پیشے کے انتخاب کو رُسوا نہ کیجیے

پیشے کے انتخاب کو رُسوا نہ کیجیے


Shakeel Farooqi December 31, 2019
[email protected]

SHANGHAI: مثل مشہور ہے کہ ''جان ہے تو جہان ہے'' اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انسانی جان کتنی اہم اور بیش قیمت ہے، لیکن وطن عزیز میں ڈاکٹروں کا جو حال ہے اسے بیان کرتے ہوئے بے حد دکھ ہوتا ہے ۔ اس حوالے سے آئے دن کوئی نہ کوئی واقعہ پیش آتا رہتا ہے جس پر وقتی طور پر بڑا ہاہاکار مچتا ہے اور پھر کچھ عرصے بعد معاملہ ٹھنڈا پڑ جاتا ہے اور قصہ رات گئی بات گئی کے مصداق تمام ہوجاتا ہے۔

اس سلسلے کا ایک افسوس ناک واقعہ ابھی کچھ عرصہ پہلے صوبہ سندھ کے ضلع گھوٹکی کے تعلقہ اسپتال شیخ ہمدان بن محمد، واقع خان پور میں پیش آیا جہاں پاگل کتے کے کاٹے ہوئے دو کمسن معصوم بچے لقمہ اجل بن گئے کہ مبینہ طور پر ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹروں نے ان کا علاج کرنے سے انکارکر دیا۔ اس قسم کے واقعات سرکاری اسپتالوں کی زبوں حالی اور طبی عملے کی فرض شناسی اور بے حسی کی غمازی کرتے ہیں۔

سرکاری اسپتالوں میں علاج کرانے پر مجبور غریب غربا مریضوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہاں ان بے چاروں کے ساتھ ڈھور ڈنگروں جیسا سلوک کیا جاتا ہے اور یہ اسپتال کے عملے کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ چنانچہ یہ لاوارث اکثر و بیشتر ناتجربہ کار اور اناڑی ڈاکٹروں کے ہتھے چڑھ کر تختہ مشق بنائے جاتے ہیں۔

ہمارے ڈرائیور شاہد خان کی دختر نیک اختر نوشہرہ کے سرکاری اسپتال میں اپنڈیکس کے آپریشن کے دوران ڈاکٹروں کی غفلت کے نتیجے میں تقریباً دو سال شدید تکلیف اٹھاتی رہی۔ کراچی میں علاج کرانے کے بعد یہ عقدہ کھلا کہ اپنڈکس کے آپریشن کے دوران طبی عملے کی غفلت کی وجہ سے زخم صاف کرنے والی گاز کا کچھ حصہ زخم کی سلائی کے وقت جسم کے اندر ہی رہ گیا اور سڑتا رہا۔ طبی عملے کی اس مجرمانہ غفلت کے باعث بے چاری لڑکی اور اس کے والدین کو جو پریشانی اٹھانا پڑی اور علاج معالجے پر جو اخراجات برداشت کرنا پڑے اس کا ازالہ کب اور کون کرے گا؟

ہمارا یہ سوال صوبہ خیبر پختونخوا کے ارباب اختیار سے ہے جہاں پاکستان تحریک انصاف کا راج ہے جس کے نام کی بنیاد ہی لفظ ''انصاف'' پر قائم ہے۔ ہم نے بال پی ٹی آئی کے ارباب اختیار کے کوٹ میں پھینک کر اپنے حصے کا کام پورا کردیا ہے جس کے بعد جواب آں غزل کا انتظار ہے۔ موقع محل کے لحاظ سے مرزا غالب کا یہ شعر پیش خدمت ہے:

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن

خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک

وطن عزیز کے ہر شعبے میں زوال کا بنیادی سبب میرٹ کا قتل عام ہے جس کا سب سے زیادہ خمیازہ میڈیکل کے شعبے میں بے چارے غریب عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے جو سفارش یا پیسے کے زور پر نااہل ہونے کے باوجود ڈاکٹر بن کر لوگوں کی جانوں سے کھیل رہے ہیں اور زندگیاں برباد کر رہے ہیں۔

تلخ حقیقت یہ ہے میڈیکل کی تعلیم کی نجکاری نے ڈاکٹری کا جنازہ نکال دیا ہے۔ پرائیویٹ میڈیکل کالج عملاً ٹکسال کی طرح نوٹ چھاپنے میں مصروف ہیں جس کے نتیجے میں اناڑی ڈاکٹروں کی فوج ظفر موج اس مقدس پیشے کا تقدس پامال کر رہی ہے اور اس کی رسوائی اور بدنامی کا سبب بن رہی ہے۔ وقت اور حالات کا تقاضا ہے میڈیکل کی تعلیم کو ''تعلیم برائے فروخت'' ہونے سے بچایا جائے اور میرٹ کے پرانے نظام کو بلاتاخیر بحال کیا جائے۔

ایک زمانہ وہ بھی تھا جب معالجین کو مسیحا سمجھا جاتا تھا جس میں ڈاکٹر اور حکیم سمیت تمام معالجین شامل تھے۔ یہ تمام کے تمام ایک ہی ضابطہ اخلاق پر عمل کرتے تھے، جس کا واحد مقصد مریض کی جلد ازجلد شفایابی ہوا کرتا تھا۔ ان کے یہاں امیر اور غریب کی کوئی تفریق نہیں تھی بلکہ غریب غربا کے ساتھ انسانی ہمدردی کی بنا پر ترجیحی سلوک کیا جاتا تھا۔

حسن اخلاق ایسا بلند کہ مریض کا آدھا مرض ان کی گفتگو اور برتاؤ سے ہی کافور ہوجائے۔ مریض کا تمام احوال تفصیل سے دریافت کرنا اور ہر بات پوری توجہ سے سن کر مرض کی تشخیص کرکے دوا تجویز کرنا ان کا معمول اور شعار تھا۔

بعض حکما تو راتوں کی عبادت گزاری کے بعد رب کریم سے مریضوں کی جلد از جلد شفایابی کی دعائیں بھی مانگا کرتے تھے جس کے نتیجے میں انھیں مسیح الملک جیسے خطابات سے نوازا گیا اور آج تک ان کے کمالات کے قصے زبان زد عوام ہیں اور لوگ انھیں انتہائی عقیدت و احترام سے یاد کرتے ہیں، یہ لوگ فرشتہ صفت بلا کے نبض شناس اور بے لوث جذبہ خدمت سے سرشار ہوا کرتے تھے۔ اخلاص نیت ہی کی وجہ سے ہی شان حقیقی نے انھیں جوہر شفا سے نوازا تھا۔ تبھی تو یہ لیبارٹری ٹیسٹوں، ایکسرے اور الٹرا ساؤنڈ جیسی سہولتوں کی مدد کے بغیر ہر مرض کا کامیابی سے علاج کردیا کرتے تھے۔

اسپیشلسٹ ڈاکٹروں سے اپائنمنٹ حاصل کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ اوپر سے ان کے نازوانداز اور بلاخیز نخرے کہ الامان والحفیظ۔ مریض کی تسلی و تشفی تو کجا سیدھے منہ بات بھی کرنے کو تیار نہیں۔ فیس اتنی زیادہ کہ ہوش اڑ جائیں اور نسخہ اتنا مہنگا کہ دوائیں خریدنے کے بعد انسان کا دیوالہ نکل جائے۔ طرز عمل انسانیت سوز اور بے حسی کا عالم یہ کہ آدمی کا دل ٹوٹ جائے اور کلیجہ جل جائے۔ ان کے ضمیر مردہ ہوچکے ہیں اس لیے انھیں نہ خوف خدا ہے اور نہ انسانیت کا احساس۔ دولت کے ان پجاریوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ سکندر جب گیا دنیا سے دونوں ہاتھ خالی تھے۔

وہ بھی کیا زمانہ تھا جب ڈاکٹر صاحبان مریض کی حوصلہ شکنی کے ڈر سے مریض اس کے گھر والوں تک سے بھی بیماری کی نوعیت کو پوشیدہ رکھا کرتے تھے۔ لیکن آج کل کے ڈاکٹروں کی ستم ظریفی کا عالم یہ ہے کہ وہ مریض اور اس کے لواحقین کے سامنے بیماری کا پورا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیتے ہیں جس سے مریض تو مریض اس کے تیمار داروں کے حوصلے بھی پست ہوجاتے ہیں اور وہ بے چارہ خوف کے مارے زندہ درگور ہو جاتا ہے، خواہ اس ڈاکٹر کی تشخیص بالکل غلط ہی کیوں نہ ہو۔ اس غلط روش کے باعث بہت سے ناخن بے موت مارے جاتے ہیں اور ان کے اصل قاتل قانون کی گرفت سے بچ کر صاف نکل جاتے ہیں۔

ستم بالائے ستم یہ کہ انھیںکی بھاری بھاری فیسوں بھی پیشگی ادا کرنا پڑتا ہے۔ رہی بات سرکاری اسپتالوں کی تو وہ اناڑی اور ناتجربہ کار ڈاکٹروں کی تجربہ گاہیں جہاں وہ باآسانی اور کسی باز پرس کے بغیر غریب اور لاوارث مریضوں کو تختہ مشق بناتے ہیں۔ خوش قسمتی سے اگر مریض بچ گیا تو ڈاکٹر صاحب کی واہ واہ! اور اگر ناتجربہ کاری کی بھینٹ چڑھ کر مر گیا تو اس کی بدنصیبی۔ ڈاکٹر صاحب صاف اور قطعی بری الذمہ۔ واللہ! کیا نظام ہے اور چہ خوب حسن انتظام ہے! شاید ''تبدیلی'' کا نعرہ بلند کرکے برسر اقتدار آنے والے انصاف کے دعوے دار نئے حکمرانوں کو اس انسانیت سوز صورت حال کا ابھی تک علم نہیں ہوسکا؟ اگر ایسا ہے تو وہ اس لاعلمی کے قصوروار ہیں۔ ورنہ اپنی غفلت اور نہ اہل کے ذمے دار اور سزاوار ہیں۔

یہ حقائق بھی منظر عام پر آگئے ہیں کہ ڈاکٹر صاحبان پیتھالوجی لیب سے کرائے جانے والے مختلف ٹیسٹوں کے عوض کمیشن بھی وصول کرتے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹر ڈیوٹی نہیں کرتے اور گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کرتے ہیں۔ ڈاکٹروں کا یہ کردار انتہائی افسوس ناک ہے۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق ان خیالات کا اظہار پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے صوبائی جنرل سیکریٹری ڈاکٹر پیر منظور نے مقامی گارڈن روڈ پر منعقدہ پی ایم اے نواب شاہ کے نو منتخب عہدیداروں کی تقریب حلف برداری سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ڈاکٹر صاحبان تھر اور دیگر دور دراز کے علاقوں کے سرکاری اسپتالوں میں ڈیوٹی کرنے کو تیار نہیں ہیں جب کہ تھر میں ڈیوٹی کرنے والے 17گریڈ کے ڈاکٹر کو تنخواہ کے علاوہ 90 ہزار روپے اضافی اور گریڈ 18 کے ڈاکٹر کو تنخواہ کے علاوہ ایک لاکھ 40 ہزار روپے اضافی دیے جاتے ہیں۔

ڈاکٹر منظور کا یہ انکشاف بھی چشم کشا ہے کہ 1300 ڈاکٹروں کو دیے جانے والے شوکاز نوٹس اجرا کے لیے محکمہ صحت کے پاس تیار پڑے ہیں۔ ڈاکٹر منظور کا یہ جرأت مندانہ اظہار درحقیقت ایک مسیحا صنف معالج کے جاگتے ہوئے ضمیر کی بلند اور دل سوز آواز ہے۔ بلاشبہ یہ ایک انسان دوست درویش کی درد بھری صدا ہے جس کا مقصد اپنے ہم پیشہ لوگوں کے سوئے ضمیروں کو جھنجھوڑ کر بیدار کرنا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔