کورونا کا علاج ایک سوالیہ نشان

ہماری حکومت نے ابھی تک برصغیر کی روایتی طب کے ماہرین سے مشورہ تک کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی


Editorial March 27, 2020
دنیا کے متاثرہ ملکوں کے لیے آئی ایم ایف اور عالمی بینک نے فوری امداد کا اعلان کیا ہے فوٹو: فائل

کورونا وائرس سے دنیا میں ہونے والی ہلاکتوں نے انسانی اذہان وقلوب کو جس بڑے پیمانہ پر متاثر کیا ہے، اس سے دنیا میں ایک غیر معمولی ہیجان سا برپا ہے، بڑی شخصیات بھی کورونا وائرس کا شکار ہو رہی ہیں ' ان میں تازہ ترین برطانیہ کے ولی عہد شہزادہ چارلس ہیں' ملکہ برطانیہ بھی قرنطینہ میں ہیں۔ دنیا بھر میں اس موذی مرض سے ہونے والی ہلاکتیں19 ہزار بتائی جاتی ہیں جب کہ متاثرہ افراد کی تعداد4 لاکھ بتائی جاتی ہے،اٹلی میں ایک دن میں 743اموات ہوئیں، سعودی عرب میں بھی زبردست حفاظتی اقدامات کیے جا رہے ہیں بلکہ ایسے اقدامات کی شاید ہی کوئی مثال ملتی ہے۔ایران بھی اس وائرس سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔

ایران پر ویسے بھی امریکا کی اقتصادی پابندیاں عائد ہیں جس کی وجہ سے ایران کی معاشی حالت خاصی خراب ہے۔ادھر عالمی ادارہ صحت نے امریکا کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ کورونا وائرس کا سب سے بڑا مرکز ثابت ہوسکتا ہے،امریکا میں دو ارب ڈالر کا امدادی پیکیج بھی منظور ہوا ہے، یوں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کورونا وائرس کس قدر تیزی سے دنیا میں پھیل رہا ہے۔ امریکا ایک ترقی یافتہ ملک ہے اور اس کی اقتصادی حالت بہت بہتر ہے ' اس کے لیے بھی کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنا مشکل ہو رہا ہے۔

میڈیا کے مطابق پاکستان سمیت دنیا کے متاثرہ ملکوں کی فوری امداد کے لیے آئی ایم ایف اور عالمی بینک نے فوری امداد کا اعلان کیا ہے۔ تاہم دلچسپ امر صدر ٹرمپ کا وہ بیان ہے جس میں انھوں نے دعویٰ کیاہے کہ کورونا وائرس کی تباہ کاریوں سے امریکا 12اپریل تک نارمل ہوجائے گا،اسی سے ملتی جلتی پیش گوئی امریکا کے نوبیل انعام یافتہ سائنسدان پروفیسر مائیکل لیوٹ نے کی ہے کہ امریکا میں کورونا وائرس سے نمٹنے کا ٹرننگ پوائنٹ جلدی آجائے گا اور ملک میں حالات اندازوں سے بھی جلد ہی معمول پر آجائیں گے، ان کا کہنا تھا کہ وہ ان پیشگوئیوں کی حمایت نہیں کرتے جو کہتے ہیں کہ یہ وائرس مہینوں یا سالوں پر پھیلتا رہ جائے گا، تاہم انھوں نے اس بات پرزور دیا کہ اصل ضرورت افراتفری پر قابو پانے کی ہے۔

خیال رہے مائیکل لیوٹ وہ ماہر سائنسدان ہیں جنھوں نے پیشگوئی کی تھی کہ چین جلدی کورونا وائرس پر قابو پالے گا۔چین نے زبردست ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے 'نہ صرف اس وائرس پر قابو پایا بلکہ اس کے پھیلاؤ کو بھی روک لیا ہے اور اب چین کورونا وائرس سے پاک ملک ہے اور وہاں پر کاروباری سرگرمیاں پوری شدو مد سے بحال ہو چکی ہیں۔

مزید براں کورونا وائرس کی عالمی وباکے پیش نظر اسلامی دنیا میں ایک اہم پیش رفت بھی ہوئی ہے۔ مصر کی ممتاز جامعہ الازہر کے علماء کی سپریم کونسل نے مصدقہ طبی معلومات اور انسانی زندگی کے تحفظ کو مدنظر رکھتے ہوئے باجماعت اور جمعہ کی نماز کے حوالے سے باضابطہ فتویٰ جاری کر دیا ۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اسلام آباد میں مصر کے سفیر کے ذریعے شیخ الازہر سے کورونا وائرس کی وباکے سلسلہ میں مذہبی فرائض کی ادائیگی کے حوالہ سے رہنمائی کی درخواست کی تھی۔

جامعہ الازہر کے علماء کی سپریم کونسل نے فتویٰ میں قرار دیا ہے کہ تمام شواہد واضح طور پر اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ عوامی اجتماعات بشمول با جماعت نماز کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا باعث بنتے ہیں۔ مسلمان ممالک میں سرکاری حکام کو باجماعت نماز و جمعہ کی نمازوں کو منسوخ کرنے کا پورا اختیار ہے۔ اس سلسلہ میں درپیش حالات کو مدنظر رکھا جائے، مؤذن حضرات کو ''صلوٰۃ فی بیوتکم'' (گھروں میں نماز ادا کریں) کے ساتھ ترمیم شدہ اذان دینی چاہیے جب کہ اہلخانہ اپنے گھروں میں باجماعت نماز کا اہتمام کر سکتے ہیں۔ مسلمانوں کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ بحران کی صورتحال میں طبی احتیاطی تدابیر کے حوالہ سے مجاز ریاستی حکام کے احکامات کی پیروی کریں اور غیر سرکاری ذرایع سے اطلاعات اور افواہوں پر عمل سے گریز کریں۔ فتویٰ میں مزید کہا گیا ہے کہ حالیہ کورونا وائرس تیزی سے پھیلتا ہے اور یہ کہ انسانی زندگیوں کو بچانا اسلامی قانون کے عظیم مقاصد میں سے ہے۔

ان مقاصد کی تکمیل کے لیے علماء سپریم کونسل یہ فتویٰ جاری کرتی ہے کہ ہر مسلمان ملک میں ریاستی عہدیداروں کو اجازت ہے کہ وہ تمام عوامی اجتماعات بشمول باجماعت نماز اور جمعہ کی نمازوں پر وائرس کے پھیلاؤ اور لوگوں کی اموات کے خدشہ کے پیش نظر قانونی طور پر پابندی لگا سکتے ہیں۔ مزید برآں معمر افراد اپنے گھروں پر رہیں، باجماعت اور جمعہ کی نمازوں میں شرکت نہ کریں اور رائج طبی رہنما اصولوں کی پیروی کریں ۔ علما ئے کرام نے مسلمانوں پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ کورونا وبا سے نجات کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے کثرت سے استغفار کیا جائے تاکہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت وعنایت سے اس وبا کو ہمارے اوپر سے ہٹالیں، اس سلسلے میں میڈیا آگاہی بیدار کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ مشترکہ اعلامیے کا اعلان مفتی تقی عثمانی نے گورنرہاؤس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کی شعوری کوششوں میں حکومت نے فرنٹ فٹ پر اقدامات کرکے ایک اجتماعی ذہن کی تیاری کو یقینی بنایا ہے اور اس افراتفری ، تضاد بیانی، ابہام اور بے سمتی میں ایک معقول اور متوازن راستہ کا انتخاب کیا ہے، ملک میں لاک ڈاؤن کی بحث سے قطع نظر سیاسی قیادتوں میں کوروناوائرس سے نمٹنے کے لیے ایک پیج پر ہونے کاادراک اس وقت قومی ضرورت بن چکا ہے اور وقت کاتقاضہ ہے کہ سیاسی سماجی، فکری، روحانی اور عملی بنیادوں پر کورونا وائرس سے مقابلہ کا نفسیاتی میدان کھلا رکھا جائے، اس وقت جو مثبت اور قابل قدر احتیاطی تدابیر اختیار کی جارہی ہیں ان کی پذیرائی عوام کی طرف سے بھی کی جارہی ہے، اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ملک بھر کی ''ہیلتھ فورس'' نے شدید مسائل اور ناکافی وسائل کے باوجود دکھی انسانیت کی پھرپور مدد کرنے کابیڑا اٹھایا ہے۔

یہ ٹمپو اور ردھم یوں ہی شاندار طریقے سے جاری رہنا چاہیے اورساتھ ہی کورونا کے علاج کے جتنے بھی دستیاب نئے امکانات اور وسائل میسر آسکتے ہیں ان سے استفادہ میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے جب کہ قومی جذبہ اور مثبت سوچ کے ساتھ کورونا سے لڑنے کیلیے ممکنہ وسائل کے حصول کا ہدف حاصل کرکے قومی ٹارگٹ پورا کرنا چاہیے۔

اس ضمن میں مناسب ہوگا کہ چند اہم تجاویز کا کھلے دل کے ساتھ جائزہ لیا جائے اور دنیائے طب اور دیسی طریقہ ہائے علاج سے وابستہ مختلف حلقوں سے سامنے آئی ہیں۔ ان ماہر اطبا کا استدلال ہے اس طریقہ علاج کی سند صدیوں سے ملتی چلی آرہی ہے، ملک کے مستند طبی ادارے زمانے سے دکھی انسانیات کا علاج کرتے آئے ہیں جن میں ہمدرد، قرشی، طیبی، اشرفی،حکیم اجمل اور دیگر معتبر طبی ادارے ہیں جن سے کورونا وائرس کے علاج کے سلسلے میں رجوع کرنا طب مشرقی کا استحقاق بھی ہے اور اس طرز فکر کی مرعوبیت کا جواز بھی جس کی وجہ سے کورانا کے سدباب کے لیے برصغیر کے قدیم دیسی طریقہ ہائے علاج کی ناقدری کا رجحان عام ہے اور '' ٹوٹکوں سے گریز '' کا مشورہ بھی اسی فکر کا کمال ہے جسے طب مشرق کے خزانے سے استفادہ میں حوصلہ شکنی کا سامنا ہے۔

اس تاثر کی نفی ناگزیر ہے کہ کورونا کا علاج صرف میڈیکل سائنس کا تنہا استحقاق ہے یا عالمی ادارہ صحت اور دیگر بالادست طاقتوںکے مخصوص ایجنڈے عملدرآمد کا کوئی راز ہے، لہٰذا اس انداز نظر سے گریز صائب راستہ ہے، ایسی آوازیں بھی طبی دنیا سے اٹھنے لگی ہیں کہ آیورویدک، ہومیوپیتھک ،طب مشرقی اور روحانی علاج سے استفادے کا دروازہ بند نہ ہو ۔ دنیائے اسلام کی تاریخ ابن سینا ،حکیم لقمان اور لاتعداد طبیبوں اور حکیموں سے بھری پڑی ہے، حکمت کا ورثہ دکھی انسانیت سے جڑا ہوا ہے،ایسے طبیب حاذق گزرے ہیں اور اب بھی ہوںگے جو مریض کی صرف نبض دیکھ کر اس کے مرض کی تشخیص کرتے ہیں۔جدید میڈیکل سائنس کی ایجادات کی ایک دنیا معترف ہے۔

حیرانی کی بات یہ ہے کہ ہماری حکومت نے ابھی تک برصغیر کی روایتی طب کے ماہرین سے مشورہ تک کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی ہے۔ ہومیو پیتھی کو قانونی تحفظ حاصل ہے ' اگر یہ قانونی طریقہ علاج ہے تو پھر پاکستان میں موجود ہومیو پیتھی کے ماہرین سے بھی مشورہ کیوں نہیں کیا جا رہامگر حقیقت یہ ہے کہ کوروناکے ایک معمولی جرثومہ نے ہلاکت خیز وائرس کی شہرت پاکر اسے مسیحا نفس ڈاکٹروں کے لیے سوالیہ نشان بنادیا ہے، دنیا تسلیم کرچکی ہے کہ کورونا فلو کی بدلتی ہوئی رتوں کا ہمسفر ہے، یہ حلق کو متاثر کرتا ہے، پھر پھیپھڑوں پر حملہ کرتا ہے، اس کی فیمیلی شکلیں بدلتی ہے۔ مگر عرض یہی کرنا ہے کہ جدید سائنس اور میڈیسن کا انقلاب سر آنکھوں پر مگر طب مشرق کو بھی کورونا سے لڑنے کا موقع ملنا چاہیے۔ورنہ اہل دل یہ کہنے میں صدا حق بجانب ہوں گے کہ

ترا علاج کسی چارہ گر کے پاس نہیں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔