بعد از رمضان صحت مند زندگی کیسے

موسم گرما میں ذ را سی بے احتیاطی موسمی امراض کو حملہ آور ہونے کا موقع فراہم کرسکتی ہے۔


موسم گرما میں ذ را سی بے احتیاطی موسمی امراض کو حملہ آور ہونے کا موقع فراہم کرسکتی ہے۔ فوٹو: فائل

عادت کو فطرت ثانی کہا جاتا ہے اور انسان عادت کو ضرورت اور ضرورت کو عادت میں بنانے میںذرا دیر نہیں کرتا۔ جب عادات ضروریات اور ضروریات عادات کا درجہ حاصل کرتی ہیں تو بدنی و سماجی مسائل سر اٹھانے لگتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ معمول سے ہٹ کر کوئی کام بھی کیا جائے وہ اپنے اثرات ہمارے دل ودماغ اور روز مرہ عادات پر لازمی مرتب کرتا ہے جیسا کہ ماہ رمضان میں متواتر اور مسلسل 30 روزے رکھنے سے بعض افراد کے بدن میں پانی کی قلت پیدا ہونے سے قبض، خشکی امراض گردہ اور جگری امراض کی علامات رو نما ہوکر حامل کے لیے پریشانی کا سبب بن جاتی ہیں۔

کچھ لوگوں میں مہینہ بھر دن بھر بھوکا پیاسا رہنے،افطار ی میں پکوڑے، سموسے اور دوسری تلی و بھنی غذاؤں کے اضافی استعمال سے پیٹ اور انتڑیوں کے مسائل بھی سر اٹھانے لگتے ہیں۔

ابتدائے رمضان میںہم نے اسی صفحہ پر بڑی تفصیل اور جامعیت کے ساتھ روزے کے فلسفے اور مقاصد پر روشنی ڈالی تھی تاکہ قارئین اپنی غذائی عادات کو بدل کر سال بھر کے لیے صحت مند وتوانا ہوجائیں،لیکن بعض عاقبت نااندیش افراد وقتی چسکے اور لذت و مزے کے چکر میں کسی مشورے اور نصیحت کو بھی خاطر میں نہیں لاتے اور خالق کائنات کی طرف سے صحت کی بحالی اور قیام کے فراہم کردہ مواقع سے بھی فائدہ نہیں اٹھا پاتے۔ ماہ صیام کی رحمت بھرے چند آخری ایام باقی ہیں اور ہمارے پاس اب بھی موقع ہے کہ ہم صحت کے قیام اور بحالی کے حوالے سے بھرپور استفادہ کرسکیں۔

ایسے افراد جنہیں انتڑیوں کی خشکی کے باعث قبض، قلت پانی کے سبب امراض گردہ یا جگری مسائل کا سامنا درپیش ہے انہیں چاہیے کہ وہ مو سمی پھلوں، سبزیوں، خالص دودھ اور مکھن کو اپنی غذا کا لازمی حصہ بنائیں،سحری میں دہی ضرور شامل کریں لیکن یاد رہے کہ رات کو دہی کا استعمال اچھا نہیں ہوتا۔سبز پتوں والی سبزیوں کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں بالخصوص سلاد کے پتے،بند گوبھی،ٹماٹر،سْرخ مولی،کھیرا اور پیازکو بطورِ سلاد ضرور استعمال کریں۔ پھلوں میں خربوزہ، تربوز، آڑو، سیب،کیلا ،اور کھجور وغیرہ کا بہ سہولت استعمال لازمی کریں۔

انتڑیوں کی خشکی سے نجات حاصل کرنے کے لیے بادام روغن کے 2 سے 4 چمچ روزانہ رات کو نیم گرم دودھ میں ملا کر پیا کریں۔ افطاری میں شربت بادام،شربت آلو بخارا اور شربت عناب بھی معدے کی تیزابیت و بدن کی خشکی دور کرنے کے لیے بہترین ثابت ہوتے ہیں۔

بعض لوگوں کا مدافعتی نظام کمزور ہونے اور قوت ہاضمہ کی دائمی خرابی کے وجہ اور بوقت افطار پانی کی زیادہ مقدار پی لینے سے بعض اوقات بھوک میں کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بھوک کی کمی کے شکار افراد کو چاہیے کہ سحری اور افطار ی میں چائے پینے سے گریز کریں، افطاری میں میٹھے مشروبات کی بجائے سادہ پانی وقفے وقفے سے استعمال کریں۔

میٹابولزم کو متحرک کرنے کے لیے دونوں اوقات میں سونف ایک چٹکی، زیرہ سفید ایک چٹکی ،ادرک ایک گرام، پودینہ چند پتے ایک کپ پانی میں پکا کر بطور قہوہ پینے کو معمول بنائیں۔سحری میں چپاتی کو شوربے میں نرم کرکے بطور ثرید استعمال کریں اور کوشش کریں کہ افطاری کے بعد گندم یا جو کا دلیہ کھانے کو ترجیح دیں۔ ثقیل، مرغن، بادی اور غلیظ غذائی اجزاء سے مکمل بچنے کے کوشش کریں۔افطاری کے بعد تھوڑی دیر چہل قدمی بھی ضرور کرنی چاہیے تاکہ معدے کو تحریک میسر آسکے۔

رمضان کے بعد عید کی خوشیوں بھری ساعتیں آتی ہیں۔ مہینے بھر کی پابندیوں کا سامنا کرنے کے بعد کھا نے پینے کی آزادی ملتی ہے تو ہم اکثر و بیشتر افراط و تفریط کا شکار ہو کر امراض کے نرغے میں پھنس جاتے ہیں۔ عید کے روز تو اور بھی زیادہ احتیاط اور پرہیز کی ضرورت ہوگی کیونکہ روزوں کی برکت سے حاصل کی جانے والی صحت اکثر لوگ عید کے اگلے دن ہی اپنے ہاتھوں سے کھو دیتے ہیں۔

زیادہ مرغن اور تیز مصالحہ جات والے کھانوں سے دور ہی رہا جائے تو بہتر ہے، اگر چٹخارے دار اشیاء کا کھانا بہت زیادہ ضروری ہو تو ان کے ساتھ کولا مشروبات سے اجتناب کیا جائے۔اسی طرح کھا نے پینے کے معمول میں بھی احتیاط کا دامن ہرگز نہ چھوڑیں۔کم از کم 8 گھنٹے کے وقفے سے کھانا کھائیں ورنہ معدہ جو مہینہ بھر14 گھنٹے خالی رہنے کا عادی ہو چکا تھا ردِ عمل کے طور پر غذائی بد پر ہیزی میں مبتلا ہو کر آپ کو اور آپ سے جڑے افراد کو پریشانی لاحق کرنے کا باعث بن جائے گا۔

یاد رہے کہ اب کے بار عیدمئی میں آرہی ہے اور مئی میں تو ویسے بھی گرمی میں شدت اور فضاء میں حدت بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔ موسم گرم ہونے کی وجہ سے ذ را سی بے احتیاطی کرنے سے ہی موسمی امراض حملہ آور ہو سکتے ہیں۔ ضرورت سے زیادہ ٹھنڈا پانی اور دیگر برف کی مصنوعات کے غیر ضروری استعمال سے زکام، نزلہ ، کھانسی اور بخار جیسی بیماریوں کے خطرات بھی سر پہ منڈلاتے رہتے ہیں۔ امسال کورونا سے بچاؤ کی حفاظتی تدابیر پر بھی سختی سے عمل پیرا رہیں۔سماجی فاصلے، ماسک کے استعمال اور ہاتھوں کے بار بار دھونے کے عمل کو لازمی طور پر اپنائے رکھیں۔

' محدود رہیں محفوظ رہیں ' کے فارمولے کو اپنا کر اپنی اور اپنے پیاروں کی زندگیوں کی حفاظت میں اپنا کردار واقعی ادا کریں۔ یاد رہے کہ مئی کا مہینہ بہار سے گرمی کی طرف پیش قدمی کا پہلامہینہ ہوتا ہے اوربدلتے موسم کے غذائی تقاضے عام دنوں کی نسبت مختلف ہوتے ہیں۔جو لوگ بدلتے موسم کی تبدیلیوں کے مطابق اپنے طرزِ عمل میں رد و بدل نہیں کرتے وہ اکثر موسم کی شکایتیں کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔

ایک کہاوت مشہور ہے کہ ''پر ہیز بہتر ہے علاج سے'' اس لئے ضروری ہے کہ موسمی تقاضوں کے مطابق ہم اپنے معمولات میں تبدیلی پیدا کریں۔ زیادہ مقدار میں کولا و دیگر یخ ٹھنڈے مشروبات سے حتی المقدور بچنے کی کوشش کریں۔ فرائیڈ اور تیز مصالحہ جات والی غذاؤں سے بھی ممکنہ حد تک دور رہا جائے۔

ہلکی پھلکی غذا کھائی جائے۔گھر کے بنے کم مصالحے والے پکوان اور روایتی کھانے ہی استعمال کیے جائیں تو زیادہ بہتر ہے۔ پھل اور سبزیاں تازہ پانی سے دھو کر استعمال کریں۔ٹائلٹ سے فراغت پر ہاتھ صابن سے دھوئیں۔ پینے کاپانی ہمیشہ صاف و شفاف استعمال کریں۔بہتر یہی ہے کہ پانی ابال کر پیا جائے۔خور و نوش کی اشیا کو مکھیوں سے بچا کر صاف ستھری جگہوں پہ رکھا جائے۔

سالن وغیرہ تازہ ہی بنایا جائے ،باسی اور فریز کی ہوئی ڈشز سے بچا جائے۔ زیادہ مقدار میں چاول،چنے کی دال اور دیگر بادی غذاؤں سے پر ہیز کیا جائے ۔اسی طرح رواں مو سم گرما میں مشروبات ،کچی لسی ،سکنجبین اور سادہ میٹھے پانی کے استعمال کو ہی لازمی ترجیح دی جائے ۔بازاری مشروبات اور کولا ڈرنکس سے ممکنہ طور پر دور ہی رہا جائے۔

ہمیں امید ہے کہ آپ ذرا سی احتیاط اپنا کر لا تعداد جسمانی الجھنوں سے محفوظ ہو جائیں گے۔

عید ہمارا صرف روایتی تہوار ہی نہیں بلکہ یہ مذہبی فریضہ بھی ہے۔ عیدباہمی رواداری، میل ملاقات اور خلوص ومحبت کے اظہار کابہترین ذریعہ ہے۔ عید کے روز جہاں ہمیں اپنی اور اپنے بچوں اور دوسری فیملی ممبران کی خوشیوں کا بھرپور اہتمام کرنا ہے وہیں ہمیں یہ دھیان بھی رکھنا ہے کہ ہمارے پڑوس میں کوئی یتیم، مسکین، بیوہ اور مستحق جسے ہمارے تعاون کی ضرورت ہو تو ہمیں لازمی طور پر انہیں بھی عید کی خوشیوں میں شریک کرنا ہے۔

سچی خوشی کا احساس تو دوسروں کو خوشی دے کر ہی پایا جا سکتا ہے۔بچوں کی عید عیدی کے بغیر ادھوری رہتی ہے لہٰذا عیدی دینے میں فراخ دلی کا مظاہرہ کر کے بچوں کی عید کو چار چاند لگائیے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔