ہم کیسی تبدیلی چاہتے ہیں

تبدیلی کسی چھوٹے سے مشن کا نام نہیں کہ کچھ وقت میں پورا کیا اور چلتے بنے، یہ بہت لمبے سفر کا نام ہے


کائنات طاہر December 30, 2019
تبدیلی ایک لفظ نہیں بلکہ ارتقائی عمل ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پلاسٹک بیگز پر پابندی کے بعد عوام کی جانب سے احتجاج کی خبر یوں تو کچھ نئی نہ تھی کہ وطن عزیز میں آئے روز احتجاج کا شغل جاری رہتا ہے۔ البتہ یہ کہنے سے قاصر ہوں کہ آیا یہ احتجاج لمحہ مسرت ہے کہ قوم کو اپنے حق کےلیے آواز اٹھانے کا شعور آگیا یا پھر مقام افسوس، اتنا شعور آگیا کہ اپنی بھلائی کےلیے کیے گئے اقدامات پر بھی یہ قوم سراپا احتجاج ہے۔

ہم جو نظام کی خامیوں پر کڑھتے ہیں۔ خارجہ امور پر سیر حاصل گفتگو کرنے کے اہل ہیں۔ پولیس کی نااہلیوں سے اعلیٰ اشرافیہ کی من مانیوں تک، تعلیمی مسائل سے صحت کے شعبے کی خرابیوں تک، ہر مسئلے کا تجزیہ کرنا ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ سیاست کے ایوانوں سے کھیل کے میدانوں تک، ہر چیز پر ہمارا بروقت اور بے لاگ تبصرہ حاضر ہے۔ یہ بات کم از کم اتنا تو بتادیتی ہے کہ ہم سیاسی اور معاشرتی ہر لحاظ سے ''باشعور'' ہوگئے ہیں اور یہی شعور ہمیں تبدیلیٔ نظام کی جانب سوچنے پر بھی مجبور کرتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ انتخابات سے قبل عوام کے سر پر تبدیلی کا سودا ایسا سمایا کہ پرانے وعدوں مگر نئے نعروں کو ایک موقع دے ہی دیا گیا۔ اور پھر تبدیلی کے دعوے داروں کو اقتدار کی آنچ پر بٹھاکر تبدیلی کے پک کر پلیٹ میں پیش ہونے کا انتظار ہونے لگا۔ مگر یہ انتظار، انتظار ہی رہا۔ ساری صورت حال پر غور کیا تو محسوس ہوا کہ تبدیلی کا شدت سے انتظار کرتی اس قوم میں، تبدیلی لانا ہی سب سے مشکل کام ہے۔ کیوں کہ ہر معاملے میں ہمارے درمیان اتنا تضاد موجود ہے کہ ہم ایک جیسی تبدیلی بھی نہیں چاہتے۔ ہم بطور مجموعی نظام کی درستی کی باتیں کرتے ہیں، مگر ہم میں سے ہر کوئی ایک مختلف تبدیلی کا خواہشمند ہے۔ اوپر کی کمائی حاصل کرنے والا SHO یہ کبھی نہیں چاہے گا کہ پولیس رفامز ہوں۔ رشوت اور سفارش کے سہارے سرکاری اداروں میں پہنچنے والے اس بات پر کبھی خوش نہیں ہوں گے کہ میرٹ پر تقرریاں شروع ہوجائیں۔ عرصے سے شاہانہ طرز زندگی کی عادی ''افسر شاہی'' یہ کیسے برداشت کرے گی کہ بیوروکریسی کا احتساب شروع ہوجائے۔ پھر اپنے کام میں گڑبڑ کرکے ''صلہ'' حاصل کرنے والا ایک سرکاری کلرک ہو یا مہنگی اشیا بیچنے والا کوئی دکاندار، یہ لوگ اپنے اپنے حصے میں تبدیلی برداشت نہیں کرسکتے۔

کڑوا سچ ہے کہ ہم تبدیلی کو صرف دوسروں کی حد تک دیکھنا چاہتے ہیں۔ جب یہ ہمارے طبقے یا شعبے کی جانب قدم بڑھانے لگے تو اسی وقت ''تبدیلی کب آئے گی'' کا شور ''تبدیلی کیوں لائی جارہی ہے'' میں بدل جاتا ہے۔ اگر ہم واقعی نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں تو ہر نئے اقدام پر اتنا واویلا کیوں؟ شائد اس لیے کیوں کہ ہم میں سے کوئی بھی طبقہ اپنے آرام ده ماحول سے باہر نہیں نکلنا چاہتا۔ جو شخص پہلے ذاتی مفاد کو آگے رکھتا تھا، اب بھی صرف اپنا فائدہ ہی دیکھے گا۔ مال بنانے کا عادی شخص نئے پاکستان میں بھی مال بنانے کو ہی ترجیح دے گا۔

اب یہ یقین ہوچلا ہے کہ ہم میں دراصل نیاپن برداشت کرنے کی صلاحیت بہت کم ہے۔ ہم بڑی بڑی تبدیلیاں کیسے برداشت کریں؟ پھر وہ کسی اہم شخصیت کے احتساب جیسی بڑی بات ہو یا عوامی سطح پر پلاسٹک بیگز ختم کرنے جیسا بظاہر معمولی اقدام۔ عجب نہیں کہ تبدیلی کے منتظرین کو ہر اس چیز پر اعتراض ہے جو نئی ہو۔ تبدیلی کی جانب بحیثیت قوم کبھی ہم نے اپنے رویے پر غور کیا ہے؟

سوچنے کی بات ہے ہم اس ملک کی معیشت کے مضبوط ہونے کا بے صبری سے انتظار کررہے ہیں جس کے عوام کے لیے پلاسٹک بیگز کو چھوڑنا اور پچیس روپے کا تهیلا خریدنا بھی مشکل ہے۔ اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ایسے ملک کی معیشت کو مستحکم سطح پر لے کر آنا کوئی آسان کام ہے، نہ ہی ایسا مرحلہ جو تھوڑے سے وقت میں طے ہوجائے۔ جہاں پچیس روپے کا تهیلا متعارف کروانا اتنا مشکل ہو، جہاں لوگ چھوٹی سطح کے فیصلوں پر عمل کرنے سے بھی قاصر نظر آئیں، ایسی زبوں حالی کی صورت میں قابل غور بات ہے کہ وہاں کتنا نیچے اور بنیادی سطح پر کام کی ضرورت ہے۔ جسے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کےلیے ایک تو کیا، شائد حکومت کے دو ادوار بھی کافی نہیں۔

اس سب سے معلوم ہوتا ہے کہ تبدیلی کسی چھوٹے سے مشن کا نام نہیں کہ کچھ وقت میں پورا کیا اور چلتے بنے۔ یہ بہت لمبے سفر کا نام ہے۔ ایسا سفر جس میں جگہ جگہ تکلیف دہ گڑھوں، خوفناک کھائیوں اور بلندی کے ساتھ ساتھ ڈھلانوں کو بھی عبور کرنا ہوگا۔ اور یہ سفر اتنا لمبا تو ہوگا جس میں ہر وہ طبقہ جو تبدیلی برداشت نہیں کرسکتا، اس قابل بنایا جا سکے کہ وہ نیا نظام قبول کرنے پر مجبور ہوجائے۔

تبدیلی ایک لفظ نہیں بلکہ ارتقائی عمل ہے اور ارتقا کو پڑھنے والے جانتے ہیں کہ قوموں میں تبدیلیاں دیرپا ارتقا کا نتیجہ ہوتی ہیں، نہ کہ ایک دور حکومت کا۔ اب ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ اس لمبے سفر پر، جس کا آغاز ہوچکا ہے، ہمیں منزل پر پہنچنے کا تحمل سے انتظار کرنا ہے یا آدھے راستے سے واپس لوٹ جانا ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں