بارہ مارچ کے بعد 

اگر انتخابات کروائے گئے وہ بھی شفاف انتخابات تو تحریک انصاف ہار جائے گی۔


جاوید قاضی March 14, 2021
[email protected]

سینیٹ الیکشن میں جیت حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں کی ہوئی ہے، صادق سنجرانی دوبارہ چیئرمین منتخب ہوگئے ہیں اور ان کے مقابل سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ہارگئے ہیں۔

اپوزیشن جماعتیں سینیٹ میں اپنے سات ووٹوں کے مسترد ہونے پر عدالت سے رجوع کرنے جارہی ہیں۔ حکومت اور پی ڈی ایم کے درمیان سیاسی تنائو بڑھتا جارہا ہے،کوئی بھی اپنی ضد اور انا کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے، یہ غیر سنجیدہ طرزعمل ملک میں جمہوریت کو کمزور کرنے کاسبب بن رہا ہے۔

دوسری جانب اس ماہ کے آخر میں پی ڈی ایم کی جماعتوں نے لانگ مارچ کا اعلان کررکھا ہے،ایسا محسوس ہورہا ہے کہ تحریک کے اندر ہارنے کا غم و غصہ مزید شدت اختیار کرے گا۔سینیٹ میں جیت کے باوجود حکومت اب بھی قانون سازی کرنے میں کم و بیش اسی دوراہے پر کھڑی ہے کہ ان کو سینیٹ میں بہر حال اکثریت حاصل نہیں ہے، ہاں البتہ مشترکہ اجلاس بلا کر قانون سازی کی جا سکتی ہے۔ بہر حال حقیقت یہ ہے کہ حکومت نہ ہی قانون جانتی ہے اور نہ ہی آئین ایسی تاریخ صرف آمریت کے ادوار رکھتے ہیں۔

حالیہ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق ہماری شرح نمو 1.3%ہے جب کہ ہمارا پڑوسی ملک ہندوستان رواں مالی سال میں 12%شرح نمو سے آگے بڑھے گا۔ یہاں تک کہ بنگلہ دیش بھی اس مالی سال میں 7% شرح نمو دکھا رہا ہے۔ہماری سیاست ، ہماری معیشت کو اب کھو کھلا کررہی ہے۔ گزشتہ تیس سالوں سے ہندوستان اوسطاً سات فیصد کی شرح سے اپنی مجموعی پیداوار کو بڑھا رہا ہے اور ہم ان تیس سالوں میں 3.5% کی اوسط سے آگے نہ بڑھ سکے۔

اب خاں صاحب کی حکومت میں تو ہمیں ساڑھے چار ارب ڈالر کی گندم، چینی اور کپاس باہر سے درآمد کرنی پڑ رہی ہے، ہم شاید خوراک میں بھی اس قدر خود کفیل نہ رہے۔ ہمارے غیر ترقیاتی اخراجات ساؤتھ ایشیا میں سب سے زیادہ ہیں اور ترقی بہت کم۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری شرح نمو کہیں دور تک بھی 6% یا 7% تک بڑھتی نظر نہیں آ رہی اور اس پر ہماری 2.5% کی تیزی سے بڑھتی آبادی کا بوجھ۔

ہمارے ادارے بڑی تیزی سے انحطاط پذیر رہے ہیں۔ جب آپ کے مینڈیٹ پر سوالیہ نشان آئے گا تو یہ اداروں کو مزید برباد کریں گے تاکہ آپ کی حکومت مزید چل سکے۔ آپ کو ادارے آزاد نہیں چاہئیں ، آپ کو آزاد الیکشن کمیشن نہیں چاہیے ،آپ کو تمام ادارے ایسے ہی چاہئیں جس طرح آج نیب کام کر رہا ہے۔ آپ اپنے مخالفین کے خلاف اس قدر آگے نکل چکے ہیں کہ اب آپ کے پاس واپسی کا راستہ ہی نہیں۔ ان رویوں کے ساتھ آگے تین سال کا وقت کیسے گذرے گا، بلکہ معاملہ شاید اس سے بھی بڑا ہے۔

اب وقت سر جوڑ کر بیٹھنے کا ہے کہ کس طرح سے ان اداروں کو پروان چڑھایا جائے۔ کس طرح بڑھتی ہوئی مہنگائی کو کنٹرول کیا جائے۔ اس مقروض ملک کو مزید مقروض ہونے سے کس طرح بچایا جائے۔ غیر ترقیاتی اخراجات کو کم کیا جائے اور ترقیاتی بجٹ بڑھایا جائے۔ شفاف انتخابات کی طرف واپسی ممکن ہو جائے اور دوبارہ انتخابات کروائے جائیں تاکہ عوام کو حقیقی نمایندے مل سکیں۔

حکومت جس بھنور میں اس و قت پھنسی ہے ، اس میں مزید نہ دھنسے، پھر بھی باہر نکلتی ہوئی نظر نہیں آرہی ہے۔ حکومت کے جو بیانات آجکل آ رہے ہیں ان میں سوائے حزبِ اختلاف کو دھکا دینے کے مزید کچھ بھی نظر نہیں آتا اور پھر زبان جس سے صاف ظاہر ہے کہ حکومت کس قدر بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ اب جو کارڈ حزبِ اختلاف کے پاس رہ گئے ہیں وہ ہیں لانگ مارچ، استعفے، دھرنے اور پھر عدم اعتماد کی تحریک اور حکومت کے پاس اب صرف ایک کارڈ ہے وہ یہ کہ اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ ہے یا نہیں ، اگر اسٹیبلشمنٹ نہیں ہے تو پھر حکومت بھی نہیں۔ اب بالکل ایسے ہی ہے کہ حکومت ICU میں ہے اسکو بچایا تو جاسکتا ہے مگر مصنوعی طریقے سے۔

ملک کے اندر جمہوری قوتوں کی طاقت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ نواز شریف کا بیانیہ ''ووٹ کو عزت دو'' اپنی جڑیں مضبوط کررہا ہے۔ملک میں جیسی بھی جمہوریت ہے اسی کو چلانا ہوگا کیو نکہ ملک اس دوراہے پر ہے کہ آمریت تو کیا ہائبرڈ جمہوریت کے نظام کے تحت بھی یہ سسٹم نہیں چل سکتا۔ہمارے سیاسی تضادات ہی ہماری تباہ حال معیشت کی وجہ ہیں۔ ہمارا ملک دنیا میں ایک ایٹمی طاقت کی حیثیت میں تسلیم کیا جاتا تھا مگر آج یہ اپنی وہ حیثیت بھی کھو رہا ہے،یہ ملک اگر ایسے ہی چلایا جاتا رہا تو اس کی حیثیت محض ایک کلائنٹ ریاست کی رہ جائے گی، امریکا کا کلائنٹ نہ سہی کسی اور کا ہی سہی۔

اس وقت اہم نکتہ یہ ہے کہ اگر انتخابات کروائے گئے وہ بھی شفاف انتخابات تو تحریک انصاف ہار جائے گی۔ یہ بات چاہے خان صاحب نہ جانتے ہوں مگر ان کی پارٹی کے لوگ اور بیورو کریسی اچھی طرح واقف ہے۔ کیا خان صاحب کی حکومت اس حد تک پہنچ چکی ہے اگر پہنچی نہیں تو اس موڑ سے ان کا گزرنا لازمی ہے۔

خان صاحب کی اپنی طبیعت بھی ان کو اس موڑ تک لے آئی ہے۔بہت ہی درد انگیز بات ہے جس طرح حکومت نے سینیٹ کے اندر کیمرے نصب ہونے کی خبریں ۔ یہ ڈسکہ کی یاد کو تازہ کرتی ہے۔ آخر ایسا کب تک!

جھوٹی سچی آس پہ جینا کب تک آخر

آخر کب تک۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں