کورونا کا پھیلاؤ احتیاط کا دامن نہ چھوڑیں

یہ انھیں محفوظ رکھے گا اور وائرس کو گھر تک لانے سے روکنے میں مدد دے گا۔


Editorial December 07, 2020
بہت سے لوگ محسوس کرتے ہیں کہ وبا ختم ہوچکی ہے

ملک میں کورونا وائرس کی دوسری لہر کے باعث انسانی اموات کا نہ رکنے والا سلسلہ دوبارہ شروع ہوچکا ہے، اگلے روزمزید 51 افراد لقمہ اجل بن گئے، یوں اموات کی کل تعداد 8330 ہو گئی ہے ۔ یہ صورتحال انتہائی خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے، ملک کے تمام علاقوں میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ، اور یہ شرح پہلی لہر کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ دوسری جانب عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے حکومتوں اور عوام کو خبردار کیا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب ویکسین کی دستیابی بہت قریب ہے وہ کورونا وبا کے خلاف حفاظتی اقدامات کو نہ چھوڑیں، ورنہ صحت کا نظام شدید دباؤ کا شکار ہو سکتا ہے۔ دنیا بھر میں کورونا وائرس کے باعث مجموعی متاثرین کی تعداد 6 کروڑ 62 لاکھ50 ہزار 18 ہو گئی ہے ، جب کہ اموات 15 لاکھ 24 ہزار 569 ہیں۔

کیا یہ اعدادوشمار اور حقائق ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہیں ہیں جو ہم کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے باوجود بے احتیاطی سے کام لے رہے ہیں۔حکومتی سطح پر کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے متعدد اقدامات منظرعام پر آئے ہیں ، وزیراعظم عمران خان بار،بار قوم کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا کہہ رہے ہیں ، وہ بلاشبہ اپنی قوم کے لیے فکر مند ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ کسی بھی طور انھیں دوبارہ ملک بھر میں لاک ڈاؤن نہ کرنا پڑے، کیونکہ اس سے ملک کی اقتصادی اور معاشی صورتحال ابتر ہوسکتی ہے اور عام آدمی کی زندگی میں مشکلات بڑھیں گی۔

دوسری جانب ہم عوام کی بات کریں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک سے کووڈ 19 کی وبا ختم ہوگئی ہے ، عوام نے احتیاطی تدابیر اور سماجی فاصلے کو ہوا میں اڑا دیا ہے، حالانکہ ماہرین صحت ہمیں مسلسل بتا رہے ہیں کہ احتیاطی تدابیر کو بھولنا انفیکشن کی شرح میں اضافے کا باعث بنے گا، ماہرین صحت نے لوگوں پر زور دیا ہے کہ وہ فیس ماسک پہنیں، خاص طور پر اس صورتحال میں جہاں سماجی دوری ممکن نہ ہو کیونکہ عوام کی یہ لاپروائی ایک اور اسپائک (بلندی) کا سبب بن سکتی ہے۔ملک میں رش والے مقامات، مساجد، بازاروں، شاپنگ مالز اور بسز، ٹرین اور ہوائی جہازوں سمیت پبلک ٹرانسپورٹ میں فیس ماسکس پہننا لازمی قرار دیا گیا ہے، لیکن اس پر مکمل عمل عوام کررہے ہیں تو جواب یقیناً نفی میں ہے۔

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے ایک اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ عوام کی جانب سے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او پیز) پر عمل کے ساتھ ماسکس پہننا ہی ملک میں کووڈ 19 کے پھیلاؤ کو روکنے کا واحد اقدام ہے،تاہم ملک کے تمام چھوٹے، بڑے شہروں کی مرکزی مارکیٹوں میںعوام کا رش دیکھ کر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یا تو مشورے کو سنا نہیں گیا یا اسے بھلا دیا گیا ہے۔

لوگ بغیر کسی فیس ماسک کے ایک دوسرے کے ارد گرد رش والی جگہوں پر موجود ہیں، کچھ دکانداروں کے پاس سرجیکل یا کپڑے کے ماسک تو ہیں لیکن وہ ایک کان پر لٹکے ہوئے یا وہ ٹھوڑی کے نیچے ہیں،یہی نہیں بلکہ سرکاری اور نجی اداروں میں بھی صورتحال مختلف نہیں ہے، اگرچہ وہاں داخلے کے لیے ماسکس ضروری ہیں لیکن ایک مرتبہ اندر جانے کے بعد یہ ماسک اکثر میز پر پڑا ہوا نظر آتا ہے، زیادہ تر کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ ماسک پہننے سے بے چینی ہوتی ہے۔

بہت سے لوگ محسوس کرتے ہیں کہ وبا ختم ہوچکی ہے جب کہ مزید یہ سمجھتے ہیں کہ کورونا وائرس ایک دھوکے سے زیادہ کچھ نہیں۔ کورونا کی پہلی لہر کے دوران ہم نے دیکھا کہ مربوط پابندیوں کی وجہ سے کووڈ 19 کے کیسز میں کمی آنا شروع ہوگئی تھی لیکن اب عوام کی لاپروائی کے چلن سے پھر سے کیسز کی شرح میں بلندی کا امکان بڑھ گیا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ عوامی مقامات پر ماسک لازمی پہنیں کیونکہ ماسک تحفظ کی ایک اضافی پرت فراہم کرتے ہیں ، لوگ لاشعوری طور پر اپنی ناک اور منہ کو چھوتے ہیں، لہٰذا ماسک پہننے کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ اپنی ناک اور منہ کو براہ راست نہیں چھوسکتے۔

کورونا وائرس کے باعث پیش آنے والی ان گنت مالی، سماجی اور معاشی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ پاکستان کے فہمیدہ حلقوں میں اب یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ آخر کیوں ملک کا تاجر و صنعت کار طبقہ ایک ایسے موقع پر عوام الناس کی مدد کے لیے آگے نہیں آرہا جب ملک میں پندرہ ملین سے زائد افراد کے سر پر فاقہ کشی کے خوفناک سائے منڈ لارہے ہیں۔

ابھی تک ملک کا سرمایہ دار طبقہ کھل کر حکومت کی مدد کے لیے نہیں آیا اور نہ ہی اس نے رفاحی و فلاحی اداروں کی بڑے پیمانے پر مدد کی ہے۔مزدور تنظیموں سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ سرمایہ داروں نے نہ صرف حکومت کو کوئی فنڈ نہیں دیا ہے بلکہ وہ ملازمین کی تنخواہیں بھی نہیں ادا کر رہے ہیں، وہ بڑے پیمانے پر مزدوروں کو نکال رہے ہیں اور ان کو تنخواہیں بھی ادا نہیں کی جا رہیں۔ جو سرمایہ دار اسپتالوں اور لیبارٹریز کے مالک ہیں وہ حکومت سے فری میں ماسک لے رہے اور عوام کو مہنگے ماسک بھی بیچ رہے اور کورونا کے ٹیسٹ کے لیے بھی بھاری رقم بٹور رہے ہیں۔

دوسری جانب عالمی ادارہ صحت اس حوالے سے تشویش میں مبتلا ہے کہ کووڈ19 وبا ختم ہونے کا خیال فروغ پا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ کورونا وبا لمبے عرصے تک چلے گی۔ حکومتوں اور عوام کے فیصلے کورونا وباء کے عرصے کو کم کرسکتے ہیں اور یوں کورونا وباء کا خاتمہ ہو جائے گا ۔ کیا عالمی ادارہ صحت کا یہ بیان ہمیں بحیثیت قوم جگانے کے لیے کافی نہیں ہے، جو مندرجات اور احتیاط بتائی گئیں اس پر عمل کرنا ہمارا فرض بنتا ہے۔

ہم نے ایک دانشمند قوم ہونے کا ثبوت دینا ہے تو ہمیں ان ہدایات پر عمل کرکے ملک میں کورونا کے پھیلاؤ کو روکنا ہوگا۔ماہرین صحت کے مطابق ماسک تھوک اور سانس کے ذریعے نکلنے والے ذرات کو دوسروں تک پہنچنے سے روکتے ہیں، ماسک کو پہننے والے، دیگر لوگوں کے ان ذرات سے محفوظ رہتے ہیں، لہٰذا کووڈ 19 جیسے انفیکشن کو ایک سے دوسرے شخص میں منتقل ہونے سے روکا جاسکتا ہے اور اس کے لیے ماسک کا استعمال وائرس کی منتقلی روکنے کا مؤثر ذریعہ ہے۔ماہرین کا مزید یہ بھی کہنا ہے کہ بچے بھی جب باہر جائیں تو انھیں بھی کپڑے کا ماسک پہننا چاہیے۔

یہ انھیں محفوظ رکھے گا اور وائرس کو گھر تک لانے سے روکنے میں مدد دے گا۔تاہم ماہرین کا یہ بھی کہنا تھا کہ کپڑے کے ماسک کے ساتھ ساتھ، اچھی طرح ہاتھوں کو صاف رکھنے کی عادت بھی ڈالنی چاہیے۔ سماجی دوری کے ساتھ کھلے مقامات ٹھیک ہیں لیکن بند مقامات خطرے کو بڑھا دیتے ہیں، اگر ایک متاثرہ شخص ایئرکنڈیشنڈ ریسٹورنٹ میں طویل وقت کے لیے رکتا ہے تو دیگر کے متاثر ہونے کا اصل خطرہ ہے۔سچ تو یہ ہے کہ اگر ہم احتیاطی تدابیر اختیار کریں تو ہم نہ صرف اپنی اور اپنے پیاروں کی زندگی کا بھرپور تحفظ کرسکتے ہیں بلکہ ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روک سکتے ہیں۔

حرف آخر وزیراعظم عمران خان اس بات پر زوردے رہے ہیں کہ اپوزیشن جماعتوں کے احتجاجی جلسوں کے باعث ملک میں کورونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے اور اس ضمن میں ان جماعتوںکے قائدین کے خلاف مقدمات بھی قائم کیے جارہے ہیں ، جب کہ اپوزیشن یہ تاثر دے رہی ہے کہ اس کی احتجاجی تحریک کو روکنے کے لیے کوروناوائرس کے پھیلاؤ کا بہانہ تراشا جارہا ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ کورونا وائرس کوئی سیاسی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک وبا ہے جس سے بچاؤ کے لیے حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کو ایک پیج پر آنا ہوگا اور ایسا لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگا جس سے وبا کا پھیلاؤ روکا جاسکے اور انسانیت کو بچایا جاسکے ، لہٰذا ہم قوی امید کرتے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن وبا کے پھیلاؤ روکنے کے لیے مذاکرات کے ذریعے ایک مثبت حل نکالنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔