انصاف ہو تو ایسا

سانحہ ساہیوال میں ملوث سی ٹی ڈی کے اعلیٰ افسر کو تمغہ شجاعت سے نواز کر حکومت نے انصاف کی ایک اعلیٰ مثال قائم کردی


ایک سو ارب آئی ایم ایف کے منہ پر مارنے کے بجائے پورا اسٹیٹ بینک ہی ان کے حوالے کردیا۔ (فوٹو: فائل)

ARLINGTON, UNITED STATES: گزشتہ بلاگ میں بھرپور طریقے سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ پاکستان تحریک انصاف نے اپنے نعرے ''دو نہیں ایک پاکستان، نیا پاکستان'' کو پورا کرنے کےلیے کتنی محنت شاقہ اور جدوجہد سے کئی سنگ میل عبور کیے اور وہ بھی صرف دو سے تین سال میں۔ اس موضوع پر کچھ دلائل بھی دیے جو کہ آپ میرے گزشتہ بلاگ میں پڑھ سکتے ہیں۔ اسی کے توسط سے نیا پاکستان بنانے کے عمل میں کئی ایک اور سنگ میل عبور ہوچکے ہیں، جن کا ذکر نہ کرنا بہت زیادتی ہوگی۔

یہ بلاگ بھی پڑھئے: دو نہیں ایک پاکستان، نیا پاکستان

آخر عوام کو بھی علم ہونا چاہیے کہ ہمارے وزیراعظم کتنی محنت سے نیا پاکستان بنانے کی جدوجہد کررہے ہیں، حتیٰٗ کہ انہوں نے اپنی بیماری ''کورونا'' کو بھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے صرف اور صرف عوام کی بھلائی کےلیے اپنا کام جاری رکھا اور ملاقاتیں بھی جاری رہیں تاکہ نیا پاکستان بنانے میں کوئی کوتاہی نہ ہوسکے۔ لیکن صحت مند حضرات ماسک ضرور پہنیں اور سماجی فاصلے کا بھی دھیان رکھیں، نہیں تو جیل کی ہوا کھانی پڑ سکتی ہے اور وہ بھی چھ مہینے کےلیے۔

سانحہ ساہیوال جب بھی یاد آتا ہے تو دل خون کے آنسو رونے لگ جاتا ہے کہ کیا ایک ریاست جو ماں کے جیسی ہونی چاہیے تھی، وہ اتنا ظلم بھی کرسکتی ہے؟ مگر ہمارے وزیراعظم نے بھی اس کا سختی سے نوٹس لیا، کیوں کہ نیا پاکستان میں کسی غریب کو انصاف نہ ملے تو انصاف کی تحریک ہی بے مقصد ہو کر رہ جاتی ہے۔ پھر کیا فائدہ بائیس یا پچیس سال کی جدوجہد کا؟ اسی لیے اس واقعے میں ملوث سی ٹی ڈی کے اعلیٰ افسر کو تمغہ شجاعت سے نواز کر حکومت نے انصاف کی ایک اعلیٰ مثال قائم کردی، جو کہ تاریخ کا حصہ بن کر رہ جائے گی۔ انصاف ہو تو ایسا۔

پچھلی حکومتوں نے اتنا قرض لیا کہ ملک کا بچہ بچہ مقروض ہوگیا، مگر نیا پاکستان بنتے ہی جیسا کہ پاکستان تحریک انصاف نے دعویٰ کیا تھا کہ ''دو سو ارب آئے گی، ایک سو ارب ہم آئی ایم ایف کے منہ پر دے مارے گی اور ایک سو ارب سے ملک کو خوشحال کرے گی''۔ تو وعدہ تو پورا کرنا بہت ضروری ہے، ورنہ سخت گناہ ملتا ہے، یہ میں نے بھی سن رکھا ہے۔ اس لیے اب اتنا زیادہ قرض تو ہم دینے سے رہے، تو ہم نے دو سال خوب قرض لیا اور پھر اپنا اسٹیٹ بینک ایک آرڈیننس جاری کرکے، ورلڈ بینک کو دے دیا کہ لو جتنا مرضی پیسہ اس میں ڈالو یا نکالو ہمارے ملک کی حکومت یا کوئی بھی ادارہ آپ سے جواب طلب نہیں کرے گا۔ اسے کہتے ہیں ناں وعدہ وفا کرنا، یعنی ایک سو ارب منہ پر مارنے کے بجائے پورا اسٹیٹ بینک ہی ان کے حوالے کردیا۔ انصاف ہو تو ایسا۔

چوروں کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی ملک ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوا اور اتنی تیزی سے ترقی دیکھنے کو ملی کہ روزمرہ استعمال کی ہر چیز کی قیمت کئی گنا بڑھ گئی۔ پھر چاہے وہ آٹا ہو، چینی ہو، پٹرول ہو، دوائیں ہوں، دالیں ہوں، انڈے ہوں، چکن ہو، کپڑے ہوں، سبزی ہو یا پھر گھی، ہر ایک چیز نے ترقی کے سابقہ سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ مگر کچھ عقل کے اندھوں کو یہ ترقی بھی ایک آنکھ نہیں بھاتی اور وہ کہتے ہیں کہ مہنگائی میں اضافہ ہوگیا۔ تو بھائی گزارش ہے اضافہ ہی ہوا ناں، کون سی کمی ہوئی ہے۔ اور اضافہ تو اچھا ہوتا ہے ناں اور یہی تو ترقی ہے اور کیا کمی کرکے نقصان اٹھائیں؟ ان جیسے کم عقل لوگوں کا بھی ہمارے وزیراعظم نے خیال رکھا اور مہنگائی میں کمی کرنے کے بجائے یا کوئی ترقیاتی کام کرنے کے بجائے پورے ایک ارب روپے اس بات پر مختص کردیے کہ میڈیا پر لوگوں کو بتاؤ کہ ملک کتنا ترقی کرگیا ہے۔ آسان زبان میں اشتہارات چلاؤ تاکہ ان ناسمجھ لوگوں کو بھی ترقی نظر آسکے۔ اسے کہتے ہیں ناں انصاف ہو تو ایسا۔

ہمارے وزیراعظم کو ماحولیات سے خصوصی لگاؤ ہے، اسی وجہ سے انہوں نے ایک ارب درخت بھی لگائے بلکہ اب تو شاید تعداد میں مزید اضافہ بھی ہوا اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ڈیم بنانے پر زور بھی دیا۔ پوری دنیا نے ان کی تعریف کی، حتیٰ کہ ان پر ڈاکیومینٹریز بھی بنائی گئیں کہ دیکھو دنیا میں پہلا لیڈر ایسا پاکستان کو ملا جو کہ ماحولیات کو فرحت بخش بنانے میں کوشاں ہے۔ پاکستان کتنا خوش قسمت ہے اس بات پر پوری دنیا کے لوگوں نے رشک کیا۔ مگر کافروں کو یہ تعریف ایک آنکھ نہ بھائی۔ اسی لیے تو امریکا نے ماحولیاتی کانفرنس جس میں چالیس ممالک کے سربراہان کو شرکت کی دعوت دی، مگر پاکستان کو شمولیت کا پوچھا بھی نہیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ انصاف کے تقاضے دنیا کو ہم سے سیکھنے کی ضرورت ہے، پھر ہی کہیں دنیا میں امن قائم ہوسکے گا۔

وہ کہتے ہیں ناں کہ سمجھدار کو اشارہ کافی ہوتا ہے۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے میری قارئین سے التماس ہے کہ ان دلائل کو ہلکا نہ لیجئے، بلکہ یہ تو مضمون کی طوالت کے ڈر سے میں نے صرف اشاروں کنایوں میں بات پہنچانے کی کوشش کی ہے، ورنہ ان میں سے ہر دلیل کے پیچھے ایک سمندر موجزن ہے کہ اگر لکھنے بیٹھوں تو میں لکھتے لکھتے تھک جاؤں گا اور آپ لوگ پڑھتے پڑھتے اونگھنے لگیں گے۔ اس لیے ابھی اسی پر اکتفا کرتے ہیں اور پاکستان کےلیے بہتر مستقبل کی دعا کرتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں