پشاور مدرسہ میں دہشت گردی

صبح آٹھ بجے کے قریب شیخ الحدیث شیخ رحیم اللہ کی نگرانی میں ساتویں درجے کا درس جاری تھا کہ اچانک دھماکہ ہو گیا۔


Editorial October 29, 2020
صبح آٹھ بجے کے قریب شیخ الحدیث شیخ رحیم اللہ کی نگرانی میں ساتویں درجے کا درس جاری تھا کہ اچانک دھماکہ ہو گیا۔ (فوٹو : اسکرین گریب

پشاور کے علاقہ دیر کالونی میں مسجد سے متصل مدرسے میں بم دھماکے سے8 طالبعلم شہید اور125افراد زخمی ہوگئے۔

صبح آٹھ بجے کے قریب شیخ الحدیث شیخ رحیم اللہ کی نگرانی میں ساتویں درجے کا درس جاری تھا کہ اچانک دھماکہ ہو گیا جس کے ساتھ ہی مسجد کے ہال میں آگ بھڑک اٹھی، ہر طرف بھگدڑ مچ گئی، امدادی ٹیموں نے زخمیوں کو لیڈی ریڈنگ اور خیبر ٹیچنگ و دیگر اسپتالوں میں منتقل کیا، جہاں طبی عملے نے 8 افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کی جب کہ 125 زخمیوں کو طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔

زخمیوں میں متعدد کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے، مادر علمی پر دشمنوں کا بم حملہ انسانیت سے عاری عناصر کی کارروائی تھی، انھوں نے بیگناہ اور معصوم طالب علموں کی جان لی اور انھیں شہید کیا، پولیس حکام کے مطابق مدرسے میں جو ''اسپین جماعت''( سفید مسجد ) نامی مسجد کا حصہ ہے میں نماز فجر کے بعد درس و تدریس کا سلسلہ جاری تھا کہ صبح آٹھ بجے کے قریب ایک مشکوک شخص بیگ رکھنے کے بعد غائب ہو گیا جس کے فوراً بعد دھماکا ہوا، اے آئی جی بم ڈسپوزل نے میڈیا کو بتایا کہ دھماکے میں پانچ کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا جو ٹائم ڈیوائس سے منسلک تھا۔

دھماکا مدرسے کے ہال میں ہوا، جس سے زیادہ پریشر پیدا ہوا اور زیادہ نقصان ہوا، آئی جی پولیس نے دھماکے سے متاثر ہونے والی مسجد کا دورہ کیا، میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کوئٹہ کے بعد پشاور میں ممکنہ دہشت گردی کے پیش نظر ایڈوائزری جاری کر دی گئی تھی،30 ہزار مساجد اور4 ہزار مدرسوں کو سیکیورٹی دینا مشکل ہے، سی سی پی او پشاور کا کہنا تھا کہ ہر پہلو سے واقعہ کو دیکھ رہے ہیں۔ مدرسے میں داخل ہونے والے مشکوک شخص کی تلاش جاری ہے، حکام خیبر پختونخوا میں افغان مہاجرین کی وطن واپسی کو بھی یقینی بنائیں، خطے میں دشمن ہلاکتوں کے بہانے ڈھونڈ رہا ہے۔

ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے، صوبائی وزیر شوکت یوسف زئی کا کہنا ہے کہ پشاور میں ایک عرصے سے امن تھا۔ کوئٹہ اور پشاور میں تھریٹ الرٹ تھا، جس کے بعد سیکیورٹی مزید سخت کر دی گئی تھی لیکن بچے اور مدرسہ دہشتگردوں کا آسان ہدف تھے، دھماکے کے وقت بھی ایک ہزار سے زائد طلباء زیر تعلیم تھے، مدرسے کے منتظمین نے میڈیا کو بتایا کہ مدرسے میں دھماکے کے وقت حدیث اول کی کلاس جاری تھی اور اس وقت 20سے 28 سال عمر کے طلباء موجود تھے۔

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ متاثرین کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں، کسی کو امن عمل سبوتاژ نہیں کرنے دیں گے۔ انھوں نے شہدا کے لواحقین کو پانچ لاکھ اور زخمیوں کو دو لاکھ روپے دینے کا بھی اعلان کیا۔ شہید ہونیوالے تین طلبا نعمت اللہ ، موسیٰ اور محب اللہ کی نماز جنازہ دارالعلوم زبیریہ دیر کالونی میں ادا کی گئی اور جسد خاکی آبائی علاقوں کو روانہ کر دیے گئے۔ عوام کی سیکیورٹی کے لیے مزید موثر اقدامات ناگزیر ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔