جنگ میں فلسطین کے وسیع علاقے پر قبضہ کر لیا تھا اور پھر تمام مقبوضہ علاقے پر اسرائیل نے یہودی بستیاں تعمیر کرنا شروع کر دیں۔ حالانکہ بین الاقوامی برادری نے نہ اسرائیلی قبضہ کو قبول کیا تھا اور نہ ہی مقبوضہ علاقے میں یہودی بستیوں کو قبول کیا گیا ہے بلکہ اسرائیلی فلسطین تنازعہ میں یہودی بستیوں کو سب سے بڑی رکاوٹ تسلیم کیا جاتا ہے، اس کے باوجود اس کا کوئی سدباب نہیں کیا جا سکا کیونکہ امریکا غاصب اسرائیل کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہے اور اس نے اسرائیل کے ایسے مطالبات بھی تسلیم کر لیے ہیں جن کی قبولیت کی کوئی گنجائش ہی نہیں تھی یعنی تل ابیب کی جگہ مقبوضہ القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیا اور اپنا سفارتخانہ بھی وہاں منتقل کرنے کا اعلان کر دیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔