معیشت پنشن اور دیگر اہم اقدامات

وزیر اعظم بلاشبہ ملکی معیشت کی بحالی کے لیے ہمہ جہتی کوششیں کر رہے ہیں۔


Editorial August 23, 2020
وزیر اعظم بلاشبہ ملکی معیشت کی بحالی کے لیے ہمہ جہتی کوششیں کر رہے ہیں۔ فوٹو: فائل

ماہرین اقتصادیات نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کورونا کے باعث معیشت بدستور دباؤ میں رہے گی۔ اگلے دو، تین سال پاکستان کی ریٹنگ دباؤ میں رہنے کی پیش گوئی بھی کی گئی ہے جب کہ خام تیل کی عالمی قیمت میں کمی جیسے عوامل کے باعث پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں گزشتہ روز بھی مندی کے بادل چھائے رہے۔

اسٹاک مارکیٹ میں کبھی کبھی تیزی کا رجحان ضرور رہتا ہے لیکن اگر گزشتہ ڈیڑھ پونے دو سال میں اسٹاک ایکسچینج میں ہونے والے حصص کی خرید وفروخت کا جائزہ لیا جائے تو نتیجہ یہی سامنے آئے گا کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں کاروباری مندی کا غلبہ رہا ہے۔ ملکی معیشت کی صورت حال کی بہتری کے عندیے حکومتی حلقوں سے بھی آرہے ہیں، ترسیلات زر میں حالیہ ریکارڈ اضافہ کی نوید قوم کو پہلے ہی مل چکی ہے۔

تاہم معاشی منظرنامہ سنجیدہ سوچ بچار کا متقاضی ہے اور بزنس دوست ماحول کا پیدا کیا جانا بھی لازمی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ حاضر سروس سرکاری ملازمین اور ریٹائرڈ ملازمین کا اطمینان بھی ضروری ہے تاکہ وہ ذہنی دباؤ سے آزاد ہو کر کام کریں۔ اس ضمن میں سرکاری ملازمین کی پنشن اور تنخواہوں کے سیاق وسباق میں گزشتہ دنوں وزیر اعظم عمران خان نے وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ پنشن اور حج فنڈ قائم کر دیا گیا ہے۔

بعد ازاں وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے بریفنگ میں کہا کہ پنشن فنڈ کی تفصیلات پیش کی گئیں، اور بتایا گیا کہ پنشن کی مد میں 470 ارب روے ادا کیے جاتے ہیں جب کہ 500 ارب کے قریب تنخواہ بنتی، تنخواہ اور پنشن برابر ہوگئے ہیں اور یہ معاملہ گردشی قرضوں سے بھی زیادہ سنجیدہ ہے، صوبوں میں بھی یہی صورتحال ہے، انھوں نے کہا کہ پنشن کا مسئلہ براہ راست حل کریں گے، کیونکہ ملک اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

ذرایع کا کہنا ہے کہ پنشن کے حوالہ سے قیاس آرائیاں اور بے بنیاد افواہیں بھی گردش میں ہیں جس کی وجہ سے پنشنرز سخت تشویش میں مبتلا ہیں، انھیں اندیشہ ہے کہ پنشن اسکیم پر نظر ثانی کی کوئی تجویز اگر حکومت کے زیر غور ہے تو ملک کے لاکھوں پنشنرز کے لیے یہ خبر تشویش کا باعث بن سکتی ہے، وہ ذہنی اذیت میں مبتلا نہ ہوں تو اچھا ہے، حکومت کے لیے صائب چوائس یہ ہے کہ اس اہم معاملہ پر ایک کمیشن تشکیل دے جو پنشن سے متعلق حقائق کو کیلکولیٹ کرتے ہوئے تنخواہوں کو ریشنلائز کرے تاکہ پنشنرز کو اطمینان ہو۔

ارباب اختیار کو اس بات کا ادراک ہے کہ نچلے درجے کے ملازمین جن میں 16 گریڈ کے ملازمین کی بڑی تعداد شامل ہے وہ مہنگائی کے شدید دباؤ میں ہیں، ارباب حل وعقد کو اس طبقے کی خدمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے جس نے اپنی عمر عزیزی کا بیشتر حصہ ملک وقوم اور اداروں کی بے لوث خدمت کرتے گزارا۔

ان حلقوں کی حکومت سے استدعا قابل غور ہے کہ حکومت پنشنرز کے حالات اور معاشرے میں ان کی گزر اوقات کے لیے پنشن میں کمی کے بجائے اضافہ کرے اور اگر 21 یا22 گریڈ کے ملازمین کی تنخواہیں زیادہ ہیں تو اسے ریشنلائز کیا جاسکتا ہے، حکومت اعداد و شمار کو کیلکولیٹ کرتے ہوئے حقیقت پسندانہ پنشن کے تناظر میں انصاف پر مبنی فنڈ قائم کرکے اس کے استعمال سے نہ صرف مناسب میکانزم وضع کرسکتی ہے بلکہ اس ضمن میں شکوک وبشہات کا خاتمہ بھی کرسکتی ہے۔

وزیر اعظم بلاشبہ ملکی معیشت کی بحالی کے لیے ہمہ جہتی کوششیں کر رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کو این آر او دینے سے بہتر ہے کہ ہمیں حکومت اور سیاست میں نہیں رہنا چاہیے، حکومت احتساب پر عملدرآمد اور کرپشن فری ملک کے حوالہ سے زیرو ٹالرینس پالیسی پر گامزن ہے، انھوں نے کہا کہ فیٹف قوانین کی منظوری کے بدلے اپوزیشن نے این آر او لکھ کر مانگا۔ یہ غالباً اس بات کا عندیہ ہے کہ حکومت احتساب سے پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں۔

بین الاقوامی ریٹنگ ادارے اسٹینڈرڈ اینڈ پورز نے رواں مالی سال (2020-21) کے دوران پاکستانی روپے کی قدر میں مزید کمی کا خدشہ ظاہر کیا ہے جب کہ بیروزگاری کی شرح 8 فیصد، قرضوں کا بوجھ مزید بڑھ کر جی ڈی پی تناسب کے91 فیصد سے بھی تجاوز کر جائے گا۔ اب ضرورت ایک شفاف معیشت کی طرف بلاتاخیر سفر کی تیاری کی ہے، حکومت کو اپنی حکمت عملی کو براڈ بیسڈ اصولوں اور غیر متزلزل معاشی پالیسیوں پر استوار کرنا ہوگا، اس کے سوا کوئی چارہ نہیں معیشت کی بقا کے لیے دلیرانہ فیصلوں کا وقت ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔