سہولتیں ناپید خصوصی طلبا کیلیے حصول علم دشوار ہو گیا

کراچی سمیت پورے صوبے میں نابینا بچوں کی تعلیم و تدریس کے لیے بریل پر تیار کی گئی نصابی کتب موجود نہیں


Safdar Rizvi November 22, 2021
مہنگا بریل ٹائپ رائٹر نابینا طلبا کی پہنچ سے دور ہے، پرنسپل، میٹرک بورڈ کا بریل کے ذریعے امتحان لینے پر غور۔ فوٹو: فائل

سندھ میں خصوصی بچوں کی تعلیم اور تعلیمی اداروں میں ان کے لیے متعلقہ سہولیات کی فراہمی حکومتی عدم توجہی کا شکار ہے جس کے سبب خاص طور پر نابینا اور سست رفتاری سے سیکھنے والے طلباکو اپنا تعلیمی سفر جاری رکھنے میں شدید مشکلات درپیش ہیں۔

"ایکسپریس" کو معلوم ہوا ہے کہ کراچی سمیت پورے سندھ میں نابینا بچوں کی تعلیم و تدریس کے لیے تکنیکی بنیادوں پر تیار کی گئی نصابی کتابیں موجود ہی نہیں ہیں جس کے سبب یہ طلبا عام درسی کتب سے مطالعہ کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ "بریل" پر ان طلباکے لیے کسی بھی تدریسی سطح پر کتابیں دستیاب نہیں ہیں اور کتابوں سے مطالعہ میں انھیں بدترین مشکلات کا سامنا ہے جبکہ ٹیکنالوجی کے اس جدید ترین دور میں متعلقہ اداروں میں فنڈز کی کمی اور متوسط یا غریب طبقے سے تعلق کی بنا پر طلبا" بریلر" یا "بریل ٹائپ رائٹرز" کا استعمال نہیں کرسکتے کیونکہ اس کی مالیت کم از کم 5 ہندسوں پر مشتمل رقم میں ہے۔

میٹرک بورڈ کراچی سے الحاق شدہ سلور لائن اسکول فار بلائنڈ کی پرنسپل قدسیہ خان نے" ایکسپریس" کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ سہولیات نہ ہونے اور عام طالب علم کی جانب سے بیش قیمت بریل ٹائپ رائیٹر کو afford نہ کرنے کے سبب کمرہ امتحان میں طالب علم معاوضے پر رائٹر لینے پر مجبور ہوتا ہے۔

بریل ٹائپ رائٹر کی قیمت 1 لاکھ روپے سے زیادہ ہے جو عام طالب علم یا اس کے والدین کی قوت خرید سے باہر ہے جبکہ روایتی بریل پر ایک طالب علم زیادہ دیر تک کام نہیں کرسکتا کیونکہ اس کی انگلیاں لکھتے لکھتے تھک جاتی ہیں، نابینا طلباکہ دوسری اور اہم ترین مشکل یہ ہے کہ حکومت بریل پر نصابی کتابیں فراہم کرنے میں ناکام ہے، بچے پوری پوری کتابیں خود ہی لکھتے ہیں اور خصوصی حیثیت کے باوجود ایک عام طالب علم کی طرح وہ تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

علاوہ ازیں معلوم ہوا ہے کہ میٹرک بورڈ کراچی نے بھی ایک نجی اسکول کہ سفارش پر طریقہ امتحان تبدیل کرنے اور نابینا طلباسے رائٹرز کے بجائے بریل کے ذریعے امتحان لینے پر غور شروع کیا ہے تاہم بعض اسکولوں نے اس کی مخالفت کی میٹرک بورڈ کی ڈائریکٹر ریسرچ حور مظہر سے جب "ایکسپریس" نے رابطہ کہا تو ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اس سلسلے میں متعلقہ اسکولوں سے ایک میٹنگ کی ہے تاہم یہ ادارے خود اس معاملے پر متفق نہیں ہیں جس کے بعد ہم نے ان سے تجاویز مانگی ہیں کیونکہ اگر بریل کے ذریعے امتحان لیتے ہیں تو ہمیں اسسمنٹ کا طریقہ کار اور mode of examination بھی تبدیل کرنا ہوگا۔

علاوہ ازیں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ سست رفتاری سے سیکھنے والے طلباشہر کے کئی اسکولوں میں موجود ہیں تاہم ان کی نشاندہی نہیں ہو پاتی، ان کی کوئی علیحدہ کیٹگری مختص نہیں اور عام طالب علم کی طرح ہی انھیں بھی پڑھایا جاتا ہے۔

حکومت سندھ کے تحت خصوصی طلباکی تعلیم کے لیے محکمہ department of empowerment of person with disabilities کے نام سے کام کررہا ہے۔ اس ادارے کے تحت کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں ایک اسکول " گورنمنٹ اسپیشل ایجوکیشن اینڈ ریہبلیٹیشن کمپلیکس " کام کررہا ہے۔ اس اسکول کے ڈی ڈی آو نے ناصر سولنگی نے رابطہ کرنے پر دعوی کیا کہ حکومت سندھ کے ماتحت محکمے کے تحت کراچی کے مختلف علاقوں میں اور سندھ میں 70 اسکول موجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گلستان جوہر میں قائم اس اسکول میں 300 کے قریب طلباہیں جس میں نابینا ، جسمانی معذور اور ذہنی معذور طلباشامل ہیں اور ان کے لیے سہولیات بھی موجود ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ کراچی سمیت سندھ میں خصوصی طلبایا ان کے والدین department of empowerment of person with disabilities نام کے حکومت سندھ کے اس ادارے سے واقفیت ہی نہیں رکھتے کیونکہ یہ ادارہ اس حوالے سے اپنی پالیسیوں اور خدمات کی مارکیٹنگ ہی نہیں کرتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں