IMF قرض بحالی80 شعبوں کیلیے اربوں روپے کی ٹیکس چھوٹ ختم

ٹیکس کادائرہ غیرمنافع بخش تنظیموں،آئی پی پیز،خصوصی اقتصادی زونزتک بڑھایا جائیگا


Shahbaz Rana March 06, 2021
مالیاتی بل اگلے ہفتے قومی اسمبلی میں پیش کیا جائیگا،وزیراعظم نے منظوری دیدی۔ فوٹو: فائل

وزیراعظم عمران خان نے6 ارب ڈالرکے آئی ایم ایف قرضہ پروگرام کی بحالی کیلئے اگلے ہفتے قومی اسمبلی میں ایک مالیاتی بل پیش کرنے کی منظوری دیدی ہے جس کے تحت ٹیکس نظام میں اصلاحات کرکے80 شعبوں میں دی گئی ٹیکس چھوٹ ختم کردی جائے گی۔

آئی ایم ایف نے 140ارب مالیت کی انکم ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کا تقاضا کررکھا ہے،اس ٹیکس چھوٹ کے حتمی حجم کا پتہ اس وقت چلے گا جب یہ مالیاتی بل اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔

وزیراعظم آفس ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کوبتایا کہ دی انکم ٹیکس(دوسرے ترمیمی)بل 2021ء میں ٹیکس رجیم کا دائرہ غیرمنافع بخش تنظیموں، aسٹاک مارکیٹ میں لسٹڈ فرمز،آئل ریفائنریزکو دیئے گئے استثنیٰ،سی پیک کے تحت قائم کیے گئے خصوصی اقتصادی زونز اور آئی پی پیز تک بڑھایا جائیگا۔اس بل کو پیش کرنے کیلئے اگلے ہفتے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا جائیگا۔

اس ضمن میں جمعہ کے روز وزیراعظم کی زیرصدارت اجلاس ہوا جس میں مختلف شعبوں کو دی گئی ٹیکس چھوٹ کا جائزہ لیا گیا اور اس کے بعد ایف بی آرمیں بھی ایک اجلاس ہوا۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابرکی تجاویز پر فیصلہ کیا گیا کہ بعض شعبوں جن میں تیل کی تلاش اور پیداوارکے علاوہ معدنیات کی ریفائننگ پر depreciation (فرسودگی) الاؤنس کو برقرار رکھا جائیگا۔آئی ایم ایف نے چھ ارب ڈالر کے پروگرام کی بحالی کیلئے بجلی کی قیمتوں میں اضافے اور بعض شعبوں میں دی گئی ٹیکس چھوٹ مالیاتی بل کے ذریعے ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

گزشتہ ماہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان سٹاف سطح کے اجلاس میں 50 کروڑ ڈالرکی قسط جاری کرنے کیلئے عالمی ادارے کی بعض شرائط پوری کرنے پر اتفاق ہوا تھا۔وزیراعظم نے درآمدی ایل پی جی پر چار روپے فی کلو فیڈرل ایکسائزڈیوٹی لگانے کی تجویز کو قبول نہیں کیا تھا۔

وفاقی کابینہ کے ایک رکن کا مزید کہنا ہے کہ آئندہ غیرملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کیلئے ٹیکس ترغیبات کو بطورآلہ استعمال بھی نہیں کیا جائے گا۔

ایف بی آرکا تخمینہ ہے کہ مالیاتی بل میں واپس لی گئی ٹیکس چھوٹ سے 1.15ٹریلین روپے اضافی آمدنی ہوگی۔اس میں 378 ارب صرف انکم ٹیکس چھوٹ واپس لینے سے حاصل ہونگے۔

ذرائع کے مطابق مستقبل میں آئی پی پیزکو ٹیکس چھوٹ نہیں ملے گی،البتہ سورن گارنٹی کے تحت دی گئی موجودہ چھوٹ برقرار رہے گی جو قومی خزانے کو27 ارب پڑتی ہے۔اسی طرح مینوفیکچرنگ سیکٹر میں جدید پلانٹس لگانے اور مشینری پر دی گئی ٹیکس چھوٹ میں 30 جون کے بعد توسیع نہیں دی جائے گی۔

ریئل اسٹیٹ انویسٹمنٹ ٹرسٹز کو دی گئی ٹیکس چھوٹ واپس لے لی جائیگی ۔گزشتہ سال اس شعبے میں کو ٹیکس چھوٹ دینے سے خزانے کو5.3 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔سٹاک مارکیٹ میں نئی کمپنیوں کی لسٹنگ پر ٹیکس کریڈٹ واپس لینے کی تجویز ہے۔وزیراعظم کی لو کاسٹ ہاؤسنگ سکیم پر ٹیکس میں رعایت جون 2024ء تک برقراررہے گی۔اس کے بعد شروع کیے گئے منصوبے اس رعایت سے فائدہ اٹھانے کے اہل نہیں ہونگے۔

آئل ریفائنریزسرمایہ کاری پر دی گئی انکم ٹیکس چھوٹ موجودہ کیلنڈر سال تک برقرار رہے گی۔ اس کا مقصد اگلے 9 ماہ تک سعودی عرب کے ساتھ آئل ریفائنری کے قیام کے ضمن میں معاہدے کیلئے وقت حاصل کرنا ہے۔خصوصی اقتصادی زونز، آئی ٹی سروسزکی برآمد،سندھ کول پراجیکٹس اور نئے کاروبارشروع کرنے کے حوالے سے ٹیکس رجیم میں اصلاحات کی جائیں گی۔

غیرمنافع بخش سیکٹرمیں ٹیکس بچانے کی روایت کوختم کیا جائیگا۔ایسے اداروں کو ٹیکس کریڈٹ دیا جائیگا۔ان اداروں کو ملنے والے براہ راست عطیات میں دی جانے والی کٹوتیاں واپس لے لی جائیں گی اوراس کے برابر ٹیکس کریڈٹ کی پیشکش کی جائے گی۔وزیراعظم کے دہشتگردی، فلڈ ریلیف فنڈ،وزیراعلیٰ پنجاب کے آئی ڈی پیز ریلیف فنڈ پر کلیم کیے گئے ٹیکس اخراجات واپس لے لیے جائیں گے۔

البتہ ڈونرٹیکس کریڈٹ کلیم کرسکیں گے۔پاکستان سکوک کمپنی لمیٹڈ کی طرف سے جاری کیے گئے سکوک ہولڈرزکی انکم پر دی گئی ٹیکس چھوٹ ختم کردی جائیگی۔سپورٹس بورڈ کو دی گئی انکم ٹیکس چھوٹ اورپاکستان کرکٹ بورڈ کودی گئی رعایت واپس لے لی جائیگی۔مضاربہ انکم ماسوائے مینوفیکچرنگ اینڈ ٹریڈنگ مضاربہ ٹیکس چھوٹ ختم کردی جائیگی۔فلم انڈسٹری کے ٹیکس رجیم میں بھی تبدیلیاں ہوسکتی ہیں۔

آئی ایم ایف معاہدہ کے تحت پاکستان اگلے مالی سال کے دوران 6 ٹریلین روپے آمدنی کا ہدف حاصل کرنے کیلئے مزید ایسے اقدامات سے 700ارب کی اضافی آمدنی اکٹھی کریگا جومجموعی معیشت کا 1.4فیصدہے۔ذرائع کے مطابق حکومت شیخ سلطان ٹرسٹ کراچی کو دی گئی انکم ٹیکس چھوٹ بھی ختم کرسکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔